حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول کب ہوگا؟
سوال # 27078
حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول کب ہوگا؟ کہاں ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ کیوں ہوگا؟ آپ اس دنیا میں آکر کیا کریں گے؟ نیز امام مہدی کون ہیں؟کیا وہی عیسی علیہ السلام ہی ہیں؟ کیا کوئی الگ شخصیت کا نام ہے؟کیا وہ اس دنیا میں پہلی بار آئیں گے؟ ان سوالات کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیں۔ کیا یاجوج ماجوج اور دجال کا زمانہ ایک ہی ہے؟ یا ان میں کتنا فاصلہ ہے؟ اس طرح کی پوری معلومات بتائیں۔
Published on: Nov 6, 2010
جواب # 27078
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 1967=1571-11/1431
آخری زمانہ میں قربِ قیامت حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور ہوگا، ان کے ظہور کے ۷/ سال بعد دجال نکلے گا، اس کے بعد اس کو قتل کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ وإنہ سینزل قبل یومِ القیامة کما دلت علیہ الأحادیث المتواترة (تفسیر ابن کثیر مع البغوي) (آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۱/۲۷۴)
(۲) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق میں ہوگا، عین اس وقت جب کہ نماز فجر کی اقامت ہوچکی ہوگی، جامع دمشق کے شرقی منارہ کے پاس نزول فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام اپنی دونوں ہتھیلیاں فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے، ان کی تشریف آوری پر امام مہدی (جو مصلے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے، مگر آپ علیہ السلام امام مہدی کو حکم فرمائیں گے کہ نماز پڑھائیں کیونکہ اس نماز کی اقامت آپ کے لیے ہوئی ہے: کذلک إذ بعث اللّہ المسیح بن مریم فینزل عند المنارة البیضاء شرقي دمشق بین مہزودتین واضعًا کفیہ علی أجنحة ملکین․ (مشکاة شریف: ۴۷۳) مستفاد آپ کے مسائل او ران کا حل: ۱/۷۸۱
.......
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث 13 (نماز امام مہدی کی اقتداء میں ادا کریں گے)
حیات عیسی علیہ السلام پر احادیث (نماز امام مہدی کی اقتداء میں ادا کریں گے)
حدیث نمبر:۱۳…
مسلم کی طویل حدیث میں ہے۔
’’عن جابرؓ قال قال رسول اﷲﷺ… فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرہم تعال صلّ لنا۰ فیقول لا ان بعضکم علیٰ بعض امراء تکرمۃ اﷲ ہذا الامۃ‘‘
(مشکوٰۃ ص۴۸۰، باب نزول عیسیٰ)
تصدیق… روایت کیا اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں جس کی عظمت وصحت کو مرزاقادیانی نے قبول کر لیاہے۔
(ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲) کہ:
’’حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں… پس نازل ہوں گے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ مسلمانوں کا امیر انہیں کہے گا۔ آئیے ہمیں نماز پڑھائیے۔ وہ فرمائیں گے نہیںَ یہ شرف صرف امت محمدی ہی کو ہے کہ وہ ایک دوسرے کے امیر وامام ہوں۔‘‘
۱… اس حدیث نے فیصلہ کر دیا ہے کہ حدیث نمبر۱۲ میں ’’وامامکم منکم‘‘ کے قادیانی معنی سراسر افتراء اور دجل وفریب ہے۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز میں مسلمانوں کی امامت سے انکار کر کے اور امامت نماز کا حق صرف امت محمدی میں سے بعض کے حوالہ کر کے اپنا انجیلی نبی اور عیسیٰ بنی اسرائیلی ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ صاف فرما رہے ہیں کہ میں تمہاری امامت نہیں کروں گا۔
کیا مرزاقادیانی بھی مسلمانوں کی امامت سے انکار کرتے تھے؟ سبحان اﷲ! اس دماغ کے آدمی کھڑے ہوکر ’’انا المسیح الموعود‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور لطف یہ کہ بعض علوم عربیہ سے بے بہرہ۔ عوام الناس بالخصوص انگریزی تعلیم یافتہ اس آواز پر لبیک کہنے لگ جاتے ہیں۔ کاش وہ علوم عربیہ اور قرآن واحادیث سے واقف ہوتے تو یقینا مرزائی دجل وفریب کا شکار نہ بنتے۔
۳… یہی مضمون سنن ابن ماجہ میں موجود ہے۔ یہ وہی سنن ابن ماجہ حدیث کی کتاب ہے۔ جس کا مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں بہت عظمت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔
’’عن ابی الامامۃ الباہلیؓ قال قال رسول اﷲﷺ امامہم رجل صالح تقدم یصلی لہم الصبح اذ نزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فرجع ذالک الامام یمشی القہقری لیتقدم عیسیٰ علیہ السلام فیضع یدہ عیسیٰ بین کتفیہ ثم یقول تقدم فصل فانہا لک اقیمت فیصلی بہم امامہم فاذا انصرف قال عیسیٰ افتحوا الباب فیفتح و ورأہ الدجال معہ سبعون الف یہودی… فیدرکہ عند باب لد الشرقی فیقتلہ‘‘
(سنن ابن ماجہ ص۲۹۸، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ بن مریم علیہ السلام)
ابو الامامۃ الباہلیؓ صحابی رسول اﷲﷺ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ دجال کے خروج کے زمانہ میں بیت المقدس کے لوگوں کا امام ایک نیک شخص ہوگا۔ ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر صبح کی نماز پڑھانا چاہے گا کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام صبح کے وقت آن اتریں گے۔ یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے گا تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے ہوکر نماز پڑھائیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا داہنا ہاتھ اس کے دونوں کاندھوں کے درمیان رکھ دیں گے اور امام المسلمین سے فرمائیں گے آپ ہی آگے بڑھئیے کہ یہ نماز آپ ہی کے لئے قائم ہوئی تھی۔ پھر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا۔ جب نماز سے فارغ ہوگا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ دروازہ کھول دو۔ دروازہ کھول دیا جائے گا۔ وہاں پر دجال ہوگا۔ ستر ہزار یہودیوں کے ساتھ جن میں سے ہر ایک کے پاس تلوار ہوگی… پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو باب لد شرقی کے پاس جاکر قتل کردیں گے۔
اس حدیث نے اسلامی تفسیر کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اب بھی اگر مرزائی یہی رٹ لگائے جائیں کہ ’’امامکم منکم‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام امت محمدی کے ایک بشر ہوں گے۔ تو گواس بیان کا لغو ہونا اظہر من الشمس ہوچکا ہے۔ تاہم ان معنوں کو قبول کر لیتے ہیں اور ان معنوں کو درست تسلیم کر کے مرزائی دجل کی حقیقت طشت ازبام کرتے ہیں۔ اس صورت میں پھر مطلب یہ ہوگا کہ عیسیٰ علیہ السلام جو پہلے مستقل نبی ورسول تھے اور خود ایک امت کے رسول تھے۔ اب اسی امت کے ایک فرد کی حیثیت رکھتے ہوں گے۔ گویا وہ بجائے لوگوں کو اپنی نبوت کی طرف دعوت دینے کے خود رسول کریمﷺ کی امت میں شامل ہو جائیں گے اور ایسا کرنا ان پر واجب ہوگا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے عالم ارواح میں تمام انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا ہوا ہے کہ اگر ان کی موجودگی میں حضرت محمد مصطفیﷺ تشریف لے آئیں تو ان کی نبوت پر ایمان لے آئیں اور انہیں کی تائید میں لگ جائیں۔ چنانچہ وہ آیت حسب ذیل ہے۔
’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتٔومنن بہ ولتنصرنہ قال اأقررتم واخذتم علیٰ ذالکم اصری۰ قالوا اقررنا قال فاشہدوا وانا معکم من الشاہدین
(آل عمران:۸۱)‘‘
مطلب اس آیت کا اگر ہم بیان کریں گے تو قادیانی صاحبان فوراً انکار کر دیں گے۔ ہم اس کا مطلب مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں تاکہ قادیانیوں کے لئے کوئی جائے فرار نہ رہے اور سوائے قبول کر لینے کے چارہ نہ رہے۔ مرزاقادیانی اس آیت کو (ریویو آف ریلیجنز ج اوّل نمبر۵ ص۱۹۶) پر درج کر کے لکھتے ہیں۔
’’اس آیت میں بنص صریح ثابت ہوا کہ تمام انبیاء جن میں حضرت مسیح علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ مامور تھے کہ آنحضرتﷺ پر ایمان لائیں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم ایمان لائے… حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس آیت کی رو سے ان مؤمنین میں داخل ہیں جو آنحضرتﷺ پر ایمان لائے۔‘‘
پھر اسی آیت کو درج کر کے یوں ترجمہ کیا ہے۔
’’اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہوگئے۔ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کر لیا۔ تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۳۰، خزائن ج۲۲ ص۱۳۳)
علاوہ ازیں اسی آیت کے متعلق مرزاقادیانی نے لکھا ہے قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرتﷺ کی امت میں دخل ہے۔ جیسے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’لتؤمنن بہ ولتنصرنہ‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۳۳، خزائن ج۲۱ ص۳۰۰)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا امت محمدی میں شامل ہونے کے لئے
انجیل برنباس میں جس کے معتبر ہونے پر مرزاقادیانی نے (سرمہ چشمہ آریہ ۲۳۹تا۲۴۳، خزائن ج۲ ص۲۸۷تا۲۹۳) پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ دعا درج ہے۔
’’یا رب بخشش والے اے رحمت میں غنی تو اپنے خادم کو قیامت کے دن اپنے رسول کی امت میں ہونا نصیب فرما۔‘‘
(انجیل برنباس فصل ۲۱۲، آیت۱۴)
پس اگر بفرض محال ہم قادیانی معنی اور تفسیر درست تسلیم کر لیں تو بھی مرزاقادیانی کے مسیح موعود بننے کی گنجائش کا امکان نہیں۔ پھر اس کا مطلب صاف ہے کہ اے لوگو! گھبراؤ نہیں تمہارے لئے خوشی اور مسرت کا مقام ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسا اولوالعزم رسول بھی تمہاری طرح میرا امتی بن کر رہے گا۔ اس سے امت محمدی کو اس کے عالی مرتبہ ہونے کی بشارت کا اعلان ہے اور واقعی ہمارا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیں میں سے ایک ہوں گے۔ یعنی امت محمدی میں شامل ہوکر رسول کریمﷺ کے دین کی خدمت کریں گے۔
پس حدیث کے خواہ اسلامی معنی قبول کریں۔ خواہ مرزائی بہرحال مرزاقادیانی مسیحیت سے ہاتھ دھولیں.
No comments:
Post a Comment