Sunday 29 May 2016

کلمہ کی کثرت

ایس اے ساگر

اہل علم کے نزدیک دور نبوت سے دوری دل کے سخت اور محرومی کا باعث بنتی ہے، اس لئے فرمایا کہ اپنے ایمان کو بچا کر رکھیں.  اور ایمان سے دور نہ ہو جائے اور پرانے کپڑے کی طرح بوسیدہ نہ ہو جائے تو تجدید کر لیں. طریقہ بھی بتایا کہ کثرت سے لا الہ الا اللہ کا ذکر کرے،
 - جدِّدوا إيمانَكم قالوا يا رسولَ اللَّهِ فكيفَ نجدِّدُ إيمانَنا قالَ جدِّدوا إيمانَكم بقولِ لا إلهَ إلَّا اللَّهُ

الراوي: أبو هريرة المحدث: الهيثمي- المصدر: مجمع الزوائد -الصفحة أو الرقم: 2/214
خلاصة حكم المحدث: مداره على صدقة بن موسى الدقيقي ضعفه ابن معين وغيره وقال مسلم بن إبراهيم‏ ‏ كان صدوقا

2 - جدِّدوا إيمانَكُم قالوا : يا رسولَ اللَّهِ ، وَكَيفَ نجدِّدُ إيمانَنا ؟ قالَ : أَكْثِروا مِن قولِ : لا إلهَ إلَّا اللَّهُ

الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن عدي- المصدر: الكامل في الضعفاء - الصفحة أو الرقم: 5/120
خلاصة حكم المحدث: [فيه] صدقة بن موسى ما أقرب صورته من صدقة بن عبد الله وهو إلى الضعف أقرب

3 - جدِّدوا إيمانَكم . قيل : يا رسولَ اللهِ ! كيف نُجدِّدُ إيمانَنا ؟ قال : أكثِروا من قول : لا إلهَ إلَّا اللهُ

الراوي: أبو هريرة المحدث: أبو نعيم- المصدر: حلية الأولياء -الصفحة أو الرقم: 2/405
خلاصة حكم المحدث: غريب من حديث محمد بن واسع تفرد به عنه صدقة بن موسى

4 - جدّدُوا إيمانكُم ، قيل : يا رسولَ اللهِ وكيفَ نُجدّدُ إيماننا ؟ قال : أكثروا من قولِ لا إله إلا اللهُ

الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن القيسراني- المصدر: ذخيرة الحفاظ - الصفحة أو الرقم: 2/1226
خلاصة حكم المحدث: [فيه] صدقة الدقيقي ضعيف

5 - جدِّدوا إيمانَكم قيل يا رسولَ اللهِ وكيف نُجدِّدُ إيمانَنا قال أكثِروا من قولِ لا إلهَ إلَّا اللهُ

الراوي: أبو هريرة المحدث: المنذري- المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/342
خلاصة حكم المحدث: [إسناده] حسن

6 - جددوا إيمانَكم قيل: يا رسولَ اللهِ وكيف نجددُ إيمانَنا؟ قال: أكثروا من قولِ: لا إلهَ إلا اللهُ.

الراوي: أبو هريرة المحدث: الدمياطي- المصدر: المتجر الرابح - الصفحة أو الرقم: 209
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

7 - جدِّدوا إيمانَكم ، وأكثِروا من قولِ لا إله إلا اللهُ

الراوي: أبو هريرة المحدث: الذهبي- المصدر: ميزان الاعتدال -الصفحة أو الرقم: 2/313
خلاصة حكم المحدث: [فيه صدقة بن موسى الدقبقي ذكر من جرحه]

کلمہ کی سات شرطیں :

خوب جان لو کہ،

کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی سات شرطیں ہیں:

1) پہلی شرط تو یہ ہے کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کہتے وقت انسان نے اس کا معنیٰ اور مطلب جان لیا ہو اور یہ خوب ذہن نشین کرلیا ہو کہ اس کلمہ سے کن کن باتوں کی نفی ہوتی ہے اور کن کن باتوں کا اِثبات۔
2) دوسری شرط یہ ہے کہ اس کلمہ میں جو بات آئی آدمی کو اُس پر پورا یقین اور وثوق ہو گیا ہو، جو کہ اس کلمہ کو (دل ودماغ) سے جاننے کا ہی اعلیٰ درجہ ہے۔ یہ ایک ایسا یقین ہو کہ جس کے ہوتے ہوئے کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔
3) تیسری شرط اخلاصِ (نیت) ہے، یہاں تک کہ شرک باقی نہ رہ گیا ہو۔
4) چوتھی شرط ہے (اس کلمہ کے ساتھ) صدق اور وفا، یہاں تک کہ (اس کلمہ کے معاملہ میں) دروغ اور منافقت کا وتیرہ خارج از امکان ہوگیا ہو۔
5) پھر پانچویں شرط یہ ہے کہ انسان کو اس کلمہ اور اس کے معنی اور مفہوم سے ایک محبت و وارفتگی ہو گئی ہو اور اس کلمہ سے اس کو ایک سرور ملنے لگا ہو۔
6) چھٹی شرط یہ ہے کہ انسان خلوصِ دل کے ساتھ، اللہ کی خوشنودی طلب کرتے ہوئے، اس کلمہ کے حقوق یعنی فرائض و واجبات ادا کرنے پر کار بند ہونا قبول کر چکا ہو۔
7) ساتویں شرط یہ ہے کہ آدمی نے اس کلمہ کے حقوق کو (ظاہر میں ہی نہیں) دل سے مان لینا بھی قبول کر لیا ہو، یوں کہ اس کی کوئی بات رد کر دینے کا اس کے ہاں تصور تک باقی نہ رہ گیا ہو۔

اپنی اور امت کی اصلاح :

حاجی عبدالوہاب دامت برکاتہم کے مطابق دعوت و تبلیغ دین کی محنت کا ایک وسیع میدان ہے اور اس میدان میں تبلیغی جماعت کا کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ جماعت کی محنت کے اثرات کا مشاہدہ ہر ذی شعور انسان کھلی آنکھوں سے کر سکتا ہے۔یہ ایمانی تحریک پوری دنیا کے ہر اس علاقہ تک پہنچ گئی جہاں مسلمان بستے ہوں۔ ان دین کے خادموں کا مقصد اور بنیادی دعوت یہ ہے کہ تمام امت ِ دعوت اسلام قبول کر کے اللہ جلّ شانہ کے سایہ رحمت میں آ جائے اور تمام امت اجابت یعنی امت مسلمہ میں وہ ایمان اور ایمان والی زندگی عام ہو جائے جس کی دعوت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ اور قرآن مجید میں جس کا مطالبہ اس آیت میں کیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا ادخُلُوا فِی السِّلمِ کَآفَّةً (البقرہ۸۰۲)
”اے لوگو جوایمان لائے ہو ....داخل ہو جا ؤ اسلا م میں پورے کے پو رے “
اس سلسلے میں وہ حضرت مولاناالیاس دہلوی رحمہ اللہ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ان کی دعوت کا محور دو باتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ تمام مسلمان چوبیس گھنٹے کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کے مطابق پورا کرنے والے بن جائیں۔اور دوسری یہ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے نبیوں والا کام اب ساری امت کے ذمہ ہے۔پھر اس کے ذیل میں وہ دین کی چھ مخصوص صفات کی دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ چھ چیزیں اگرچہ پورا دین ہرگز نہیں لیکن اگر ان کو سیکھ کر ان پر عمل کیا جائے گا تو پورے دین پر چلنے کی استعداد پیدا ہو جائے گی۔
ان چھ صفات میںسب سے پہلے کلمہ طیبہ اور اس کے مفہوم و یقین کی دعوت ہے۔ یعنی اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کی اتنی دعوت دی جائے کہ دل اللہ کی ذات سے متاثر ہو جائے اور غیر کے تاثر سے پاک ہو جائے ، اس سے شرک کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کلمے کا دوسرا جز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں میں کامیابی کی اتنی دعوت دی جائے کہ سنتیں زندہ ہو جائیں اور بدعات کا خاتمہ ہو جائے۔ اس بنیادی محنت کے بعدبالترتیب نماز، علم و ذکر، اکرامِ مسلم، اخلاص اور دعوت و تبلیغ کی دعوت دی جاتی ہے۔ جماعت کے ساتھی ان صفات کے علاوہ کوئی او ربات مثلاً کسی ”شیخ“ سے بیعت ہونے یا کسی حلقہ سے وابستہ ہونے یا کسی جماعت اور انجمن کاممبر بننے کی نہ دعوت دیتے ہیں اور نہ منع کرتے ہیں، بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ جس سلسلے سے چاہیں اصلاحی تعلق قائم کریں۔ خود تبلیغی جماعت کے بانی اور اکابر کی جوعلمائے دیوبندکی طرف نسبت ہے ، اس نسبت کی بھی دعوت نہیں دی جاتی کیوں کہ مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ”جہاں تک ہو سکے یہ کوشش کرو کہ دین کی اس دعوت میں میری ذات اور میرے نام کا ذکر نہ آئے۔“
غرض تبلیغی جماعت کسی نئے نظریہ یا کسی نئے مقصد کی داعی نہیں ، وہ تو صرف اپنی اور امت کی اصلاح کے لیے محنت اور قربانی کی دعوت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری تنظیموں اور انجمنوں کی طرح اس تحریک کا کوئی دستور یا منشورنہیں، کوئی دفتر یا رجسٹر نہیں اور نہ ہی کوئی ممبر یا عہدیدار ہے، یہاں تک کہ اس کا کوئی جداگانہ نام تک نہ رکھا گیا۔ حضرت مولانا الیاس رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ نام ”تبلیغی جماعت“ ہم نے نہیں رکھا۔ہم تو بس کام کرنا چاہتے تھے، اس کاکوئی خاص نام رکھنے کی ضرورت بھی نہ سمجھی تھی۔ لوگ کام کرنے والوں کو تبلیغی جماعت کہنے لگے، پھر یہ اتنا مشہور ہوا کہ ہم خود بھی کہنے لگے۔“
اسی طرح جماعت والے اپنی کارگزاریوں کی بھی بالکل شہرت نہیں چاہتے بلکہ اپنے کام کے لیے اخبار یا رسالہ نکالنے یا اشتہار و پمفلٹ کے ذریعہ اپنی بات پہنچانے کے وہ بالکل قائل نہیں!....مگر اس کے باوجودکام کاثمر جونکلاوہ سب کے سامنے ہے۔
یورپ اور افریقہ کے وہ علاقے جہاں پورے ملک میںچندمسجدیں ہوا کرتی تھیں، وہاں جماعت کی محنت کو اللہ نے قبول فرمایا اور آج سینکڑوں مساجد ہیں اور کافی ساتھی ایسے ہیں جن کے ہاتھ پر آسٹریلیا اور افریقہ میں ہزاروں ایسے لوگ دوبارہ دائرہ اسلا م میں داخل ہوئے، جو عیسائی اور قادیانی جماعتوں کے دجل و فریب کا شکار ہو کر گمراہ ہو گئے تھے، لیکن آپ نے کبھی ان کارناموں کے اشتہار نہیں دیکھے ہوں گے، کیوں کہ حضرت مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ نے اپنے کام کا ڈھانچا اخلاص کی بنیاد پر اٹھایا تھا اور یہاں تک دعافرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! اس کام کو کرامات کی بنیاد پر نہ چلائیے گا۔
اس جماعت میں ہر شخص اپنا خرچہ خود اٹھاتا ہے، ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جولاکھوں خرچ کر سکتے ہیں اور آخرت کے اجرو ثواب کی امید پر خرچ بھی کرتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ سامان سر پر رکھ کر مہینوں کے لیے پیدل نکل پڑتے ہیں۔
اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو جماعت کی روز افزوں کامیابی اور ساری دنیا میں پھیلاؤ اسی حکمت عملی کی وجہ سے ہے کہ یہ کام انبیا کرام علیہم السلام کے طریقہ دعوت کے بے حد مشابہ ہونے کی وجہ سے بے حد سادہ ، آسان اور انسانی فطرت کے مطابق ہے۔اس کے علاوہ انبیا کرام علیہم السلام کی سنت میںتبلیغی کام کسی خاص طبقہ کی ہی اصلاح کا ذریعہ نہیں بلکہ تمام دین کے احیائ، تمام مسلمانوں کی اصلاح اور دائرہ اسلام میں بیش از بیش وسعت کا ذریعہ ہے۔جماعت نے اپنے کام کو کسی ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں کیا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں بے دھڑک دین کی دعوت کے لیے محنت کی ۔ انتہائی معمولی شعبہ زندگی کے افراد سے لے کر اخص الخواص تک یکساں ایمان و اعمال کی آواز لگائی۔
جماعت والے ان لوگوں کے پاس بھی گئے جنہیں کبھی کسی نے اس نظر سے نہیں دیکھا کہ وہ بھی اللہ کے بندے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ خواجہ سرا اور ناچنے گانے والوں کو بھی دعوت دی گئی !اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان گنت سعید روحوں نے اس دعوت پر لبیک کہا اور یوں تبلیغی جماعت کو ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے داعی مل گئے جو مختلف صلاحیتوں اور استعداد کے مالک تھے۔یہ جماعتیں گویا چلتی پھرتی تربیت گاہیں و خانقاہیں ہیں۔ اس کے ذریعے کچھ بھی نہ ہو تو کم ازکم دین کے لیے تکلیفیں اٹھانے اور اپنا مال دین کے لیے خرچ کرنے کی عادت پڑتی ہے اور دوسروں کی اصلاح ہو یا نہ ہو اپنی اصلاح کی فکر ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔غرض تبلیغی جماعت کا مقصد دین کی طلب کو عام کرنا ہے، جس سے مدارس کو طلبہ کثرت سے ملتے رہیں اور خانقاہوں کو ذاکرین ملیں اور ہر عام مسلمان کے دل میں دین کی اہمیت پیدا ہوتی چلی جائے۔
اس ضمن میں ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ چوں کہ یہ تبلیغی کام اپنی اصل میںبہت عمومی حیثیت رکھتا ہے اور ہر قسم کے آدمی اس میں آتے اور کام کرتے ہیں اور ہر ایک کی اصلاح، اس کی استعداد اور حوصلہ کے موافق ہوتی ہے۔اس لیے کسی فرد یا جماعت سے کوتاہی اور غلو ظاہر ہو جانا بالکل قرین قیاس ہے، جسے جماعت کا اصول یا اس کے اکابر کی طرف منسوب کردینا مناسب نہیں۔ دراصل ہدایات کو غور سے نہ سننے،اصول کی پابندی نہ کرنے اور چھ نمبر سے بڑھ کر بیان کرنے سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔
جماعت پر غیروں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ تو اکثر نرے الزامات ہی ہوتے ہیں لیکن اپنے حلقوں میں جو خیر خواہی سے تبلیغی جماعت پر اعتراض کیے جاتے ہیں وہ یاتو ناواقفیت کا نتیجہ ہوتے ہیںیا پھر عام تبلیغی افراد کے کسی انفرادی عمل کو دیکھ کر اس کو پوری جماعت کی طرف منطبق کر دیا جاتا ہے جو ظاہری بات ہے کہ اصولاً غلط ہے۔ اگرچہ فی نفسہ فکروعمل کی کمی کوتاہی یاغلطی کاامکان بھی رہتاہے مگر دیکھاگیاہے کہ اکابراورجیدعلماءکی طرف سے جب کوئی اصلاح کی کوشش کی گئی تو اسے سنجیدگی سے لیاگیا اوراپنی اصلاح کی گئی۔
اس لیے علم والوں اور بے علموں کو، نئے اور پرانوں کو، متقی اور غیر متقی کو، ذاکر ین اور غافلوں کو سب کو تنقید کرتے وقت ایک معیار پر جانچنا اور ایک وزن سے تولنا صحیح نہیں۔ کسی فرد سے اگر کوتاہی ہو جائے تو اس کو جماعت کا اصول نہیں قرار دینا چاہیے بلکہ نرمی سے اصلاح کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔
ایک عام اعتراض تبلیغی جماعت پر یہ کیا جاتا ہے کہ تبلیغی جماعت کو مسلمانوں کو درپیش کسی بھی انفرادی یا اجتماعی مسئلہ سے خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہیہ لکھتے ہیں کہ: ”اس کام کی بنیاد قرآن و حدیث سے حاصل ہونے والے اس یقین پر ہے کہ اس زمانہ میں امت مسلمہ کو سارے عالم میں جو اجتماعی یا انفرادی مشکلات و مسائل درپیش ہیں، ان کا سببِ اصلی اور علة العلل یہ ہے کہ امت کی غالب اکثریت اس حقیقی ایمان بالغیب اور اس ایمانی زندگی سے دور ہو گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت کے لیے شرط ہے اور اس میں وہ خدافراموشی اور آخرت سے بے فکری آ گئی ہے جو پچھلے انبیا کرام علیہم السلام کی امتوں کے لیے سراسر تباہی کا باعث بنی۔اور امت کی یہی حالت دوسری قوموں کے اسلام کی طرف آنے میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ نیز یہ یقین بھی اس تبلیغی کام کی بنیادہے کہ آخرت کا مسئلہ اس دنیوی زندگی کے سارے مسائل سے لاکھوں درجہ زیادہ قابل فکر ہے مگر حالت یہ ہے کہ (امت مسلمہ کے) دنیوی مسائل کی فکر کرنے والوں کی تو کمی نہیں ہے لیکن آخرت کی فکر میں دوڑ دھوپ کرنے والوں کو دیکھنے کے لیے آسمان کی آنکھیں ترستی ہیں۔“ [تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی از مولانا منظور نعمانی]
اس لیے تبلیغی جماعت سے یہ توقع رکھنا ہرگز مناسب نہیں کہ جماعت دعوت الیٰ اللہ کے میدان میں بھی کام کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دین کے دوسرے شعبوں میں بھی بھرپور کردار ادا کرے۔ہاں دوسرے شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے دعائے خیر کی جاتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ دراصل یہ تبلیغی کام اپنی اصل میں، دین کے تمام شعبوں کا خادم ہے۔ دین کے تمام شعبوں کے لیے رجال کار مہیا کرنا تبلیغی جماعت کا کام ہے۔ بے طلبوں اور دنیاداری کی دلدل میں گلے گلے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال کر اور ان کے دل میں دین کی طلب پیدا کر کے، دین کے مختلف شعبوں سے وابستہ کرنے کی محنت کرنا اپنی نوعیت کا بڑا زبردست کام ہے۔
بہرحال افراط و تفریط سے بچنے کے لیے حضرات کی یہ خواہش ہے کہ علماءکرام کی سرپرستی میں کام ہو، کیوں کہ جتنا علماءکرام اس مبارک کام کی سرپرستی اور نگرانی کریں گے اتنا ہی کمی بیشی دور ہو کر اعتدال قائم ہو گا اور شکایات کم ہو ں گی ۔یوں تو الحمدللہ کام اس مخصوص ڈھنگ میں شروع بھی ایک جیّد عالم مولانا الیاس دہلوی رحمہ اللہ سے ہوااور شروع ہی سے اکابر علماءکرام کی تائید و نصرت بھی اس تبلیغی کام کے ساتھ رہی۔ مثلاًحضرت مولانااشرف علی تھانوی ، حضرت رائے پوری ،حضرت حسین احمد مدنی، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ، حضرت مولاناقاری طیب ،حضرت مولانا علی میاں اور حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہم اللہ تعالیٰ اور پھر ان اکابر کے خلفاءکرام غرض سب کی پشت پناہی اس جماعت کے ساتھ رہی۔
اس لیے علماءکرام سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ اپنے درس و تدریس اور دوسری علمی مشغولیت کے ساتھ اپنے محلوں کی جماعتوں میں جڑتے رہیں۔ اور سال میں تھوڑا بہت وقت فارغ کر کے جماعت کے ساتھ چلے جائیں تو ان شاءاللہ جماعتوں میں جو ہر قسم کے عامی مسلمان ہوتے ہیں، ان کی نگرانی، اصلاح اور تربیت ہو تی چلی جائے گی۔ اب جماعتیں توبے شمار ہیں مگرکام کی نگرانی کرنے والے یعنی علماءکرام کم ہیں۔ اس وقت بھی صرف اندرون ملک میں کم و بیش پندرہ بیس ہزار جماعتیں ایمان و اعمال سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوں گی اور میری معلومات کے مطابق ساڑھے چھ ہزار علماءکرام اس وقت اندرون ملک سال لگا رہے ہیں۔ یوں اگر ایک عالم ایک جماعت میں ہو تو باقی تین چوتھائی جماعتیں علماءکرام کی صحبت سے محروم ہیں۔
آخر میں دین کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے محترم ساتھیوں سے التجا ہے کہ بے شک اپنے متعین شعبے میں خوب جم کر کام کریں، مگراپنا محاسبہ کرتے رہیں اور دوسرے شعبوں کی کمی ہرگز دل میں نہ لائیں۔کیوں کہ شیطان ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ بس ہمارا کام ہی اصل ہے دین کے دوسرے کام معاذ اللہ کم تر ہیں۔ ایسا سمجھنا بہت خطرے کی بات اور فتنہ کی چیز ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ ربّ العزت کی منشا ہے کہ جس سے اپنے دین کا جو چاہے کام لے۔اس لیے تقابل کی بجائے تعاون کی راہ اپنائیں اور اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے دوسرے شعبوں کے ساتھیوں کے ممنون ہوں کہ دین کے دوسرے کام جو ہم اپنے شعبہ کی مشغولیت کی وجہ سے نہیں کر پارہے ، ہمارے بھائی اس کام کو سنبھالے ہوئے ہیں ۔اس نقطہ نظر سے دوسرے شعبوں کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنا، بقدرِ استطاعت ان کے ساتھ تعاون کرنا اور دعاؤں میں ان کو یاد رکھنا ان شاءاللہ آپ کو دین کے سارے شعبوںمیں کام کرنے کا اجر دلوائے گا اور اس کے ساتھ امت میں جوڑکی شکل پیدا ہو کر اجتماعیت پیدا ہو گی جو امت مسلمہ کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment