Friday 28 July 2017

کیا اسلام ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی اجازت دیتا ہے؟

کیا اسلام مذہب ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی اجازت دیتا ہے؟
 
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعی حکم اسلام میں یه ناجائز و حرام هی هے اس کی ایک جائز صورت بهی درج هے اگر اس شرط پر کیا گیا تو صحیح ورنه وه طریقه بهی ناجائز هوگا!!! 
پڑهئے اور جانئے
==============================
اس کی اصولی طور پر دو صورتیں بنتی هیں: یا تو "شوهر اور بیوی" کے ماده منویه لے کر یه سارا (Process) کیا جاتا هے پهر اسی مرد کی بیوی کے "رحم" میں غیرفطری طور پر پهنچایا جاتا هے. یا پهر کسی غیر مرد کا "ماده منویه" کسی غیر عورت کے رحم میں پهنچایا جاتا هے، ان دونوں کا الگ الگ حکم هے.
-----------------------------------------------------------
1: پهلی صورت:  کسی غیر مرد کے ماده منویه اور اس کے جرثومے حاصل کرکے کسی غیر عورت ، غیرمنکوحه یعنی جس سے نکاح نهیں هو اس کے رحم میں غیر فطری طریقےسے ڈالے جاتے هیں اور یه جرثومے مدت حمل تک اس اجنبی عورت کے رحم میں پرورش پاتے هیں اور مدت حمل پوری هوجانے کے بعد جب بچه پیدا هوتا هے تو عورت کو مدت حمل کی باربرداری اور تکلیف اٹهانے کی معقول اجرت دے کر مرد بچه لے لیتا هے.
یه طریقه ازروئے شرع ناجائز و حرام هے کیونکه حصول اولاد کے لئے دوهی اصول مقر ر کردیئے هیں که انسان اپنی " منکوحه یعنی اپنی بیوی سے فطری طریقه سے اور اراده اولاد کی پیدائش کا کرے یه شریعت نے همیں فرمایا هے:
الله تعالی نے فرمایا : 
فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ .......
ان سے مباشرت کرو اور جو چیز خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اس کو خدا سے طلب کرو ... سوره البقره آیت 187
اب یهاں اولاد کے خواهش مند مرد نے جس اجنبی عورت کے رحم میں اپنا ماده منویه کو ڈالا هے وه عورت اس کی بیوی نهیں یا اس کی مملوکه نهیں هے جب که قرآن پاک و حدیث کی رو سے جو عورت نکاح میں هو اس کے سوا کسی دوسری عورت کے رحم میں اپنا انسان اپنا ماده منویه داخل نهیں کرسکتا هے .
خواه وه فطری طریقه هو یا غیر فطری طریقه سے هو ڈالنا جائز نهیں هے بلکه یه انتهائی درجه سے بے غیرتی اور ذلت و رسوائی کی بات هے.
پهر دوسری بات که نسل انسانی کی پیدائش کے واسطے شریعت مطهره نے عورت کے رحم کو "کرائے یا اجرت" پر دینے یا لینے کا کوئی طریقه نهیں رکها یا اس کا کوئی تصور اسلام میں نهیں هے.
اور اس میں نسب بهی ثابت نهیں هوگا اگر کوئی غیر مرد کسی اجنبی عورت کے رحم میں کسی بهی طریقے سے اپنا ماده منویه داخل کرے بلکه اگر بچه هوا بهی تو اس کا نسب اگر وه غیرشادی شده هو تو بچے کا نسب اس عورت کی طرف هوگا اگر اس کا اپنا شوهر هو تو جس کی یه عورت هے اسی مرد سے نسب هوگا کسی بهی صورت میں بچے کا نسب اس غیر مرد کی طرف نهیں هوتا هے.
کتاب: ردالمحتار: ج 5 ص 700
نیز ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعه اولاد پیدا کرنے کا گناه اجنبی مرد اور عورت دونوں پر هوگا دونوں شرع اور قانون فطرت سے بغاوت کے مرتکب ٹهریں گے لیکن چونکه یه حقیقی زنا کی صورت میں تو نهیں اس لئے شرعی حد نهیں هوگی البته اگر اسلامی حکومت هو تو ان پر "تعزیر کی سزا یعنی زور زور سے کوڑے کی سزا عائد کرسکتی هے اور آخرت کی سزا الگ هوگی.
===================================
2: دوسری صورت:  اگر ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعه غیرفطری طریقے سے اولاد پیدا کرنے والے دونوں "میاں اور بیوی" هو
ں ان کا شرعی حکم یه هے. جس میں ایک خاص شرط هے!!
---------------------------------------------------------------
اس میں پهلی بات یه هے که شوهر کا ماده منویه عورت کے رحم میں داخل کیا گیا جو که "ناجائز" نهیں هے اگر اس طرح اس سے حمل ٹهرا تو نسب ثابت هوگا اور اس میں کوئی "تعزیری" حکم بهی نهیں هوگا اس وجه سے که یه دونوں "میاں بیوی" هے زنا کے حکم میں بهی نهیں هے اور اس میں گناه بهی نهیں هوگا.
اب اس میں ایک خاص شرط یه هے!  دونوں کے جرثومے نکالنے اور داخل کرنے میں کسی بهی ایک اجنبی "مرد و عورت" کا عمل دخل نه هو بلکه سارا تمام کام بیوی اور شوهر خود هی انجام دیں.
اگر شوهر اور بیوی کے جرثومے کو غیر فطری طریقه سے نکالنے اور عورت کے رحم میں داخل کرنے میں اگر کسی تیسرے مرد یا عورت کا عمل دخل هوتا هے. اور اجنبی مرد یا عورت کے سامنے "مخصوص اعضاء" دیکهنے یا دکهانے اور مس کرنے یا کرانے کی ضرورت پڑتی هے تو اس طرح بے حیائی اور بے پردگی کے ساته بچه پیدا کرنے کی خواهش پوری کرنے کی اجازت شرعی طور پر نهیں هوگی.
کیونکه بچه پیدا کرنا کوئی فرض یا واجب امر نهیں هے نه هی پیدا نه کرنے سے انسان کو جان یا کسی عضو کی هلاکت کا خطره هوتا هے تو گویا که کوئی شرعی ضرورت واضطراری کیفیت نهیں پائی جاتی جس سے بدن کے مستور حصے خصوصا شرمگاه کو اجنبی مرد یا عورت ڈاکٹر کے سامنے کهولنے کی اجازت دے.
لهذا ( ٹیسٹ ٹیوب بے بی ) کے اس دوسرے طریقے کو اگر کسی اجنبی مرد یا اجنبی عورت ڈاکٹر کے ذریعه انجام دیا جاتا هے تو یه جائز نهیں هے . یه "گناه کبیره" کا ارتکاب هوگا ناجائز مسائل مستورات:
و حرام هے یه طریقه.
تاهم اس سے بچے کا نسب شوهر سے ثابت هوگا اس کو باپ سے وراثت ملے گی اولاد کے احکام اس پر جاری هوں گے.
-----------------------------------------------------
مشوره عوام الناس کے لئے:
اگر کسی عورت میں کوئی بیماری هو جس کی وجه سے اولاد نه هوتی هو تب انهیں چاهیئے که وه اپنا علاج کروائے اگر کسی طرح سے بهی صحت یابی نه هوتی هو تب الله تعالی نے مرد کو اجازت دی هے وه دوسری ، تیسری چوتهی شادی بهی کرسکتا هے.
اور اگر کسی مرد میں کوئی بیماری هو اور وه علاج سے بهی صحت یاب نهیں هوتا هو تب مرد کو یه حق نهیں که وه عورت کے فطری جذبات کو قربان کردیں ایسے موقع پر عورت کو طلاق دے دینا چاهیے تاکه وه اپنی الگ زندگی گزار سکے البته اگر دونوں راضی هو تب یه الگ بات هے.
اگر عورت طلاق چاهتی هو اور ساته نه رهنا چاهے ایسے موقع پر بهی اگر مرد طلاق نه دے تو گنهگار هوگا.
کتاب جواهر الفتاوی: ج 1 ص218، فقه المعاملات: ج 3 ص 154
==========================
ٹسٹ ٹیوب بے بی کا مسئلہ.
اس کی امکانی 2 شکلیں ہیں ...
1) غیر شوہر کا مادہ منویہ عورت کے مادہ سے ملایا جائے.
2) شوہر کا مادہ اس کی بیوی کے مادہ سے ملایا جائے.
پہلی صورت نا جائز حرام ہے..
حدیث لا یحل لامرء یؤمن باللہ والیوم الآخر یسقی ماءہ زرع  غیرہ (ابو داؤد)
دوسری صورت
اس کا حکم یہ ہے کہ زوجین کے علاوہ کسی اور کے سامنے دونوں یا ان میں سے  کسی ایک کی شرمگاہ نہ کھلے اور مادہ کے اخراج نیز رحم میں داخل کرنے کا ایسا طریقہ اختیار کیا جانا اگر ممکن ہو کہ جس میں شرعی قباحتیں نہ ہو تو اصولا یہ عمل حرام نہ ہوگا.
کیونکہ اس کے حرام ہونے کی کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی. زیادہ سے زیادہ خلاف سنت اور متوارث طریقہ سے مخالف ہونے کی وجہ سے اسے مکروہ قرار دیا جاسکتا ہے..
لیکن اولاد کا ہونا صرف اسی طریقہ پر موقوف ہو تو واحد ذریعہ ہونے کی وجہ سے یہاں کراہت کا رفع ہو جانا بھی مستبعد نہیں..
نیز یہ بہی ضروری ہوگا کہ شوہر عزل کے طریقہ سے (نہ کہ استمناء بالید کے طریقہ سے) اپنا مادہ اکہٹا کر کے اور پہر وہ خود ہی (نہ کی ڈاکٹر و طبیب) کسی ٹسٹ ٹیوب یا انجکشن سے اپنی بیوی کے رحم میں داخل کردے تو یہ شکل جائز ہوگی...
البتہ اسلام کی اصل سادگی سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے نا پسندیدہ کہا جاسکتا ہے...
ماخوذ از موجودہ زمانہ کے مسائل کا شرعی حل.
مولانا برھان الدین سنبھلی دامت برکاتہم
کتبہ العبد محمد عفی عنہ
.....
متفرقات - حلال و حرام
India
سوال # 46511
کیا اسلام مذہب میں کسی بھی طرح سے ایک ایسے انسان کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی اجازت دیتا ہے جو کبھی بھی قدرتی طریقے سے ایک اولاد حاصل نہیں کرسکتا؟ اور وہ دوسروں کی اولاد کو گود بھی لینا نہیں چاہتا ہے؟ کیوں کہ پیارے ہمیشہ پیارے ہی ہوتے ہیں۔
میرے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی مجھے ایک نیک اولاد عطا فرمائے۔ 
Published on: Aug 17, 2013
جواب # 46511
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1185-1099/N=10/1434
(۱) ٹیسٹ ٹیوب بے بی میں اگر میاں بیوی کے علاوہ کسی اور کا نطفہ یا بیضہ لیا جائے تو مذہب اسلام میں یہ سخت حرام وناجائز ہے، اور اگر نطفہ اور بیضہ دونوں کسی میاں بیوی کے ہوں لیکن حصول اولاد کی کاررائی میں کوئی مرد ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر عورت کی شرمگاہ کو دیکھے یا اس میں ہاتھ وغیرہ لگائے یا داخل کرے تو شریعت میں یہ بھی ناجائز ہے۔ اور اگر خود شوہر سارا طریقہ سیکھ کر اپنا نطفہ بیوی کی بچہ دانی میں رکھے تو یہ جائز ہے، البتہ شوہر اپنا نطفہ مشت زنی کی بجائے بیوی سے صحبت کرکے عزل کے ذریعہ نکالے کیونکہ مشت زنی طبی اعتبار سے مضر ہونے کے ساتھ شرعاً ناجائز بھی ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے آپ کو نیک وصالح اولاد عنایت فرمائیں۔ آمین
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
......
ٹیسٹ ٹیوب بے بی
مسئلہ (۵۳۳): اگر کسی شخص کو اولاد نہ ہوتی ہو، لیکن کوئی ڈاکٹر شوہر سے یہ کہے کہ تم اپنے ہاتھ سے مادۂ منویہ نکال کر دو، تمہاری اہلیہ کی بچہ دانی میں کسی آلہ کے ذریعہ منتقل کریں گے، اور اس عمل سے امید ہے کہ بچہ پیدا ہوجائے گا، تو مشت زنی کی اجازت تو نہیں ہے(۱)، البتہ بوقتِ صحبت عزل کا طریقہ اختیار کرکے منی محفوظ کی جاسکتی ہے،اولاد حاصل کرنے کا یہ طریقہ ضرورۃً جائز ہے، جب کہ شوہر خود یہ عمل کرے(۲)، مگر یہ طریقہ غیر فطری اور مکروہ ہے، اور ڈاکٹر سے ایسا عمل کرانا قطعی حرام ہے، کیوں سترِ عورت فرض ہے، اور عورت کی شرمگاہ یہ سترِ غلیظ ہے۔(۳)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ کنز العمال ‘‘ : عن أنس رضي اللّٰہ عنہ ، عن النبي ﷺ : ’’ سبعۃ لا ینظر اللّٰہ إلیہم یوم القیامۃ ، ولا یزکّیہم ، ولا یجمعہم مع العالمین ، یدخلہم النار أول الداخلین إلا أن یتوبوا ، فمن تاب تاب اللّٰہ علیہ ؛ الناکح یدہ ، والفاعل والمفعول بہ ‘‘ ۔
(۱۶/۳۹ ، رقم الحدیث : ۴۴۰۳۳)
(۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ :{فمن اضطرّ في مخمصۃ غیر متجانف لإثم ، فإن اللّٰہ غفور رحیم} ۔ (سورۃ المائدۃ :۲)
ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : ’’ الضرورات تبیح المحظورات ‘‘ ۔ (۱/۳۰۷)
ما في ’’ فقہ النوازل ‘‘ : إن الأسلوب الأول الذي توخذ فیہ النطفۃ الذکریۃ من رجل متزوج ، ثم تحقن في رحم زوجتہ نفسہا في طریقۃ التلقیح الداخلي ، ہو أسلوب جائز شرعاً ۔
(۴/۸۰ ، حکم التلقیح الاصطناعي)

....
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ خلافِ شریعت ہے، اس لئے اکثر علماء اسے ناجائز قرار دیتے ہیں؛ البتہ بعض علماء ومفتیان نے اس شرط کے ساتھ مجبوری میں اِس کی اجازت دی ہے کہ اِس عمل کو انجام دینے میں کسی تیسرے کا دخل نہ ہو، اس لئے اگر دین دار مسلمان ڈاکٹر کسی بے اولاد جوڑے کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ ٹیسٹ ٹیوب کے علاوہ ان کے لئے اولاد کے حصول کی کوئی اور شکل نہیں ہے، تو مذکورہ شرائط کے ساتھ اجازت دی جاسکتی ہے۔  
(مستفاد فتاوی محمودیہ ۲۷؍۳۴۹ میرٹھ، فقہی مضامین ۳۰۹، اسلام اور جدید میڈیکل مسائل ۱۶۰)
الحمل قد یکون بإدخال الماء الفرج بدون جماع مع أنہ نادر۔ (البحر الرائق ۴؍۱۵۶ کوئٹہ)
إن الحبل قد یکون بإدخال الماء الفرج دون جماع فنادر۔ (فتح القدیر ۴؍۳۱۵) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۵؍۲؍۱۴۳۵ھ
از کتاب النوازل
.....
اس سلسلہ میں احسن الفتاوی میں مزید تفصیل ہے؛

No comments:

Post a Comment