Thursday 6 July 2017

حجامہ؛ پچھے لگوانا

حجامہ عربی زمان کا لفظ ہے جس کے معنی کھینچنا / چوسنا کے ہیں۔ اس کو اردو میں پچھنا لگانا یا سنگی لگواناکہتے ہیں۔حجامہ دنیا میں تیزی سے مقبول ہوتا ہوا اسلامی طریقہ علاج ہے جسے مغربی ممالک اور غیر اسلامی ممالک میں (کپینگ تھراپی ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اسلام کی ایجاد نہیں ہے لیکن رسول اکرم ﷺ نے اسی کو اختیار کیا اور پسند فرمایا اس طریقہ علاج میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے جسم کے مختلف مقامات پر ہلکی ہلکی خراشیں لگا کر مخصوص قسم کے ٹرانسپیرنٹ کپ لگا دئیے جاتے ہیں خراش لگی ہوئی جگہوں سے خون کی بوندیں نکل کر کپ میں جمع ہوتی ہیں جنہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ اور مریض خود کو ہلکا پھلکا اور تر و تازہ محسوس کرنے لگتا ہے ساتھ ہی اس کا مرض بھی دور ہوجاتا ہے۔
حجامہ کی تاریخ
حجامہ سے علاج کا طریقہ تین سو سال قبل مسیح سے بھی پرانا ہے۔اس طریقہ علاج کا ذکر ابرس پپرسنامی کتاب میں بھی ہے۔ جو 1550 قبل مسیح کی مشہور طبعی کتاب ہے۔
اسلام میں حجامہ کا مقام
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ہے اور ایک بہترین علاج بھی ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود پچھنے لگوائے اور دوسروں کو ترغیب دی ۔ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں حجامہ پر پانچ ابواب لائے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب معراج پر تشریف لے گئے تو ملائکہ نے ان سے عرض کی کہ اپنی امت سے کہیں کہ وہ پچھنے لگوائیں
ترجمہ: حبارہ بن مغلس، کثیر بن سلیم، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شب معراج میں جس جماعت کے پاس سے بھی میں گزرا اس نے یہی کہا اے محمد! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی امت کو پچھنے لگانے کا حکم فرمائیے
حجامہ کی افادیت
سستا طریقہ علاج حجامہ کے ذریعے کینسر، بانجھ پن،نفسیاتی امراض، پوشیدہ امراض سمیت لاتعداد ایسے امراض کا علاج بھی کم مدت اور انتہائی کم پیسوں میں کیا جاسکتا ہے جس کے لئے لوگ دس دس یا پندرہ پندرہ لاکھ روپے خرچ کردیتے ہیں اور علاج پھر بھی نہیں ہو پاتا ۔حجامہ کے ذریعے ایسے تمام امراض کا خاتمہ محض چند ہزار روپوں میں کیا جا سکتا ہے۔
کم مدت میں علاج
 حجامہ کے نتائج فوراً ہی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔عام طور پر اگر کسی کو کوئی بیماری نہیں ہے اور وہ سنت نبوی ﷺ کے طور پر حجامہ کرواتا ہے تو حجامہ چند منٹوں میں ہی وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگتا ہے۔ ہر صحت مند انسان کو مہینے میں ایک بار سنت کے طور پر گدی پر حجامہ ضرور کروانا چاہئیے جس سے 72 ایسی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے جن کا عام طور پر انسان کو خود بھی علم نہیں ہوتا۔ دیگر علاج کے طریقوں میں مریض مسلسل زیرِ علاج رہتا ہے ، دواؤں کا ستعمال کرتا رہتا ہے اور پرہیز بھی جاری رہتا ہے۔ لیکن حجامہ میں بیماری کی نوعیت کے مطابق مریض کو 7 دن 10 دن یا 15 دن بعد بلایا جاتا ہے اور چند ملاقاتوں میں بڑے سے بڑے امراض کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
تکلیف
 چونکہ حجامہ میں کپ لگانے سے پہلے کپ لگائے جانے والے مقام پر ہلکی ہلکی خراشیں لگائی جاتی ہیں تاکہ وہاں سے خون کی بوند باہر آسکے اس لئے عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہوگا جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے حجامہ عام طور پر پشت پر کیا جاتا ہے۔
‫مریض کو اس وقت حیرت ہوتی ہے جب اسے پتا چلتا ہے کہ یہ عمل مکمل ہو چکا ہے اور اسے کوئی تکلیف بھی نہیں ہوئی
حجامہ احادیث کی روشنی میں
 حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا شفاء تین چیزوں میں ہے ۔حجامہ لگوانے،شہد پینے اور آگ سے داغنے میں ہے ۔میں اپنی اُمت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں
بخاری ص۸۴۸ ج زادالمعاد ص ۵۵۰ طبع بیروت
حضرت ابنِ عباس سے مروی ہے آپ ﷺ نے ایک مرتبہ حجامہ لگوایا حالانکہ آپ ﷺ روزے سے تھے۔    (بخاری ص ۸۴۹ ج ۲ )۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے اپنے سر مبا ر ک پر حجا مہ لگوایا۔       بخاری ص ۸۴۹ ج ۲
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے اپنے سر مبا ر ک پر حجا مہ لگوایا۔       بخاری ص ۸۴۹ ج ۲ )
· حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول پاکﷺ کو فرماتے سنا اگر تمہا ری دواوْں میں کسی میں خٰیر ہے تو شہد پینے ،اورحجامہ لگوانے، اور آگ سےداغے میں لیکن میں آگ سے داغے کو نا پسند کرتا ہوں۔  بخاری ص۸۵۰ ج
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فر ما یا کہ جس شخص نے چاند کی  ۱۷،۱۹اور ۲۱ تا ر یخ کو حجامہ لگوایا اس کے لیے ہر مرض سے شفا ء ہو گی۔
ابو داؤد ص ۱۸۳ ج ۲ ۔ذادالمعاد۵۵۳ بیروت
حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو کسی مرض میں اس کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے گُدی کے دونو ں جانب حجامہ کروایا۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ ہر اس موقع پر جب خون میں جوش ہو حجامہ کرواتے تھے۔اس کے لیے نا وقت اور ساعت کسی چیز کا لحاظ نہیں کیاجائے گا.
ایک روایت میں ہے کہ طبیبِ اعظم ﷺ نے فرمایا بہترین علاج حجامہ لگوانا ہے۔آپﷺ نے سر مبارک میں پچھے یعنی حجامہ کروایا کیونکہ آپﷺ کے سراقدس میں درد تھا ( دردِشقیقہ یعنی آدھے سر کا درد )۔ · جس کسی نے طبیب اعظم ﷺ سے درد کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے گردن اور مونڈھوں پر حجامہ کروانے کا حکم فرمایا۔ جب طبیب اعظم ﷺ کو زہر دیا گیا تو آپ ﷺ نے گردن اور مونڈھوں پر حجامہ کروایا۔ سراالسادات · جب طبیب اعظم ﷺ پر یہودیوں نے جادو کیا تو آ پ ﷺ نے اپنے سر اقدس پر حجا مہ کروایا۔ اس حدیث سے معلو م ہوا کہ حجامہ کروانا جادو اور زہر کے لیے بھی مفید ہے۔ · ایک حدیث میں ہے کہ تم گُد ی کی ہڈی کے غبار پر حجا مہ لگوا ؤائیں.
.......
” امْتِصَاصُ الدَّمِ بِالْمِحْجَمِ “
حجامت” امْتِصَاصُ الدَّمِ بِالْمِحْجَمِ “ کو کہتے ہیں۔ (القاموس الفقهی: 78) یعنی آلہء حجامت کے ذریعہ خون کا چوس لینا ۔ اِس کو سینگی لگوانا بھی کہتے ہیں، یہ ایک بہترین طریقہ علاج ہے، جس کے ذریعہ سے جسم کے فاسد مادّوں کو اخراجِ دم کے ذریعہ نکال دیا جاتا ہے، احادیثِ کثیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حجامت کا ثبوت ملتا ہے ۔
حجامت ایک بہترین طریقہ علاج:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامت کو بہترین طریقہ علاج قرار دیا ہے اور اِس کے فوائد و منافع ذکر کیے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی مرتبہ خود بھی حجامت کروانا ثابت ہے اور آپ نے اِس کی امّت کو تلقین بھی فرمائی ہے۔ چند روایات ملاحظہ ہوں:
آپﷺ کا ارشاد ہے: بہترین علاج جسے تم اختیار کرتے ہو وہ حجامت لگوانا ہے اور قسط البحری یعنی سمندری جڑی بوٹی سے علاج کرنا ہے۔
إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الحِجَامَةُ، وَالقُسْطُ البَحْرِيُّ.
(بخاری: 5696)۔
إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍمِمَّا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ خَيْرٌ فَالْحِجَامَةُ.
(ابوداؤد:3857)
إِنْ كَانَ فِي شَيْءٍ مِمَّا تَدَاوَوْنَ بِهِ خَيْرٌ، فَالْحِجَامَةُ.
(ابن ماجہ : 3476)
هُوَ مِنْ خَيْرِ مَا تَدَاوَى بِهِ النَّاسُ
(مسند احمد: 20172)
حجامت کرنے والا کیا ہی بہتر آدمی ہے، خون لے جاتا ہے، کمر کو ہلکا کرتا ہے اور آنکھوں کو تیز کرتا ہے۔
نِعْمَ الْعَبْدُ الْحَجَّامُ، يَذْهَبُ بِالدَّمِ، وَيُخِفُّ الصُّلْبَ، وَيَجْلُو الْبَصَرَ.
(ابن ماجہ : 3478)
نبی کریم ﷺ جب معراج کی شب آسمان پر تشریف لے گئے تو آپﷺفرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے سب نے آپ سے ملاقات میں یہی کہا کہ اپنی امّت کو حجامت کی تلقین فرمائیے۔
مَا مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي، بِمَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، إِلَّا كُلُّهُمْ يَقُولُ لِي: عَلَيْكَ، يَا مُحَمَّدُ بِالْحِجَامَةِ.(ابن ماجہ : 3477)مَا مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي بِمَلَإٍ، إِلَّا قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ.
(ابن ماجہ : 3479)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حضرت مقنّع کی عیادت کی ، پھر فرمایا کہ میں اُس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک آپ حجامت نہیں کروائیں گے ، اِس لئے کہ میں نے نبی کریمﷺسے سنا ہے کہ اِس میں شفاء ہے۔
أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: عَادَ المُقَنَّعَ ثُمَّ قَالَ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى تَحْتَجِمَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ فِيهِ شِفَاءً.
(بخاری:5697)
پچھنے کِن تاریخوں میں لگوائے جائیں؟
مہینہ کے شروع کے دنوں میں انسان کا خون جوش میں ہوتا ہے اور آخر کی تاریخوں میں بہت ہلکا پڑجاتا ہے ، اِس لئے مہینہ کا درمیانہ حصہ سینگی لگانے کے لئے زیادہ مناسب ہے، اور مہینہ کے آخری نصف میں لگوانا پہلے نصف کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ہے ۔(عین المعبود:10/244)
نبی کریم؛ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے مہینہ کی سترہ، انیس اور اکیس تاریخ میں پچھنے لگوائے تو یہ ہر بیماری سے شفاء ہوجائے گی۔مَنْ احْتَجَمَ لِسَبْعَ عَشْرَةَ، وَتِسْعَ عَشْرَةَ، وَإِحْدَى وَعِشْرِينَ، كَانَ شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ.
(ابوداؤد:3861) ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُ يَوْمٍ تَحْتَجِمُونَ فِيهِ سَبْعَ عَشْرَةَ، وَتِسْعَ عَشْرَةَ، وَإِحْدَىوَعِشْرِينَ.
(مسند احمد: 3316)
مَنْ أَرَادَ الْحِجَامَةَ، فَلْيَتَحَرَّ سَبْعَةَ عَشَرَ، أَوْ تِسْعَةَ عَشَرَ، أَوْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَلَا يَتَبَيَّغْ بِأَحَدِكُمُ
الدَّمُ فَيَقْتُلَهُ.
(ابن ماجہ : 3486)
پچھنے کِس دن لگوائے جائیں ؟
احادیث ِ طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ منگل، بدھ، جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو سینگی لگانا مناسب نہیں۔ پیر یا جمعرات کے دن پچھنے لگوانے چاہیئں ۔لیکن یہ کوئی شرعی حکم نہیں کہ اِس کے خلاف کرنے کی گنجائش نہ ہو، بلکہ یہ ایک بہتر درجہ کی چیز ہے ۔ مندرجہ ذیل روایات میں دنوں کا تذکرہ کیا گیا ہے :
بِنْتُ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ أَبَاهَا، كَانَ يَنْهَى أَهْلَهُ عَنِ الحِجَامَةِ، يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَيَزْعُمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ يَوْمُ الدَّمِ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يَرْقَأُ.
(ابوداؤد:3862)
الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ، أَمْثَلُ وَفِيهِ شِفَاءٌ، وَبَرَكَةٌ، وَتَزِيدُ فِي الْعَقْلِ، وَفِي الْحِفْظِ، فَاحْتَجِمُوا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ، يَوْمَ الْخَمِيسِ وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ، يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَالْجُمُعَةِ، وَالسَّبْتِ، وَيَوْمَ الْأَحَدِ، تَحَرِّيًا وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَالثُّلَاثَاءِ، فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي عَافَى اللَّهُ فِيهِ أَيُّوبَ مِنَ الْبَلَاءِ، وَضَرَبَهُ بِالْبَلَاءِ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، فَإِنَّهُ لَا يَبْدُو جُذَامٌ، وَلَا بَرَصٌ إِلَّا يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، أَوْ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ.
(ابن ماجہ : 3487)
قَوله: الْحجامَة على الرِّيق أمثل أَي قبل الْأكل وَالشرب انفع وَأفضل (إنْجَاح)
پچھنے کِس وقت اور کِس حالت میں لگوانے چاہیئں
پچھنے لگوانے کے لئے دن اور رات کی یا کسی وقت اور حالت کی کچھ تخصیص نہیں ، کسی بھی وقت یا کسی بھی حالت میں پچھنے لگوائے جاسکتے ہیں ، حتّی کہ روزہ کی حالت میں بھی لگوانا درست ہے ، ہاں ! اگر اُس کی وجہ سے ضعف بڑھنے کا اندیشہ ہو کہ جس سے روزہ توڑنے کی نوبت آسکتی ہو تو مکروہ ہے۔ اطبّاء نے بھرے پیٹ میں ، جماع کے بعد، نہانے کے بعد اور بھوک کی حالت میں پچھنے لگوانے کو صحت کے لئے مُضر بتلایا ہے۔
(فتح الباری:10/149)
کچھ کھانے پینے سے قبل پچھنے لگانے کا تذکرہ حدیث میں بھی ملتا ہے ، آپ ﷺ نے اِس کو افضل اور بہتر قرار دیا ہے ۔
ارشادِ نبوی ہے:
کچھ کھانے پینے سے قبل پچھنا لگوانا زیادہ بہتر ہے اور اِس میں شفاء اور برکت ہے، یہ عقل اور حافظہ کو بڑھاتا ہے ، پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ پچھنے لگوایا کرو۔الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ، أَمْثَلُ وَفِيهِ شِفَاءٌ، وَبَرَكَةٌ، وَتَزِيدُ فِي الْعَقْلِ، وَفِي الْحِفْظِ، فَاحْتَجِمُوا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ.(ابن ماجہ : 3487) قَوله: الْحجامَة على الرِّيق أمثل أَي قبل الْأكل وَالشرب انفع وَأفضل (إنْجَاح)
آپ ﷺ سےپچھنے کِس جگہ لگوانے ثابت ہیں ؟
گردن کی دونوں جانب کی رگوں میں اور مونڈھوں کے درمیان:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ ثَلَاثًا فِي الْأَخْدَعَيْنِ، وَالْكَاهِلِ.
(ابوداؤد:3860)
نَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، بِحِجَامَةِ الْأَخْدَعَيْنِ، وَالْكَاهِلِ.
(ابن ماجہ : 3482)
سر میں۔أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فِي رَأْسِهِ مِنْ دَاءٍ كَانَ بِهِ.
(ابوداؤد: 1836)
سر پر مانگ کی جگہ میں:
۔أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْتَجِمُ عَلَى هَامَتِهِ، وَبَيْنَ كَتِفَيْهِ.(ابوداؤد:3859)
سر کے درمیانہ حصہ میں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، بِلَحْيِ جَمَلٍ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَسَطَ رَأْسِهِ.(ابن ماجہ : 3481) قوله:”بلحى جمل“ في النهاية موضع بين مكة والمدينة.
سرین پر:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ جَابِرٍ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ احْتَجَمَ عَلَى وِرْكِهِ، مِنْ وَثْءٍ كَانَ بِهِ.(ابوداؤد:3863)عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ: سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ عَلَى جِذْعٍ، فَانْفَكَّتْ قَدَمُهُ. قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ عَلَيْهَا مِنْ وَثْءٍ.(ابن ماجہ : 3485)
قدموں کے ظاہری حصہ میں ۔عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِهِ.(ابوداؤد:1837)
مفتی سلمان زاہد زاہد صاحب مدظلہ
کی کتاب الطب سے۔
شکیل منصور القاسمی
......

No comments:

Post a Comment