حائضہ پر ادائے روزہ اور عدمِ ادائے نماز کی وجہ
حضرت ابنِ قیم رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وأما إیجاب الصوم علی الحائض دون الصلاۃ فمن تمام محاسن الشریعۃ وحکمتھا ورعایتھا لمصالح المکلفین؛ فإن الحیض لما کان منافیا للعبادۃ لم یشرع فیہ فعلھا، وکان في صلاتھا أیام التطھیر ما یغنیھا عن صلاۃ أیام الحیض، فیحصل لھا مصلحۃ الصلاۃ في زمن التطھیر
بتکررھا کل یوم، بخلاف الصوم؛ فإنہ لا یتکرر، وھو شھر واحد في العام۔ فلو سقط عنھا فعلہ أیام الحیض لم یکن لھا سبیل إلی تدارک نظیرہ، وفاتت علیھا مصلحۃ، فوجب علیھا أن تصوم في طھر؛ لتحصل مصلحۃ الصوم التي ھي من تمام
حضرت ابنِ قیم رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وأما إیجاب الصوم علی الحائض دون الصلاۃ فمن تمام محاسن الشریعۃ وحکمتھا ورعایتھا لمصالح المکلفین؛ فإن الحیض لما کان منافیا للعبادۃ لم یشرع فیہ فعلھا، وکان في صلاتھا أیام التطھیر ما یغنیھا عن صلاۃ أیام الحیض، فیحصل لھا مصلحۃ الصلاۃ في زمن التطھیر
بتکررھا کل یوم، بخلاف الصوم؛ فإنہ لا یتکرر، وھو شھر واحد في العام۔ فلو سقط عنھا فعلہ أیام الحیض لم یکن لھا سبیل إلی تدارک نظیرہ، وفاتت علیھا مصلحۃ، فوجب علیھا أن تصوم في طھر؛ لتحصل مصلحۃ الصوم التي ھي من تمام
یعنی حائض پر وجوب روزہ و عدم ادائے نماز کا سبب شریعتِ حقہ کی خوبیوں اور اس کی حکمت اور رعایت مصالحِ مکلفین سے ہے، کیوںکہ جب حیض منافیٔ عبادت ہے تو اس میں عبادت کا فعل مشروع نہیں ہوا اور ایامِ طہر میں اس کی نماز پڑھنا ایامِ حیض میں نماز پڑھنے سے کافی ہوجاتی ہے، کیوںکہ وہ بار بار روز مرہ آتی ہے مگر روزہ روز مرہ نہیں آتا بلکہ سال میں صرف ایک مہینہ روزوں کا ہے۔ اگر ایامِ حیض کے روزے بھی اس سے ساقط کردیے جائیں تو پھر ان کی نظیر کا تدارک نہیں ہوسکتا اور روزہ کی مصلحت اس سے فوت ہوجاتی ہے، اس لیے اس پر واجب ہوا کہ ایامِ طہر میں روزے رکھے تاکہ اس کو روزہ کی مصلحت حاصل ہوجائے جو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر محض رحمت اور احسان سے ان کے فائدہ کے لیے مشروع فرمائے ہیں۔
رحمۃ اللّٰہ بعبدہ وإحسانہ إلیہ بشرعہ، وباللّٰہ التوفیق۔
رحمۃ اللّٰہ بعبدہ وإحسانہ إلیہ بشرعہ، وباللّٰہ التوفیق۔
No comments:
Post a Comment