Tuesday 11 July 2017

آہ، شیخ زکریا رحمہ اللہ کے دو خلفاء کا انتقال

ایس اے ساگر
حضرت شيخ الحديث کے دو خلفاء كا ایک ہی دن میں انتقال ہوگیا ہے. حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ کے اجل خلیفہ مولانا اسماعیل بدات صاحب کا مدینہ منورہ میں انتقال ہو گیا ہے، دوسری جانب علمی و روحانی شخصیت محدث کبیر شیخ العرب والعجم حضــــرت الحاج حضرت اقدس حضرت مولانا محمد یونس صاحب  شیخ الحدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور بتاریخ ١٦ شوال بعد نماز فجر تقریباً ساڑھے نو بجے اس دار فانی سے پردہ فرما گئے ہیں-
انا للہ و انا الیہ راجعون.
....
حضرت مولانا محمد یونس جونپوری شیخ الحدیث جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور
سوانحی خاکہ
از عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی مرتب ماہنامہ مظاہرعلوم سہارنپور
پیدائش:۲۵؍ رجب ۱۳۵۵ھ ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء
مقام پیدائش:کھیتا سرائے ضلع جونپور
پانچ سال ۱۰؍ ماہ میں والدہ کا انتقال
ابتدائی تعلیم :گاؤں کا مکتب
عربی تعلیم کی ابتدا: ۱۳؍ سال کی عمر میں مدرسہ ضیاءالعلوم مانی کلاں ضلع جونپور میں داخل ہوئے ،فارسی سے لے کر نورالانوار تک کی کتابیں وہیں پڑھیں
مظاہرعلوم میں داخلہ :شوال ۱۳۷۷ھ میں مظاہر علوم میں داخلہ لیا ،۱۳۸۰ھ میں دورہ سے فراغت یہیں سے حاصل کی
معین مدرس: مظاہرعلوم میں ۱۳۸۱ھ میں معین مدرس مقرر ہوئے 
شیخ الحدیث کے عہدہ پر:شوال ۱۳۸۸ھ میں مظاہرعلوم میں شیخ الحدیث کے عہدۂ جلیل پر فائز ہوئے ۔
بیعت:  ۱۳۸۶ھ میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی سے بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے،۵؍ محرم الحرام ۱۳۹۶ھ مولانا شاہ اسعداللہ صاحب ناظم جامعہ مظاہرعلوم کی طرف سے بھی اجازت بیعت حاصل ہوئی۔
انتقال پرملال:  ۱۶؍ شوال ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۱؍ جولائی ۲۰۱۷ء بعد نماز فجر طبیعت میں اچانک بہت سستی پیدا ہوئی ،ارباب مدرسہ سہارنپور کے مشہور اسپتال میڈی گرام لے کر گئے اور ساڑھے نو بجے کے قریب ڈاکٹروں نے انتقال کی تصدیق کردی
نماز جنازہ: بعد نماز عصر (چھ بجے) دار جدید کے صحن میں طے ہے۔
عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی مرتب ماہنامہ مظاہرعلوم سہارنپور
.....

سعودی عرب کے اخبارات 
میں 
شیخ یونس رحمہ اللہ کی خبر
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
رمضان کی طویل رخصت گزار کر جمعہ ہی کو دیوبند پہنچا ہوں، ہمارے جامعہ میں داخلے کی کارروائیاں جاری ہیں، لکھنے کا موقع بالکل بھی نہیں مل پا رہا، اس دوران علمی شخصیات کی رحلت کی خبریں موصول ہوتی رہیں اور دل و دماغ کی دنیا زیر و زبر کرتی رہیں، دو دن قبل مراد آباد کے مشہور محدث حضرت مولانا نسیم غازی المظاہری کے انتقال کی خبر ملی تھی اور آج شیخ العالم محدثِ کبیر حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری کے وصال کا سانحہ- انا للہ وانا الیہ راجعون-
یہ دونوں شخصیتیں اپنی اپنی جگہ آفتاب و ماہتاب تھیں، مولانا غازی مظاہری کا وطنی تعلق بجنور سے تھا، مگر شہرت انہوں نے مراد آباد کے حوالے سے پائی، مدرسہ شاہی مراد آباد میں بھی انہوں نے تدریسی خدمات انجام دی ہیں، زبردست عالم اور بلا کے ادیب و خطیب تھے، ان کی زیارت سے میں مشرف تو نہ ہو سکا، تاہم ان کے علمی کمالات اور شانِ تبحر کی خبریں متواتر ملتی رہیں، وہ ان خوش نصیب علما میں تھے جن کی طرف انتساب اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہوتی ہے، برد اللہ مضجعہ-
جہاں تک حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری کی بات ہے تو حق یہ ہے کہ ان کا تو کوئی جواب ہی نہیں تھا، وہ جس پاے کے محدث تھے، اس کی نظیر موجودہ دور میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے، ان کی عظمت و عبقریت اور علمی جلال و جمال کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی کے بعد انہوں نے ہی اس کی مسندِ شیخ الحدیثی کو رونق بخشی،وہ بھی حضرت شیخ الحدیث کے حکم و ارشاد پر، پھر اس پر طرہ یہ کہ اس مسند کا وقار بڑھایا ہی، گرنے کیا دیتے! میں نے اپنی طالب علمی کے دور میں بھی یہی سنا تھا کہ اس وقت روے زمین پر سب سے بڑے محدث یہی ہیں، اس وقت ہندوستان میں بڑی بڑی علمی ہستیاں تھیں، ان کے باوجود علما اور طلبہ کی زبان پر ان کی عظمت کے چرچے رہے، اب تو قحط الرجال کا دور ہے، ممتاز مصنفین اور علوم اسلامیہ کے ماہرین ایک ایک کرکے اٹھتے چلے گئے، ان کی انفرادیت میں اب کون سا شک رہ گیا تھا؟ مجھے ان سے مسلسلات پڑھنے کی سعادت حاصل ہے-
طالب علمی کے زمانے میں کسی استاذ کی عظمت کا دل میں بیٹھ جانا اور بات ہے اور تدریسی دور میں جاگزینی کارِ دیگر- حضرت یونس صاحب کی جلالتِ شان کا سکہ یوں تو طلبِ علم کے وقت ہی بیٹھ چکا تھا، مگر ان کی عبقریت اس وقت مزید آشکارا ہوئی جب ان کی کتاب "الیواقیت الغالیہ " میرے مطالعے میں آئی، یہ کتاب ان کی محدثانہ بلندی کو بیان کر دینے کے لیے کافی ہے، علم حدیث پر ان کی دستگاہ اور ذخیرۂ احادیث پر ان کی عمیق نظر کا ہی کمال تھا کہ احادیث پر حکم لگانے میں انہیں کوئی تامل نہ ہوتا، اہلِ علم کو ان کی تحقیقات پر کامل اعتماد تھا، وہ جو کہہ دیتے، پتھر کی لکیر ہوتی، اس کے ساتھ ہی وہ ایسے حنفی تھے کہ متعدد مقامات پر شوافع کی مضبوطی کا برملا اعتراف کردیتے-
وہ "علماے عزاب" میں سے تھے، یعنی وہ علما، جنہوں نے شادی نہیں کی، لوگوں میں اس کی کئی وجہیں بیان کی گئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ نکاح کرنے کی پوزیشن خود میں نہیں پاتے تھے، اس لیے الگ ہی رہے، اپنی اولاد نہ ہونے کا انہیں بڑا قلق رہتا تھا-
آج علمی بزم ایک بار پھر سونی ہوگئی، یہ سناٹا طویل رہے گا اور شاید صدیوں تک اس کا اثر باقی رہے، اللہ انہیں غریقِ رحمت فرماے اور دونوں مرحومین کو اپنی شایانِ شان اجز جزیل عطا فرماے:
جان کر منجملۂ خاصانِ مے خانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
(علامہ) فضیل احمد ناصری
......

جمعیۃ علماء ہند کا  اظہار رنج وغم 
نئی دہلی:۱۱؍ جولائی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے اپنے تعزیتی بیان میں جامعہ مظاہرالعلوم جدید کے شیخ الحدیث حضر ت مولانا محمد یونس جونپوری ، مولانا اسمعیل بدات مدینۃ المنورہ اور مولانا نسیم غازی شیخ الحدیث جامع الہدی مرادآباد وغیرہ کے سانحہ ارتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے ۔ان ساری شخصیات نے علم حدیث و فقہ کی نمایاں خدمات انجام دیں ہیں ،ان کے سانحہ ارتحال سے علمی میدان میں ایک بڑا خلاء پید ا ہو گیا ہے۔ صدر جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ مولانا یونس اور مولانا اسمعیل بدات دونوں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ کے اجل خلفاء میں سے تھے اور دونوں شخصیات نے علم حدیث کی بڑی خدمت انجا م دی ہیں، مولانا یونس جونپوری، حضرت شیخ کے بعد سے تا دم ثانی مظاہرالعلوم میں بخاری شریف کا درس دے رہے تھے، ان کی تصنیف ’’نبراس الساری الی ریاض البخاری‘‘ تشنگان علوم کے لئے کافی مفید کتاب ہے۔ حضرت مولانا یونس، نیک، متقی اور سادگی کے پیکر تھے، انھوں نے للہیت اور بے نفسی کے ساتھ دین کی خدمت انجام دی ہے ۔ آج ان کے وصال کی خبر موصول ہوتے ہی جمعیۃ علما ء ہند کا وفد سہارن پور کے لیے روانہ ہو ااور نماز جنازہ میں شرکت کی، نیز جامعہ مظاہرالعلوم پہنچ کر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے تعزیت پیش کیا۔ وفد میں مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، مولانا معز الدین احمد ناظم امارت شرعیہ ہند، مولانا سالم جامعی، مولانا کلیم الدین قاسمی، مولانا یسین قاسمی، حاجی محمد عارف اور شمیم احمد شریک تھے ۔
مولانا منصورپوری اور مولانا مدنی نے ان شخصیات کے وصال پر لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے جماعتی احباب، ارباب مدارس، متعلقین ومتوسلین سے دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کے اہتمام کی اپیل کی ہے۔
......
سعودی عرب کے اخبارات 
میں 
شیخ یونس رحمہ اللہ کی خبر
شان تھی جس کی نرالی، شیخ یونسؒ آپ ہیں!
16شوال 1438ھ یعنی 11جولائی 2017ء کی صبح سے ہی کچھ خبریں موصول ہو رہی تھیں، تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ طویل علالت کے بعد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ کے علم کے سچـے امین، حضرت مولانا شیخ یونس صاحب جونپوری ربِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عنایت کرے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔ آپ کے انتقال کی خبر سے علمی حلقوں میں ہر سو غم چھایا ہوا ہے، یقیناً آپؒ کی وفات ایک عظیم خسارہ ہے، اللہ تعالیٰ امتِ مرحومہ کو نعم البدل عنایت فرمائے۔ (آمین) حضرت مولانا محمد یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ابن جناب شبیر احمدصاحب  25رجب 1355ھ مطابق12 اکتوبر1937 ء، شنبہ کے دن جونپور (یوپی) کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ فقط 5سال ل گیا10ماہ کے تھے کہ والدہ ماجدہ کا انتقا ہوگیا (یاد کریں حضور صلی اللہ وسلم والد ماجدہ کا جب انتقال ہواتواس وقت آپ کی عمرمبارک بھی تقریباً یہی تھی)۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن کے مکاتب میں حاصل کی ،فارسی سے سکندرنامہ تک اورابتدائی عربی سے مختصرالمعانی،مقاماتِ حریری،شرح وقایہ،نورالانوارتک کی تعلیم مدرسہ ضیاء العلوم مانی پور( جون پور)میں ہوئی اور اکثرکتابیں حضرت مولاناضیاء الحقؒاورحضرت مولاناعبدالحلیم ؒصاحبان سے پڑھیں۔15شوال1377ھ5مئی1958ء، دوشنبہ کو مظاہرِعلوم میں وارد ہوئےاورمختصرالمعانی ،شرح وقایہ، قطبی،مقامات حریری، نورالانوار کا امتحان میں کامیابی حاصل کر یہاں 1378ھ میں پہلے سال میں جلالین ،ہدایہ اولین، میبذی اور سراجی وغیرہ سے تعلیم کا آغاز کیا۔1379 ھ میں بیضاوی، میرقطبی، ہدایہ ثالث، مشکوٰۃ، مقدمہ مشکوٰۃ، شرح نخبۃ الفکر، سلم العلوم اور مدارک پڑھیں۔1380 ھ میں بخاری، مسلم، ترمذی، طحاوی، نسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مؤطاامام محمدؒ، مؤطا امام مالکؒ اور شمائل ترمذی پڑھ جماعت میں اول مقام حاصل کیا۔ آپؒ نے بخاری شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنی، ابوداؤد حضرت مولانا محمد اسعد اللہ (ناظم مظاہرعلوم)، مسلم حضرت مولانا منظور احمدخان، اور ترمذی ونسائی حضرت مولانا امیر احمد کاندھلوی رحمہم اللہ سے پڑھیں۔آپ کے رفقا میں حضرت مولانا سید محمد عاقل سہارنپوری، حضرت مولانا شجاع الدین حیدرآبادی، حضرت مولانا اجتباء الحسن کاندھلوی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ مظاہرعلوم کے زمانۂ طالب علمی میں فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفرحسینؒ ناظم مظاہر علوم نے آپ کی سرپرستی اور کفالت فرمائی، شفقت وکرم کا وہ معاملہ جو ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ رکھتا ہے حضرت مفتی صاحبؒ نے آپ کے ساتھ فرمایا، جس کا تذکرہ خود حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کبھی کبھی خصوصی مجلسوں میں فرماتے رہتے تھے۔ فراغت کے بعد بھی حضرت مفتی صاحبؒ کی توجہات میسر آئیں اور آپ کو 1381ھ میں 7روپے مشاہرے پر عارضی طور پر معین مدرس بنادیا گیا، جہاں یکم ربیع الثانی1382ھ کو آپ مستقل استاذ ہوگئے اور یکم شوال1384 ھ کو بہ مشاہرہ ساٹھ روپے مدرس وسطیٰ بنائے گئے۔ 1384ھ میں جب آپؒ کے استاذ حضرت مولانا امیراحمد کاندھلویؒ کا وصال ہوگیا توآپ کو استاذِحدیث بنادیا گیا، جس کے متعلق بہ قلم خود رقم طراز ہیںکہ ذی الحجہ 1384ھ میں حضرت استاذی مولاناامیراحمدصاحب نوراللہ مرقدہ کے انتقال ہوجانے کی وجہ سے مشکوٰۃ شریف استاذی مفتی مظفرحسین، ناظم اعلیٰ مظاہرعلوم کے یہاں سے منتقل ہوکر آئی، جوباب الکبائرسے پڑھائی، پھرآیندہ سال شوال 1385ھ میں مختصرالمعانی ،قطبی، شرح وقایہ، مشکوٰۃشریف مکمل پڑھائی اورشوال 1386ھ میں ابوداؤد،نسائی، نورالانوارزیرِتعلیم رہیں اورشوال1387ھ سے مسلم، نسائی، ابن ماجہ، مؤطین زیرِدرس رہیں۔ اس کے بعدشوال1388ھ میں بخاری شریف ومسلم شریف وہدایہ ثالث پڑھائی۔(الیواقیت الغالیۃ:19-20) یوں تو آپ بچپن ہی سے نیک وصالح تھے، اس لیے آپ کی ذات حضراتِ اساتذہ کی دعاؤں اورتوجہات کا خصوصی مرکزرہی،چناں چہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ نے آپ کو بیعت فرمایاتو5محرم الحرام1396ھ کومناظرِاسلام حضرت مولانا محمداسعداللہ صاحبؒ نے خلافت سے سرفراز فرمایااورفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین نوراللہ مرقدہ تو گویاباپ کے درجے میں رہ کر آپ کی ہرممکن راحت کاخیال فرماتے رہے۔ آپؒ کے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحبؒ نے پورے پچاس پہلے نہایت وثوق سے تحریر فرمایا تھا:ابھی کمس ہیں وہ کیا عشق کی باتیں جانیں عرضِ حالِ دل بے تاب کو شکوہ سمجھے ابھی تدریسِ دورہ کا پہلا سال ہے اور اس سیہ کار کو تدریسِ دورہ کا اکتالیسواں سال ہے اور تدریسِ حدیث کا یہ سینتالیسواں سال ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھاری عمر میں برکت دے اور مبارک مشغلوں میں تا دیر رکھے، جس سینتالیسوی پر پہنچ جاؤگے تو ان شاء اللہ مجھ سے آگے ہوںگے۔ فقط زکریا (27رجب 1387ھ) زمانے نے دیکھا کہ حضرت شیخ الحدیث کی پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ آپؒ نے تقریباً پچاس سالوں تک خصوصیت کے ساتھ احادیثِ مبارکہ کا درس دیا اور اس طویل عرصے میں فضلاے مظاہرعلوم کے ہزارہا طلبہ نے آپ کے سامنے زانوے تلمذی طے کیا، جن میں سے بہت سے مرکزی اداروں میں شیوخِ حدیث اوراعلیٰ مرتبوں پر فائزہیں۔آپ سے اصاغر ہی استفادہ نہیں کرتے تھے بلکہ اکابر بھی احادیث کی تحقیق سلسلے میں آپ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ ملک وبیرونِ ملک کےکبار علمانے اس قسم کے جو استفسار آپ سے کیے اور آپ نے اس کے جو محقاقانہ جوابات عنایت فرمائے آپ سے وقتاًفوقتاًجوعلمی سوالات کئے اورآپ نے ان کے محققانہ جوابات تحریرفرمائے وہ ’الیواقیت الغالیہ فی تخریج احادیث العالیہ‘ اور ’ نوادرالحدیث‘وغیرہ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ بھی آپ سے کئی علمی یادگار ہیں۔آپ کی شان میں بہ جا طور پر کہا گیا؎شان ہے جس کی نرالی، شیخ یونس آپ ہیںآج جس کی ذات عالی، شیخ یونس آپ ہیںکس زباں میں کروں تعریف حضرت کی بیاںآپ کی ہستی تو خود ہی ہے زمانے پر عیاںصاحبِ کشف و کرامت اور بزرگوںکا نشاںاب جو ہے شانِ مظاہر، شیخ یونس آپ ہیںشیخ کے قدموں میں دنیا ہے پڑی دیکھو مگرپھر بھی حضرت شیخ یونس دنیا سے ہیں بے خبراب جدائی شیخ سے ہوتی ہے، روتا ہے جگرشفقتیں جس کی ہیں ہم پر، شیخ یونس آپ ہیں شیخ یونس کی نصیحت میٹھی، کیا گفتار ہےسنبل و بلبل چنبیلی اور کیا عطار ہےدرس میں رحمت برستی اور کیا انوار ہیںجو مقامِ مجتہد پر شیخ یونس آپ ہیں.
ندیم احمد انصاری
.....
سہارن پور کا چراغ
فصیل دیوار ودر کے باوجود ہندوستان کے تین علمی مراکز سے زندگی کا تعلق بہت گہرا ہے۔۔۔۔ دارالعلوم دیوبند عقیدتوں کا مرکز اور محبتوں کی آماجگاہ ۔۔۔ مظاہر علوم جسے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ کی تحریروں سے شناسائی ہوئی ۔۔۔۔اور دارالعلوم ندوة العلماء جس کے ساتھ تعلق حضرت علی میاں رحمہ اللہ کےقلم سے بنا۔۔۔ عالم یہ ہے کے ان اداروں کی زیارت کا زندگی میں کبھی موقع ملے تو میری معلومات کے ذخیرے میں شاید کوئی اضافہ نہ ہو ۔۔۔۔ آج سہارن پور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمتہ اللہ علیہ مسافران آخرت میں شامل ہو گئے ۔۔۔۔۔ حضرت کے درس سے خوشہ چینی کا میرا علمی تعلق دو عشروں پر محیط ہے،
12 ذی قعدہ 1413 ھجری کو جامعہ فاروقیہ کراچی کے شعبہ تصنیف میں میرا تقرر ہوا ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ اپنے گھر کے مہمان خانے میں دارالتصنیف کی طرف میرے ساتھ ریگ میں پڑی کاپیاں منتقل کرنے لگے، معلوم ہوا کہ یہ حضرت مولانا یونس صاحب مظاہری کے درس بخاری کی تقریر ہے جو کیسٹوں میں تھی اور حضرت شیخ نے اپنی نگرانی میں اسے کاپیوں میں منتقل کیا، دوسری تقریر حضرت شیخ کی اپنی تھی وہ فائلوں میں کیسٹوں سے منتقل کی گئی تھی ۔۔۔۔
انہیں دونوں تقریروں کو بنیاد بنا کر کشف الباری کتاب المغازی کا آغاز کیا گیا ۔۔۔۔ دوران مراجعت اندازہ ہوا کہ حضرت مولانا یونس صاحب انتہائی کثیر المطالعہ محدث ہیں، بعض اوقات وہ عام مراجع سے ہٹ کر کوئی بات کہ دیتے ، وہ نہ ملتی تو میں کبھی کبھار اسے چھوڑ دیتا، لیکن بعد میں وہ قول کہیں نہ کہیں مل جاتا،اس لئے پھر معمول یہ رہا کہ حضرت مولانا یونس رحمتہ اللہ علیہ کا قول اگر کہیں نہیں ملتا تو انہی کے حوالے سے نقل کر کے لکھ دیتا۔۔۔۔ ماوجدت في ما بين يدي من المصادر...... وہ شبلی نعمانی کی "سیرةالنبی" کے مداح تھے، فرماتے تھے بعض تفردات کے باوجود واقعات سیرت کی جو منظر کشی اس میں کی گئی ہے وہ بے مثال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا یونس صاحب کے علمی مقام کا عالم یہ ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ نے 'الابواب و التراجم' میں کئ جگہ ان کا نام لے کر ان کی رائے نقل کی ہے۔۔۔ یہ برصغیر کے جلیل القدر شیخ الحدیث کے اپنے شاگرد کے لیے خراج عقیدت ہے اور اس سے بہتر ھدیہ محبت کیا ہو سکتا ہے ۔۔۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ ان کے نام 23رجب 1387 کواپنے خط میں لکھتے ہیں
"ابھی تدریس دورہ کا پہلا سال ہے اور اس سیہ کار کو تدریس دورہ کا اکتالیسواں سال ہے اور تدریس حدیث کا سینتالیسواں سال ہے اللہ تعالی تمہاری عمر میں برکت دے اور مبارک مشغلوں میں تادیر رکھے جب سینتالیس پر پہنچ جاو گے تو انشاءاللہ مجھ سے آگے ہو گے
(اس پرچے کو نہایت احتیاط سے کسی کتاب میں رکھیں اور چالیس سال بعد پڑھیں)
حضرت شیخ کے اس خط میں آئندہ نصف صدی تک ان کی تدریسی خدمات کی طرف اشارہ تھا اور ایسا ہی رہا.
مولانا یونس سہارنپوری رحمہ اللہ 28 رجب 1355 ھجری 2 اکتوبر 1937 کو پیدا ہوئے، 1380 میں فارغ ہونے 1381 میں مظاہر علوم میں تدریس کا آغاز کیا اور 1388 سے لیکر وفات تک تقریبا نصف صدی شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ،وہ بجاطورہمارے اس دور میں أميرالمؤمنين فی الحدیث تھے ۔
آج ان کے جنازے میں خلق خدا کا جم غفیر تھا ؛آٹھ کلو میٹر پرپھیلا ہوا ہواتقریبا 10 لاکھ کا مجمع تھا جو انہیں الوداع کہنے کےلئے جمع تھا ۔۔۔۔۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے اور امت مسلمہ کو ان کا بدل عنایت کرےـ
ابن الحسن عباسی
.......
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
اِس عالمِ ناپائیدار میں اَزل سے تا اِمروز کتنی ہستیوں نے آنکھیں کھولیں اور بند کر لیں، لیکن کچھ ہستیوں نے اپنے وجودِ مسعود سے، اس سینہ گیتی پر ایسے نقوش چھوڑے جو تابندہ و پائیندہ رہینگے. اِنھیں میں سے متقی و صالح، صاحب نسبت عالمِ دین، شیخ العرب والعجم، امیر المؤمنین فی الحدیث، حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری رح، شیخ الحدیث مدرسہ مظاھر علوم سہارن پور تھے، جو آج 2017-07-111 ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کو نمدیدہ کرکے اس دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف کوچ کر گئے.
”کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے۔
خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے.“
إنا لله وإنا إليه راجعون.
آپ کا علمی مقام اور علمی حیثیت کیا تھی؟ فنِّ اَسمآءُ الرِّجال میں کس کمال کو پہنچے ہو ئے تھے؟ حدیث کی صحت و سقم پر حکم لگانے میں کتنی اعلی دسترس حاصل تھی؟ متنِ حدیث اور سندِ حدیث پر کتنی عمیق نظر تھی؟ دوسرے مذاھب کا کتنا وسیع مطالعہ تھا؟ یہ تو صحیح معنوں میں ایک علمی شخص ہی زیر قرطاس لاسکتا ہے۔ ویسے بھی
« کس قلم سے میں لکھوں، آپ کی تعریف یاں،
آپ کی شخصیت تو خود ہی، ہے زمانے پر عیاں ».
ریاض العلوم گورینی، کے زمانہ طالب علمی میں، حضرت شیخ کا نام تو سنا تھا، لیکن دیدار نہ ہوسکا. در اصل حضرت مولانایونس صاحب جون پوری رح شیخ الحدیث مدرسہ مظاھر علوم نے اپنے وطن (چوکیہ، گورینی، اللہ کا شکر ہے کہ یہی نا چیز کا بھی وطن ہے) کو گویا خیر آباد کہہ دیا تھا اور علمی مشغولی کی وجہ سے بہت کم تشریف لاتے تھے اور زبان حال سے یہ پیغام دے گئے تھے کہ
”ہمیں دنیا سے کیا مطلب، مدرسہ ہے وطن اپنا،
مرینگے ہم کتابوں پر، ورق ہوگا کفن اپنا“
حضرت شیخ رح بعض مرتبہ وطن آئے بھی، لیکن بدقسمتی کہ زیارت سے محروم رہا.
دار العلوم دیوبند کے زمانہ طالب علمی 2011ء میں ،مدرسہ مظاھر علوم بھی جانا ہوا. جہاں اللہ تبارک و تعالی نے حضرت شیخ الحدیث رح کا دیدار نصیب فرمایا. مسلسلات کے درس میں بھی حاضری نصیب ہوئی. چونکہ حضرت شیخ نے ناچیز کے دادا مولانا محمد عمر صاحب جون پوری حفظہ اللہ (جو حافظ جی کے نام سے مشہور ہیں. اللہ دادا کے سایہ کو دراز کرے) سے ”شرح تہذیب “وغیرہ پڑھی ہے، اِس لیے اس نسبت کا واسطہ دیکر بھی حاضر ہوا. چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات کے لیے گیا، خادم سے اندر جانے کی اجازت چاہی تو اِس بندہ خدا نے کہا: ابھی مشغول ہیں، ملاقات نہیں ہو پائیگی" 
میں نے کہا: 
آپ بتادو گورینی جون پور سے آئیں ہیں“۔ 
حضرت کو جب خادم نے اطلاع دی تو فرمایا: 
گاؤں والا آیا ہے، چائے پلاؤ“۔ 
اللہ جزائے خیر دے حضرت والا کو، یہ آپ کا حد درجہ بڑکپن تھا، کہ آپ نے اِس ناچیز کی ضیافت فرمائی۔
آپ کے نزدیک دنیا کی حقیقت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے، کہ میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا. صوبہ گجرات کے چند احباب نےقطار میں لگ کر ملاقات کی اورمصافحہ کرکے نذرانہ پیش کیا، اِس میں ایک صاحب نے دوبارہ قطار میں لگ کر نذرانہ پیش کرنا چاہا تو گرفت فرمالی اور اِن سب کے جانے کے بعد نذرانے کو الگ الگ لفافے میں رکھدیا، بعد میں معلوم ہوا کی حضرت اپنے خدام کو تقسیم کر دیتے ہین. اللہ اکبر کیا عجیب نرالی شان ہے۔
یہ واقعہ اب بھی میرے رگ و پے میں گردش کر رہا ہے اور ایک سبق بھی ہے، کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے پھلوں کا تحفہ پیش کرنا چاہا، تو اُس کو حضرت نے داخل ہونے سے منع کردیا. اُس شخص نے بڑی عاجزانہ التجا کی، کہ حضرت آپ بس اِس کو استعمال کرلیں، میں آہ کے پاس نہیں آونگا اور وہ پھل رکھکر چل نکلا.
”شیخ کے قدموں میں دنیا، ہے پڑی دیکھو مگر،
پھر بھی حضرت شیخ یونس، دنیا سے ہیں بے خبر“
در حقیقت یہ اللہ کا وعدہ ہے 
”ومن يتق الله يجعل له مخرجا- ويرزقه من حيث لا يحتسب“ 
کہ جو شخص تقوی اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق فراہم کرتا ہے، کہ اس کے وہم و گمان میں نہیں ہوتا. حدیث میں بھی ہے کہ 
"مَن كانت همَّه الآخرةُ ، جَمَع اللهُ له شَمْلَه، وجعل غِناه في قلبِه، وأَتَتْه الدنيا راغمةً“ 
کہ جس کا مقصد زندگی آخرت ہو جاتا ہے، اللہ اس کی شیرازہ بندی کر دیتا ہے، دل میں غنا پیدا کردیتا ہے اور دنیا اُس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔
سچائی تو یہ ہے کہ آپ بے مثال و باکمال تھے۔ اب آپ کو پانا ناممکن ہے
”ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایا ب ہیں ہم،
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم“
جنازہ میں لاکھوں لوگوں کی شرکت عند اللہ قبولیت کی کھلی دلیل ہے. قرآن و حدیث اِس پر شاھد عدل ہیں ”عنِ ابنِ عبَّاسٍ قال نزَلَتْ في علِيٍّ {إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا} [مريم: 966] قال: محبَّةً في قلوبِ المُؤمِنينَ“
رب کریم سے دعا ہے کہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آپ کی قبر کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنائے. آپ کی نسبت ہم سب کی مغفرت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
....
طه جون پوری 

9004797907 11-07-2017 11-07P. M.
.........
امیر المومنین فی الحدیث؛
حضرت مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ
دوسری صدی کے امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کی صحیح کو اس دور میں، پندرہویں صدی کے امیر المومنین فی الحدیث شیخ یونس جونپوری رحمہ اللہ سے زیادہ جاننے والا شاید ہی کوئی ہو۔ نابغہ روزگار شخصیات کی مقبولیت کا اصل اندازہ ان کے جنازوں سے ہوتا ہے۔ امام احمد بن حنبل (جن کی مسند کو حضرت شیخ نے ایک لفظ کی تلاش میں چار بار پڑھا تھا) نے کہا تھا کہ ہمارے اور ان کے درمیاں جنازے فیصلہ کریں گے۔ آج جب شیخ کا جنازہ اٹھا تو دنیا نے دیکھا کہ اہل علم کی قدر کسے کہتے ہیں۔ دلوں کے یہ بادشاہ اپنی وفات کے بعد بھی عظمت کی اونچائیوں پر فائز رہتے ہیں۔ دربار ان کے بھی سجتے ہیں لیکن امراء ووزراء کے لیے نہیں، بلکہ ان کے دربار میں وہ بوریہ نشین شہزادے حاضر باش رہتے ہیں جن کے سامنے نبی کی میراث سے اپنی زندگی کو منور کرلینا ہی مقصد ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ سادگی سے مرصع دربار میں مسند نشین شیخ کے ارد گرد گھنٹوں بیٹھےاس میراث پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔
حضرت شیخ جب سہارنپور پڑھنے کے لیے آئے تو بہت بیمار ہوگئے۔ اساتذہ نے مشورہ دیا کہ واپس اپنے گھر چلے جائیں۔ حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا، مگر وہ نہ مانے۔ حضرت شیخ زکریا نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ 
"پھر پڑا رہ یہیں"۔ 
شاگرد نے اس جملے پر ایسا عمل کیا کہ اپنے شیخ کے در پر زندگی گزاردی تا آنکہ بڑھاپے میں جنازہ ہی اٹھا۔ یہی وجہ تھی کہ استاذ کو بھی اپنے شاگرد پر ناز تھا۔ وہ کون استاذ ہے جو اپنے شاگرد کو لکھ کر دے کہ جب تم چالیس سال بعد اس تحریر کو پڑھوگے تو مجھ سے آگے نکل چکے ہوگے۔ اس سے بڑھ کر کسی طالب علم کے لیے شرف کی کیا بات ہوگی کہ استاذ اپنی کتاب میں اپنے شاگرد کا قول نقل کرے۔
میں اپنے کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ مجھے حضرت کی زیارت کا ہی نہیں بلکہ آپ سے اجازت حدیث کا بھی موقع ملا۔ سنہ 2001 میں دورہ حدیث کے سال ہم نے بھی دیوبند سے مسلسلات کے سبق میں حاضری کے لیے سہارنپور کا سفر کیا۔ اس سفر میں شیخ کا پہلی مرتبہ دیدار ہوا۔ اس زمانے میں شیخ باہر سے آنے والے طلبہ کو بھی عبارت پڑھنے کی اجازت دیتے تھے۔ اس مناسبت سے میرے نام کی پرچی حضرت کے سامنے موجود تھی۔ شیخ کی نازک مزاجی کے قصے خوب سنے تھے اور ہم مزاج سے بالکل ناواقف۔ اوپر سے یہ بھی معلوم تھا کہ شیخ قلندر صفت ہیں، کہیں اللہ تعالیٰ ان کی زبان سے ہمارے دل کا حال نہ کہلوادے۔ اس پر مستزاد یہ کہ شیخ کے یہاں عبارت خوانی میں لحن جرم تھا جب کہ دیوبند میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔ خوف کے اس ماحول میں عبارت پڑھی اور اس امتحان میں الحمد للہ کامیاب رہے۔ دوران عبارت حضرت نے ایک جملہ بھی ارشاد فرمایا تھا جو بطور سند میرے سینے میں محفوظ ہے۔
دوران درس حضرت شیخ نے شاہ ولی اللہ کی کتاب الفضل المبین کے رجال پر اس تفصیل سے کلام کیا کہ گویا امام ذہبی یا ابن حجر کتب ستہ کے رجال پر کلام کررہے ہوں۔ اس عمر میں حضرت کی یادداشت نے بہت متاثر کیا۔
حضرت شیخ ایک ایسی شخصیت تھے جن کے نزدیک ان کی کتابیں ہی ان کا سب کچھ تھیں، دنیا کسے کہتے ہیں وہ جاننا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے شاگرد اور مرید شیخ یعقوب دہلوی سابق امام مسجد قبا ومشرف قاضیان مدینہ نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ "مدینہ منورہ تشریف لانے پر عرب علما ان کے جوتے سیدھے کرنا اپنا شرف سمجھتے تھے۔ ایک سفر میں ان عرب شاگردوں نے اتنے ہدایا دیے کہ ریالوں سے دو تھیلے بھر گئے۔ مدینہ سے واپسی پر شیخ نے مجھے حکم دیا کہ سارے پیسے مدینہ منورہ میں ہی غربا میں تقسیم کردوں۔ مین نے با اصرار کہا کہ حضرت اپنی ضرورت کے بقدر رکھ لیں، لیکن وہ تیار نہیں ہوے اور ایک ایک ریال صدقہ کروادیا۔ جب ایرپورٹ پہنچے تو مجھ سے کہا کہ مجھے سو ریال اس شرط پر قرض دو کہ بعد میں واپس لوگے"۔ جس شخص کے یہاں دنیا کی یہ حیثیت ہو اللہ تعالیٰ اسی کو دلوں کی بادشاہت عطا فرماتے ہیں۔
آج عجم سے لیکر عرب تک سبھی حضرت شیخ یونس کی رحلت پر ماتم کناں ہیں کیونکہ جس بخاری، ابن حجر، ذہبی اور جس خلیل احمد اور زکریا کاندھلوی کے تذکرے ہم سنتے آئے ہیں وہ سب شیخ یونس رحمہ اللہ کی شکل میں ہمارے سامنے مجسم تھے۔ اب نگاہ اٹھاکر مشرق سے مغرب تک دیکھتے ہیں تو محدثین تو ملتے ہیں لیکن امیر المومنین فی الحدیث کوئ نہیں۔ اس لیے میں دنیا کے ہر مدرسے اور ہر دار الحدیث کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
مولانا یاسر ندیم الواجدی
......
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
 تاریخ 11 جولائی روز منگل 2017 کو عالمِ اسلام کے عظیم ترین محدث، امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب جون پوری کا سانحہ پیش آیا تھا، وفات کے بعد متعلقین کی تعزیت کرنا پیغمبر علیہ السلام کی سنت ہے، اسی سنت کی ادائیگی کے لیے جامعہ امام محمد انور شاہ، دیوبند نے اپنے چند اساتذہ پر مشتمل ایک وفد مظاہر علوم روانہ کیا، جس میں اساتذۂ حدیث محترم مولانا عبدالرشید بستوی، مولانا صغیر احمد پرتاپگڈھی، مفتی نوید احمد دیوبندی زیدمجدہم اور احقر فضیل احمد ناصری شامل تھے، وفد نو بجے روانہ ہوا اور ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد جامعہ مظاہر علوم جدید پہونچ گیا-
اداس اداس فضائیں 
مظاہر علوم پہلے بھی جا چکا تھا، طالب علمی کے دور میں تو بارہا، تدریسی دور میں بھی متعدد مرتبہ، جب آیا، ایک مسرت، ایک سکون اور ایک کیف محسوس کیا، یہاں کا نظام بہت زوردار ہے، ہر شعبہ منظم اور ہر دفتر متحرک، میرے کئی احباب یہاں مدرس ہیں، پھر دیوبند اور سہارن پور کا جو روحانی رشتہ ہے، اس نے کبھی بھی اجنبیت محسوس ہونے نہیں دی، ہر بار ایک "بہار آفریں احساس " لے کر واپس لوٹا، لیکن آج حالت دگر گوں تھی، اداس اداس ہوائیں، رنجیدہ فضائیں، سڑکیں روتی ہوئیں، گلیاں نوحہ کرتی ہوئیں، درودیوار ماتم کناں، درس گاہیں سنسان دارالاقامے ویران، دارالحدیث سینہ کوبی اور گریباں چاکی میں مبتلا،  حالاں کہ بھیڑ بھاڑ تھی، تعزیت کرنے والوں کا ہجوم تھا، مہمان لگاتار آرہے تھے، ہر طرف گفتگو تھی، اظہارِ خیال تھا، مگر اس کے باوجود لگتا یہی تھا کہ ایک خوفناک سناٹا ہے، روش روش نالش، کوچہ کوچہ نالہ-
ناظم صاحب سے ملاقات
وفد کا منصوبہ یہ تھا کہ تعزیتی ملاقات حضرت مولانا سلمان صاحب سہارن پوری کے علاوہ حضرت مولانا سید شاھد سہارن پوری سے بھی کی جاے، مگر جوں ہی قدیم عمارت کے احاطے میں داخل ہوے تو پتہ چلا کہ امینِ عام حضرت مولانا شاھد صاحب یہاں تشریف نہیں رکھتے، ابھی راستے میں ہیں، گجرات کے سفر سے واپسی کر رہے ہیں، چناں چہ ہم نے دارالاہتمام کا رخ کیا، یہاں ناظمِِ جامعہ حضرت مولانا سلمان صاحب تشریف فرما تھے، دیکھا کہ آبدیدہ ہیں، پلکیں بھیگی ہوئیں، رنج و غم چہرے بشرے سے عیاں- وفد نے انہیں سے تعزیتی کلمات کہے اور رئیس الجامعہ حضرت مولانا سید احمد خضرشاہ کشمیری دامت برکاتہم کا تعزیتی مکتوب پیش کیا، یہ مکتوب شیخ مرحوم کے لیے زبردست خراجِ تحسین پر مشتمل تھا-
مولانا شاھد سہارن پوری اور مولانا سلمان صاحب کا اشارتی تعارف
ناآشنا قارئین کے لیے عرض ہے کہ حضرت مولانا شاھد صاحب سہارنپوری دام ظلہ حکیم محمد الیاس صاحب (جو پرسوں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے) کے صاحب زادے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی صاحب کے نواسے ہیں، جامعہ مظاہرعلوم جدید کے امینِ عام (جنرل سکریٹری) اور کرتا دھرتا، حضرت شیخ الحدیث کی کئی کتابوں پر انہوں نے کام کیا ہے-
حضرت مولانا سید سلمان سہارن پوری دام ظلہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے داماد اور مظاہر علوم کے ناظم ہیں، دورۂ حدیث کی بعض اہم کتابیں بھی ان سے متعلق، مجھے ان کی دست بوسی کا بارہا موقع ملا ہے، حافظہ بلا کا، جسے ایک بار ذہن میں بٹھالیں تو بیس برس بعد بھی تازہ، حاضر دماغی اور برق طبعی بے مثال، وقت پر اپنے فرائض انجام دینے میں مثالی، شیخ یونس صاحب کے انتقال کے اگلے دن بھی سارے دفاتر کھلے ہوے، اساتذہ اور ملازمین سارے کے سارے مستعد، خود وہ بھی کاموں کے نمٹارے میں مصروف و مگن، تعزیت والوں سے ملاقاتیں بھی ہیں اور دفتری امور کی انجام دہی بھی، لمبے تڑنگے، بڑا سا سر، بیضوی چہرہ، بھاری بھرکم جسم، سادگی اور بے تکلفی، کہنے لگے کہ شیخ یونس مجھ سے پانچ سال بڑے تھے، عمر پچھتر سے نکلنے کو مائل، صحت قابلِ رشک، گھٹنوں سے معذور ہیں، خود ہی کہنے لگے کہ کہیں کوئی نقاہت نہیں، بس چلنا پھرنا دشوار ہے، جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے-
شیخ صاحب بیمار تھے، مگر اتنے بھی نہیں
ناظم صاحب نے ہمیں بتایا کہ شیخ یونس صاحب مرحوم بیمار تو ضرور تھے، مگر بیماری قطعی ایسی نہیں تھی کہ کھٹکا سا لگ جاے، اس سے زیادہ سنگین حالت تو مدینہ منورہ میں تھی، جب وہ وینٹی لیٹر پر تھے، چناں چہ موت کی افواہ بھی اڑا دی گئی تھی، یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا، ہاں اتنا ضرور تھا کہ دانے پانی سے بے رغبتی کے سبب نقاہت غالب تھی، اسی نقاہت کے باعث ایک دو دنوں سے کچھ غنودگی کی کیفیت رہتی، حالت ایسی نہیں تھی کہ آدمی گھبرا جاے، لیکن اچانک حالت بگڑی، اور بگڑی تو ایسی کہ ہسپتال تک جاتے جاتے راہ میں ہی دم توڑ دیا، ان کی رخصتی بے شان و گمان رہی-
مظاہر علوم کے بعض اساتذہ سے ملاقات
صبح کے گیارہ بج چکے تھے، میرِ کارواں محترم مولانا عبدالرشید بستوی صاحب کا مشورہ ہوا کہ اب مولانا خالد سعید مبارکپوری صاحب سے ملاقات کر دیوبند روانگی کی جاے، مولانا خالد سعید صاحب مجھ سے ایک سال سابق ہیں، پتلے دبلے اور "طالب علم نما "، دیکھ کر کوئی بھی انہیں "مدرس " نہیں کہہ سکتا، حددرجہ متواضع اور خلیق و مہماں نواز،  1997 میں دارالعلوم سے فراغت پائی، مظاہر سے انہوں نے تخصص فی الحدیث بھی کیا، اب وہ مظاہر میں کامیاب مدرس ہیں، تخصص فی الحدیث کے بطور خاص ذمہ دار ہیں، وہیں مولانا قمر الہدیٰ خلیل آبادی سے بھی علیک سلیک ہوا، یہ بھی دارالعلوم کے فاضل اور مجھ سے ایک سال پہلے ہی دارالعلوم سے فراغت یافتہ، عربی شستہ اور رواں لکھتے ہیں، عربی ماہنامہ "المظاہر " کے نائب مدیر اور عملاً سبھی کچھ، اردو ماہنامہ "مظاہرعلوم " کے مدیر مولانا عبداللہ خالد صاحب خیرآبادی بھی ٹکرا گئے، دو چار باتیں ان سے بھی ہوئیں-
شیخ یونس صاحب کی تحریری خدمات
میرا مزاج استفسارانہ ہے، میں کہیں بھی جاؤں، معلومات کی تحصیل کے لیے سوالات زیادہ کرتا ہوں اور بولنے کی کوشش کم سے کم، حضرت مرحوم کی تصنیفات سے متعلق کچھ معلومات پہلے سے میرے پاس تھی، میں چاہ رہا تھا کہ ان میں اضافہ ہو جاے، لیکن بس براے نام ہی اضافہ ہوا، شیخ تصنیف و تالیف کے آدمی ہی نہیں تھے، مطالعہ اور صرف مطالعہ، اس سے آگے بڑھے تو تدریس، بس اللہ اللہ خیر سلا، اپنی یاد داشت کے لیے حواشی کے عنوان سے قلم ضرور چلا کرتا، ان کی دو تالیفات میرے علم میں تھیں، ایک تو "الیواقیت الغالیہ فی الاحادیث العالیہ " اور دوسری "نبراس الساری الی ریاض البخاری "...الیواقیت کی چار جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں، جنہیں گجرات کے مولانا ایوب سورتی نے مرتب کیا ہے، یہ چاروں جلدیں علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کے لیے بیش بہا خزانہ ہیں، انہیں پڑھ کر حضرت کی دقیقہ رسی اور علومِ حدیث میں یکتائی پر حیران ہو جانا پڑتا ہے، نبراس کی ایک ہی جلد آئی ہے، یہ عربی میں ہے، بخاری پر وقیع اور جامع تعلیق، حضرت کی عادت تھی کہ وہ بخاری پر اپنے حواشی چڑھایا کرتے، بہت سا حصہ مکمل کر چکے تھے، کچھ رہ گیا تھا، اس کی تکمیل کے لیے ان کی خواہش تھی کہ موت ایک دو سال کے لیے مزید ٹل جاے، مگر کیا کہا جاے:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
عرب و عجم کے مسلمہ امام الحدیث
 دنیا بڑی بے رحم اور زود فراموش ہے، یہاں سست رووں، کم عیاروں، بے استعدادوں کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، دنیا کو منوانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خوشنودئ رب کے ساتھ کتب بینی کو اپنی زندگی بنالی جاے، شیخ نے وہی کیا، طالب علمی سے لے کر مدرسی اور پھر شیخ الحدیثی تک اس روش پر قائم رہے، روحانیت کی ترقی کے ساتھ علمیت بھی بڑھتی رہی، بڑے بڑے نوابغ اور جبال العلم کی کیمیا اثر نگاہیں ان پر پڑتی رہیں، نتیجہ یہ کہ تدریس کی ابتدا میں ہی ان کی اہمیت مانی جانے لگی، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کی طرف سے ان کی جانشینی ان کی علمیت اور اعترافِ کمال کی برہانِ قاطع ہے، حضرت شیخ الحدیث کو اپنے اس شاگرد کی علمی نظر پر ایسا اعتماد تھا کہ اپنی کتاب "الابواب والتراجم " میں ان کی راے بھی درج کی گئی، غور کیجیے! جن کی کتابوں میں ابن حجر جیسے امامِ فن کی آرا شامل ہوں، وہاں شیخ یونس صاحب کی آرا کا درج ہونا کتنی بڑی بات ہو سکتی ہے، سچ کہیے تو شیخ کو حضرت شیخ الحدیث نے ہی پہچانا، بنایا، سنوارا اور امامتِ حدیث کی راہ چلائی، آج کل ان کا ایک خط گردش میں ہے کہ چالیس سال بعد اسے کھول کر پڑھنا، جتنا وقت میں نے بخاری پڑھائی، اگر تم وہاں تک پہونچوگے تو مجھ سے آگے ہوگے، قلندر ہر چہ گوید، دیدہ گوید، شیخ الحدیث صاحب کی پیش گوئی درست نکلی، شیخ صاحب نے پچاس سال نہ صرف یہ کہ بخاری پڑھائی، بلکہ علم حدیث کے مسلمہ امام بن گئے، احادیث پر اطلاع، رجال کے احوال سے واقفیت، درجاتِ احادیث پر شاہانہ نگاہ ان کی وجہِ امتیاز بنی رہی، روایتِ حدیث میں اس دور میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، علومِ اسلامیہ کے ماہرین جانتے ہیں کہ علم حدیث کتنا پیچیدہ اور نازک فن ہے، یہ بھول بھلیاں کی ایک لامحدود دنیا ہے، علمِ حدیث کا مشکل ترین موضوع "فنِ اسماء الرجال "ہے، راویوں کی اتنی بڑی تعداد یہاں خیمہ زن ہے کہ درست تعداد کوئی بتا بھی نہیں سکتا، ان کے ذاتی احوال، ان کی حدیثی شان، ان کے کے معیارات پر جچا تلا تبصرہ وہی کرسکتا ہے، جس نے اس دنیا میں خود کو گم کردیا ہو اور اس کی رگ و پے میں خون کی طرح دوڑا ہو، شیخ صاحب کی کہانی کچھ اس سے جدا نہیں ہے -
ان کی وفات پر عجم نے جو کہا، وہ کوئی تعجب انگیز نہیں، عرب کا تبصرہ زیادہ مسرت بخش ہے، عرب نے انہیں "شیخ الھند " جیسا عظیم خطاب دیا، یہ ایسا خطاب ہے جو اس سے قبل حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی ہی کو ملا تھا- افسوس کہ وہ "کوہِ نور " بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا-
حق گوئی اور ایثار
شیخ محمد یونس 
رحمہ اللہ علیہ 
کے سامان کی منتقلی کا روح فرسا منظر!
شیخ صاحب کے مزاج میں اکابر کا رنگ تھا، حق گوئی و بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے، بڑے سے بڑے مالدار سے بھی مرعوب تو کیا ہوتے، انہیں ڈانٹ پھٹکار کر شرمندہ ہی کر دیتے، حق گوئی اور ایثار کی ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا، شریکِ وفد محترم مولانا صغیر احمد پرتاپ گڑھی زیدمجدہم نے بتایا کہ اختلافِ مظاہرِ علوم کے دوران شیخ صاحب کے کمرے پر تالہ چڑھا دیا گیا، یہ اس بات کی علامت تھی کہ اس پر "مظاہرِ علوم وقف "کا قبضہ ہو چکا ہے، یہ کمرہ گراں بہا کتابوں اور نادر و کم یاب علمی ذخائر سے بھرا پرا تھا، اس میں کچھ ڈالر بھی تھے، شیخ صاحب پر اس قبضے کا برا اثر تھا، بڑے مایوس اور ملول تھے، اس مایوسی پر اس وقت مزید دوبالا ہو جاتی، جب کوئی بتانے والا انہیں بتاتا کہ اس کمرے کے ساتھ کافی چھیڑ چھاڑ ہو رہی ہے، کتابیں اٹھا اٹھا کر مظاہر وقف کے کتب خانے میں منتقل ہو رہی ہیں، لیکن تقریباً ڈیڑھ دہائی کے بعد ان کے پاس اس کمرے کی چابی ان کے سپرد کر دی گئی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کمرے کی جانب بڑھے بلکہ لپکے اور تپاک سے اسے کھولا تو چونک کر رہ گئے، دیکھا کہ ساری کتابیں اسی ترتیب پر ہیں، جس پر میں نے رکھا تھا، ڈالر بھی جوں کے توں موجود، پھر طلبہ سے کہا: بچو! گواہ رہنا! مجھے غلط اطلاعات مل رہی تھیں، اسی لیے بدگمان تھا، اب کوئی بدگمانی نہیں ہے، پھر شیخ نے اپنے کمرے کی آدھی کتابیں مظاہر قدیم کو وقف کردیں-
جنازے کی عرفاتی بھیڑ
شیخ محمد یونس 
رحمہ اللہ علیہ 
کے سامان کی منتقلی کا روح فرسا منظر!
یہ میری بڑی محرومی ہے کہ میں ان کے جنازے میں حاضر نہ ہو سکا، اس کی قدرے تلافی تعزیت والے دن ان کے مقبرے پر حاضری سے بھی ہو سکتی تھی، مگر برساتی ماحول نے سرِدست اس کی بھی اجازت نہیں دی، ہاں دعاے مغفرت اور ایصالِ ثواب گھر بیٹھے بٹھاے بھی ہو سکتا ہے، فی الحال اسی پر اکتفا کرنا پڑا، بعضوں کی ولایت اور خدا سے خصوصی رابطہ بعد از مرگ ظاہر ہوتا ہے، حضرت بھی انہیں میں سے تھے، ان کی علمی عظمت اور حدیثی تفوق کے تو سبھی قائل تھے، عرب و عجم، حل و حرم سب ان کی نکتہ دانی کے معترف بلکہ فدائی تھے، بڑے بڑے مسند نشینوں کو ان کے سامنے دو زانو بیٹھے ہم نے دیکھا ہے، سوشل میڈیا کے دور میں ان کی نادر و نایاب تصویریں اور ویڈیو ہر مداح تک پہونچ چکی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ذاتی طور پر حضرت کے تعلق سے بڑا تاثر اپنے اندر پاتا تھا، ان کی وفات کے وہ تاثر ان مٹ سا ہو گیا ہے، اس قدر بھیڑ کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں، سر ہی سر، درمیان والوں کو نہ ابتدا معلوم، نہ انتہا کی خبر، بعض اخبارات نے دس لاکھ تک کی خبر شائع کی، اگرچہ یہ خالص مبالغہ اور بلاوجہ کا اطراء مادح ہے، صحیح بات یہ ہے کہ سوا یا ڈیڑھ لاکھ کے آس پاس کا مجمع موجود تھا، کسی عالم و محدث کی وفات پر اتنے بڑے مجمع کا جٹ جانا اپنے آپ میں تاریخی لمحہ ہے-
شیخ محمد یونس 
رحمہ اللہ علیہ 
کے سامان کی منتقلی کا روح فرسا منظر!
پچھلی تین دہائیوں میں بڑی شخصیات اٹھیں، جو اپنے وقت کے عظیم محدث، فخرِ روزگار مصنف، مایۂ ناز انشا پرداز، علومِ اسلامیہ کے گلِ سرسبد اور لغتِ حجازی کے قارون تھے، سب کے جنازے پر عوام و خواص کا ایک سیلاب امڈا، مگر حضرت شیخ کے جنازے کی تعداد ان سب پر حاوی رہی، ایسا لگتا ہے کہ فرشتوں کی بڑی تعداد بھی جنازہ پڑھنے اتر آئی ہے- اتنی بڑی تعداد کی جنازے میں شرکت قدرت کی طرف سے گویا ان کی عظمت و عنداللہ مقبولیت کا اشتہار تھی- 
جانے والے پر رونا دھونا عام سی بات ہے، لیکن یہی جانے والا بڑا ہو تو خلا محسوس ہونا فطری ہے، اور جب جانے والا عبقری ہو تو اس کا خلا صدیوں تک محسوس ہوتا ہے، شیخ کی رحلت ایک ایسا ہی سانحہ ہے کہ علمی دنیا ان کی کمی محسوس کرتی رہے گی، شیخ صحراے علوم اسلامیہ کے ایسے قیس تھے، جن کی روانگی نے سب کو رلا دیا ہے، اب تو ہر طرف ویرانی ہے، گریہ ہے، آہ و نالہ ہے، بقول غالب دہلوی:
ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد 
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے
برد اللہ مضجعہ
(علامہ) فضیل احمد ناصری
.......
شیخ یونس چلے گئے جنت کے آغوش میں 
ہائے موت تو بھی کیا چیز ہے،۔۔۔۔۔۔تیری وجہ سے کتنی ہی حسین شاموں  کا حسن چھن گیا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنی خوشگوارصبحیں بے رونق ہوگئیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے گھروں کو تو نے ویران کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، کتنی بہاریں تیرے دم سے اداسی کا صدمہ لئے رخصت ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔ تجھے کسی پر رحم نہیں آتا،  آخر کیوں تم نے مسکراہٹ کو چھیننے، خوشیوں کوغموں سے دوچار کرنے کی قسم کھا لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کسی کو یتیم اور بے سہارا دیکھنے میں تجھے لطف آتاہے،۔۔۔۔۔۔۔کیا آبادیوں کو ویرانیوں میں تبدیل کرنا ہی تیرا مقصد ہے ،۔۔۔۔۔کیا تجھے معلوم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔کہ گلشن تھانوی کا ایک مجذوب صفت عندلیب نے تیرے بارے ۔۔۔۔۔میں کیا تاثر پیش کیا۔۔۔۔۔کیسے کیسے گھر اجاڑے موت نے=کھیل کتنوں کے بگاڑے موت نے ۔۔۔۔۔۔اورشاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی تو تجھ پر ہرجائ کا الزام عاید کیا ہے ۔ اقبال کا یہ کلام تیری ہی شان میں تو ہے۔
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت۔۔۔۔۔۔۔۔
گلشن ہستی میں مانندنسیم ارزاں ہے موت۔
۔۔۔کلبہ افلاس میں۔دولت کے کاشانے میں موت
۔۔۔دشت ودرمیں شہرمیں گلشن میں ویرانےمیں موت۔
مگر آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔اے موت ذرا بتا توسہی۔رب کے دلارے،نبی جی کے پیارے،قرآن کےشیدا،سنت کے عاشق، حدیث نبوی کا جانثار،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام وخواص کا مقبول ومحبوب۔۔۔۔۔۔۔۔، علماءوصلحاء کے آنکھوں کا نور۔۔۔۔۔،تشنگان علوم کے دلوں کا سرور،۔۔۔۔۔۔بخاری و مسلم کے غوامص سے موتیان نکال کر طلباء حدیث کو بانٹنے والا۔۔۔۔، ہر وقت اپنے رب کی یاد میں مشغول رہنے والا ،۔۔۔۔۔۔ راتوں کو گرم گرم آنسوں کا نذرانہ رب کریم کی بارگاہ بےنیاز میں پیش کرنے والا،۔۔زہدوتقوی سے عبارت زندگی کاحامل محدث حضرت مولانا الشیخ یونس صاحب جونپوری کے پاس جب تیری آمد ہوئ ہوگی ۔۔۔۔۔تجھے کیسا لگ رہا ہوگا۔۔۔۔۔ماناکہ تیری آمد ان کےلئے تحفہ ثابت ہوئ ہوگی۔ انھوں اپنے رب کے حضور پہنچ کر بڑی راحت کا سانس لیا ہوگا۔۔۔۔ان کاوه فراق جس کی وجہ سے وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہےتھے وصال میں بدل گیا ہوگا۔ ۔۔۔انھیں ہر چہار جانب سے یہ مژدہ سنایاجارہا ہوگا۔
یاأيتهاالنفس المطمئنةارجعي الى ربك راضية مرضية..فادخلي في عبادي وادخلي جنتي.....
لیکن تو نے یہ سوچا ۔۔۔۔۔۔ کہ ان کے پاس تیری آمد سے ایک عالم بحر سوگ میں غرق ہوگیا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تدریس حدیث کی دنیا میں غم واندوہ کا سیاہ بادل چھا گیا،۔۔۔۔۔۔علم نبوی کا ایک عظیم الشان مرکز اپنے بے لوث اور بے نظیر خادم سے محروم ہوگیا،۔۔۔۔ جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کا ذرہ ذرہ صدمے سے دوچار ہوگیا،۔۔۔۔۔۔ شمع علم و عرفاں کے پروانےحیراں وششدر رہ گئے کہ آخر یہ کیا ہوگیا،۔۔کیا ہوجاتا موت اگر کچھ دیر کے لئے توقف سے کام لے لیتی۔۔۔۔تاکہ ہم شمع کے گرد کچھ دیر کے لئے اپنی جانثاری کا ثبوت دے لیتے۔ ۔۔۔ لیکن نہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ایسا ممکن نہیں تھا ا س لئے کہ خود موت کو اپنا کچھ اختیار نہیں ہے ۔۔۔۔۔خالق موت کا فیصلہ ازل ہی میں صادر ہوچکاہے۔إذا جاء اجلهم لايستأخرون ساعة ولا يستقدمون....اب اس کی آمدکو ٹالنا یا اس میں  رد وبدل کرنا موت ہی کیا مخلوقات میں سے کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔لا مبدل لکلمات اللہ۔۔۔۔۔اللہم ارحمه  وادخله بحبوحةجنانه.آمين......
شمشير حيدر قاسمى.فضلاء مظاہر علوم سہارنپور کی خدمت میں حضرت شیخ العرب و العجم کی ایک وصیت
اس سے قبل چند  -------------------------
خلاق عالم اس دار الامتحان میں کچھ ایسی شخصیات پیدا کی ہیں، جن کا طرہ امتیاز  خدمت احادیث ہوا کرتی ہے، ہر سمت ان کے علوم و معارف اور ان کے فیضان کا ڈنکا بجتا ہے،
اس فانی دنیا میں انسانوں  کے پردۂ سماعت سے ہزاروں اموات کی خبریں ٹکراتی ہیں، اورٹکرائیں گی،
ہر نکھرتی ہوئی صبح اور ہر ڈھلتی ہوئی شام کسی نہ کسی شخص کیلئے منتہائے زیست کا پیغام لاتی ہے،
موت سے کس کورستگاری ہے:
آج وہ کل ہماری باری ہے، لیکن کچھ ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں، جنکی موت کی خبر سنتے ہی ہر آنکھ برسنے لگتی ہے، گرد و پیش کے احوال سوگوار نظر آنے لگتے ہیں، قلب و دماغ اور وجود میں لرزہ طاری ہو نے لگتا ہے، حواس معطل اور ہوش ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے، چمن میں فضائی ماتمی اور سر پر یتیمی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے، انہیں نابغہ روزگار، یکتائے زمانہ شخصیات میں  سے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ العزیز کے شاگرد رشید، محدث جلیل، خادم حدیث، عاشق رسول، صاحب مستجاب الدعوات، استاذ الاساتذہ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری رح شیخ الحدیث مظاہر علوم کی تھی، جنہیں کل تک طول عمری، اور وسعت فیضان کی دعاء دی جاتی تھی، آج رحمت و مغفرت کی دعاء ہو رہی ہے، حقیقت ہے کہ تمام طلبہ مظاہر علوم و دیگر حضرات اللہ تعالی کے سامنے آہ و بکا کرتے تھے کہ خدا یا حضرت سے بخاری پڑھنا نصیب فرما،
( الحمدللہ احقر کو حضرت سے بخاری، مسلم اور موطا محمد پڑھنے کا شرف۔۔۔۔۔۔)
حضرت مظاہر علوم میں 57 سال سے علوم عالیہ کی خدمت میں مصروف تھے اور تقریبا 50 سال بخاری شریف کا درس دیا اور  علم حدیث کی خدمات انجام دے رہے تھے،
آج وہ ذات اقدس دائمی داغ فراق دے کر اللہ کے پیارے ہوگئے،
حضرت کے وصال کی خبر احقر کو تاخیر سے ملی،
ناچیز ترمذی کے درس کے دوران صحاح کی تشریح کر رہا تھا اتنے میں مولانا نور حسن مظاہری صاحب کا فون آیا کہ حضرت شیخ کا وصال ہو گیا یہ سنتے ہی حواس معطل ہوگئے،
اور بے ساختہ یہ کلمات زبان پر جاری ہوئے کہ اللہ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو روضة من رياض الجنة کا مصداق بنائے، قبر میں جنت کا بستر لگادے، حضرت کو جنت کا لباس پہنائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ مین یا رب العالمین
وصیت 
دورہ حدیث کے طلبہ کو حضرت ہر سال درد مندانہ اور کبھی آب دیدہ ہو کر یہ وصیت کرتے تھے کہ میری وفات کے بعد میرے لئے اپنی وسعت کے مطابق صدقہ کرنا، اور یہ کہہ حضرت رو پڑتے کہ میری اولاد نہیں ہے تم ہی طلبہ میری اولاد ہو، اس وصیت کی یاد دہانی کے ساتھ تمام احباب سے درخواست ہے کہ حتی الوسع اس کو پورا کریں،
......
ﻫﻞ ﻛﺎﻥ ﺍﻟﺸﻴﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﻳﻮﻧﺲ ﺍﻟﺠﻮﻧﻔﻮﺭﻱ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺳﻠﻔﻴﺎ؟
ﻋﺸﺮﻭﻥ ﻓﺎﺋﺪﺓ ﻣﺘﻔﺮﻗﺔ ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻨّﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ ﻋﻦ ﺍﻟﺸﻴﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﻳﻮﻧﺲ ﺍﻟﺠﻮﻧﻔﻮﺭﻱ
ﻧُﺸﺮﺕ ﻣﻠﺤﻘﺔ ﺑﻜﺘﺎﺏ : ﺍﻟﻔﺮﺍﺋﺪ ﻓﻲ ﻋﻮﺍﻟﻲ ﺍﻷﺳﺎﻧﻴﺪ ﻭﻏﻮﺍﻟﻲ ﺍﻟﻔﻮﺍﺋﺪ
ﺗﺨﺮﻳﺞ ﺩ . ﻣﺤﻤﺪ ﺃﻛﺮﻡ ﺍﻟﻨﺪﻭﻱ ﻟﺸﻴﺦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﺤﻤﺪ ﻳﻮﻧﺲ ﺍﻟﺠﻮﻧﻔﻮﺭﻱ
ﻣﻨﺸﻮﺭﺍﺕ ﻣﻜﺘﺒﺔ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻟﻴﻌﻘﻮﺑﻲ ﺍﻟﺨﺎﺻﺔ، ﺍﻟﺒﺤﺮﻳﻦ ﻁ 1 ، 1436 2015- ﻡ
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ
-1 ﻟﻤﺎ ﻓﺮﻏﻨﺎ ﺃﻧﺎ ﻭﺍﻟﺸﻴﺦ ﺍﻟﺘﻮﻡ ﻣﻦ ﻗﺮﺍﺀﺓ ‏( ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺃﺑﻲ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ‏) ﺍﻟﺬﻱ ﺃﻓﺮﺩﻩ ﺍﻟﺸﻴﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﺯﻳﺎﺩ ﺍﻟﺘﻜﻠﺔ ﻭﺍﻋﺘﻨﻰ ﺑﻪ؛ ﻭﻋﻨﺪ ﻗﻮﻝ ﺍﻟﻤﻌﺘﻨﻲ ﺹ :15 ‏( ﻫﺬﺍ ﺁﺧﺮ ﺍﻟﻤﻨﻘﻮﻝ ﻋﻦ ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺇﻳﺎﻧﺎ ﻭﺍﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ‏) ؛ ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ : ‏( ﻭﻫﺬﻩ ﻋﻘﻴﺪﺗﻲ ‏) ﺛﻢ ﺑَﻜﻰ ـ ﺣﻔﻈﻪ ﺍﻟﻠﻪ !
ﺍﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﺍﻟﻨﺒﻮﻳﺔ /16 /12 1433
-2 ﻭﻟﻤﺎ ﻗﺮﺃﺕُ ﻋﻠﻴﻪ ﺑﻤﻨﺰﻟﻲ ‏( ﺻﺮﻳﺢ ﺍﻟﺴﻨﺔ ‏) ﻟﻺﻣﺎﻡ ﺃﺑﻲ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺟﺮﻳﺮ ﺍﻟﻄﺒﺮﻱ - ﻣﻦ ﻧﺴﺨﺔ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻟﻤﻨﺔ ﺹ 41 - ﻋﻨﺪ ﻗﻮﻟﻪ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ : ]) ﺑﺎﺏ ‏] ﺍﻟﻘﻮﻝ ﻓﻲ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ ﺯﻳﺎﺩﺗﻪ ﻭﻧﻘﺼﺎﻧﻪ؛ ﻗﺎﻝ : ﻭﺃﻣﺎ ﺍﻟﻘﻮﻝ ﻓﻲ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ : ﻫﻞ ﻫﻮ ﻗﻮﻝ ﻭﻋﻤﻞ؟ ﻭﻫﻞ ﻳﺰﻳﺪ ﻭﻳﻨﻘﺺ؟ ﺃﻡ ﻻ ﺯﻳﺎﺩﺓ ﻓﻴﻪ ﻭﻻ ﻧﻘﺼﺎﻥ؟ ﻓﺈﻥ ﺍﻟﺼﻮﺍﺏ ﻓﻴﻪ : ﻗﻮﻝ ﻣﻦ ﻗﺎﻝ : " ﻫﻮ ﻗﻮﻝ ﻭﻋﻤﻞ ﻳﺰﻳﺪ ﻭﻳﻨﻘﺺ (" ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ : ‏( ﻭﺍﺷْﻬَﺪ ﻋَﻠَﻲَّ ﺃﻧﻲ ﺃﻗﻮﻝ ﺑﺬﻟﻚ !(
/5 /12 1433
-3 ﻭﻟﻤﺎ ﻗﺮﺃﻧﺎ ﻋﻠﻴﻪ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺨﻤﻴﺲ /16 /12 1433 ‏( ﺃﻧﺎ ﻭﺍﻟﻤﺸﺎﻳﺦ ﺍﻟﺘﻮﻡ ﻭﻋﺎﺷﻮﺭ ‏) ﻛﺘﺎﺏ ‏( ﺍﻟﺼﻔﺎﺕ ‏) ﻟﻺﻣﺎﻡ ﺍﻟﺪﺍﺭﻗﻄﻨﻲ ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻓﻲ ﻧﻬﺎﻳﺔ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺍﻷﻭﻝ ﻭﻓﻴﻪ ﻗﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ " : ﻳُﻠﻘﻰ ﻓﻲ ﺍﻟﻨﺎﺭ، ﻭﺗﻘﻮﻝ : ﻫﻞ ﻣﻦ ﻣﺰﻳﺪ؟ ﺣﺘﻰ ﻳﻀﻊ ﺭﺟﻠﻪ ﻓﻴﻬﺎ ـ ﺃﻭ ﻗﺪﻣﻪ ـ ﻓﺘﻘﻮﻝ : ﻗﻂ ﻗﻂ " ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ : ‏( ﺃﻣﺎ ﺃﻧﺎ ﻓﺄﻗﻮﻝ ﺑﻈﺎﻫﺮ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﻲ ﺍﻷﺣﺎﺩﻳﺚ ‏) .
-4 ﻭﻗﺎﻝ ﻓﻲ ﺁﺧﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 19 ‏) ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ ‏( ﺍﻟﺼﻔﺎﺕ ‏) ﻟﻠﺪﺍﺭﻗﻄﻨﻲ : ‏( ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺰﻋﻔﺮﺍﻧﻲ ﺃﺗﻰ ﺍﻟﻨﺒﻲَّ ﺻﻠَّﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﻜﺘﺎﺏ، ﻓﻘﺎﻝ : ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﺍﻟﻘﺎﺳﻢ، ﺃَﺑَﻠَﻐﻚ ﺃﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻳﺤﻤﻞ ﺍﻟﺨﻼﺋﻖ ﻋﻠﻰ ﺇﺻﺒﻊ، ﻭﺍﻟﺴﻤﻮﺍﺕ ﻋﻠﻰ ﺇﺻﺒﻊ، ﻭﺍﻷﺭﺿﻴﻦ ﻋﻠﻰ ﺇﺻﺒﻊ، ﻭﺍﻟﺸﺠﺮ ﻋﻠﻰ ﺇﺻﺒﻊ، ﻭﺍﻟﺜﺮﻯ ﻋﻠﻰ ﺇﺻﺒﻊ؟
ﻗﺎﻝ : ﻓﻀﺤﻚ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠَّﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺣﺘﻰ ﺑﺪﺕ ﻧﻮﺍﺟﺬﻩ، ﻗﺎﻝ : ﻭﺃﻧﺰﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﴿ ﻭَﻣَﺎ ﻗَﺪَﺭُﻭﺍ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﺣَﻖَّ ﻗَﺪْﺭِﻩِ ﻭَﺍﻷَﺭْﺽُ ﺟَﻤِﻴﻌﺎً ﻗَﺒْﻀَﺘُﻪُ ﻳَﻮْﻡَ ﺍﻟْﻘِﻴَﺎﻣَﺔِ ... ﴾ ‏[ ﺍﻟﺰﻣﺮ : 67 ‏] ﺇﻟﻰ ﺁﺧﺮ ﺍﻵﻳﺔ .
ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ : ‏( ﻭﻧﺤﻦ ﻧﻘﻮﻝ ﺑﺈﺛﺒﺎﺕ ﺍﻷﺻﺎﺑﻊ، ﻭﺍﻷﺷﺎﻋﺮﺓ ﻳﻨﻜﺮﻭﻥ ﺫﻟﻚ ﻣﻊ ﺃﻥ ﻓﻴﻪ ﻋﺸﺮﺓ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ، ﻭﻗﻮﻟﻬﻢ ﻏﻠﻂ !(
-5 ﻭﻗﺎﻝ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 19 ‏) ﻣﻦ ﻛﺘﺎﺏ ‏( ﺍﻟﺼﻔﺎﺕ ‏) ﻟﻠﺪﺍﺭﻗﻄﻨﻲ؛ ﻭﻫﻮ ﻗﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ " : ﻻ ﺗﻘﺒّﺤﻮﺍ ﺍﻟﻮﺟﻪ؛ ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻋﻠﻰ ﺻﻮﺭﺗﻪ :" ‏( ﻧُﺜﺒﺖُ ﻭﺟﻬًﺎ ﻟﻠﻪ ﻳﻠﻴﻖ ﺑﺠﻼﻟﻪ ﺳﺒﺤﺎﻧﻪ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ ‏) .
-6 ﻭﻗﺎﻝ ﻋﻨﺪ ﺁﺧﺮ ﻛﺘﺎﺏ ‏( ﺍﻟﺼﻔﺎﺕ ‏) ﻟﻺﻣﺎﻡ ﺍﻟﺪﺍﺭﻗﻄﻨﻲ ﻭﻗﻮﻝ ﺍﻟﺰﻫﺮﻱ ﺑﺮﻗﻢ ‏( 68 ‏) " : ﺳَﻠِّﻤﻮﺍ ﻟﻠﺴُّﻨﺔ ﻭﻻ ﺗﻌﺎﺭﺿﻮﻫﺎ " ، ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ : ‏( ﻭﻧﺤﻦ ﻧُﺆﻣﻦُ ﺑﻤﺎ ﻓﻲ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﻜﺘﺎﺏ ‏) .
-7 ﻭﻟﻤﺎ ﻗﺮﺃﺕ ﻋﻠﻰ ﺷﻴﺨﻨﺎ ‏( ﻛﺘﺎﺏ ﻓﻲ ﺭﺅﻳﺔ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ ‏) ﻷﺑﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﺎﺑﻦ ﺍﻟﻨﺤَّﺎﺱ؛ ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻓﻲ ﺁﺧﺮﻩ : ‏( ﺃﻣﺎ ﺃﻧﺎ ﻓﺄﺅﻣﻦُ ﺑﻤﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﻲ ﺍﻷﺣﺎﺩﻳﺚ ‏) .
/7 /12 1433
-8 ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻓﻲ ﺗﻌﻠﻴﻘﻪ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 146 ‏) ﻣﻦ ﺳﻨﻦ ﺃﺑﻲ ﺩﺍﻭﺩ ﻭﻓﻴﻪ : ..." ﺃﻣﺮﻫﻢ ﺃﻥ ﻳﻤﺴﺤﻮﺍ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻌﺼﺎﺋﺐ ﻭﺍﻟﺘﺴﺎﺧﻴﻦ :" ‏( ﺍﻟﺤﻨﻔﻴﺔ ﻻ ﻳﻤﺴﺤﻮﻥ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺠﻮﺍﺭﺏ، ﻭﻟﻤﺎ ﺳﻤﻌﺖ ﺑﺄﻥ ﺷﻴﺦ ﻣﺸﺎﻳﺨﻨﺎ ﺣﺴﻴﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺍﻟﻤﺪﻧﻲ - ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ - ﻛﺎﻥ ﻳﻤﺴﺢ؛ ﻣﺴﺤﺖُ ﻟَﻤَّﺎ ﺍﺣﺘﺠﺖُ ‏) .
/14 /12 1432 ﺑﻘﺮﺍﺀﺓ ﺍﻟﺸﻴﺦ ﺍﻟﺘﻮﻡ ﻭﺳﻤﺎﻋﻲ ﻭﺍﻟﺸﻴﺦ ﻋﺎﺷﻮﺭ ﺑﻤﻜﺔ ﺍﻟﻤﻜﺮﻣﺔ
-9 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻓﻲ ﺗﻌﻠﻴﻘﻪ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 499 ‏) ﻓﻲ ﺳﻨﻦ ﺃﺑﻲ ﺩﺍﻭﺩ ﻭﻓﻴﻪ ﺭﺅﻳﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﻓﻲ ﺍﻷﺫﺍﻥ؛ ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ : ‏( ﻭﻋﻨﺪ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﺃﻥ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ ﻟﻌﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ : " ﻗﺪ ﺳﺒﻘﻚ ﺑﻬﺎ ﺍﻟﻮﺣﻲ " ، ﻓﺎﻟﺸﺮﻉ ﻻ ﻳﺆﺧﺬ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﻨﺎﻡ ﻓﻘﻂ؛ ﺑﻞ ﻫﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﺎﻟﻮﺣﻲ ﻭﺑﺄﻣﺮ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﻭﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﻗﻮﻟﻲ - ﺇﺿﺎﻓﺔ ﺇﻟﻰ ﺇﻗﺮﺍﺭﻩ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ‏) .
-10 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 508 ‏) ﻣﻦ ﺳﻨﻦ ﺃﺑﻲ ﺩﺍﻭﺩ ﻭﻓﻴﻪ : " ﺃُﻣِﺮَ ﺑﻼﻝ ﺃﻥ ﻳﺸﻔﻊ ﺍﻷﺫﺍﻥ ﻭﻳﻮﺗﺮ ﺍﻹﻗﺎﻣﺔ - ﺯﺍﺩ ﺣﻤﺎﺩ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ : ﺇﻻ ﺍﻹﻗﺎﻣﺔ " ، ﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ : ‏( ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺬﻱ ﺩﻝ ﻋﻠﻴﻪ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻫﻮ ﺍﻟﺮﺍﺟﺢ ﻋﻨﺪﻱ ‏) .
-11 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 526 ‏) ﻣﻦ ﺳﻨﻦ ﺃﺑﻲ ﺩﺍﻭﺩ ﻭﻓﻴﻪ : " ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﺇﺫﺍ ﺳﻤﻊ ﺍﻟﻤﺆﺫﻥ ﻳﺘﺸﻬﺪ ﻗﺎﻝ : ﻭﺃﻧﺎ ﻭﺃﻧﺎ ‏) ، ‏( ﻓﺈﻥ ﻗﺎﻝ ﺭﺟﻞ ﻓﻲ ﺍﻟﺠﻮﺍﺏ " : ﻭﺃﻧﺎ ﻭﺃﻧﺎ " ﻓﻬﺬﺍ ﻛﺎﻑٍ؛ ﺧﻼﻓًﺎ ﻟﺒﻌﺾ ﺍﻟﺤﻨﻔﻴﺔ ﻟﺬﻳﻦ ﺟﻌﻠﻮﺍ ﺫﻟﻚ ﺧﺎﺻًّﺎ ﺑﺎﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ‏) .
/16 /12 1432
-12 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﻗﺮﺍﺀﺗﻨﺎ ‏( ﺃﻧﺎ ﻭﺍﻟﺸﻴﺨﻴﻦ ﺍﻟﺘﻮﻡ ﻭﻋﺎﺷﻮﺭ ‏) ﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 360 ‏) ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻭﻓﻴﻪ : ..." ﺃﻧﺘﻮﺿﺄُ ﻣﻦ ﻟﺤﻮﻡ ﺍﻹﺑﻞ؟ ﻗﺎﻝ : ﻧﻌﻢ "... ، ﻗﺎﻝ : ‏( ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻗﻮﻝ ﺑﻈﺎﻫﺮ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ؛ ﻓﻼ ﺗﺠﻮﺯ ﺍﻟﺼﻼﺓ ﻓﻲ ﻣﺒﺎﺭﻙ ﺍﻹﺑﻞ، ﻭﻳﻨﻘﺾ ﻟﺤﻤﻬﺎ ﺍﻟﻮﺿﻮﺀ . ﻭﻫﻨﺎﻙ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺍﻟﺒﺮﺍﺀ ﺑﻦ ﻋﺎﺯﺏ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﺩﺍﻭﺩ؛ ﺻﺤﺤﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻘﻮﻟﻪ، ﻭﺍﺑﻦ ﺧﺰﻳﻤﺔ ﻭﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ﺑﺈﺧﺮﺍﺟﻬﻤﺎ ﻟﻪ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺤﻴﻬﻤﺎ ‏) .
/28 /8 1431
-13 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﻗﺮﺍﺀﺗﻨﺎ ﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 498 ‏) ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻭﻓﻴﻪ : ..." ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻔﺮﺵ ﺭﺟﻠﻪ ﺍﻟﻴﺴﺮﻯ ﻭﻳﻨﺼﺐ ﺭﺟﻠﻪ ﺍﻟﻴﻤﻨﻰ، ﻭﻛﺎﻥ ﻳﻨﻬﻰ ﻋﻦ ﻋﻘﺒﺔ ﺍﻟﺸﻴﻄﺎﻥ "... ؛ ﻗﺎﻝ : ‏( ﺍﻹﻗﻌﺎﺀ ﺑﺮﻓﻊ ﺍﻟﺮﻛﺒﺘﻴﻦ ﻣﻨﻬﻲٌّ ﻋﻨﻪ، ﺃﻣﺎ ﻭﺿﻌﻬﻤﺎ ﻋﻠﻰ ﺍﻷﺭﺽ ﻭﺍﻟﺠﻠﻮﺱ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻌﻘﺒﻴﻦ ﻓﻠﻴﺲ ﺑﻤﻜﺮﻭﻩ؛ ﺑﻞ ﻫﻮ ﺳﻨﺔ ﻛﻤﺎ ﺍﺧﺘﺎﺭﻩ ﺍﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻭﺍﺑﻦ ﺍﻟﻬﻤﺎﻡ ‏) .
/29 /8 1431
-14 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﻗﺮﺍﺀﺗﻨﺎ ﻟﺤﺪﻳﺚ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﻜﻢ ﺍﻟﺴﻠﻤﻲ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ‏( 537 ‏) ﻭﻓﻴﻪ ﻗﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻠﺠﺎﺭﻳﺔ : ..." ﺃﻳﻦ ﺍﻟﻠﻪ؟ ﻗﺎﻟﺖ : ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻤﺎﺀ "... ، ﻗﺎﻝ : ‏( ﺍﻟﺼﻮﺍﺏ ﺇﺛﺒﺎﺕُ ﺻﻔﺔ ﺍﻟﻔﻮﻗﻴﺔ ﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﻼ، ﻭﻻ ﺃﺫﻫﺐُ ﺇﻟﻰ ﺃﻗﻮﺍﻝ ﺍﻟﻤﺘﻜﻠﻤﻴﻦ !(
/20 /12 1431
-15 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﻗﺮﺍﺀﺗﻨﺎ ﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 1032 ‏) ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻭﻓﻴﻪ : ..." ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ، ﺃﻱ ﺍﻟﺼﺪﻗﺔ ﺃﻋﻈﻢ ﺃﺟﺮًﺍ؟ ﻓﻘﺎﻝ : ﺃﻣﺎ ﻭﺃﺑﻴﻚ ﻟَﺘُﻨَﺒَّﺄَﻧَّﻪ.ُ ".. ، ﻗﺎﻝ : ‏( ﻫﺬﺍ ﻟﻴﺲ ﺣَﻠِﻔًﺎ ﺑﺎﻷﺏ؛ ﺑﻞ ﺍﻟﺤﻠﻒ ﺑﺎﻷﺏ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻝ : ﻭﺃﺑﻲ - ﻳُﻌَﻈِّﻢُ ﺃﺑﺎﻩ، ﺃﻣَّﺎ " ﻭﺃﺑﻴﻚ " ﻓﻼ ﻳﺄﺗﻲ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻪ ﺍﻟﻘَﺴَﻢ؛ ﺑﻞ ﻟﺘﺤﺴﻴﻦ ﺍﻟﻌﺒﺎﺭﺓ ﻭﻧﺤﻮ ﺫﻟﻚ ‏) .
/22 /12 1431
-16 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﺗﻌﻠﻴﻘًﺎ ﻋﻠﻰ ﺣﺪﻳﺚ ‏( 1408 ‏) ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻭﻓﻴﻪ : " ﻻ ﺗُﻨﻜَﺢ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓُ ﻋﻠﻰ ﻋﻤﺘﻬﺎ ﻭﻻ ﻋﻠﻰ ﺧﺎﻟﺘﻬﺎ " ، ﻗﺎﻝ : ‏( ﻣﺬﻫﺐ ﺍﻟﺤﻨﻔﻴﺔ ﺃﻥ ﺍﻟﺰﻳﺎﺩﺓ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻨﺺِّ ﻧَﺴْﺦٌ، ﻭﻋﻨﺪﻫﻢ ﺍﻟﻈَّﻨﻲ - ﻛﻤﺎ ﻫﻮ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﻫﻨﺎ - ﻻ ﻳَﻨﺴﺦ ﺍﻟﻘﻄﻌﻲ - ﻭﻫﻮ ﺁﻳﺔُ ﺍﻟﻤﺤﺮَّﻣﺎﺕ، ﻓﻜﻴﻒ ﺍﻟﺠﻮﺍﺏ؟ ! ﻗﺎﻝ : ﻗﺎﻟﻮﺍ : ﺍﻟﻤﺸﻬﻮﺭ ﻳُﺰﺍﺩ ﺑﻪ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻜﺘﺎﺏ؛ ﻟﻜﻦ ﺍﻟﻤﺸﻬﻮﺭ ﻋﻨﺪﻫﻢ ﺍﺷﺘﺮﻃﻮﺍ ﻓﻴﻪ ﺍﻟﺘﻮﺍﺗﺮ ﻓﻲ ﺍﻟﻄﺒﻘﺎﺕ ﺍﻟﺜﻼﺙ ﺍﻷﻭﻟﻰ، ﻭﻫﺬﺍ ﻏﻴﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻫﻨﺎ، ﻓﻤﺬﻫﺐ ﺍﻟﺠﻤﻬﻮﺭ ﺃَﻭﻟﻰ ﻭﺃﺻﺢ ‏) .
/23 /12 1431
-16 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﻟﻤﺼَﺮَّﺍﺓ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ‏( 1524 ‏) ﻭﻓﻴﻪ : " ﻭﺇﻻ ﻓﻠﻴَﺮُﺩَّﻫﺎ ﻭﺻﺎﻋًﺎ ﻣﻦ ﺗﻤﺮ :" ‏( ﻣﺴﺄﻟﺔ ﺍﻟﻤﺼَﺮَّﺍﺓ ﻭﺍﺿﺤﺔ، ﻭﻗﻮﻝ ﻣﻦ ﻋَﻠَّﻠَﻪُ ﻻ ﺃﻗﺒﻠُﻪ !
ﺛﻢ ﻗﺎﻝ : ﻓﺈﺫﺍ ﻣِﺖُّ ﻓﺄﻇﻬﺮﻭﺍ ﻗﻮﻟﻲ؛ ﻓﺈﻥ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺒﻠﺪ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻻ ﻳﺘﺤﻤﻠﻮﻥ ﺍﻟﻤﺨﺎﻟﻔﺔ ﻓﻲ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻤﺴﺎﺋﻞ ﺍﻟﻈﺎﻫﺮﺓ .(!
ﻗﻠﺖ - ﻭﻣﻦ ﻧﺴﺨﺘﻲ ﺃﻧﻘُﻞ :- ‏( ﻣﺬﻫﺐ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﺍﺗﺒﺎﻉ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﺇﻥ ﺧﺎﻟﻒ ﺍﻟﻤﺬﻫﺐ، ﻭﻛﺎﻥ - ﻭﻓﻘﻪ ﺍﻟﻠﻪ - ﻳﺜﻨﻲ ﻋﻠﻰ ﺑﻌﺾ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻋﻠﻰ ﺷﻴﺦ ﺍﻹﺳﻼﻡ ﺍﺑﻦ ﺗﻴﻤﻴﺔ ﻭﺍﺑﻦ ﺍﻟﻘﻴﻢ ﻭﺍﺑﻦ ﻛﺜﻴﺮ ﻭﺍﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻬﺎﺩﻱ ﻭﺍﻟﺬﻫﺒﻲ - ﻭﻗﺎﻝ ﻋﻨﻪ : ﺍﻟﺬﻫﺒﻲ ﻛﺄﻧﻪ ﺻِﻴﻎَ ﻣﻦ ﺍﻟﺬﻫَﺐ - ﻭﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ - ﻗﺒﻠﻬﻢ - ﻭﻳﻘﻮﻝ : ﺃﻧﺎ ﻋﻠﻰ ﻣﺬﻫﺐ ﺍﻟﺴﻠﻒ ﻓﻲ ﺍﻻﻋﺘﻘﺎﺩ .
ﻭﻻ ﻳﻮﺍﻓﻖ ﻏﻼﺓ ﺍﻟﺼﻮﻓﻴﺔ ﻭﻻ ﺍﻷﺷﻌﺮﻳﺔ ﻭﺍﻟﻤﺎﺗﺮﻳﺪﻳﺔ، ﻭﻛﻨﺎ ﺇﺫﺍ ﺟﻠﺴﻨﺎ ﻣﻌﻪ ﺃﺣﺴﺴﻨﺎ ﻛﺄﻧﻨﺎ ﺃﻣﺎﻡ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺍﻟﺴﻠﻒ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ - ﻧﺤﺴﺒﻪ ﻛﺬﻟﻚ ﻭﻻ ﻧﺰﻛﻲ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺣﺪًﺍ - ﻓﻠﻠﻪ ﺩﺭُّﻩُ !(
-17 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﺣﺪﻳﺚ ‏( 1531 ‏) ﻣﻦ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ ﻋﻦ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﻣﺮﻓﻮﻋًﺎ : " ﺇﺫﺍ ﺗﺒﺎﻳﻊ ﺍﻟﺮﺟﻼﻥ ﻓﻜﻞ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﺑﺎﻟﺨﻴﺎﺭ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺘﻔﺮﻗﺎ "... ، ﻗﺎﻝ : ‏( ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻧَﺺٌّ ﻓﻲ ﺧﻴﺎﺭ ﺍﻟﻤﺠﻠﺲ ‏) .
/24 /12 1431
-18 ﺳﺄﻝَ ﺃﺣﺪُ ﺍﻟﻄﻼﺏ ﺷﻴﺨَﻨﺎ - ﻭﻓﻘﻬﻤﺎ ﺍﻟﻠﻪ - ﻋﻨﺪ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﺴﻠﻢ ‏( 2014 ‏) ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻣﺮﻓﻮﻋًﺎ : " ﻏﻄُّﻮﺍ ﺍﻹﻧﺎﺀ ﻭﺃﻭﻛﻮﺍ ﺍﻟﺴﻘﺎﺀ ﻓﺈﻥ ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻨﺔ ﻟﻴﻠﺔ ﻳﻨﺰﻝ ﻓﻴﻬﺎ ﻭﺑﺎﺀ ﻻ ﻳﻤﺮ ﺑﺈﻧﺎﺀٍ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻪ ﻏﻄﺎﺀٌ ﺃﻭ ﺳﻘﺎﺀٍ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻛﺎﺀٌ ﺇﻻ ﻧﺰﻝ ﻓﻴﻪ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﺍﻟﻮﺑﺎﺀ " ﻗﺎﻝ ﺍﻟﻄﺎﻟﺐ ﺳﺎﺋﻠًﺎ : ﻫﻞ ﺃﺛﺒﺖَ ﺍﻟﻄﺐ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻥ ﺑﻌﺾ ﺍﻷﻣﺮﺍﺽ ﻟﻬﺎ ﻟﻴﺎﻝٍ ﻣﻌﻴﻨﺔ ﺗﻨﺰﻝ ﻓﻴﻬﺎ؟ !
ﻓﺄﺟﺎﺑﻪ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻗﺎﺋﻠًﺎ : ‏( ﻫﺬﺍ ﻧَﺺٌّ !(
/25 /12 1431
-19 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﻗﺮﺍﺀﺗﻨﺎ ﻟﺤﺪﻳﺚ ‏( 2612 ‏) ﻣﻦ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ : " ﺇﺫﺍ ﻗﺎﺗﻞ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺃﺧﺎﻩ ﻓﻠﻴﺠﺘﻨﺐ ﺍﻟﻮﺟﻪ؛ ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪَ ﺧَﻠﻖَ ﺁﺩﻡَ ﻋﻠﻰ ﺻﻮﺭﺗﻪ :" ‏( ﺍﻹﻣﺎﻡ ﺃﺣﻤﺪ ﻳﺤﻤﻞ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻠﻰ ﻇﺎﻫﺮﻩ، ﻭﻗﺪ ﺟﺎﺀ ﻓﻲ ﺍﻟﺴﻨﺔ ﻻﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﺻﻢ " : ﻋﻠﻰ ﺻﻮﺭﺓ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ " ، ﻭﺍﻟﻤﻨﺒﻐﻲ ﻓﻲ ﻣﺜﻞ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺴﻜﻮﺕ ﻋﻦ ﺍﻟﺘﺄﻭﻳﻞ، ﻭﺇﻣﺮﺍﺭﻫﺎ ﻛﻤﺎ ﺟﺎﺀﺕ ‏) .
/1 /9 1432
-20 ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻴﺨﻨﺎ ﻋﻨﺪ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﺴﻠﻢ ‏( 2976 ‏) ": ﻣﺎ ﺃﺷﺒﻊ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻫﻠَﻪُ ﺛﻼﺛﺔ ﺃﻳﺎﻡ ﺗﺒﺎﻋًﺎ ﻣﻦ ﺧﺒﺰ ﺣﻨﻄﺔ ﺣﺘﻰ ﻓﺎﺭﻕ ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ " ﻗﺎﻝ : ‏( ﺍﺳﺘﺤﻀﺮﻭﺍ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ، ﻭﻧﺤﻦ ﻧﺸﺒﻊ ﻛﻞ ﻳﻮﻡ .(!

/1 /9 1432
.....
جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے نئے ’’شیخ الحدیث‘‘ کا انتخاب:
جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں ڈیڑہ صدی کے عرصہ میں تین محدث بنے ہیں، یہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی سب سے عالی خصوصیت ہے جو دیگر مدارس کو حاصل نہیں جن میں سے پہلے محدث شیخ المشائخ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری مہاجر مدنیؒ ہیں۔ جن کو عوام الناس ’’حضرت سہارنپوریؒ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ انہوں نہے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں 48 یا 50 سال بخاری شریف کا درس دیا!
ان کے بعد ان کے شاگرد و خلیفہ قطب العالم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنیؒ (جن کو حضرت شیخؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) نے درس بخاری تقریبا 47 یا 48 سال تک دیا ہے!
ان کے بعد ان کے شاگرد و خلیفہ حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ نے مکمل 50 سال تک درس بخاری دیا ہے!
اب حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ کی وفات کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنیؒ کے تلمیذ رشید، خلیفہ مجاز اور آپ کے داماد حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب سہارنپوری اطال اللہ عمرہ کو اہل مدرسہ نے شیخ الحدیث منتخب کیا ہے!
مولانا سیّد محمد عاقل صاحب سہارنپوری مدظلہ کو جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں بخاری شریف کے علاوہ صحاح ستہ مکمل پڑھانے کا شرف حاصل ہے۔ اور اب ان شااللہ بخاری شریف پڑھانے کا شرف بھی حاصل ہونے جارہا ہے!
مولانا مدظلہ نے جامعہ مظاہر علوم میں پچھلے سال جو ابو داود شریف مکمل کرائی ہے وہ پچاسویں مرتبہ تھی! جب کہ اس سے قبل شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ نے بھی ابو داود تقریباً اتنی بار پڑھائی ہے! 
بخاری شریف کے ساتھ ساتھ ترمذی شریف کا درس بھی مولانا محمد عاقل صاحب ہی کے پاس رہے گا!
دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ محدث دار العلوم دیوبند سے معلوم کیا گیا:
’’سئل عن مفتی سعید من امیر المؤمنین فی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ہذا الزمن 
فاجاب علی الفور امیر المؤمنین فی ہذا الزمن 
روایۃ حضرت مولانا محمد یونس الجونفوری رحمہ اللہ
ودرایۃ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب السہارنفوری اطال اللہ عمرہ‘‘
روایۃ کا مطلب یہ کہ کونسی راویت کس مقام پر ہے
درایۃ کا مطلب ہے کہ حدیث کاصحیح مطلب کیا ہے
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سیّد محمد عاقل صاحب سہارنپوری دامت برکاتہم کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور مزید ہمت قوت عطا فرمائے آمین!

(منقول)
.....
تجہیز و تکفین
شیخ محمد یونس صاحب نوراللہ مرقدہ کی تجہیز و تکفین آج بعد نماز عصر عمل میں آئی ۔نماز جنازہ کی امامت حضرت حضرت مولانا شیخ زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے بیٹے پیر طلحہ صاحب نے کرائی ۔محتاط اندازے کے مطابق نماز جنازہ میں تقریبا دس لاکھ سے زائد افراد شریک تھے۔
مولانا شیخ محمد یونس صاحب گزشتہ 57 سال سے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ شیخ زکریا صاحب کے انتقال کے بعد شیخ الحدیث کے منصب آپ فائز ہوئے اور بخاری کے استاذ کی حیثیت سے دنیا بھر میں آپ کو ایک نمایاں مقام حاصل تھا ۔شیخ زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کے آپ علمی جانشین اور خصوصی شاگرد ہونے کے ساتھ آپ انہیں سے بیعت بھی تھے۔
شیخ مولانا محمد یونس صاحب کا تعلق اتر پردیش کے ضلع بجنور سے تھا۔ 1355 میں آپ پیدا ہوئے ابتدائی سے لیکر عربی پنجم تک کہ تعلیم آپ نے اپنے دیار میں حاصل کی۔ اس کے مولانا ضیاء مرحوم کے مشورہ سے سہارنپور آئے جہاں سے آپ نے 1380 میں فراغت حاصل کی اور پھر یہیں سے 1381ہجری میں بطور استاذ بحال کرلئے گئے ۔
شیخ مولانا محمد یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ نے شادی نہیں کی تھی آپ کی پوری توجہ علم حدیث کی نشر و اشاعت اور بخاری پڑھاتے ہوئی گزری ہے۔ آپ جامعہ مظاہر علوم کے ہی ایک کمرے میں مقیم رہے جبکہ آپ کا پورا پورا خاندان جونپور میں تھا۔ آج صبح فجر کے بعد کچھ پریشانی ہوئی۔ اساتذہ سہارنپور کے میڈی اسپتال میں لے گئے اور وہیں 9 بجے روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
مولانا کی نماز جنازہ پیر طلحہ صاحب نے پڑھائی اور حاجی شاہ کمال قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ محتاط اندازے کے مطابق نماز جنازہ میں تقریبا دس لاکھ سے زائد افراد شریک تھے اور 8 کلو میٹر کے رقبہ پر نماز جنازہ ادا کر نے والے پھیلے ہوئے تھے۔
........
آج بروز دوشنبہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑه یو، پی، میں بعد نماز ظہرشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب رحمہ اللہ علیہ کے انتقال پر ملال کے موقعہ پر ایک تعزیتی پروگرام ہوا اس پروگرام میں  مدرسہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ صاحب پھولپوری نے حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ سے اپنے تعلقات کا اظہار فرماتے ہوئے کہا کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ علیہ صرف میرے استاذ نہیں تهے بلکہ میرے مربی اور سرپرست تهے، ان کومدرسہ سے حد درجہ تعلق تها، 
انہوں نے فرمایا کہ حضرت شیخ نے اپنے آپ کو علم کے لئے وقف کردیا، یہ ان لوگوں سے تهے جنہوں نے شادی بیاہ کے مقابلہ میں درس وتدریس، کتاب کاپی کو ترجیح دیا، 
ان کے شیخ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نے ایک جگه بٹهادیا، توپوری زندگی اسی جگہ بیٹهے رہے، اور نصف صدی تک قال اللہ وقال الرسول کا نغمہ بکهیرتے رہے، 
ایک تاریخی خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب تم میرے عمر کو پہونچوگے تو مجھ سے آگے ہوگے، 
آپ کی موت سے جہاں دنیا علم حدیث کے ایک منارہ نور سے محروم ہوئی وہیں ارباب، مظاهر علوم، بهی اپنے ایک سپوت سے محروم ہوگئے، 
اللہ تعالی انہیں حضرت کا نعم البدل عطافرمائے، 
مدرسہ بیت العلوم  چهوٹا مظاهرالعلوم ہے یہ بهی ان کے غم میں برابر کا شریک ہے، 
حضرت پھول پوری نے طلبہ اور اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اپنے طور پر وقتا فوقتا قرآن پڑھ کر حضرت کےلئے ایصال ثواب کریں، اور دعا کریں کہ اللہ تعالی حضرت کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے، 
اس مجلس میں سورہ اخلاص پڑہ کر ایصال ثواب کیا گیا اور مغفرت کی دعاکی گئی،

انا لله وانا اليه راجعون
Two very pious people just passed away
1. Ml Ismail Badat رحمتہ اللہ علیہ of Madinah - Khalifah of Hazrat Sheikh Maulana Zakariyyah رحمتہ اللہ علیہ lived in Madinah for many years and used to make tilaawah of the Qur’an at least once daily in the haram.
انا لله وانا اليه راجعون
2. Hazrat Maulana Sheikh Yunus رحمتہ اللہ علیہ - great luminary of our time. Sheikhul Hadeeth of Darul Uloom Saharanpur
and perhaps one of the greatest scholars of the present day on Hadeeth.
.....
انا للہ و انا الیه راجعون...
ان للہ ما اعطی و للہ ما اخذ و کل عندہ باجل مسمی الا فاصبِروا و احتَسِبُوا ...
الموت کأس کل الناس شاربه
و القبر باب كل الناس  داخله
کل  یوم  یقال  مات  فلان و  فلان
و لابد من یوم یقال فیه مات عمر
لو کانت  الدنیا  تدوم  لاہلہا
لکان رسول اللہ فینا مخلدا
.......................
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دیں و دنیا کا سبق تیری حیات
یاد کرکے منجملہ ساقیان میخانہ تجھے
مدتوں رویا کرینگے جام و پیمانہ تجھے
اللہ رب العزت حضرت موصوف کی مغفرت فرمائے نیز انکے درجات بلند فرمائے اور انہیں غریق رحمت بنادے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے نیز انکی تقریبا پچاس سالہ علمی دینی خدمات پر اپنے شایان شان جزا عطا فرمائے اور حضرت کی وفات سے پیدا شدہ خلاء بھی پر فرمائے اور متوسلین و لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ...آمین یا رب العالمین ۔۔۔
آسمان  تیری  لحد  پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
....
یہ وہ تاریخی پرچہ ہے جس میں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ نے اپنے پیارے شاگرد، مظاہر علوم سہارنپور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس صاحب جونپوری دامت برکاتہم کے بارے میں عجیب اور بے مثال تمنا کا اظہار فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: 
اس سیہ کار کو تدریس دورہ کا اکتالیسواں سال ہے اور تدریس حدیث کا سینتالیسواں، اللہ تعالى تمھاری محنت میں برکت دے اور مبارک مشقتوں میں تا دیر رکهے؛ جب سینتالیس پر پہنچ جاؤگے مجھ سے آگے ہوگے. 
فقط
زکریا
27 رجب 1387 هجری(1967 عیسوی)
جبکہ اس خط کو لکھے ہوئے پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔
اللہ تعالیٰ شاگر واستاد دونوں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔

No comments:

Post a Comment