Saturday, 8 September 2018

قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات: پہلی قسط: دوسری قسط

قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات
(پہلی قسط)

بعض غذائی مصنوعات جو کسی غیرمسلم ملک سے درآمد کی جاتی ہیں یا مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں، ان میں کوئی بنیادی یا اضافی ایسا جزء یاعنصر بھی شامل ہوتا ہے جو شرعاً ممنوع ہوتا ہے، مگر وہ جزء اتنا معمولی اور مقدار میں اتنا کم ہوتا ہے کہ پورے پروڈکٹ کے مقابلے میں اس کی نسبت بہت کم بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، مثلاً: ہزار لیٹر محلول میں ایک لیٹر الکحل ہو تو اس کی نسبت ہزارواں حصہ بنتی ہے، گویا کہ ہزار قطروں میں ایک قطرہ اور ہزار دانوں میں ایک دانہ حرام کا ہے۔ مجموعے کے مقابلے میں اس قلیل تناسب کی وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مصنوعات کا خوردنی استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ یہی اس تحریر کا موضوع ہے۔ دو متضاد نقطہ ہائے نظر اگر مقدار کی اس کمی کو مدنظر رکھیں اور اس کے ساتھ کچھ اور عقلی و نقلی دلائل کا اضافہ کرلیں تو بنظر ظاہر ایسے پروڈکٹ کا خوردنی استعمال جائز ہونا چاہیے، مثلاً: 
۱:۔۔۔۔۔ شراب جب بدل کر سرکہ بن جائے تو بالاتفاق وہ حلال ہوجاتی ہے، حالانکہ ماہرین کے بقول اس میں پھر بھی دو فیصد شراب کے اجزاء باقی رہتے ہیں، مگر شریعت اس مقدار کو خاطر میں نہیں لاتی اور اس کو حلال تصور کرتی ہے، لہٰذا کوئی پروڈکٹ قلیل حرام پر مشتمل ہو تو اُسے حلال ہونا چاہیے، جیسا کہ سرکہ حلال ہے۔ 
۲:۔۔۔۔۔ اگر کسی پروڈکٹ میں کسی جائز یا ناجائز عنصر کی آمیزش بہت کم مقدار میں ہو تو علاوہ صانع کے کسی اور کے لیے اس کا علم بہت مشکل قریباً ناممکن ہے، اس لیے صارف اپنی لاعلمی کی وجہ سے معذور ہے اور بعض صورتوں میں مجبور بھی ہے۔ 
۳:۔۔۔۔۔ صانع کو اس قلیل عنصر کے اظہار پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کسی پروڈکٹ میں کسی عنصر کی مقدار دو فیصد یا اس سے کم ہے تو لیبل پر اس کا اظہار ضروری نہیں۔ 
۴:۔۔۔۔۔ جس چیز کو صارف حرام سمجھتا ہو‘ ضروری نہیں کہ وہ شریعت میں بھی حرام ہو، مثلاً: الکحل اگر چار حرام شرابوں میں کسی ایک سے کشید نہیں کیا گیا ہے اور اتنی کم مقدار میں شامل کیا گیا ہے کہ نشہ کی حد تک نہیں پہنچتا تو شرعاً اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ امریکہ میں بھی ایک حلال تصدیقی ادارے ’’افانکا‘‘ نے کسی پروڈکٹ میں صفر اعشاریہ ایک فیصد الکحل کی اجازت دی ہے۔ 
۵:۔۔۔۔۔ صارفین کا عمومی رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ زیادہ کھوج کرید، چھان پھٹک اور گہرائی میں جانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، خصوصاً تحریر کو تو بہت ہی کم ملاحظہ کرتے ہیں۔ بجلی اور گیس وغیرہ کے بلوں پر متعلقہ محکموں نے ضروری قوانین درج کیے ہوتے ہیں، جان بچانے والی ادویات کے ساتھ ضروری ہدایات پر مشتمل پرچہ ساتھ ہوتا ہے، مگر لاکھوں میں شاید گنتی کے چند ہی اس کو پڑھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں اور اگر کوئی استثنائی مثال ایسی ہو کہ کوئی صارف احتیاط پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کرے تو بھی اس کے لیے حقیقت تک رسائی مشکل ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ابھی صارفین کے حقوق کے لیے یہ قانون نافذ نہیں ہوا ہے کہ پروڈکٹ پر اجزاء کا اندراج لازم ہے، اس لیے متعلقہ قانون کی عدم موجودگی یا اس کی عدم تعمیل کا یہ اثر ہے کہ کمپنیاں مبہم اور مجمل قسم کے الفاظ پروڈکٹ پر درج کردیتی ہیں، مثلاً: فلیور یا مصنوعی رنگ بھی شامل ہے، مگر وہ فلیور اور رنگ کس چیز سے بنا ہے؟ کمپنی اس کو ابہام کے دبیز پردوں میں چھپالیتی ہے۔ اگر کسی پروڈکٹ پر تمام اجزائے ترکیبی درست انداز میں درج ہوں تو خود صارف کے لیے اس کا سمجھنا مشکل ہے اور جب مینوفیکچرر کسی قلیل حرام جزء کے اظہار کا پابند ہی نہیں تو صارف کے لیے باوجود خواہش و جستجو کے اصل حقیقت کا جاننا متعذر ہوجاتا ہے۔  بالفرض اگر وہ تمام اجزاء ترکیبی معلوم کرلے تو ایک جزء کئی اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ اجزاء جس سے ایک جزء مرکب ہے، کیا ہیں؟ اس کی تحقیق ایک حلال تصدیقی ادارے کے لیے تو ممکن ہے، مگر صارف کے لیے نہیں اور حلال تصدیقی ادارے بھی ابھی اپنے سن طفولیت اور عہد ِآغاز میں ہیں، چنانچہ کسی پروڈکٹ کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق معلومات ابھی اتنی آسان نہیں جتنی اور مسائل کے متعلق آسان ہیں۔ حلال تصدیقی ادارے بھی پروڈکٹ کے اضافی مشمولات کے متعلق یا تو اپنی سابقہ معلومات اور تجربات کی بنا پر یا پھر اصل صانعین سے براہِ راست رابطہ کرکے جواب دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اصل صانعین یورپی ممالک ہیں۔ اٹلی، جرمنی، فرانس، ہالینڈ وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو بڑے پیمانے پر اجزائے ترکیبی اور اضافی غذائی مشمولات تیار کرتے اور برآمد کرتے ہیں اور وہی جانتے ہیں کہ کون سی شئے کن اشیاء سے مرکب ہے۔ ہمارے جوڑیا بازار کا تاجر ہزاروں غذائی اجزاء درآمد ضرور کرتا ہے، مگر پنساری کی طرح ہر ایک کے خواص اور حقیقت اسے بھی معلوم نہیں ہوتی۔ ۶:۔۔۔۔۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ کسی پروڈکٹ کے تمام اجزاء ترکیبی معلوم کرنا چاہے تو ایسا اس پروڈکٹ کے کیمیائی تجزیے کے بغیر ممکن نہیں اور کیمیائی تجزیہ وتحلیل صارف تو درکنار کسی حلال سرٹیفیکیشن باڈی کے لیے بھی ایک مستقل نظم کے طور پر ممکن نہیں، کیونکہ مصنوعات کی کثرت، وسائل کی قلت اور مطلوبہ آلات کی عدم دستیابی سمیت بے شمار وجوہات ایسی ہیں کہ کسی حلال اتھارٹی کے لیے بھی اس معیار پر پروڈکٹ کا جانچنا ممکن نہیں۔ اسلامی ممالک میں سے ملائیشیاکے متعلق شنید ہے کہ اس نے مشکوک پروڈکٹ کے ڈین اے ٹیسٹ کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اقدام شرعی لحاظ سے کیا حکم رکھتا ہے اور اس کے اثرات ومضمرات کیا ہوں گے؟ اگر ہم گفتگو کا رخ اس جانب موڑ دیں تو موضوع سے دور جانکلیں گے۔ سردست مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اس رخ سے دیکھیں سرکہ میں قلیل الکحل ہوتا ہے، مگر اس کا استعمال جائز ہے، نیز جو چیز قلیل مقدار میں شامل کی گئی ہو تو اس کا ظاہر کرنا ضروری نہیں ۔مزید یہ کہ صارف کے لیے ازخود تحقیق بہت ہی مشکل ہے اور عام علماء اوراہل افتاء کو ابھی فقہ الحلال میں اتنی ممارست نہیں کہ پوچھتے ہی چھوٹتے جواب دے دیں۔ اس کے علاوہ شریعت میں قلیل ومغلوب معاف ہوتا ہے اور شریعت کا عمومی مزاج بھی یسر وسہولت کا ہے۔ ان پہلوؤں پر سوچنے سے ذہن یہ بنتا ہے کہ کسی چیز میں حرام جزء بہت کم بالکل نہ ہونے کے برابر استعمال کیا گیا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے۔ دوسرا نقطہ نظر: 
عدم جواز کا پہلو 
۱:۔۔۔۔۔ اگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو ایسی مصنوعات کا استعمال جائز نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ حرام حرام ہے، اگر چہ مقدار میں کم ہواور تھوڑا حرام بقیہ حلال کو بھی حرام بنادیتا ہے، جیساکہ سو قطرے گلاب کو ایک بوند پیشاب کا ناپاک کردیتا ہے یا درسی زبان میں یوں کہہ لیں کہ نتیجہ  اخص واَرذل کے تابع ہوتا ہے۔ 
۲:۔۔۔۔۔ ہم ایسی مصنوعات کے استعمال پر مجبور بھی نہیں ہیں۔ حرام کا شیوع ضرور ہے، مگر حلال بھی دنیا سے معدوم نہیں ہوا ہے اور اگر مجبور ہوئے تو شریعت کا قانونِ ضرورت موجود ہے۔ قانونِ ضرورت کے تحت مجبور حضرات کو تو گنجائش مل سکتی ہے، مگر عام لوگوں کو اجازت نہیں ہوسکتی۔ 
۳:۔۔۔۔۔ قلت و کثرت اور غالب و مغلوب کی دلیل بھی زیادہ معقول نہیں، کیونکہ مدار قلت اور کثرت پر نہیں بلکہ اہمیت اور ضرورت پر ہونا چاہیے۔ بسا اوقات کوئی چیز مقدار میں کم مگر کردار میں بہت اہم ہوتی ہے، جیسا کہ نمک کی مقدار کم ہوتی ہے، مگر ذائقے کا مدار اس پر ہوتا ہے اور کبھی کوئی جزء قلیل ہوتا ہے، مگر وہی اہم عنصر، پروڈکٹ کی جان اور استعمال سے مطلوب ہوتا ہے، تو کیا ایسی صورت میں بھی اس فلسفے پر عمل کیاجائے گا کہ جس جزء کا تناسب بہت کم ہو اس کے استعمال کی اجازت ہے؟ جواز کی حقیقی علت ان اختلافی دلائل اور متضاد پہلوؤں کے بعد ہم حل کی طرف بڑھتے ہیں۔ اگر ہم غالب اور مغلوب کے اصول کو لیں اور یوں کہیں کہ جب حلال کو غلبہ اور اکثریت حاصل ہو تو غالب اور اکثر کا اعتبار کرتے ہو ئے پروڈکٹ کو حلال ہونا چاہیے تو شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی، کیونکہ جب حلال اور حرام جمع ہوتے ہیں تو غلبہ حرام کو حاصل ہوتا ہے: ’’إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام‘‘ مشہور قاعدہ ہے۔ لہٰذا غالب اور مغلوب کا قاعدہ اس بحث میں مفید نہیں ہوسکتا، البتہ ایک دوسرے پہلو سے ایسی مصنوعات کے استعمال کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ شریعت کا عمومی مزاج یسر اور سہولت کا ہے۔ جب تنگی اور مشقت عمومی نوعیت کی ہو اور اس میں ابتلاء عام اور بچنا مشکل ہو تو پھر شریعت بڑی وسعت اور سخاوت کے ساتھ اور بہت فیاضی اور کشادہ دلی سے گنجائش پر گنجائش دیتی ہے۔ اس کے ساتھ شریعت کایہ بھی قاعدہ ہے کہ: ’’القلیل مغتفر‘‘ یعنی ’’قلیل مقدار معاف ہے۔‘‘(۱) متذکرہ قاعدہ کے ہم معنی یہ قواعد بھی ہیں: ’’ القلیل کالمعدوم‘‘ یعنی ’’تھوڑا گویا نہ ہونا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’الیسیر تجری المسامحۃ فیہ‘‘ یعنی ’’تھوڑے سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور اِغماض برتا جاتا ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’الیسیر معفو عنہ‘‘ یعنی ’’تھوڑا نظر انداز کردیا جاتا ہے۔‘‘ ان ملتے جلتے قواعد کے علاوہ مختلف فقہی ابواب میں بھی شریعت قلیل مقدار کو نظر انداز کردیتی ہے، مثلاً: 
۱:- کپڑوں پر سوئے کے ناکے کے برابر پیشاب کی چھینٹیں لگی ہوں تو وہ معاف ہیں۔ 
۲:- نماز کے دوران قبلہ سے معمولی انحراف ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے۔ 
۳:- دورانِ نماز ستر معمولی طور پر کھل جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔ 
۴:- معمولی تاخیر سے سجدۂ سہو واجب نہیں ہوتا۔ 
۵:- عمل قلیل نماز میں معاف ہے۔ 
۶:- روزے میں اگر بہت معمولی چیز حلق میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹتا نہیں۔ 
۷:- زکوٰۃ میں دو نصابوں کے درمیان کی مقدار معاف ہوتی ہے۔ 
۸:- بیع میں اگر ایجاب اور قبول میں معمولی وقفہ ہو تو شریعت پھر بھی ایجاب کا قبول کے ساتھ اتصال مانتی ہے۔ 
۹:- یمین سے استثنا کرتے وقت اگر کھانسی وغیرہ کے عذر سے معمولی تاخیر ہوجائے تو شریعت اس تاخیر کو تاخیر نہیں سمجھتی۔ 
۱۰:- مبیع ،ثمن اور مدت میں معمولی جہالت معاف ہے۔ 
۱۱:- اجارہ میں اگر مدتِ اجارہ کے اندر معمولی جہالت ہو اور عام طور پر گوارہ کرلی جاتی ہو تو اس سے عقد ِاجارہ فاسد نہیں ہوتا۔ 
۱۲:- مبیع میں اگر معمولی عیب ہو تو اس کا اعتبار نہیں۔ 
۱۳:- غبن یسیر اور غررِ یسیر بھی معاف ہے۔ 
۱۴:- قربانی کے جانور میں معمولی عیب معاف ہوتا ہے۔ 
۱۵:- مردوں کے لیے ریشم کی قلیل مقدار کا استعمال جائز ہے۔ 
۱۶:- جانور ذبح کرتے وقت اگر تسمیہ اور ذبح میں معمولی فصل آجائے تو اس سے جانور مردار نہیں ہوتا۔ 
۱۷:- وقف جائیداد کو اجرتِ مثل پر دینا ضروری ہے، لیکن اجرتِ مثل سے معمولی کمی جائز ہے۔ 
ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ قلیل مقدار معاف کردیتی ہے، اس لیے غذائی مصنوعات میں اگر بہت قلیل مقدار میں غیر شرعی عنصر شامل ہو تو اُسے معاف ہونا چاہیے۔ قلیل سے متعلق ضروری تنقیحات ۱:۔۔۔۔۔اگر اس نظریے کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ مصنوعات میں قلیل مقدار حرام کی شمولیت معاف ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ قلیل سے مراد کیا ہے اور کس قدر قلیل معاف ہے؟ کیونکہ قلیل کا کوئی لگا بندھا اور طے شدہ معیار نہیں۔ معاملات میں قلیل کچھ ہے تو ماکولات و مشروبات میں کچھ اور۔ فعل اور عمل کے لیے قلیل کی جو کسوٹی ہے وہ قدر اور مقدار کے لیے نہیں۔ حقوق العباد میں قلیل کا معیار جتنا سخت اور کڑا ہے، حقوق اللہ میں اتنا ہی نرم اور لچک دار ہے۔ پھرایک ہی مقدار ایک معاملہ میں قلیل سمجھ کر نظر انداز کی جاتی ہے تو دوسرے معاملے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاتی، مثلاً: لوہے اور مٹی وغیرہ کے لین دین کے وقت کلو اور من کو بھی کم سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے، لیکن سونے کی خرید و فروخت ہو تو رَتی رَتی کا حساب کیا جاتا ہے، خود شریعت نے کسی جگہ چوتھائی اور کبھی تہائی اور بعض اوقات نصف سے کم کو قلیل کہا ہے۔ جب قلیل کا کوئی ایسا متعین اور لگا بندھا معیار نہیں جو تما م ہی مسائل میں اصل اور بنیاد کا کام دے سکے تو سب سے پہلے ہمیں غذائی مواد کے سلسلے میں قلیل کا معیار طے کرنا چاہیے۔ 
۲:۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ شریعت کسی چیز کے داخلی اور خارجی استعمال میں فرق کرتی ہے۔ عین ممکن ہے بلکہ امر واقعہ ہے کہ ایک ہی شئے کا خوردنی اور داخلی استعمال تو ناجائز ہو، مگراس کا بیرونی اور خارجی استعمال جائز اور حلال ہو، جیسا کہ حشرات الارض سمیت ایسی اشیاء جو پاک ہوں مگر حلال نہ ہوں تو ان کا خوردنی استعمال ناجائز اور خارجی استعمال جائز ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں داخلی اور خارجی استعمال کا فرق بھی روا رکھنا ہوگا۔ 
۳:۔۔۔۔۔ یہ سوال کہ حرام کے امتزاج اور آمیزش کے بعد کسی چیز کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ صرف اور صرف صارف کے نقطہ نظر سے ہے۔ صانع کے پہلو سے مسئلے کی مختلف صورتیں ہوں گی جن کے احکام علیحدہ ہوں گے، البتہ ایک عمومی اصول کے طور پر حرام کی قصداً آمیزش جائز نہیں۔ 
۴:۔۔۔۔۔  یہ تمام بحث اس بنیاد پر ہے کہ کسی چیز میں حرام موجود ہو، لیکن بہت کم مقدار میں ہو، لیکن اگر حرام‘حرام نہ رہے، بلکہ بدل کر حلال ہوجائے، جیسا کہ انقلابِ ماہیت کی صورت میں ہوتا ہے تو قلیل وکثیر کی ساری بحث ہی ختم ہوجاتی ہے، لہٰذا اگر کیمیائی عمل کے نتیجے میں غذائی مواد کے ماہرین اور اہل فتویٰ حضرات قرار دیں کہ قلب ماہیت کے باعث مصنوع میں شامل کوئی حرام جزء بدل گیا ہے تو وہ پورا پروڈکٹ حلال کہلائے گا۔ 
۵:۔۔۔۔۔ آخری نکتہ جو آگے بڑھنے سے پہلے ملحوظ رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ شریعت کے قانونِ ضرورت کے تحت اگر کسی مجبور یا بیمار شخص کو حرام استعمال کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ صورت ہماری گفتگو سے خارج ہے، کیونکہ ضرورت کے اصول کچھ اور ہیں۔ 
حواشی ومراجع ۱:…’’القلیل مغتفر‘‘ کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے:’’التطبیقات الفقہیۃ لقاعدۃ الیسیر مغتفر فی البیوع‘‘ مؤلف ھاکی بن محمد کانوریتش۔ موضوع کے متعلق مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: مفتی سفیر الدین ثاقب صاحب کا مقالہ: ’’وہ مصنوعات جن میں قلیل مقدار میں حرام شامل ہو‘‘ متذکرہ مقالہ راقم کے پیش نظر رہا ہے اور اس سے بھرپور استفادہ کیا ہے، جس پر احقر اس کے مؤلف کا شکر گزار ہے۔                                                            (جاری ہے)
--------------------------------------------------------

قلیل حرام پر مشتمل غذائی مصنوعات 
(دوسری قسط)

سوال: وہ مصنوعات جن میں قلیل مقدار میں حرام شامل ہو کیا اس کا استعمال جائز ہے؟

جواب: بعض غذائی مصنوعات جو کسی غیرمسلم ملک سے درآمد کی جاتی ہیں یا مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں اور ان میں کوئی حرام جزء بھی شامل ہوتا ہے، مگر وہ جزء مقدار میں اتنا کم ہوتا ہے کہ پورے پروڈکٹ کے مقابلے اس کی نسبت بہت کم بالکل  نہ ہونے کی برابر ہوتی ہے، مثلا ہزار لیٹر محلول میں ایک لیٹر الکحل ہو تو اس کی نسبت ہزاواں حصہ بنتی ہے  گویا کہ پانی کے ہزار قطروں میں ایک قطرہ حرام کا ہے۔

اگر مقدار کی اس کمی کو مدنظر رکھیں اور اس کے ساتھ کچھ اورعقلی  اور نقلی دلائل کا اضافہ کرلیں تو نظر بظاہر ایسے پروڈکٹ کا خوردنی استعمال جائز ہونا چاہیے، مثلا:

1۔        شراب جب بدل کر سرکہ بن جائے تو بالاتفاق وہ حلال ہوجاتا ہے حالانکہ ماہرین کے بقول اس میں پھر بھی دو فیصد شراب کے اجزاء باقی رہتے ہیں مگر شریعت اس مقدار کو خاطر میں نہیں لاتی اور اس کو حلال تصور کرتی ہے لہذا قلیل حرام شامل ہو تو پروڈکٹ کا حلال ہونا چاہیے جیساکہ سرکہ حلال ہے۔

2۔        اگر کسی پروڈکٹ میں کسی عنصر کی آمیزش بہت کم مقدار میں ہے تو علاوہ صانع کے کسی اور کے لیے اس کا علم بہت مشکل قریبا ناممکن ہے، اس لیے صارف اپنی لاعلمی کی وجہ سے معذور ہے اور بعض صورتوں میں مجبور بھی ہے۔

3۔        صانع کو اس عنصر کے اظہار پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کسی پروڈکٹ میں کسی عنصر کی مقدار دو فیصد یا اس سے کم ہے تو لیبل پر اس کا اظہار ضروری نہیں ہے۔

4۔        جس چیز کو صارف حرام سمجھتا ہو ضروری نہیں  کہ وہ شریعت میں بھی  حرام ہو، مثلا الکحل اگر چار حرام شرابوں میں کسی ایک سے کشید نہیں کیا گیا ہے اور اتنی کم مقدار میں شامل کیا گیا ہے کہ نشہ کی حد تک نہیں پہنچتا تو شرعی لحاظ سے اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ اسی گنجائش کی وجہ سے امریکہ میں حلال تصدیقی ادارے افانکا نے کسی پروڈکٹ میں صفر اعشاریہ ایک فیصد الکحل کی اجازت دی ہے۔

5۔        صارفین کا عمومی رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ کھوج  کرید کرنے اور زیادہ گہرائی میں جانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، خصوصا تحریر  کو تو  بہت کم ملاحظہ کرتے ہیں ،بجلی اور گیس وغیرہ کے بلوں پر متعلقہ محکموں نے ضروری قوانین درج کیے ہوتے ہیں، جان بچانے والی ادویہ پر ضروری ہدایات درج ہوتی ہیں، مگر لاکھوں میں شاید گنتی کے چند ہی اس  کو پڑھنے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں اور اگر کوئی استثنائی مثال ایسی ہو کہ کوئی صارف احتیاط پر عمل پیرا ہوتے ہوئے معلوم کرنے کی کوشش کرے تو اول تو اس کے لیے پروڈکٹ پر درج اجزاء ترکیبی کا سمجھنا ہی  مشکل ہوتا ہے  اور جب مینو فیکچرر کسی قلیل حرام جزء کے اظہار کا پابند ہی نہیں تو صارف کے لیے اصل حقیقت جاننا ناممکن ہوجاتا ہے اور اگر وہ مشکوک سمجھ کر کسی پروڈکٹ کے  تمام اجزاء ترکیبی  معلوم کرنا چاہے تو ایسا اس پروڈکٹ کے کیمیائی تجزیے کے بغیر ممکن نہیں اور کیمیائی تحلیل صارف تو درکنار  کسی حلال سرٹیفیکیشن باڈی کے لیے بھی  ایک مستقل  نظم  کے طور پرممکن نہیں کیونکہ مصنوعات کی کثرت، وسائل کی قلت اور مطلوبہ آلات کی عدم دستیابی سمیت بے شمار وجوہات ایسی ہیں کہ کسی مجاز اتھارٹی کے لیے بھی اس معیار پر پروڈکٹ کا جانچنا ممکن نہیں۔

اگر تصویر کے اس  رخ کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز میں حرام جزء بہت کم بالکل نہ ہونے کے برابر استعمال کیا گیا ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے۔

 اگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو ایسے مصنوعات کا استعمال جائز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حرام حرام ہے اگر چہ مقدار میں کم ہو اور تھوڑا حرام بقیہ حلال کو بھی حرام بنادیتا ہے جیساکہ پیشاب کا ایک قطرہ  پورے ڈرم کو ناپاک کردیتا ہے۔

ہم ایسی اشیاء کے استعمال پر مجبور بھی نہیں ہیں اور اگر مجبور ہوئے تو شریعت کا قانون ضرورت موجود ہے اس کے تحت مجبور حضرات کو تو گنجائش مل سکتی ہے مگر عام لوگوں کو اجازت نہیں ہوسکتی ۔ قلت اور کثرت کی بحث بھی زیادہ معقول نہیں کیونکہ مدار قلت اور کثرت پر نہیں بلکہ اہمیت اور ضرورت پر ہونا چاہیے۔ بسا اوقات کوئی چیز مقدار میں قلیل ہوتی ہے مگر کردار میں بہت اہم ہوتی ہے جیساکہ نمک کی مقدار کم ہوتی ہے مگر ذائقے کا مدار اس پر ہوتا ہے اور کبھی کوئی جزو قلیل ہوتا ہے مگر وہی اہم عنصر اور پروڈکٹ کی جان اور اس کے استعمال سے مطلوب ہوتا ہے تو کیا ایسی صورتوں میں بھی اس فلسفے پر عمل کیا جائے گا کہ جس جزو کا تناسب بہت کم ہو اس کے استعمال کی اجازت ہوگی؟

 دونوں متضاد پہلوؤں کو ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ مسئلہ اچھی طرح  واضح ہوجائےاور اس کاہر رخ سامنے آجائے تاکہ ہم بصیرت کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔

            اگر  ہم غالب اور مغلوب کے اصول کو لیں اور یوں کہیں  کہ جب حلال کو غلبہ اور اکثریت حاصل ہو تو غالب اور اکثر کا اعتبار کرتے ہو ئے پروڈکٹ کو حلال ہونا چاہیے تو شریعت  اس کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ جب حلال اور حرام جمع ہوتے ہیں تو غلبہ حرام کو حاصل ہوتا ہے:اذااجتمع الحلال والحرام غلب الحرام مشہور قاعدہ ہے۔

بہرحال غالب اور مغلوب کا قاعدہ اس بحث میں مفید نہیں ہوسکتا ہے البتہ ایک دوسرے پہلو  سے ایسے مصنوعات کے استعمال گنجائش نکل سکتی ہے، وہ پہلو یہ ہے کہ شریعت کا عمومی مزاج سہولت اور آسانی کا ہے اور جب تنگی اور مشقت عمومی نوعیت کی ہو اور اس میں ابتلاء عام ہو اور بچنا مشکل ہو تو پھر شریعت  بڑی  وسعت اور سخاوت  کے ساتھ اور بہت فیاضی اور کشادہ دلی سے گنجائش دیتی ہے۔ اس اصول کو مدلل کرنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ سہولت اور تیسیر خود دلیل ہے۔ اس کے ساتھ شریعت کایہ بھی قاعدہ ہے کہ:

القلیل مغتفر

یعنی قلیل مقدار معاف ہے۔

قاعدہ  بالا کے ہم معنی یہ قواعد بھی ہیں:

الیسیر معفو عنہ

الیسیر مغتفر

القلیل کالمعدوم

الیسیر تجری المسامحۃ فیہ

 اگر ہم مختلف فقہی ابواب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ شریعت قلیل مقدار کو نظر انداز کردیتی ہے مثلا:

1۔ کپڑوں پر سوئے کے ناکے کے برابر پیشاب کی چھینٹے لگتی ہیں وہ معاف ہیں۔

2۔ نماز کے دوران قبلہ سے معمولی انحراف ہوجائے تو نماز ہوجاتی ہے۔

3۔ دوران نماز ستر معمولی طور پر کھل جائے تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔

4۔ معمولی تاخیر سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔

5۔ عمل قلیل نماز میں معاف ہے۔

6۔ روزے میں اگر بہت معمولی چیز حلق میں چلی جائے تو روزہ ٹوٹتا نہیں۔

7۔ زکوۃ میں دو نصابوں کے درمیان کی مقدار معاف ہوتی ہے۔

8۔ بیع میں اگر ایجاب اور قبول میں معمولی وقفہ ہو تو شریعت پھر بھی ایجاب کا قبول کے ساتھ اتصال مانتی ہے۔

9۔ یمین سے استثنا کرتے وقت اگر کھانسی وغیرہ کے عذر سے معمولی تاخیر ہوجائے تو شریعت  اس تاخیر کو تاخیر نہیں سمجھتی۔

10۔ مبیع، ثمن اور مدت میں معمولی جہالت معاف ہے۔

11۔ اجارہ میں اگر مدت  اجارہ کے اندر معمولی جہالت ہو اور عام طور پر گوارہ کرلی جاتی ہو تو اس سے عقد اجارہ فاسد نہیں ہوتا۔

12۔ مبیع میں اگر معمولی عیب ہو تو اس کا اعتبار نہیں۔

13۔ غبن یسیر اور غرر یسیر بھی معاف ہے۔

14۔ قربانی کےجانور میں معمولی عیب معاف ہوتا ہے۔

15۔ مردوں کے لیے ریشم کی قلیل مقدار کا استعمال جائز ہے۔

16۔ جانور ذبح کرتے وقت اگر تسمیہ اور ذبح میں معمولی فصل آجائے تو اس سے جانور مردار نہیں ہوتا۔

17۔ وقف جائیداد کو اجرت مثل پر دینا ضروری ہے لیکن اجرت مثل سے معمولی کمی جائز ہے۔

ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ قلیل مقدار معاف کردیتی ہے، اس لیے  غذائی مصنوعات میں اگر بہت قلیل مقدار میں غیر شرعی  عنصر شامل ہو تو اسے معاف ہونا چاہیے۔

اگر اس نظریے کو تسلیم کرلیا جائے قلیل مقدار معاف ہے تو پھر سوال یہ  پیدا ہوگا کہ قلیل سے مراد کیا ہے کیونکہ  قلیل کا کوئی ایک معیار طے شدہ نہیں، معاملات میں قلیل کچھ ہے تو ماکولات ومشروبات میں کچھ اور، فعل اور عمل کے لیے قلیل کی جو کسوٹی ہے وہ  قدر اور مقدار کے لیے نہیں ہے، حقوق العباد میں قلیل کا معیار  جتناسخت ہے، حقوق اللہ میں اتنا  ہی نرم اور لچک دار ہے، پھرایک ہی چیز ایک معاملہ میں قلیل سمجھ کر نظر انداز کی جاتی ہے تو دوسرے معاملے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاتی مثلا لوہے اور پتھر کی خریدوفرخت کے وقت کلو اور من کو بھی کم سمجھا جاتا ہے لیکن سونے کی خریدوفروخت ہو تو رتی اور ماشے کا بھی حساب کیا جاتا ہے، خود شریعت نے کسی جگہ چوتھائی کو اور کبھی تہائی اور کبھی نصف سے کم کو قلیل کہا ہے۔

جب قلیل کا کوئی ایسا متعین اور لگا بندھا معیار نہیں ہے جو تما م مسائل میں اصل اور بنیاد کا کام دے سکے تو سب سے پہلے ہمیں غذائی مواد کے لیے  قلیل کا معیار طے کرنا چاہیے۔

اس کے ساتھ شریعت کسی چیز کے داخلی اور خارجی استعمال میں فرق کرتی ہے ۔عین ممکن ہے بلکہ امر واقعہ ہے ایک ہی شی کا خوردنی اور داخلی استعمال تو ناجائز ہو مگر بیرونی اور خارجی استعمال جائز اور حلال ہو،لہذا ہمیں داخلی اور خارجی کا فرق بھی روا رکھنا ہوگا۔

یہ سوال کہ حرام کے امتزاج اور آمیزش کے بعد کسی چیز کا استعمال جائز ہے یا نہیں، صرف اور صرف صارف کے نقطہ نظر سے ہے۔ صانع کے نقطہ نظر سے مسئلے کی مختلف صورتیں ہوں گی  جن کے احکام علیحدہ ہوں گے۔

یہ تمام بحث اس بنیاد  پر ہے کہ کسی چیز میں حرام موجود ہو لیکن بہت کم مقدار میں ہو لیکن اگر حرام  حرام نہ رہے بلکہ بدل کر حلال ہوجائے  جیسا کہ انقلاب ماہیت کی صورت میں ہوتا ہے تو قلیل وکثیر کا ساری بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لہذا اگر کیمیائی عمل کے نتیجے میں غذائی مواد کے ماہرین اور اہل فتوی حضرات قرار دیں کہ قلب ماہیت کے باعث کوئی حرام جزء بدل گیا ہے تو وہ پورا پروڈکٹ حلال کہلا ئے گا۔

آخری نکتہ جو آگے بڑھنے سے پہلے ملحوظ رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کے قانون ضرورت کے تحت اگر کسی مجبور یا بیمار شخص کو حرام  استعمال  کرنے کی اجازت مل جائے تو وہ صورت ہماری گفتگو سے خارج ہے کیونکہ ضرورت  کےاصول کچھ اور ہیں۔

قلیل کا معیار

جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ شریعت   جس قلیل سے چشم پوشی کرتی ہے اس قلیل کا تعین ہونا چاہیے۔ لیکن جس طرح فقہ کے تمام ابواب کے لیے قلیل کی کوئی ایک مقدار متعین نہیں، اسی طرح غذائی اجناس اور ماکولات ومشروبا ت کے بارے  میں بھی قلیل کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے جو اشیاء حرام ہیں وہ کسی ایک سبب کی بنا پر نہیں بلکہ مختلف اسباب کی بنا پر حرام ہیں اور جب اسباب مختلف ہیں تولا محالہ  مقدار بھی مختلف ہوگی۔ وہ اسباب جن کی بنا پر شریعت کسی چیز کو حرام قرار دیتی ہے، علماء شریعت نے استقراء کے بعد قرار دیا ہے کہ پانچ اسباب ہیں:

ضرر

سکر

خبث

کرامت

نجاست

ان اسباب میں سے ہر سبب کا دائرہ مختلف ہے مثلا کوئی چیز مضر ہو تو ضروری نہیں کہ وہ نجس بھی ہو اور جو نجس ہو تو لازم نہیں کہ وہ مسکر بھی ہے اورجو مکرم ومحترم ہو تو اس کا مضر ومسکر اورخبیث ونجس ہونا لازم نہیں۔ مزید یہ کہ اشیاء مختلف ہیں، کبھی کسی شی کا ایک جزء پاک تو دوسرا ناپاک ہوتا ہے، ایک مقدار میں خبث ہوتا ہے تو اس سے کم مقدار خبث سے خالی ہوتی ہے، ایک ہی شی ایک شخص کے حرام تو دوسرے کے لیے حلال ہوسکتی ہے۔ لہذا  قلیل کی مقدار کو اسی وقت معلوم کیا جاسکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ اس کی حرمت مذکورہ اسباب حرمت میں سے کس وجہ سے ہے؟

مضرت

اگر حرمت کا سبب  مضرت ہو تواس کی اتنی مقدار کا  استعمال  جائز ہوگا جو مضرت کا باعث نہ ہو کیونکہ حرمت کی علت مضرت ہے اور جب مضرت نہ ہو تو پھر حرمت بھی نہیں۔

جب وجہ حرمت مضرت ہو تو اگرکوئی چیز مفرد حیثیت سے مضر نہ ہو لیکن مجموعہ میں جاکر وہ مضر بن جاتی ہو تو ضرر کی علت کی وجہ سے  اس کااستعمال ناجائز ہوگا، اس کے برعکس اگر ایک چیز مفرد حیثیت سے ضرر رساں ہو لیکن کسی دوسری چیز کی آمیزش سے اس کا نقصان دور ہوجاتا ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا:

إحياء علوم الدين - (2 / 92)

أما المعادن فهي أجزاء الأرض وجميع ما يخرج منها فلا يحرم أكله إلا من حيث أنه يضر بالآكل۔

بشہتی زیورحصہ نہم ص 98 میں ہے:

اگر مضر چیز کا نقصان کسی طرح جاتا رہے یا منشی میں نشہ نہ رہے تو ممانعت بھی نہ رہے گی۔

وفیہ ایضا ص 108

جب مضر اورغیر مضر مل جائیں اور تو اگر ملانے سے نقصان جاتا رہے تو ممانعت بھی جاتی رہے گی۔

کرامت

کرامت سے مراد یہ ہے کہ وہ شی باعث تکریم وتعظیم ہو۔ کائنات میں حق تعالی شانہ نے انسان کو کرامت اور عزت بخشی ہے اس لیے انسان کا  کوئی جزء  براہ راست کھانا یا کسی چیز ملانا حرام ہے اور جس شئ میں انسانی اعضاء میں سے کسی کی آمیزش ہو تو قلیل وکثیر کی تفریق کیے بغیر اس کا استعمال حرام ہے، چاہے وہ انسانی جزء خود پاک ہو جیسے بال، ناخن اور ہڈی  یا خود ناپاک ہو جیسے خون  اور فضلہ وغیرہ

إحياء علوم الدين- (2 /93)

لو وقع جزء من آدمي ميت في قدر ولو وزن دانق حرم الكل لا لنجاسته فإن الصحيح أن الآدمي لا ينجس بالموت ولكن لان أكله محرم احتراما لا استقذارا

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (2 / 406)

جلدة آدمي إذا وقعت في الماء القليل تفسده إذا كانت قدر الظفر والظفر لو وقع بنفسه لا يفسده ، الكافر الميت نجس قبل الغسل وبعده وكذلك الميت وعظم الآدمي نجس وعن أبي يوسف أنه طاهر والأذن المقطوعة والسن المقلوعة طاهرتان في حق صاحبهما ، وإن كانتا أكثر من قدر الدرهم وهذا قول أبي يوسف وقال محمد في الأسنان الساقطة إنها نجسة ، وإن كانت أكثر من قدر الدرهم وفي قياس قوله الأذن نجس وبه نأخذ وقال محمد في صلاة الأثر سن وقعت في الماء القليل يفسد وإذا طحنت وفي الحنطة لا تؤكل وعن أبي يوسف إن سنه طاهر في حقه حتى إذا أثبتها جازت الصلاة ، وإن أثبت سن غيره لا يجوز وقال بينهما فرق ، وإن لم يحضرني وسن الكلب والثعلب طاهرة وجلد الكلب نجس وشعره طاهر هو المختار وماء فم الميت نجس بخلاف ماء فم النائم فإنه طاهر .

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (2 / 410)

( قوله : جلده الآدمي إذا وقعت في الماء القليل إلخ ) قال ابن أمير حاج وإن كان دونه لا يفسده صرح به غير واحد من أعيان المشايخ ومنهم من عبر بأنه إن كان كثيرا أفسده وإن كان قليلا لا يفسده وأفاد أن الكثير ما كان مقدار الظفر وأن القليل ما دونه ، ثم في محيط الشيخ رضي الدين تعليلا لفساد الماء بالكثير ؛ لأن هذا من جملة لحم الآدمي ، وقد بان من الحي فيكون نجسا إلا أن في القليل تعذر الاحتراز عنه فلم يفسد الماء لأجل الضرورة وفيه قبل هذا قال محمد عصب الميتة وجلدها إذا يبس فوقع في الماء لا يفسده ؛ لأن باليبس زالت عنه الرطوبة النجسة .

ا هـ .

ومشى عليه في الملتقط من غير عزو إلى أحد فعلى هذا ينبغي تقييد جلد الآدمي الكثير في هذه المسألة بكونه رطبا ، ثم لا يخفى أن فساد الماء به بعد ذلك مقيد بكونه قليلا .

سکر

سکر سے مراد نشہ ہے اور نشہ سے مراد یہ ہے کہ عقل مغلوب ہوجائے اورہذیان غالب ہوجائے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگے۔ اگر نشہ آور شئ جامد ہے تو اس کی اتنی مقدار کا استعمال جائز ہے جس سے نشہ نہ ہو خواہ یہ مقدار پورے پروڈکٹ میں دو تین فیصد ہو یا اس سے کم یا زیادہ ہو، کیونکہ علت نشہ ہے اور جب نشہ نہیں تو حرمت بھی نہیں۔ اگر نشہ آور جزء سیال ہے اور چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک نہیں تو اس کے قدر غیر مسکر کا استعمال بھی جامد نشہ آور اشیاء کی طرح جائز ہے البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اشربہ اربعہ کے علاوہ دیگر مسکرات کا خارجی استعمال جائز ہے اور داخلی بھی استعمال بھی اس حد تک جائز ہے کہ نشہ نہ ہو۔

اگر نشہ آور شی چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک ہے تو اس کا مطلقا استعمال ناجائز ہے خواہ  اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ اور اس سے نشہ ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو۔ خوردنی استعمال کے علاوہ اشربہ اربعہ کا بیرونی استعمال بھی جائز نہیں اور جس طرح صارف کے لیے ایسی  مصنوعات کا استعمال حرام ہے  جس میں اشربہ اربعہ  میں سے کوئی ایک شراب شامل ہو ایسے ہی صانع کے لیے  بھی اس حرام شراب کا ملانا حرام ہے۔

إحياء علوم الدين - (2 / 92)

وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة فمزيل العقل البنج و الخمر وسائر المسكرات ومزيل الحياة السموم ومزيل الصحة الأدوية في غير وقتها وكأن مجموع هذا يرجع إلى الضرر إلا الخمر و المسكرات فإن الذي لا يسكر منها أيضا حرام مع قلته لعينه ولصفته وهي الشدة المطربة

خبث

خبث سے مراد یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت  انسان  اس کو طبعی طور پرناپسند کرے اور اس کا مزاج اس سے گھن کھائے اورطبیعت نفرت کرے۔ طبیعت کا کسی شی سے گھن کھانا بعض اوقات  مقدار کی کمی بیشی کے بغیر مطلق ہوتا ہے مثلا ایک صحیح فطرت انسان کو خبر  ملے کہ بھرے مٹکے میں ایک قطرہ پیشاب کا مل گیا ہے تو اس کی طبیعت استعمال پر آمادہ نہ ہوگی۔ کبھی مقدار کا کم یا زیادہ ہونا خبث کے ہونے یا ہونے  میں اثر رکھتا ہے مثلا پوری دیگ میں ایک مکھی کے گرنےسے طبیعت گھن نہیں کھاتی، اس لیے دیگ کا استعمال جائز ہوگا، لہذا جن اشیاء کی حرمت خبث کی بنا پر ہو اگر وہ شی خود یا اس سے بنا ہوا کوئی جزء ترکیبی کسی پروڈکٹ میں ملایا گیا ہو مگر مقدار میں اتنا کم ہو  کہ طبعیت کو  اس سے  گھن نہ آئے تو اس کا استعمال جائز ہوگا۔

مگراس پر اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فقہاء نے  اس سلسلے میں جو  مثالیں دی ہیں وہ عام طور وہ ہیں جن سے بچنا مشکل ہے مثلا دیگ میں مکھی گرجائے یا شوربے میں چیونٹی پک جائے یا کسی چیز میں خود ہی کوئی کیڑا نکل آئے، بالفاظ دیگر مچھر یا چیونٹی خود گرکر مرجائے تو اس کا کھانا اور بات ہے اور خود کیڑے مارمار کر شامل کرنا ایک دوسری بات ہے۔ آج کل یہی دوسری صورت اختیار کی جاتی ہے کیونکہ کیڑوں مکوڑوں کی باقاعدہ صنعت قائم ہوگئی ہے، ان کی افزائش کی جاتی ہے اور پھر ان سے رنگ کشید کرکےمیک اپ کے سامان ، ادویہ اورغذائی مواد میں ڈالا جاتا ہے۔ مثال کے طور کوچنیل کیڑے سے کارمائن اور لیک نامی کیڑے سے شیلاک  نکالا جاتا ہے اور پھر مختلف مصنوعات میں شامل  کیا جاتا ہے تو کیا صرف اس بنا پر کیڑوں مکوڑوں کے استعمال کی اجازت ہوگی کہ مجموعے میں جاکر اس کا خبث معلوم نہیں ہوتا اور استقذار ختم ہوجاتا ہے؟

اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تو صانع کے لیے مستخبث اشیاء  کو مصنوعات میں ملانا جائز معلوم نہیں ہوتا۔ دوسری طرف اگر کوئی خبث رکھنے والے شئ مثلا مکھی وغیرہ دیگ میں گرجائے تو فقہاء اس بنا پر اس کا استعمال جائز قرار دیتے ہیں کہ اتنی مقدار میں استخباث نہیں ہوتا، اس طرح کی تعلیل سے معلوم ہوتا کہ جب کوئی شئ مستخبث کی حد سے نکل جائے تو اس کا استعمال جائز ہونا چاہیے۔ مگر حق بات یہ ہے کہ مکھی وغیرہ کے گرنے سے سالن کے استعمال کا جائز ہونا مراد ہے کیونکہ مکھی پاک ہے، خود مکھی کا کھانا جائز نہیں ہوتا کیونکہ مکھی میں خبث کی علت بھی ہے اور خون بھی ہےاور مکھی کا خون اگر چہ سائل نہیں مگر کھانا اس کا بھی جائز نہیں:

إحياء علوم الدين - (2 /،93 ،92)

وما لم يذبح ذبحا شرعيا أو مات فهو حرام ولا يحل  إلا ميتتان السمك والجراد وفي معناهما ما يستحيل من الأطعمة كدود التفاح والخل والجبن فإن الاحتراز منهما غير ممكن فأما إذا أفردت وأكلت فحكمها حكم الذباب والخنفساء والعقرب وكل ما ليس له نفس سائلة لا سبب في تحريمها إلا الاستقذار ولو لم يكن لكان لا يكره فإن وجد شخص لا يستقذره لم يلتفت إلى خصوص طبعه فإنه التحق بالخبائث لعموم الاستقذار فيكره أكله كما لو جمع المخاط وشربه كره

ذلك وليست الكراهة لنجاستها فإن الصحيح أنها لا تنجس بالموت إذ أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم بأن يمقل الذباب في الطعام إذا وقع فيه // حديث الأمر بأن يمقل الذباب في الطعام إذا وقع فيه رواه البخاري من حديث أبي هريرة //

 وربما يكون حارا ويكون ذلك سبب موته ولم تهرت نملة أو ذبابة في قدر لم يجب إراقتها إذ المستقذر هو جرمه إذا بقي له جرم ولم ينجس حتى يحرم بالنجاسة وهذا يدل على أن تحريمه للاستقذار

۔۔۔ وليست الكراهة لنجاستها فإن الصحيح أنها لا تنجس بالموت إذ أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم بأن يمقل الذباب في الطعام إذا وقع فيه // حديث الأمر بأن يمقل الذباب في الطعام إذا وقع فيه رواه البخاري من حديث أبي هريرة //

 وربما يكون حارا ويكون ذلك سبب موته ولم تهرت نملة أو ذبابة في قدر لم يجب إراقتها إذ المستقذر هو جرمه إذا بقي له جرم ولم ينجس حتى يحرم بالنجاسة وهذا يدل على أن تحريمه للاستقذار

بہشتی زیور‘ میں ہے:
’’جاننا چاہئے کہ شریعت مطہرہ میں استعمال کے منع ہونے کی وجہیں چار ہیں: نجاست...مضر ہونا ...استخباث، یعنی طبیعت سلیمہ کا اس سے گھن کرنا، جیسے کیڑے مکوڑوں میں،اور نشہ لانا‘‘۔     (بہشتی زیور، نواں حصہ، ص: ۹۸، میر محمد کتب خانہ)
مذکورہ بالا عبارت سے کچھ پہلے ایک دوسرے مقام پر ہے:
’’...اسی طرح سرکہ کو مع کیڑوں کے کھانا یا کسی معجون وغیرہ کو جس میں کیڑے پڑگئے ہوں، مع کیڑوں کے یا مٹھائی کومع چیونٹیوں کے کھانا درست نہیں اور کیڑے نکال کر درست ہے۔‘‘ (بہشتی زیور،نواں حصہ، ص: ۱۰۴)

(5) فتاویٰ مظاہر العلوم میں ہے:
’’مکھی غیر ذی دم مسفوح ہے، لہٰذا جب سالن میں گر جاتی ہے تو اس کے مرنے سے سالن ناپاک نہیں ہوتا۔ لہذا اس سالن کا کھانا شرعاً جائز قرار پایا ، اور چونکہ مکھی منجملہ خبائث کے ہے اور تمام خبائث کا کھانا حرام ہے، لہٰذا مکھی کا کھانا اور کھلانا حرام ہوگا۔ کتاب الحظر والإباحۃ، باب الأکل والشرب، ص:۲۹۸،ج:۱،ط: مکتبۃ الشیخ)

نجاست:

 پروڈکٹ میں کوئی نجس چیزملانا نہ تو صانع کے لیے جائز ہے اور نہ ہی صارف کے لیے اس کا استعمال جائز ہے کیونکہ نجس چیز کے ملنے سے مجموعہ نجس ہوتا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حرام مقدار میں کم اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ نجس جزء پر مشتمل پروڈکٹ کا جس طرح داخلی استعمال منع ہے اسی خارجی استعمال بھی جائز نہیں البتہ اس اصول سے استثنا ء صرف اس صورت میں مل سکتا ہے جب نجس چیز نہ چاہتے ہو کسی شی میں شامل ہوجائے اور اس سے بچنا بھی مشکل ہو اور خود نجس چیز مقدار میں بہت معمولی ہو مثلا چوہے کی مینگنی گندم میں پس جائے یا دودھ دوہتے وقت ایک دو مینگیاں دودھ میں گرجائیں اور ٹوٹنے سے پہلے نکال دی جائیں اور دودھ میں اس کا کوئی اثر بھی ظاہر نہ ہو۔

حاصل بحث

حاصل یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی شئ مضرت یا خبث  کی وجہ سے حرام ہو مگر مجموعے میں جاکر اس کا خبث دور ہوجائے اور مضرت نہ رہے تو اس کا استعمال جائز ہوگا۔

اگر کسی چیز میں چار حرام شرابوں میں سے کوئی ایک شامل ہو تو وہ پروڈکٹ نجس ہونے کی بنا پر حرام ہے، اگر چہ اس  میں نشہ نہ ہو۔

اگر پروڈکٹ میں انسان کا کوئی جزء  یا اس سے ماخوذ کوئی جزءشامل ہے یا کوئی نجس شئ شامل ہے تو اس کا استعمال جائز نہیں۔

اگر پروڈکٹ میں کوئی نجس العین شامل ہو یا نجس لغیرہ جس شامل ہو جس میں نجاست کا غلبہ ہو تو اس کا داخلی او رخارجی دونوں کا طر ح کا استعمال ناجائز ہوگا۔ اگر نجس لغیرہ شامل ہو اور نجاست مغلوب ہو تو اس کا بیرونی استعمال جائز ہوگا مگر اندورنی استعمال جائز نہ ہوگا۔

رد المحتار - (2 / 476)

مبحث في بول الفأرة وبعرها وبول الهرة ( قوله : وكذا بول الفأرة إلخ ) اعلم أنه ذكر في الخانية أن بول الهرة والفأرة وخرأها نجس في أظهر الروايات يفسد الماء والثوب .ولو طحن بعر الفأرة مع الحنطة ولم يظهر أثره يعفى عنه للضرورة .وفي الخلاصة : إذا بالت الهرة في الإناء أو على الثوب تنجس ، وكذا بول الفأرة ، وقال الفقيه أبو جعفر : ينجس الإناء دون الثوب .ا هـ .قال في الفتح : وهو حسن لعادة تخمير الأواني ،وبول الفأرة في رواية لا بأس به ، والمشايخ على أنه نجس لخفة الضرورة بخلاف خرئها ، فإن فيه ضرورة في الحنطة .ا هـ .والحاصل أن ظاهر الرواية نجاسة الكل .

لكن الضرورة متحققة في بول الهرة في غير المائعات كالثياب ، وكذا في خرء الفأرة في نحو الحنطة دون الثياب والمائعات .وأما بول الفأرة فالضرورة فيه غير متحققة إلا على تلك الرواية المارة التي ذكر الشارح أن عليها الفتوى ، لكن عبارة التتارخانية : بول الفأرة وخرؤها نجس ، وقيل بولها معفو عنه وعليه الفتوى .وفي الحجة الصحيح أنه نجس .ا هـ .ولفظ الفتوى وإن كان آكد من لفظ الصحيح إلا أن القول الثاني هنا تأيد بكونه ظاهر الرواية فافهم ، لكن تقدم في فصل البئر أن الأصح أنه لا ينجسه وقد يقال : إن الضرورة في البئر متحققة ، بخلاف الأواني ؛ لأنها تخمر كما مر فتدبر

ملاحظہ: مضمون ہذا قلم بند کرتے وقت مفتی سفیر الدین ثاقب کی اس موضوع پر تحریر بھی پیش نظر رہی ہے۔ جس پر راقم السطور ان کا ممنون ومشکورہے۔



No comments:

Post a Comment