Tuesday, 11 September 2018

کھلا خط بنام عالمی مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل صاحب

بہترین تحریر: ہم میں سے ہر شخص پڑھے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں

کھلا خط بنام عالمی مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل صاحب

السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
حضرت والا! اللہ نے آپ سے پوری دنیامیں تبلیغ دین کا کام لیا ہے اور لے رہا ہے اور دعا ہے اللہ مزید لیتا رہے آپ سینکڑوں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے ہیں میری چند گزارشات جوکہ درد دل بن کر کئی دنوں سے میرے سینے میں لاوہ بن رہی ہیں قریب ایک ہفتہ کی دلی کشمکش کے بعد آج آپ کی خدمت میں لکھنے کی جسارت کررہا ہوں.
تبلیغی جماعت کے بزرگوں نے جماعت کے جو اصول متعین فرمائے ہیں ان پر چلنا بھی امیر کی اطاعت کے زمرے میں آتا ہے اور اس وقت امیر کی اطاعت کی پابندی جتنی سختی سے تبلیغی جماعت میں کروائی جاتی ہے کسی بھی دینی جماعت میں نہیں ہے اور یہی وجہ تبلیغی جماعت کی کامیابی کی ہے
حضرت والا!.... آپ  بیانات میں چھ نمبر سے باہر کی بات تو کرنے کا اصولی حق رکھتے ہیں مگر تاریخ کی آمیزش آپ کے بیانات پر ہاوی ہوچکی ہے آپ اصول دین کو دوسرے نمبر پر لے آئے اور تاریخ کو پہلے نمبر پر۔۔۔۔۔۔میری معلومات کے مطابق آپ نے ایک نجی محفل میں تاریخ سے مغلوب الحال ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے  اتنا ظلم اسلام کے ساتھ کسی نے نہیں کیا جتنا کہ تاریخ دانوں نے اسلاف کی نفرت کا بیج دلوں میں مجروح تاریخ نے ہی بویا ہے. صحابہ اکرام جیسی مقدس جماعت پر گھناونے اعتراضات مجروح تاریخ نے ہی لگائے ہیں،
یاد رہے اھلسنت کے اصول کے مطابق تاریخ کی وہ بات قبول ہوگی جو قرآن و سنت کے تابع ہوگی لکھنے والا کوئی بھی ہو!  قرون اولی میں تفسیر حدیث اور فقہ پر تو اکابر امت کی گرفت مضبوط رہی اور رجال اللہ اس کام کیلئے مختص رہے جس کے نتیجے میں آج بھی دین محفوظ ہے مگر روز اول سے تاریخ کی تدوین کیلئے نا کوئی اصول وضع ہوا اور نا ہی افراد کا انتخاب ہوا اکابرین امت مسلسل جہاد فی سبیل اللہ  میں مصروف رہے اور روافض و نواصب تاریخ لکھنے میں مگن رہے جس کا خمیازہ آج چودہ سو سال بعد بھی امت بھگت رہی ہے،
جس کی مثال امام طبری، امام مسعودی صاحب مستدرک حاکم نوراللہ شوستری یعقوبی جیسے مؤرخین ہیں جنکی روایات و تحقیقات کو لیکر امت آج بھی بھٹک رہی ہے اور تاریخ کو قرآن وسنت پر پرکھنے کا اصول بھول چکی ہے اگرچہ علمائے امت نے تاریخ کے معیار کو کافی بلند کیا ہے مگر تاریخ تاریخ ہی ہے
حضرت! اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں
ایک تقریر میں آپ نے کھڑے ہوکر بیان کرتے ہوئے پانی مانگا اور کھڑے ہی پی لیا پھر خود ہی تاریخ اسلام میں پہلی دفعہ نئی تحقیق بتائی کہ اسلام میں آسانی ہے مشکل نہیں ہے حضرت علی سے کھڑے ہوکر پانی پینا ثابت ہے، اس پر جتنی لے دے ہوئی وہ ہم جیسے آپ کے معتقدین نے بھگتی آج تک تمام محدثین نے متفقہ طور پر کھڑے ہوکر پانی پینے کو خلاف سنت قراردیا اور آپ نے عملا اجازت دیدی نہ حوالہ دیا نہ ثبوت دیا تاکہ ہم جیسے کم علم وکم فہم لوگوں کا منہ بھی بند کرسکیں اور خود بھی کھڑے ہوکر پی سکیں
اسی طرح آپ نے شھادت حسین پر جو بیان فرمایا تھا اس میں شیعوں کی وہ تمام موضوع روایات پڑھ ڈالیں جنکو اکابرین اھلسنت متفقہ طور پر رد کرچکے ہیں، آپ کا وہ بیان اھلسنت سے زیادہ اھل تشیع  سنتے ہیں اور اھلسنت پر اپنی حقانیت کی دلیل بناکر پیش کرتے ہیں،
چند سال پہلے آپ نے گلگت کے امام باڑے میں جو بیان فرمایا تھا  تو آپ کے قدموں کی برکت سے آٹھ سال سے بند امام باڑہ  دوبارہ تشیع کی تبلیغ کیلئے ہمیشہ کیلئے کھل گیا پھر آپ نے ایک دستر خوان پر بیٹھ کر شیعہ کے ساتھ کھانا بھی کھایا جس کی تصاویر موجود ہیں یقینا وہ شیعہ کا ہی ذبیحہ ہوگا، اب آپ ہی اس پر روشنی ڈالیں گے کہ آپ کے ہاں شیعہ کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام! گستاخی معاف! جنازے کا تو جواز آپ نے ایک بیان میں دیدیا جس کی تازہ ویڈیو چل رہی ہے حوالہ تمام فتاوی جات میں ہے
اسی طرح آپ نے اپنے مدرسہ جامعہ الحسنین تلمبہ میں ایک متنازع بیان دیا تھا جس نے پوری دنیا میں شہرت پائی تھی کہ شیعہ مسلمان ہے اور مولانا مودودی رحمہ اللہ اسلام کے عظیم محقق عالم دین ہیں،  مودودی کے بارے میں فرمایا، اس نے اسلام کی بڑی خدمت کی (اسکی خدمت دیکھنی ہو تو شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کی کتاب فتنہ مودودیت کا مطالعہ فرمائیں) اور شیعہ کے کافر نا ہونے پر آپ نے جو دلیل پیش فرمائی اس دلیل نے پوری امت کے تمام محدثین مناظرین اور علماء کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا آپ نے فرمایا تھا بریلوی حضرات ہمیں کافر کہتے ہیں تو اس سے کیا ہم کافر ہوجاتے ہیں؟ بالکل نہیں اسی طرح شیعہ صحابہ کرام کو کافر کہتے ہیں اس وجہ سے شیعہ کافر کیسے ہوگئے! دعوے کی طرح آپ کی دلیل بھی لچر تھی پھر اس کے بعد کیا ہوا آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں اللہ درجات بلند کرے امام اھلسنت شھید اسلام علامہ علی شیر حیدری رحمہ اللہ کے جو فورا آپکی وہ تقریر لیکر امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوھاب دام ظلہم کے پاس گئے تھے اور گزارش کی تھی کہ حاجی صاحب! علماء دیو بند نے فتوے دیئے اور ہم سپاہ صحابہ والوں نے صحابہ کرام کے دفاع میں ہزاروں جانیں قربان کردیں اور آج مولانا طارق جمیل صاحب نے ضروریات دین کا ضروری جزو مٹاتے ہوئے ایک مرتد فرقے کو مسلمان کہہ دیا! کیا تبلیغی جماعت کا یہی اصول ہے؟ پھر حاجی صاحب کے حکم پر آپ نے امام اھلسنت سے رابطہ کیا اور حیدری شھید سے فون پر 28 منٹ کی طویل علمی بحث کے بعد اپنی غلطی کا عتراف کیا تھا تو حضرت نے فرمایا تھا مولانا صاحب! آپ نے گستاخان اصحاب محمد ﷺ  کو علی الاعلان مسلمان کہا ہے اور اب آپ فون پر مجھ سے معافی مانگ رہے ہیں یہ مداوا نہیں ہے آپ بھرے جلسہ میں اپنے اس بیان کی تردید کریں اور وہ ریکارڈنگ حکماً پوری دنیا میں پہنچائیں تو آپ نے ایساہی کیا اور پھر تیس کاروں کا قافلہ لیکر فیصل آباد سے جامعہ حیدریہ خیرپور میرس سندھ پہنچے سہ روزہ لگانے۔۔۔۔۔۔۔ اور وھاں آپ نے علی الاعلان فرمایا علامہ صاحب نے میری توجہ اس طرف دلائی واقعتاً صحابہ کا منکر کافر ہے اور مودودی گمراہ تھا۔۔۔۔
مگر پھر نا جانے آپ اپنا ماضی کیوں بھول گئے اور حیدری صاحب کی شھادت کے کچھ ہی عرصہ بعد فیصل آباد کے محلہ سدھو پورہ میں سہ روزہ لگانے گئے تو وہاں  مسجد کی سامنی دیوار پر خلفائے راشدین کے نام کے ساتھ حضرت معاویہ کا نام بھی لکھا ہوا تھا  تو آپ نے اپنی موجودگی  میں حکماً حضرت معاویہ کے نام پر یہ کہہ کر کوچی پھروادی کہ یہ نام مٹادو اس سے امت میں انتشار پھیلتا ہے نعوذ باللہ
حضرت والا !!!! صحابی رسول سیدنا معاویہ نے تو منتشر امت کو بیس سال تک ایسا متحد کیا تھا کہ آج تک اسکی مثال نہ ملی مگر آپ کے اس شیعہ نوازی کے عمل نے امت میں بہت بڑا ہنگامہ کھڑا کردیا تھا  جس پر آپ پورا مہینہ تنقید کا نشانہ بنے رہے۔۔۔۔۔ یاد رہےکہ آپ کے اسی عمل نامبارک سے کچھ ہی عرصہ قبل اٌسی سدھو پورہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پتلے بناکر شیعہ نے جلائے تھے جس پر بڑا ہنگامہ ہوا تھا اور سید نامعاویہ کے دفاع میں مار اور تکالیف میری مقامی جماعت نے جھیلی تھی حضرت! کیا یہ سب کچھ بھی آپکی تبلیغ کا حصہ ہے؟
آگے چلئے۔۔۔۔۔۔۔
آپکا سلگتا ہوا موضوع ہے امت میں جوڑ پیدا کرو ۔۔۔۔۔۔۔ اور اسپر آپ اتنے رحمدل ہوجاتے ہیں کہ آج کے ابوبکر اور ابوجہل میں بھی جوڑ پیدا کرنے کی عملی مشق کرتے رہتے ہیں اسوقت شاید آپکو فرقان کا مفہوم بھی بھول جاتا ہے ابوجہل سے حضور کی نفرت کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا موسی کا فرعون اتنا بڑا ظالم نہ تھا جتنا بڑا میرا فرعون یعنی ابوجہل ظالم تھا. حضور نے ابوجہل کی زندگی میں اسے ابوجہل کا لقب بھی دیا اور اسے فرعون کا کا نام بھی دیا مگر آپ کو امت کا درد کائنات کے اس کافر کے گھر لے گیا جس نے کتابیں لکھ لکھ کر سیدنا ابوبکرو عمر رضی رضی اللہ عنھما کو کافر لکھا جس نےساری زندگی صحابہ پر تبرے کی تبلیغ کی جس کے مرنے کی تصویر آپ دیکھ لو اسکے منہ سے گندگی اور پیپ بہتی نظر آرہی ہے جس کی کفریہ تبلیغ پر بیسیوں مسلمان گمراہ ہوگئے  آپ نے اس کے گھر کا کھانا بھی کھایا، گلے بھی لگایا باقی ہدایت دینا تو آپکا کام بھی نہیں ہے نا ہمارا کام ہے، وہ اللہ کا کام ہے ۔۔۔۔۔۔
مجھے یہاں استاد محترم علامہ علی شیر حیدری شھید کا وہ جملہ یاد آرہا ہے، فرمایا تھا حضور جس سے نفرت کریں تو اس سے محبت کرے،  حضور جسے دشمن سمجھیں تو اس سے پیار کرے ۔۔۔۔کیا تو حضور  سے بھی زیادہ رحم دل بنتا ہے؟؟؟
حضرت! ھمارےاوپر تو پہلے ہی اکابر کے گستاخ کا لیبل لگا ہوا ہے معاف کرنا یہ تحریر جوکہ درد دل ہے اسے کوئی اکابر کی گتساخی کہہ کے اگنور کردے تو اسکی مرضی! ہم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خاطر ماریں کھائی ہیں جیلیں کاٹی ہیں ایک نسل قربان کردی ہے ہمیں اکابر سے زیادہ امت کے کے اکابر صحابہ کرام کی حرمت عزیز ہے اگر آپ مولانا عبدالشکور لکھنوی، علامہ عبدالستار تونسوی، علامہ دوست محمد قریشی وغیرہ کو اکابر اور انکی دینی خدمات جوکہ دفاع صحابہ پر مشتمل ہے کو واقعتاً دینی خدمات سمجھتے ہو تو ہم کوئی نیا کام نہیں کررہے آپ نے تو رائیونڈ کے اصول کو بھی اس وقت بھلادیا جب آپ گلگت  کے امام باڑے میں گئے اور کراچی میں طالب جوہری کےگھر گئے تھے! ہم نے تو یہی سنا ہے کہ جماعت کی تشکیل کے وقت جو ہدایات دیجاتی ہیں انمیں سے ایک یہ ہے کہ کسی امام باڑے میں نہیں جانا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور واقعی آج تک کوئی تبلیغی جماعت امام باڑےمیں نہیں گئی
آخری تلخی۔۔۔۔۔۔
حضرت والا۔ آپکا تازہ بیان اپلوڈ ہوا ہے شاید بیان پرانا بھی ہو  بہرکیف۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک امت بن کے رہو ۔۔۔۔۔۔۔کسی آؤٹ کنٹری کا بیان ہے۔۔۔۔۔ اور کہاکہ شیعہ کو بنیان اور اسلام کو قمیص بناؤ سنی کو بنیان اور اسلام کو قمیص بناؤ یعنی شیعہ ابوبکر اور امی عائشہ کو گالیاں دل میں دیتا رہے اور اوپر سے مسلمان کہلاتا رہے اور مسلمان شیعہ کو غیرمسلم دل میں کہتا رہے  اوپر سےبھائی کہتا رہے حضرت! اگر یہی اسلام ہے تو ہمیں منافقت کی حد بھی بتادیں اور اگر شیعہ کو بنیان بناکر اسلام میں داخل کرنا ہے تو پھر مرزائی تو پہلے حقدار ٹھہرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک کو نبی مانتے ہیں اور روافض بارہ کو ۔۔۔ پھر آپ نے فرمایا پاکستان میں لوگ شیعہ کاجنازہ نہیں پڑھتے آپ ایسا نا کرنا پاکستانی مسلمان نفرت پھیلاتے ہیں آپ محبت  پھیلانا استغفراللہ العظیم مولانا! یعنی آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم کراچی، جامعہ بنوری ٹاؤن بنوریہ العالمیہ، جامعہ فاروقیہ فتاوی کی ساری کتابیں جو کہہ رہے ہیں شیعہ کا جنازہ پڑھنا پڑھانا حرام ہے وہ سب نفرت پھیلارہے ہیں؟ خدارا حضرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بینات کا مطالعہ ہی کرلیں، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز، قاسم نانوتوی رحمہم اللہ کی ھدایت الشیعہ اور لکھنوی کے قلم پر بھی نظر ثانی فرمالیں سپاہ والے تو جذباتی بے ادب بدتمیز ہوسکتے ہیں مگر اوپر ذکر کردہ تو آپ کے بھی اکابر ہیں!
اسی طرح آپ نے ایک بیان میں فرمایا مشہور حدیث  "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کی شرح میں کہ ابھی میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ ہمیں حضرت علی کو مولا علی کہنا چاہئے حضرت علی نہیں کہ یہ اٌنکاحق ہے. حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مولا صرف حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہی کہا ہے تو مولانا اس کم علم کے دل میں فوراً سوال آیا کہ پھر مولا کہلانے کے بڑے حقدار علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پہلے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے کہ آپ نے پہلے خود کو مولا فرمایا ۔۔۔۔من کنت مولاہ۔۔۔۔۔ مولا محمد ﷺ  کہنے کا خیال آپ کے دل میں کیوں نہ آیا؟ بندہ ناچیز مولا علی کہنےکا منکر نہیں ہے جب ساری امت کے علماء آپ سمیت مولا کہلارہے ہیں تو سیدنا علی کو تو مولا کہلانے کہلانے کا سرٹیفکیٹ  ملا ہوا ہے پر آپ نے جو مولا کا مفہوم بیان فرمایا وہ دوستی اور آقا کا معنی لیا ہے حالانکہ یہاں مولا بمعنی محبت ہے جس کی دلیل اسی حدیث کا اگلاحصہ ہے جو کوئی بھی نہیں پڑھتا ۔۔۔
پوری حدیث یہ ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ
اس میں محبت اور نفرت کےالفاظ واضح ہیں مگر آپ کے انداز تبلیغ سے شیعت کے امامی عقیدے کو تقویت پہنچ رہی ہے اور یہ روایت عقیدہ شیعہ میں سب سے معتبر اور پہلی دلیل سمجھی جاتی ہے جس پر تشیع کے عقیدے کی پوری عمارت کھڑی ہے حضرت! اس پر سیرحاصل تحقیق مولانا نافع  رحمہ اللہ کی ہے سیرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مطالعہ ضرور فرمائیے گا
آخر میں بندہ ناچیز اعتراف کرتا ہے کہ آپ آج کے علماء کے اکابرین میں سے ہیں متقی عابد زاھد مگر پوری امت کی طرح محفوظ عن الخطا نہیں ہیں کبھی کبھی آئینہ بھی بندے کو اس کی غلطی بتا دیتا ہے
میں آپ کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے حضرت لکھنوی کا جملہ نقل کرکےاپنی بات ختم کرتا ہوں کہ جو علماء اکابرین روافض کے  بارے میں مسلمان ہونے کا فتوی دیتے رہے انکی تشیع پر عمیق نظر نہیں تھی اس لئے وہ معذور  سمجھے جائینگے آج ہر عالم کیلئے حضرت لکھنوی کی تصانیف کا کا مطالعہ لازم ہے
والسلام
خاکپائے صحابہ و حضرات اہل بیت رضی اللہ عنہم
تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمدعمرحیدری

No comments:

Post a Comment