Wednesday 12 July 2017

دل کے دروازے اندر سے کھلتے ھیں

وہ دارالعلوم دیوبند کے قریب میں ایک محلے میں ایک امیر ھندو گھرانے میں پیدا ھوا تھا اور ھندوؤں کے اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا تھا جو سورج کی پوجا کرتے ھیں، بچپن گزرا تو جوانی شروع ھوئی بچپن کی طرح اس کی جوانی بھی نرالی تھی، وہ ایک ھمدرد اور دیالو نوجوان تھا، ھر دم ھر وقت کسی کی مدد کو تیار! مذھبی تعصب سے بالاتر، محلے کی سب خواتین کو ماسی کہتا، ان کے کام کرتا! جوانی سے اس کا معمول تھا کہ وہ صبح دارالعلوم کے کنوئیں پر سورج طلوع ھونے سے تھوڑا پہلے آتا، پانی نکال کر اشنان کرتا اور پھر پشت سورج کی طرف کرکے اپنے سائے کی گردن پر نظر جماکر گھنٹوں کھڑا رھتا اور پھر اپنا جاپ ختم کرکے چلا جاتا! نہ اس نے کبھی دارالعلوم کے مہتمم سے کوئی ربط ضبط بڑھانے کی کوشش کی اور نہ کبھی انھوں نے اسے کنوئیں پر نہانے اور مدرسے کے ایک کونے میں اپنی عبادت کرنے سے روکا! 
وقت گزرتا رھا، مہتمم فوت ھوگئے اور نظم و نسق ان کے فرزند کے ھاتھ آیا، ادھر سوریا مہاراج بھی اب عمر کے اخری دور میں داخل ھوچکے تھے مگر معمولات میں کوئی ناغہ نہیں تھا!
آج بادل بنے ھوئے تھے اور سوریا مہاراج اشنان کرکے سورج کا انتظار کررھے تھے مگر بادل سورج کو دبوچے بیٹھے تھے، پتہ نہیں تقدیر کو سوریا مہاراج پر ترس آیا یا خود ان کا موڈ مسلمان مولوی کو چھیڑنے کا بن گیا! وہ مہتمم صاحب کے پاس جاکھڑے ھوئے جو اس وقت کیکر سے مسواک کاٹ رھے تھے! 
مہاراج نہ تو آپ کے پرشوں نے ھمیں مسلمان بنانے کی کوئی کوشش کی اور نہ ھی آپ ھمیں جنت میں بھیجنے کی کوشش کرتے ھو؟ سوریا جی نے مذاق کے انداز میں مہتمم صاحب کو چھیڑا،
مولانا نے پلٹ کر سوریا جی کو دیکھا اور ان کا ھاتھ پکڑے پکڑے اپنے دفتر میں لے آئے،
آپ سنایئے آج ھمارے نصیب کیسے جاگے، آپ نے ھمیں وقت کیسے دے دیا، آپ جناب تو کسی کو لفٹ ھی نہیں دیتے؟ مولانا نے مسکراتے ھوئے کہا،
دیکھو بھئی، تم میرے بچوں کے سمان ھو، مجھے غچہ دینے کی کوشش مت کرو، سوال پہلے میں نے کیا ھے، جواب بھی میرا حق بنتا ھے، آخر تم لوگ ساری دنیا کو مسلمان بنانے کے لئے بستر اٹھائے پھرتے ھو، بھیا میں تمھارے پڑوس میں عمر پوری کرچلا ھوں مجھے کسی ایک بار جھوٹے منہ بھی نہیں پوچھا کہ میاں تم بھی مسلمان بننا چاھتے ھو یا نہیں؟ میاں سنا ھے پڑوسی کے تو بڑے حق حقوق ھوتے ھیں اسلام میں، چلو ھمیں پڑوسی کا حق ھی دے دیتے،
سوریا جی کی بات نے مولانا کو سنجیدہ کر دیا وہ بڑی متانت سے بولے، سوریا جی میرے والد مرحوم کی جان نکلنے سے پہلے وصیت آپ کے لئے ھی تھی، وہ فرماتے تھے، یہ سوریا جنتی آدمی ھے اس میں ساری عادتیں اللہ کی پسندیدہ ھیں، بس تھوڑا کاغذی کام باقی ھے، یہ اندر سے مسلمان ھے، اللہ کی رحمت اس پر ٹوٹ پڑنے کو تیار ھے، بس تم اس لمحے کے لئے تیار رھنا جب سوریا جی میں رب کی جوت جاگے گی، اس وقت انہیں سنبھالنا تمھاری ذمہ داری ھے!
مولانا کی بات سن کر سوریا جی ھکا بکا رہ گئے، اچھا جی تو مولانا مرحوم بہت پہنچی ھوئی ھستی تھے، ھمیں خبر بھی نہیں لگنے دی اور ھمیں پڑھتے رھے، خیر،
مولانا نے پوچھا کہ سوریا جی آج آپ جاپ نہیں کر رھے؟
بیٹا تمھیں معلوم ھے سورج نظر نہ آئے تو اپنا جاپ رہ جاتا ھے!
اچھا سوریا جی کبھی آپ آتے ھیں تو سورج دستیاب نہیں ھوتا، کبھی سورج ھوتا ھے تو آپ بیمار ھوتے ھیں نہیں آتے، آج آپ دونوں موجود ھیں مگر ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے، یہ درمیان میں اڑچن کون ڈال دیتا ھے؟
بادل، سوریا جی نے بڑے آئستہ سے کہا،
اچھا سورج ایک ھلکے پھلکے بادل کے آگے مجبور ھو گیا، یا کسی اور ھستی نے جو سورج سے طاقتور ھے، اپنے حکم سے ایک اڑچن کھڑی کر دی اور سورج مہاراج آگ اگلنے کے باوجود مجبور ھوگئے؟
سوریا جی خاموش رھے،
اچھا سوریا جی کبھی ایسا ھوا کہ آپ کے ناغے سے ناخوش ھوکر سورج نے بھی غصے سے اگلے دن ناغہ کر دیا ھو اور طلوع ھونے سے انکار کر دیا ھو؟
ایسا کیسے ھو سکتا ھے؟ سوریا جی نے پلٹ کر سوال داغ دیا!
ایسا کیوں نہیں ھوسکتا ... کیا سورج دیوتا کو غصہ نہیں آتا یا اسے آپ کے ناغے کی خبر نہیں ھوتی، مولانا نے نرمی سے گفتگو کو جاری رکھا،
غصہ بھی آتا ھے اور اس غصے سے پناہ کے لئے ھی ھم اس کی پوجا کرتے ھیں اور انھیں ھماری پوجا کی خبر بھی ھوتی ھے، مگر کیا؟
"مگر" مولانا نے بات کو جاری رکھا! مگر سورج دیوتا مجبور ھے کہ وہ طلوع ھو، وہ اپنی مرضی سے طلوع غروب نہیں ھو سکتا، سوریا جی نے ایک سوچتی ھوئی شکل کے ساتھ جواب دیا!
مہاراج اگر دیوتا بھی مجبور ھوتے ھیں تو پھر ھماری مجبوریاں کیسے دور کریں گے؟ ایک مجبور دوسرے مجبور کی کیا مدد کر سکتا ھے؟ کیوں نہ اسے مجبور کرنے والے سے ھی رجوع کرلیا جائے جو اسے طلوع و غروب کرتا ھے، بادل بھیج کر اس کی دھوپ کو لپیٹ دیتا ھے؟
سوریا جی چپ رھے!
مولانا نے بات جاری رکھتے ھوئے کہا، سوریا جی آپ کے پاس چھٹی کرنے کا اختیار اور ارادہ ھے، سورج کے پاس نہ چھٹی کا ارادہ ھے اور نہ ھی اختیار ھے! سوریا جی مہاراج آپ کو پتہ ھے کہ اسی ارادے اور اختیار کی بنیاد پر تمام کائنات اور اس کو سنبھالنے والے ان کا نظم و نسق چلانے والے ملائکہ کو کہا گیا تھا کہ
"آدم کو سجدہ کرو، اس کی بڑائی تسلیم کرو، آج کائنات میں خالق نے پہلی صاحبِ ارادہ صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کی ھے، خدا کے بعد ارادے کی مالک ایک ھستی پیدا کی گئی اور کائنات اور اس کو سنبھالنے والے فرشتوں کو اس آدم کے قدموں میں ڈال دیا، جس آدم (علیہ السلام) کی پشت میں آپ بھی تھے سوریا جی، اور میں بھی تھا، آپ نے آج تک اس ارادے کو استعمال نہیں فرمایا، اپنے شرف کو استعمال نہیں کیا، اسے ویسے کا ویسا ھی رب کے پاس لے کر چلے جاؤ گے سوریا جی اور پھر اسے کیا منہ دکھاؤگے؟ اس سجدے کی قیمت تو چکاتے جاؤ جو اس اختیار کے صدقے فرشتوں سے کروایا تھا،
سوریا جی "ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم " کی تصویر بنے بیٹھے تھے،
مولوی جی پہ بھی جلال اور جمال کی دونوں صفات کا غلبہ تھا کبھی ایک آرھی تھی تو کبھی دوسری، لگتا تھا انھوں نے اپنے پرشوں کی بات پلے باندھ کر خوب تیاری کر رکھی تھی سوریا جی کے استقبال کی!
سوریا جی آپ بہت نیک انسان ھیں، ھم سب نے آپ کو بچپن سے دیکھا ھوا ھے شاید کہ مسلمانوں میں بھی آپ سا ھمدرد، سخی اور خداترس انسان پوری بستی میں نہیں، مگر سوریا جی پیپر ورک تو کرنا پڑے گا، دل کے دروازے کا تالا اندر سے کھلتا ھے، اللہ نے سنت بنا رکھی ھے، اس نے نبیوں کے باپ ،بیٹوں اور بیویوں کو بھی ھدایت نہیں دی جب تک کہ انھوں نے دل کا دروازہ نہیں کھولا، کسی کے گھر بغیر چاھے جانے سے اللہ نے منع فرمایا ھے، اس کا حکم ھے اسی گھر میں جاؤ، جس گھر کا مالک انس محبت سے تمھیں بلائے، پھر وہ آپ کے اندر بغیر انس کے بغیر آپ کے بلائے کیسے آجائے گا؟ اس کی رحمت کا سمندر آپ کی چارپائی کے گرد چکر کاٹتا رھتا ھے سوریا جی، بس ذرا دل کی کھڑکی کھول کے دیکھو وہ کیسے اندر آتا ھے!
سوریا جی اٹھ کر چلے تو لگتا تھا کہ وہ زمین پر نہیں، پانی پر چل رھے ھیں، زمین ان کے پاؤں تلے سے کھسک گئی تھی! وہ رات قیامت کی رات تھی، دل میں گداز پیدا ھونا تھا کہ رحمت کی جھڑی شروع ھو گئی، سوریا جی ساری رات رو رو کر معافیاں مانگتے رھے، وہ ڈر رھے تھے کہ وہ صبح سے پہلے کہیں مر نہ جائیں، کہیں پیپر ورک ادھورا نہ رہ جائے، انھوں نے اللہ سے اپنی ساری نیکیوں کے عوض صبح تک جینے کی مہلت مانگ لی، آج انہیں زندگی کی قدر آگئی تھی، صبح ابھی مدرسہ کھلنے کا وقت نہیں ھوا تھا کہ سوریا جی مہتمم صاحب کے گھر کے دروازے پر دستک دے رھے تھے!
دروازہ مولانا صاحب نے خود کھولا، لگتا تھا وہ اسی بات کی توقع رکھتے تھے، سوریا جی کی کیفیت سے لگتا تھا کہ جیسے ان کا پورا وجود بول رھا ھے مگر زبان جواب دے گئ ھے، مولانا نے ان کا ھاتھ پکڑا اور اپنی بیٹھک میں لے گئے، سوریا جی کو چارپائی پر بٹھا کر وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گئے، اور گویا ھوئے،
سوریا جی مہاراج، اپ کچھ بھی مت بولئے، زبان کو بند رھنے دیجئے، آج خود اللہ آپ کے وجود کو پڑھ رھا ھے، وہ آپ کی دعوت قبول کرکے آپ کے دل میں آبیٹھا ھے، سوریا جی میں اسی کے احترام میں آپ کے قدموں میں بیٹھا ھوں،
زارو قطار روتے سوریا جی کو انھوں نے خوب رونے دیا. وہ جانتے تھے ھر مسلمان ھونے والا پیدا ھونے والے بچے کی طرح روتا ھوا مسلمان ھوتا ھے اور یہ صحت کی علامت ھے، جان کی صحت کی بھی اور ایمان کی صحت کی بھی !،
پھر اپنے ساتھ ناشتہ کروایا اور پھر مدرسے کے تمام طلباء کے سامنے اسلام قبول کروایا گیا، عبداللہ نام منتخب کیا گیا اور اسلام قبول کرنے کے ھفتہ دس دن بعد عبداللہ بھائی بس ایک بخار میں ھی اللہ کو پیارے ھو گئے!
واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ھوئے علامہ دوست محمد قریشی فرماتے ھیں،
"عبداللہ بھائی کے جنازے پر لگتا تھا پورا دیوبند امڈ پڑا ھے، ایک تو وہ خود ایک انسان دوست شخصیت تھے، بلا تفریق مذھب و مسلک ھر ایک کے کام آنے والے، اوپر سے جو اکرام مسلمانوں نے خاص کر دارالعلوم کے طلباء نے ان کا کیا، اس نے ھندوؤں کے دلوں میں بھی گداز بھر دیا، طلباء ان کی چارپائی کو کندھا دینے ٹوٹے پڑتے تھے، جنازہ شروع ھوا تو اعلان ھوا کہ جنازے میں تاخیر کی جائے کئی ھندو بھی مسلمان ھوکر جنازے میں شرکت چاھتے ھیں، شیخ الجامعہ نے کہا کہ جو مسلمان ھونا چاھتے ھیں وہ صفوں میں کھڑے ھی ھمارے پیچھے شہادتین دھرالیں، باقی کام بعد میں ھوتے رھیں گے،
بہت سارے ھندوؤں نے جب شہادتین کا ورد شروع کیا تو جن کی نیت شاید مسلمان ھونے کی نہ بھی تھی، وہ بھی جذبات میں بہہ گئے، سیکڑوں لوگ مسلمان ھوئے، اس کے علاوہ ان کے ھندو رشتے داروں کو بھی جنازے میں کھڑا ھونے سے نہیں روکا گیاـ

No comments:

Post a Comment