سود کی رقم کے مصارف
مسئلہ (۱۵۹): حضرات فقہاء کرام نے مالِ حرام مثلاً بینک کے سود کے دو مصرف بتائے ہیں: ایک یہ کہ مالِ حرام جہاں سے آیا ہے وہیں واپس کردیا جائے، لیکن اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں ہماری سودی رقم کو اَغیار، اسلام دشمنی کے کاموں میں لگادیتے ہیں، اس لیے دوسرے مصرف میں یہ رقم صرف کی جائے، یعنی مالِ حرام کے وبال سے بچنے کے لیے بلانیتِ ثواب بہت زیادہ غریب ومحتاج ، پریشان حال مقروض ، یا لُٹے پِٹے لوگوں پر صدقہ کردی جائے(۱)، خود اپنے یا مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیر میں، اسی طرح اپنے یا مسجد وعیدگاہ کے مقدمہ میں، یاپھر رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کرنا جائز نہیں، راجح قول یہی ہے، کیوں کہ مالِ حرام کا غریبوں پر تصدُّق واجب ہے، اور تصدُّق میں کسی غریب کو دے کر اسے مالک بنانا ضروری ہوتا ہے، رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کرنے کی صورت میں مالک بنانے کی صورت نہیں پائی جاتی۔(۲)
------------------------------
= تفریغ الذمۃ منہ بردہ إلی أربابہ إن علموا ، وإلا إلی الفقراء ۔ (۳۹/۴۰۷ ، المیسر)
ما في ’’الدر المختار مع الشامیۃ‘‘: والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ، ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔
(۷/۳۰۱ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالا حراما)
ما في ’’بذل المجہود‘‘: صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالاً بغیر حق ، فأما إذا کان عند رجل مال خبیث، فأما إن ملکہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمۃ عن نفسہ ، فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔ (۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ) (فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۸۰۳۸)=
(۱) ما في ’’بذل المجہود‘‘: صرّح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق ۔۔۔۔۔۔۔ إن أخذہ من غیر عقد ولم یملکہ یجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک ، وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل تلک الأموال علی الفقراء ۔۔۔۔۔۔ وأما إذا کان عند رجل مال خبیث فاما إن ملکہ بعقد فاسد أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔ (۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ ، باب فرض الوضوء ، تحت رقم :۵۹ ، رد المحتار :۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع)
(۲) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : ویشترط أن یکون تملیکا لا یصرف إلی بناء مسجد وکفن میت وقضاء دینہ ۔ تنویر۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : قولہ : (نحو مسجد) کبناء القناطیر والسقایات واصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ ۔ زیلعي ۔
(۳/۲۹۱ ، کتاب الزکاۃ ، باب المصرف ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۸۸، کتاب الزکاۃ ، الباب السابع۔ ۔
=======================
سوال # 39376
میرے اوپر میرے بھائی کی طرف سے عدالت میں ایک غیر ضروری اور غیر شرعی مقدمہ دائر کیا گیا ہے تفصیل کے لئے وصیت اور وارثت کی فتویٰ رقم ۳۹۰۸۶ پڑھ لیں حالات تفصیل سے واضح ہوجائیں گے۔ علماے دین سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا بھائی کی طرف سے میرے اوپر مسلط کئے مقدمہ کیغیر ضروری اخراجات سود کی رقم سے خرچ کئے جاسکتے ہیں؟ سود سے متعلق نیز یہ بھی فرما دیں کہ کیا سود کی رقم سے بلا ثواب کی غرض سے حاجت مند اپنے عزیز اور کسی مسلمان کی مدد کی جا سکتی ہے؟ براہ کرم، شرعی حکم سے ہماری رہنمائی فرمائیں۔
Published on: May 27, 2012
جواب # 39376
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1243-1016/B=7/1433
سود کی رقم مقدمہ کے ضروری اخراجات میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں ثواب کی نیت کے بغیر بہت غریب اور پریشان حال مقروض مسلمان خواہ وہ وعزیز ہی ہو ان کی مدد کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند۔
___________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
حضرات فقہاء کرام نے مالِ حرام مثلاً بینک کے سود کے دو مصرف بتائے ہیں:
(۱) ایک یہ کہ مالِ حرام جہاں سے آیا ہے وہیں واپس کردیا جائے، لیکن اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں ہماری سودی رقم کو اَغیار، اسلام دشمنی کے کاموں میں لگادیتے ہیں،
(۲) اس لیے دوسرے مصرف میں یہ رقم صرف کی جائے، یعنی مالِ حرام کے وبال سے بچنے کے لیے بلانیتِ ثواب مثلا بہت زیادہ غریب ومحتاج، پریشان حال مقروض، یا لُٹے پِٹے لوگوں پر صدقہ کردی جائے،
اور صورت مسئولہ میں سود کی رقم بطور رشوت کے استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ ”سود“ کی رقم یا تو مالک (بینک یا حکومت وغیرہ) کو لوٹانا ضروری ہے (جیسا کہ پہلی صورت میں مذکور ہوا) یا پھر غریبوں مسکینوں کو بلا نیت ثواب دے دینا ضروری ہے، (جیسا کہ دوسری صورت میں مذکور ہوا)
اور چونکہ رشوت میں جو رقم دی جاتی ہے وہ حکومت کے کھاتے یعنی مالک کے قبضہ میں نہیں جاتی؛ بلکہ افسران کے جیب میں جاتی ہے، اس لئے یہ جائز نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم باصواب و علمہ اتم ,
والدلیل علی ما قلنا
ما في ’’الدر المختار مع الشامیۃ‘‘ : والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ، ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔
(۷/۳۰۱ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالا حراما)
ما في ’’بذل المجہود‘‘ : صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالاً بغیر حق ، فأما إذا کان عند رجل مال خبیث ، فأما إن ملکہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمۃ عن نفسہ ، فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔
(۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ)
(فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۸۰۳۸)=
ما في ’’بذل المجہود‘‘ : صرّح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق ۔۔۔۔۔۔۔ إن أخذہ من غیر عقد ولم یملکہ یجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک ، وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل تلک الأموال علی الفقراء ۔۔۔۔۔۔ وأما إذا کان عند رجل مال خبیث فاما إن ملکہ بعقد فاسد أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔
(۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ ، باب فرض الوضوء ، تحت رقم :۵۹، رد المحتار :۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحۃ)
_________________
سودی رقم کا مصرف؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمة الله وبركاته
مفتی شکیل منصور صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں
سوال:بینک کے سود کے پیسوں کا مصرف کیا هے؟
کیا اس پیسوں سے اپنے گھر کا بیت الخلا بناسکتے هے؟
کیا اس پیسوں سے ذاتی زمین کی باؤنڈری بناسکتے هے؟
کیا اس پیسوں سے مدرسہ کے بیت الخلا بنا سکتے ہیں؟
کیا اس پیسوں سے اسکول کے بیت الخلا بنا سکتے ہیں؟ جبکہ وہ اسکول عیسائی کی ہوں اور فیس لے کے نفع بناتی ہو؟
کیا رفاہی کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں؟کون کون سےرفاہی کام مراد ہیں؟
تفصیل سے وضاحت کرنےکی درخواست گے.جزاکم اللہ
سائل: محمد واصف پٹیل
مقیم حال: کینیا ،ایسٹ ،افریقہ
12/3/2017
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
بنک سے ملنے والی سودی رقم حرام مال ہے اور مال حرام کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے
لہذا اس سودی رقم کو کسی ایسے ٹیکس کی ادائی وغیرہ کی شکل میں حکومت کو لوٹادے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو ۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مال حرام کا تصدق علی الفقراء بلا نیت ثواب علی اصح الاقاویل ضروری ہے یعنی صدقات واجبہ کی طرح اس میں بھی تملیک فقراء واجب ہے ۔مفتی شفیع صاحب نے جواہر الفقہ میں مختلف دلائل سے اس کے وجوب کو ثابت کیا ہے
جبکہ مفتی کفایت اللہ دہلوی اور مفتی عبد الرحیم لاجپوری جیسے مفتیان کی رائے یہ ہے کہ تصدق علی الفقراء کے علاوہ دوسرے رفاہی کاموں میں بھی اسے صرف کیا جاسکتا ہے ان حضرات کی آراء کی روشنی میں مفاد عامہ کے لئے بیت الخلاء وغیرہ کی تعمیر کی بھی گنجائش ہے۔ ذاتی بیت الخلاء کی تعمیر میں ان کے یہاں بھی اجازت نہیں۔
عاجز کا رجحان یہ ہے کہ بنک وغیرہ کے سود کو کسی رفاہی تعمیراتی کاموں میں صرف نہ کیاجائے ۔کیونکہ اسے دیکھ کر سود کی قباحت لوگوں کی نظروں میں کم ہوجائے گی۔ محتاجوں اور ضرورت مندوں کو روپے دیدیئے جائیں۔ وہ اپنی ضرورتوں میں صرف کریں۔
اگر حکومت کا غیر واجبی ٹیکس قابل ادا ہو تو اس کی ادائی تصدق علی الفقراء سے بھی مقدم ہے۔
إن سبیل التوبۃ مما بیدہ من الأموال الحرام إن کانت من ربا، فلیردہا علی من أربی علیہ، ویطلبہ إن لم یکن حاضرًا، فإن أیس من وجودہ فلیتصدق بذٰلک عنہ۔ (الجامع لأحکام القرآن الکریم للقرطبي ۳؍۲۴۸، سورۃ البقرۃ: ۳۷۹ دار إحیاء التراث العربي بیروت)
إن من شرط التوبۃ: أن تردّ الظلامۃ إلی أصحابہا، فإن کان ذٰلک في المال، وجب أدائہ عینًا أو دینًا ما دام مقدورًا علیہ۔ (القواعد للزرکشي ۲؍۲۴۵ بیروت)
ویردّونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔ (الأشباہ والنظائر / القاعدۃ الخامسۃ ۱۴۹ مکتبہ دار العلوم دیوبند، کذا في البحر الرائق / باب الربا ۶؍۱۲۶ کراچی)
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ۱؍۳۷ سہارنفور، ۱؍۳۵۹ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
من ملک بملک خبیث ولم یمکنہ الرد إلی المالک فسبیلہ التصدق علی الفقراء الخ۔ (معارف السنن ۲؍۳۴ أشرفیۃ دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
مسئلہ (۱۵۹): حضرات فقہاء کرام نے مالِ حرام مثلاً بینک کے سود کے دو مصرف بتائے ہیں: ایک یہ کہ مالِ حرام جہاں سے آیا ہے وہیں واپس کردیا جائے، لیکن اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں ہماری سودی رقم کو اَغیار، اسلام دشمنی کے کاموں میں لگادیتے ہیں، اس لیے دوسرے مصرف میں یہ رقم صرف کی جائے، یعنی مالِ حرام کے وبال سے بچنے کے لیے بلانیتِ ثواب بہت زیادہ غریب ومحتاج ، پریشان حال مقروض ، یا لُٹے پِٹے لوگوں پر صدقہ کردی جائے(۱)، خود اپنے یا مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیر میں، اسی طرح اپنے یا مسجد وعیدگاہ کے مقدمہ میں، یاپھر رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کرنا جائز نہیں، راجح قول یہی ہے، کیوں کہ مالِ حرام کا غریبوں پر تصدُّق واجب ہے، اور تصدُّق میں کسی غریب کو دے کر اسے مالک بنانا ضروری ہوتا ہے، رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کرنے کی صورت میں مالک بنانے کی صورت نہیں پائی جاتی۔(۲)
------------------------------
= تفریغ الذمۃ منہ بردہ إلی أربابہ إن علموا ، وإلا إلی الفقراء ۔ (۳۹/۴۰۷ ، المیسر)
ما في ’’الدر المختار مع الشامیۃ‘‘: والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ، ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔
(۷/۳۰۱ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالا حراما)
ما في ’’بذل المجہود‘‘: صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالاً بغیر حق ، فأما إذا کان عند رجل مال خبیث، فأما إن ملکہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمۃ عن نفسہ ، فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔ (۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ) (فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۸۰۳۸)=
(۱) ما في ’’بذل المجہود‘‘: صرّح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق ۔۔۔۔۔۔۔ إن أخذہ من غیر عقد ولم یملکہ یجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک ، وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل تلک الأموال علی الفقراء ۔۔۔۔۔۔ وأما إذا کان عند رجل مال خبیث فاما إن ملکہ بعقد فاسد أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔ (۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ ، باب فرض الوضوء ، تحت رقم :۵۹ ، رد المحتار :۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع)
(۲) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : ویشترط أن یکون تملیکا لا یصرف إلی بناء مسجد وکفن میت وقضاء دینہ ۔ تنویر۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : قولہ : (نحو مسجد) کبناء القناطیر والسقایات واصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد وکل ما لا تملیک فیہ ۔ زیلعي ۔
(۳/۲۹۱ ، کتاب الزکاۃ ، باب المصرف ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۸۸، کتاب الزکاۃ ، الباب السابع۔ ۔
=======================
سوال # 39376
میرے اوپر میرے بھائی کی طرف سے عدالت میں ایک غیر ضروری اور غیر شرعی مقدمہ دائر کیا گیا ہے تفصیل کے لئے وصیت اور وارثت کی فتویٰ رقم ۳۹۰۸۶ پڑھ لیں حالات تفصیل سے واضح ہوجائیں گے۔ علماے دین سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا بھائی کی طرف سے میرے اوپر مسلط کئے مقدمہ کیغیر ضروری اخراجات سود کی رقم سے خرچ کئے جاسکتے ہیں؟ سود سے متعلق نیز یہ بھی فرما دیں کہ کیا سود کی رقم سے بلا ثواب کی غرض سے حاجت مند اپنے عزیز اور کسی مسلمان کی مدد کی جا سکتی ہے؟ براہ کرم، شرعی حکم سے ہماری رہنمائی فرمائیں۔
Published on: May 27, 2012
جواب # 39376
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1243-1016/B=7/1433
سود کی رقم مقدمہ کے ضروری اخراجات میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں ثواب کی نیت کے بغیر بہت غریب اور پریشان حال مقروض مسلمان خواہ وہ وعزیز ہی ہو ان کی مدد کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند۔
___________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق
حضرات فقہاء کرام نے مالِ حرام مثلاً بینک کے سود کے دو مصرف بتائے ہیں:
(۱) ایک یہ کہ مالِ حرام جہاں سے آیا ہے وہیں واپس کردیا جائے، لیکن اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں ہماری سودی رقم کو اَغیار، اسلام دشمنی کے کاموں میں لگادیتے ہیں،
(۲) اس لیے دوسرے مصرف میں یہ رقم صرف کی جائے، یعنی مالِ حرام کے وبال سے بچنے کے لیے بلانیتِ ثواب مثلا بہت زیادہ غریب ومحتاج، پریشان حال مقروض، یا لُٹے پِٹے لوگوں پر صدقہ کردی جائے،
اور صورت مسئولہ میں سود کی رقم بطور رشوت کے استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ ”سود“ کی رقم یا تو مالک (بینک یا حکومت وغیرہ) کو لوٹانا ضروری ہے (جیسا کہ پہلی صورت میں مذکور ہوا) یا پھر غریبوں مسکینوں کو بلا نیت ثواب دے دینا ضروری ہے، (جیسا کہ دوسری صورت میں مذکور ہوا)
اور چونکہ رشوت میں جو رقم دی جاتی ہے وہ حکومت کے کھاتے یعنی مالک کے قبضہ میں نہیں جاتی؛ بلکہ افسران کے جیب میں جاتی ہے، اس لئے یہ جائز نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واللہ اعلم باصواب و علمہ اتم ,
والدلیل علی ما قلنا
ما في ’’الدر المختار مع الشامیۃ‘‘ : والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ، ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔
(۷/۳۰۱ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالا حراما)
ما في ’’بذل المجہود‘‘ : صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالاً بغیر حق ، فأما إذا کان عند رجل مال خبیث ، فأما إن ملکہ بعقد فاسد ، أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمۃ عن نفسہ ، فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔
(۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ)
(فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۸۰۳۸)=
ما في ’’بذل المجہود‘‘ : صرّح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق ۔۔۔۔۔۔۔ إن أخذہ من غیر عقد ولم یملکہ یجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک ، وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل تلک الأموال علی الفقراء ۔۔۔۔۔۔ وأما إذا کان عند رجل مال خبیث فاما إن ملکہ بعقد فاسد أو حصل لہ بغیر عقد ولا یمکنہ أن یردہ إلی مالکہ ، ویرید أن یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلۃ إلا أن یدفعہ إلی الفقراء ۔
(۱/۳۵۹ ، کتاب الطہارۃ ، باب فرض الوضوء ، تحت رقم :۵۹، رد المحتار :۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحۃ)
_________________
سودی رقم کا مصرف؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمة الله وبركاته
مفتی شکیل منصور صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں
سوال:بینک کے سود کے پیسوں کا مصرف کیا هے؟
کیا اس پیسوں سے اپنے گھر کا بیت الخلا بناسکتے هے؟
کیا اس پیسوں سے ذاتی زمین کی باؤنڈری بناسکتے هے؟
کیا اس پیسوں سے مدرسہ کے بیت الخلا بنا سکتے ہیں؟
کیا اس پیسوں سے اسکول کے بیت الخلا بنا سکتے ہیں؟ جبکہ وہ اسکول عیسائی کی ہوں اور فیس لے کے نفع بناتی ہو؟
کیا رفاہی کاموں میں استعمال کرسکتے ہیں؟کون کون سےرفاہی کام مراد ہیں؟
تفصیل سے وضاحت کرنےکی درخواست گے.جزاکم اللہ
سائل: محمد واصف پٹیل
مقیم حال: کینیا ،ایسٹ ،افریقہ
12/3/2017
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
بنک سے ملنے والی سودی رقم حرام مال ہے اور مال حرام کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے
لہذا اس سودی رقم کو کسی ایسے ٹیکس کی ادائی وغیرہ کی شکل میں حکومت کو لوٹادے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو ۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مال حرام کا تصدق علی الفقراء بلا نیت ثواب علی اصح الاقاویل ضروری ہے یعنی صدقات واجبہ کی طرح اس میں بھی تملیک فقراء واجب ہے ۔مفتی شفیع صاحب نے جواہر الفقہ میں مختلف دلائل سے اس کے وجوب کو ثابت کیا ہے
جبکہ مفتی کفایت اللہ دہلوی اور مفتی عبد الرحیم لاجپوری جیسے مفتیان کی رائے یہ ہے کہ تصدق علی الفقراء کے علاوہ دوسرے رفاہی کاموں میں بھی اسے صرف کیا جاسکتا ہے ان حضرات کی آراء کی روشنی میں مفاد عامہ کے لئے بیت الخلاء وغیرہ کی تعمیر کی بھی گنجائش ہے۔ ذاتی بیت الخلاء کی تعمیر میں ان کے یہاں بھی اجازت نہیں۔
عاجز کا رجحان یہ ہے کہ بنک وغیرہ کے سود کو کسی رفاہی تعمیراتی کاموں میں صرف نہ کیاجائے ۔کیونکہ اسے دیکھ کر سود کی قباحت لوگوں کی نظروں میں کم ہوجائے گی۔ محتاجوں اور ضرورت مندوں کو روپے دیدیئے جائیں۔ وہ اپنی ضرورتوں میں صرف کریں۔
اگر حکومت کا غیر واجبی ٹیکس قابل ادا ہو تو اس کی ادائی تصدق علی الفقراء سے بھی مقدم ہے۔
إن سبیل التوبۃ مما بیدہ من الأموال الحرام إن کانت من ربا، فلیردہا علی من أربی علیہ، ویطلبہ إن لم یکن حاضرًا، فإن أیس من وجودہ فلیتصدق بذٰلک عنہ۔ (الجامع لأحکام القرآن الکریم للقرطبي ۳؍۲۴۸، سورۃ البقرۃ: ۳۷۹ دار إحیاء التراث العربي بیروت)
إن من شرط التوبۃ: أن تردّ الظلامۃ إلی أصحابہا، فإن کان ذٰلک في المال، وجب أدائہ عینًا أو دینًا ما دام مقدورًا علیہ۔ (القواعد للزرکشي ۲؍۲۴۵ بیروت)
ویردّونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
ویجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔ (الأشباہ والنظائر / القاعدۃ الخامسۃ ۱۴۹ مکتبہ دار العلوم دیوبند، کذا في البحر الرائق / باب الربا ۶؍۱۲۶ کراچی)
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۶۵ کراچی، ۹؍۵۵۳ زکریا)
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ۱؍۳۷ سہارنفور، ۱؍۳۵۹ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
من ملک بملک خبیث ولم یمکنہ الرد إلی المالک فسبیلہ التصدق علی الفقراء الخ۔ (معارف السنن ۲؍۳۴ أشرفیۃ دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment