یومِ اساتذہ منانے کا شرعی حکم
دین کے عظیم اصولوں میں سے ایک اصول، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مودّت ومحبت، اور کافروں سے اظہارِ بیزاری وبرأت ہے۔ اس لیے کافروں کی عیدوں، تہواروں، اسی طرح بطورِعید منائے جانے والے دِنوں (ڈیز)، جن کی کوئی دینی اصل وحیثیت نہ ہو، بلکہ وہ کافروں کی اِیجاد، اور منکراتِ شرعیہ (غیر اللہ کی تعظیم وغیرہ) پر مشتمل ہوں، ان میں مسلمانوں کی شرکت بالکل جائز نہیں ہے، تاکہ اُن کی عیدوں، تہواروں اور غیر شرعی دنوں (ڈیز) سے بیزاری وبرأت کا اظہار ہوسکے، لیکن اگر کوئی دِن؛ قومی یا عالمی دِن ہو،منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو، اور اس میں شرکت نہ کرنے سے مسلمانوں کی مصلحتیں فوت ہوتی ہوں، یا کوئی قانونی مجبوری ہو، اور اُس کے غیر شرعی ہونے پر دِل مطمئن ہو، توضرورۃً اس میں شرکت کی گنجائش ہوگی، لہٰذا یومِ عاشقاں (Velentineday)، یومِ اساتذہ (Teachers' Day)، یومِ حقوقِ نسواں (Women's Day)، یومِ گلاب (Rose Day)، یومِ اطفال (Children's Day) یومِ دوستاں (Friendship Day)، یومِ سیاہ (Black Friday) وغیرہ، میں شرکت درست نہیں ہوگی، کیوں کہ ان میں شرکت نہ کرنے سے مسلمانوں کی کوئی مصلحت فوت نہیں ہوتی ہے، بلکہ شرکت کرنے پر دینی مفاسد اور خرابیاں لازم آتی ہیں (۱)، جب کہ فقہ کا قاعدہ ہے: ’’درأ المفاسد أولی من جلب المنافع‘‘ -’’دینی خرابیوں سے بچنا تحصیلِ منافع سے اولیٰ ہے‘‘۔(۲)
اور عالمی یومِ صحت (World health day)، یومِ انسدادِ منشیات (Banishing day of liquor)، یومِ تعلیم (Educational Day) یومِ آزادی (Independence Day) یوم جمہوریہ (Republic Day) وغیرہ،ان دنوں کے منانے میں پوری انسانیت کے لیے خیر اور نفعِ عام ہے، نہ ان میں غیر اللہ کی تعظیم اورمعنیٔ عید موجود ہے، اورنہ یہ کافروں کی خصائص وعادات میں داخل ہیں، اورنہ ہی یہ امورِ غیرشرعیہ پر مشتمل ہیں، نیز ان میں شرکت کے بغیر مسلمانوں کے لیے کوئی چارۂ کار بھی نہیں، کیوں کہ شرکت نہ کرنے کی صورت میں مسلمانوں کی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں، اور کچھ قانونی مجبوریاں بھی ہیں، اس لیے ان ایام میں شرکت کی گنجائش ہوگی۔ (۳)
۵؍ ستمبر کو پورے ہندوستان میں یومِ اساتذہ منایا گیا، طلبہ وطالبات کی طرف سے اس مناسبت سے پروگرام پیش کیے گئے، جن کا مقصد طلبہ میں اپنے اساتذہ کے لیے قدر واحترام کے جذبات کو پیدا کرنا ہوتا ہے، لیکن یہ جذبات وقتی نہیں بلکہ دائمی ہونا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ماں باپ کے بعد کسی بھی انسان کا سب سے بڑا محسن اس کا استاذ ہوتا ہے، استاذ باپ کا درجہ رکھتا ہے، معلوم ہواکہ استاذ کا مقام بہت اونچا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جتنے اونچے مقام پر فائز ہوتا ہے، اسی نسبت سے اُس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ تو استاذ میں ہمیشہ اپنے شاگردوں کے لیے باپ کی سی محبت وشفقت، اور شاگردوں میں بیٹوں، بیٹیوں کی طرح اطاعت وفرماں برداری ہونی چاہیے، تب تو اس طرح کے پروگرام اپنے مقصد میں کامیاب ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلے میں دونوں جانب سے کوتاہی ہورہی ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم وتعلُّم کا یہ مقدس پیشہ آج تجارت وکاروبار بن چکا ہے، درس وتدریس اسکولوں اور کالجوں کی ملازمت بن کر رہ گئی، کہ نہ استاذوں میں باپ کی سی شفقت ومحبت پائی جاتی ہے، اور نہ شاگردوں میں اولاد کی سی اطاعت ووفا شعاری۔
الغرض! جو پیشہ تعلیمِ انسانیت کا تھا وہ خالص تجارت بن گیا۔
..............................
الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما في ’’القرآن الکریم‘‘: {ولا ترکنوٓا إلی الذین ظلموا فتمسّکم النار}۔
(سورۃ ہود :۱۱۳)
ما في ’’حاشیۃ القونوي علی تفسیر البیضاوي‘‘: قال ابن عباس: أي لا تمیلوا، والرکون المحبۃ والمیل بالقلب ، وقال أبو العالیۃ : لا ترضوا بأعمالہم ، وقال عکرمۃ : لا تطیعوہم ؛ قال البیضاوي: لا تمیلوا إلیہم أدنی میل، فإن الرکون ہو المیل الیسیرکالتزیي بزیہم وتعظیم ذکرہم۔ (۱۰/۲۲۶ ، تفسیر المظہري :۴/۴۳۰)
(۲) ما في ’’صحیح البخاري‘‘: ’’إذا أمرتکم بشيء فافعلوہ ما استطعتم ، وإذا نہیتکم عن شيء فانتہوا‘‘۔ (۲/۱۰۸۲، کتاب الإیمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، سنن ابن ماجہ: ص/۲، المقدمۃ ، باب اتباع سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ)
ما في ’’الأشباہ والنظائر لإبن نجیم‘‘ : ’’لأن اعتناء الشرع بالمنہیات أشد من اعتنائہ بالمأمورات‘‘ ۔ (ص/۷۸) (قواعد الفقہ:ص/۸۱ ، قاعدۃ :۱۳۳)
(۳) ما في ’’الأشباہ والنظائر لإبن نجیم‘‘ : ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ - ’’ما أُبیح للضرورۃ یتقدر بقدرھا‘‘ ۔ (۱/۳۰۷ ، ۳۰۸)
!فقہی، فکری و اصلاحی مقالات و مضامین/ 561
تصنیف مفتی جعفر ملی رحمانی صاحب
صدر دارالافتاء اکل کوا
No comments:
Post a Comment