Monday 17 July 2017

اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم

ابلیس کا اصلی نام عزازیل ہے۔ ابلیس کی کنیت ابو قیتر یعنی تکبر کا باپ ہے۔ ابلیس کے لفظی معنی "انتہائی مایوس" کے ہیں اصلاحا یہ اس جن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم علیہ السلام اور نبی آدم علیہ السلام کے لیے مطیع و مستخر ہونے سے انکار کر دیا۔
ابلیس کو انسان پر کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ زبردستی اسے کھینچ کر اپنی راہ پر لے جائے۔ وہ صرف بہلانے پھسلانے سے کام لے سکتا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس کے پانچ بیٹے ہیں اور ہر ایک کے ذمہ ایک کام لگا دیا ہے
☠ ۱-ثبر
اس کے اختیار میں مصیبتوں کا کاروبار ہے۔ جس میں لوگ واویلا کرتے ہیں، گریباں پھاڑتے، منہ پر طمانچے مارتے ہیں اور جاہلیت کے نعرے لگاتے ہیں
☠ ٢۔ اعور
یہ لوگوں کو بدی (زنا) کا مرتک کرتا ہے اور اسے ان پر اچھا اور پسندیدہ کر کے دکھاتا ہے۔
☠ ۳۔مسوط
یہ دروغ پر مامور ہے۔ جسے لوگ کان لگا کر سنیں یہ انسانوں کی شکل اپنا کر ان سے ملتا ہے اور انہیں فساد برپا کرنے کی جھوٹی خبریں سناتا ہے۔
☠ ۴۔ داسم
یہ آدمی کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے اور آدمی کو اپنی بیوی کے عیب دکھاتا ہے۔ اور اس پر غضب ناک کرتا ہے۔
☠ ۵۔ زکنیور
یہ بازاروں کا مختار ہے۔ بازاروں میں آکر یہ بدی، فتنہ اور بددیانتی کے جھنڈے گاڑتا ہے
[مکائد الشیطان لابن ابی الدنیا۵۴\۳۵]
ابلیس کے والد کا نام چلیپا تھا اور کنیت ابو الغوی تھی ۔چلیپا کاچہرہ ببر شیر جیسا تھا وہ نہایت قد آور اور بہادر تھا اور اس کی قوم اسے شاشین کے نام سے مخاطب کرتی تھی' جس کے معنی دل ہلادینے کے ہیں۔ شاشین کی تمام قوم پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور قوم کا بچہ بچہ شاشین کا احترام کرتا تھا۔
ابلیس کی والدہ کا نام تبلیث تھا اور اس کی والدہ کا چہرہ بھیڑیئے کی مادہ کی طرح تھا اور وہ بھی اپنے شوہر کی طرح نہایت دلیر اور طاقت ور تھی اس حد تک کے قوم کے بچے بچے کی زبان پر تھا کہ تبلیث کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کرسکتی ہے۔ ’’ بقول ابلیس کے کہ تبلیث نے فرشتوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے بہادری کے وہ جوہر دکھائے کے دیکھنے والے عش عش کراٹھے ۔لیکن مشکل یہ تھی کے جن اور فرشتوں کا کوئی جوڑ نہیں تھا ۔اور خود میرا بھی یہ خیال تھا کہ اماں جان کی بعید از قیاس بہادری کے مقابلہ میں فرشتوں نے آکر سخت غلطی کی ہے اور انھیں بڑی عبرت ناک شکست ہوگی لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ ہم کمزور پڑ گئے اور فرشتے ہم پر غالب آتے گئے۔ اس عجیب و غریب جنگ کا سماں کچھ ایسا ناقابل فہم تھا کہ ساری قوم حیرت میں تھی فرشتوں کا وار ہم پر خوب پڑرہا تھا لیکن ہمارا وار کچھ ایسا اوچھا اور بزدلانہ پڑ رہا تھا کہ ہمیں خود حیرت ہوتی تھی۔ اسی دوران میری والدہ اور میرے والد جنگ میں مارے گئے میں اس وقت شادی شدہ تھا میری ملکہ اور بیٹا مرّہ بھی مارے گئے ۔‘‘ 
چونکہ ابلیس کے والد کا چہرہ شیر کی طرح اور والدہ کا چہرہ بھیڑیئے کی طرح تھا لہٰذا علم قیافہ کی رُو سے ابلیس میں دونوں خصوصیات ہیں یعنی وہ نہایت خود دارو سرکش اور مکار ہے۔ اور ساتھ ہی نہایت ، خود غرض، فریبی اور دھوکہ باز بھی ہے۔
فرشتوں اور قوم ابلیس کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی اس میں ابلیس گرفتار کرلیا گیا اور اللہ تعالی کے حکم کے تحت فرشتے عزازیل کو اوپر لے گئے اور پھر عزازیل کی بہترین تربیت کی گئی اور اللہ جل جلالہ کے کے رتبہ اور جاہ وجلال سے آشنا کیا گیا۔ عبادت اور ریاضت کے طریقے و آداب سمجھائے گئے۔ (یہاں تک کہ 
1. پہلے آسمان والوں نے اس کو عابد کا کہا۔
2. دوسرے آسمان والوں نے زاہد۔
3. تیسرے آسمان والوں نے عارف ۔
4. چوتھے آسمان والوں نے ولی۔
5. پانچویں آسمان والوں نے تقی۔
6. چھٹے آسمان والوں نے خاشع اور 
7. ساتویں آسمان والوں نے عزازیل کے لقب سے ملقب کیا) چند ہی عرصے میں یہ اپنی فطری تیزی و طراری کے سبب سب کچھ سیکھ گیا اور وہی فرشتے جو کبھی اس کے معلم و اتالیق تھے بحکم خداوندی علوم عالیہ میں امداد لینے لگے گے۔ رفتہ رفتہ عزازیل اپنی قابلیت کے باعث فرشتوں کا استاد بن گیا۔
(سبحان اللہ۔ قدرت بھی کیسے کیسے عجوبے پیش کرتی ہے )۔
اللہ تبارک تعالیٰ کا ہمیشہ سے ایک دستور ہے کہ وہ اپنی رائے کو سب سے الگ تھلگ رکھتے ہیں اور کسی کو بھی اس امر کی خبر نہیں ہو پاتی ۔اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ 
’’میں جسے چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں اور جسے چاہتا ہوں ذلت دیتا ہوں ۔‘‘ 
ایک روز عزازیل اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوا جب ہفت افلاک کی سیر کرتا ہوا لوح محفوظ تک پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ لوح محفوظ پر ایک عبارت لکھی ہوئی ہے۔ 
’’ ہمارا ایک بندہ ایسا ہے جسے ہم انواع واقسام کی نعمتوں سے مالامال کریں گے اور زمین سے اس کو آسمان پر پہنچا دیں گے اور آسمان سے پھر اس کو جنت میں لے جائیں گے ۔اس کے بعد ہم ایک خاص کام پر اس کو مامور کریں گے لیکن وہ انکار کرے گا اور بغاوت پر آمادہ ہوجائے گا ۔ ‘‘
عزازیل اس عبارت کو پڑھ کر حیرت زدہ ہوا اور اپنے دل میں خیال کرنے لگا کہ ایسا احسان فراموش بھلا کون ہوگا۔ دوبارہ عبارت پر غور کیا توعبارت کے قریب ہی نہایت واضح لکھا ہوا نظر آیا
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم۔ 
گھبرا کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی ۔اے رب العالمین ! یہ شیطان الرجیم کون ہے کہ جس سے پناہ مانگنی چاہیئے ہے۔اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارے ایک بندہ ہے جوانواع واقسام کی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا لیکن ہمارے ایک حکم کو نہ ماننے کے باعث مردود بارگاہ ہوجائے گا ۔عزازیل نے عرض کی۔ بار الٰہا! میں اس ملعون کو دیکھنا چاہتا ہوں ۔اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا !سَوُفَ تَرَاہُ (تو جلد اسے دیکھے گا)عزازیل اسی سوچ و بچار میں مبتلا تھا کہ اسے معلوم ہوا کے آدم علیہ السلام کا پتلہ تیار کیا جارہا ہے ۔اس پتلے کا سر مکہ معظمہ کی خاک ،گردن بیت المقدس کی مٹی۔سینہ عدن کی خاک سے اور پشت و شکم ہندوستان کی سرزمین کی مٹی سے،ہاتھ مشرق کی خاک اور پیر مغرب کی زمین سے تیار ہوں گے اور باقی گوشت پوست وغیرہ تمام زمین کی مجموعی خاک سے بنیں گے۔اور اس کے علاوہ اس میں آگ،پانی اور ہوا کو بھی شامل کیا جائے گا ۔(مختلف جگہوں کی مٹی شامل کرنے کی حکمت یہ ہے کے اس پتلہ کی نسل مختلف شکلوں میں نمودار ہوسکے گی۔اور عناصر کے شامل کرنے کی حکمت یہ ہے کے اس اس پتلے کی نسل چہار طبائع کا حسین امتزاج ہوگی ۔کیونکہ ہرچہار عناصر میں سے ایک عنصر دوسرے عنصر کی مؤجودگی میں قائم رہ ہی نہیں سکتا مثلاً آگ اور پانی یکجا نہیں رہ سکتے اور مٹی اور ہوا یکجا نہیں رہ سکتے اور یہ قادرمطلق کا ہی کمال ہے جس نے ان چہار عناصر کو یکجا کر رکھا ہے ) اور یہ جامع العجائب والغرائب پتلہ صانع مطلق نے اپنے ہاتھ(جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) سے بنائے گا۔ پھر جب پتلے کو تیار کرلیا گیا تو پتلے کو زمین پر بھیج دیا گیا۔ عزازیل فوراً اس پتلے کو دیکھنے کے لیئے زمین پر پہنچا تاکہ دیکھ سکے کہ اس کی (External and Enternal Shape) اندرونی اور بیرونی ساخت کیسی ہے اور اس کے اندر کس قسم کیMechanism,Machineryیعنی نظام رکھا گیا ۔سب سے پہلے عزازیل نے پتلے کو ٹھونک بجا کر دیکھا تو پتلے سے ایک بڑی ہی عجیب و غریب آواز پیدا ہوئی ۔جب بیرونی مشاہدے کے بعد عزازیل کسی بھی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تو اپنی مخصوص طاقتوں کے ذریعے پتلے کے اندر داخل ہوگیا (شاید اسی لئے کہا گیا ہے شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے) تاکہ پتلے کا اندرونی مطالعہ کرسکے. دوران سیر اس کو بہت ساری باتیں معلوم ہوئیں اور عزازیل نے اپنی طویل عمر میں جو کچھ دیکھا تھا وہ سب اس پتلے میں مؤجود تھا چنانچہ جب وہ رگ رگ کی سیر کرتا ہوا قلب تک پہنچا تو قلب کچھ اس طرح بند کیا گیا تھا کہ اپنی مخصوص طاقتوں اور مخفی علوم جاننے کے باؤجود قلب کو نہ کھول سکا (شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ 
لَا یَسَعُنِی اَرْضِی وَلَا سَمَائِی وَ یَسَعُنِی قَلْبُ عَبْدِی الْمُؤمِنِ التَّقِیِّ ۔ 
’’میں کسی چیز میں نہیں سماتا لیکن مؤمن کا قلب ایسی جگہ ہے جہاں میں سما جاتا ہوں‘‘)
اور نہ اس کے اندرونی حالات معلوم کرسکا کیونکہ خالق نے اسے سَر بہ مُہر(Sealed) کردیا تھا۔ پس عزازیل سمجھ گیا کہ اس پراسرار ڈبیہ میں کوئی خاص خزانہ چھپایا گیا ہے جسے مجھ سے پوشیدہ رکھنے کا مکمل انتظام کیا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment