Friday 29 April 2016

ایصال ثواب

السلام علیکم ورحمہ اللہ ۔۔۔
غیر مقلدین ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں 
ہماری طرف کیا کیا دلائل دیے جاسکتے ہیں ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً و مصلیاً
ایصالِ ثواب فی نفسہ جائز اور باعثِ اجر و ثواب ہے،لیکن اس کے لئے کوئی خاص طریقہ یا دن یا وقت یا اجتماعی کیفیت شرعاًمقررنہیں،بلکہ ہرشخص انفرادی طورپرکوئی بھی نفل عبادت کرکےایصالِ ثواب کرسکتاہے، مثلاًنفل نمازیں،نفل روزے،نفل حج و عمرہ،قرآنِ کریم کی تلاوت،تسبیحات،کلمۂ طیبہ پڑھ کریا حسبِ توفیق نقدرقم یاکھاناوغیرہ صدقہ خیرات کرکے یا تعمیر ِ مساجد ،دینی مدارس یا دینی و مذہبی کتابوں کی فی سبیل اللہ اشاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے اللہ میرے اس عمل کاجو کچھ ثواب آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ ثواب فلاں شخص کوپہنچادیجئے،بس اس سےمرحوم کو ثواب پہنچ جائے گا،ایصالِ ثواب کی حقیقت شریعت میں فقط اتنی ہی ہے ۔

آجکل ایصالِ ثواب کے لئے جو مختلف رسمیں اور صورتیں مثلاً تیجہ ( سوئم ) ، دسواں ، چالیسواں ، سالانہ عُرس، جمعرات کو جمع ہونا وغیرہ کی شکل میں یا اجتماعی قرآن خوانی کی صورت میں یا مروّجہ ختم کی صورت میں رائج ہو گئی ہیں، یہ سب بدعت اور ناجائز ہیں، ان رواجی طریقوں میں شرکت کرنےاورکھاناکھانے سے اجتناب کیاجائےبالخصوص اگر میت کے ترکہ میں سے خیرات کی گئی ہواورورثاء میں بعض نابالغ ہوں یا ورثاء عاقل بالغ ہوں لیکن ان کی دلی رضامندی کے بغیر یہ خیرات کی گئی ہوتواس کا کھاناہرگزجائز نہیں۔

=========================================
حاشية ابن عابدين - (6 / 56)
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا . إنا لله وإنا إليه راجعون
=========================================
عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام عبد الحي اللكنوي - (9 / 108)
فالحاصل أنَّ ما شاعَ في زماننا من قراءةِ الأجزاءِ بالأجرةِ لا يجوز؛ لأنَّ فيه الأمرَ بالقراءة، وإعطاءُ الثواب للآمر، والقراءةُ لأجلِ المال، فإذا لم يمكن للقارئ ثوابٌ لعدمِ النيّة الصحيحةِ فأين يصلُ الثوابُ إلى المستأجر، ولولا الأجرةَ ما قرأ أحدٌ لأحدٍ في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنّا لله وإنّا إليه راجعون. انتهى.
=========================================
 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام عبد الحي اللكنوي - (9 / 108)
وقال الشيخ خيرُ الدين الرمليُّ في ((حاشية البحر)) في (كتاب الوقف): 
أقول: المفتي به جوازُ الأخذِ استحساناً على تعليمِ القرآن لا على القراءةِ المجرَّدة. كما صرَّح به في ((التاتارخانية)) حيث قال: لا معنى لهذه الوصيّة، ولصلة القارئ بقراءته؛ لأنَّ هذا بمنْزلةِ الأجرة، والإجارةُ في ذلك باطلة، وهي بدعة، ولم يفعلها أحدٌ من الخلفاء
=========================================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 240)
وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ
=========================================
تلبيس إبليس (1 / 283 دار الفكر)
المسنون أن يتخذ لأهل الميت طعاما لاشتغالهم بالمصيبة عن إعداد الطعام لأنفسهم وليس من السنة أن يتخذه أهل الميت ويطعمونه إلى غيرهم .
=========================================
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 755)
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟
=========================================
كتاب الاعتصام للشاطبي - (1 / 22)
ومنها : التزام الكيفيات والهيئات المعينة ، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيداً، وما أشبه ذلك .
ومنها : التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة ، كالتزام صيام يرم النصف من شعبان وقيام ليلته
=========================================
الفتاوى الهندية - (1 / 136)
وأما إذا سجد بغير سبب فليس بقربة ولا مكروه وما يفعل عقيب الصلوات مكروه؛ لأن الجهال يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه، هكذا في الزاهدي.
=========================================
تنقيح الفتاوى الحامدية - (2/367)
كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه.
=========================================
السعاية - (2/265)
الاصرار علی المندوب یبلغه الی حد الکراهة.
=========================================
کتبہ محمد مصروف

مرحومین کو ایصالِ ثواب کے مسئلے میں چند اُمور پیشِ خدمت ہیں، آپ ان کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ 
۱:… مرحومین کے لئے، جو اس دُنیا سے رُخصت ہوچکے ہیں، زندوں کا بس یہی ایک تحفہ ہے کہ ان کو ایصالِ ثواب کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض پیرا ہوا: یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لئے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔ (ابوداوٴد، ابنِ ماجہ، مشکوٰة ص:۴۲۰) 
ایک اور حدیث میں ہے کہ: کسی شخص کے والدین کا انتقال ہوجاتا ہے، یہ ان کی زندگی میں ان کا نافرمان تھا، مگر ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے دُعا، اِستغفار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ماں باپ کا فرماں بردار لکھ دیتے ہیں۔ (بیہقی شعب الایمان، مشکوٰة ص:۴۲۱) 
ایک اور حدیث میں ہے کہ: ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، کیا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کے لئے مفید ہوگا؟ فرمایا: ضرور! اس نے عرض کیا کہ: میرے پاس باغ ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ باغ اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کردیا۔ (ترمذی ص:۱۴۵) 


۲:… ایصالِ ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ جو نیک عمل آپ کریں اس کے کرنے سے پہلے نیت کرلیں کہ اس کا ثواب جو حاصل ہو وہ اللہ تعالیٰ میّت کو عطا کرے، اسی طرح کسی نیک عمل کرنے کے بعد بھی یہ نیت کی جاسکتی ہے اور اگر زبان سے بھی دُعا کرلی جائے تو اچھا ہے۔ 
الغرض کسی نیک عمل کا جو ثواب آپ کو ملنا تھا، آپ وہ ثواب میّت کو ہبہ کردیتے ہیں، یہ ایصالِ ثواب کی حقیقت ہے۔ 


۳:… امام شافعی کے نزدیک میّت کو صرف دُعا اور صدقات کا ثواب پہنچتا ہے، تلاوتِ قرآن اور دیگر بدنی عبادت کا ثواب نہیں پہنچتا، لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر نفلی عبادت کا ثواب میّت کو بخشا جاسکتا ہے۔ مثلاً: نفلی نماز، روزہ، صدقہ، حج، قربانی، دُعا و اِستغفار، ذکر، تسبیح، دُرود شریف، تلاوتِ قرآن وغیرہ۔ حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ شافعی مذہب کے محققین نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر قسم کی عبادت کا ثواب مرحومین کو پہنچایا جاتا رہے، مثلاً: قربانی کے دنوں میں اگر آپ کے پاس گنجائش ہو تو مرحوم والدین یا اپنے دُوسرے بزرگوں کی طرف سے بھی قربانی کریں، بہت سے اکابر کا معمول ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہوسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح نفل نماز، روزے کا ثواب بھی پہنچانا چاہئے، گنجائش ہو تو والدین اور دیگر بزرگوں کیطرف سے نفلی حج و عمرہ بھی کیا جائے۔ ہم لوگ چند روز مُردوں کو روپیٹ کر ان کو بہت جلد بھول جاتے ہیں، یہ بڑی بے مروّتی کی بات ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قبر میں میّت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دریا میں ڈُوب رہا ہو، وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کیا کوئی اس کی دستگیری کے لئے آتا ہے؟ اسی طرح قبر میں میّت بھی زندوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کی منتظر رہتی ہے، اور جب اسے صدقہ و خیرات وغیرہ کا ثواب پہنچتا ہے تو اسے اتنی خوشی ہوتی ہے گویا اسے دُنیا بھر کی دولت مل گئی۔ 


۴:… صدقات میں سب سے افضل صدقہ جس کا ثواب میّت کو بخشا جائے، صدقہٴ جاریہ ہے، مثلاً: میّتکے ایصالِ ثواب کے لئے کسی ضرورت کی جگہ کنواں کھدوادیا، کوئی مسجد بنوادی، کسی دینی مدرسہ میں تفسیر، حدیث یا فقہ کی کتابیں وقف کردیں، قرآنِ کریم کے نسخے خرید کر وقف کردئیے، جب تک ان چیزوں سے استفادہ ہوتا رہے گا، میّت کو اس کا برابر ثواب ملتا رہے گا۔ حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، وہ مرنے سے پہلے وصیت نہیں کرسکیں، میرا خیال ہے کہ اگر انہیں موقع ملتا تو ضرور وصیت کرتیں، کیا اگر ان کی طرف سے صدقہکردوں تو ان کو پہنچے گا؟ فرمایا: ضرور! عرض کیا: کیا صدقہ کردوں؟ فرمایا: پانی بہتر ہے! حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ: یہ سعد کی والدہ کے لئے ہے۔ (صحیح بخاری) 

۵:… ایصالِ ثواب کے سلسلے میں یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ میّت کو اسی چیز کا ثواب پہنچے گا جو خالصتاً لوجہ اللہ دی گئی ہے، اس میں نمود و نمائش مقصود نہ ہو، نہ اس کی اُجرت اور معاوضہ لیا گیا ہو۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ ایصالِ ثواب کرتے ہیں، مگر اس میں نمود و نمائش کی ملاوٹ کردیتے ہیں، مثلاً: مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے دیگ اُتارتے ہیں، اگر ان سے یہ کہا جائے کہ جتنا خرچ تم اس پر کر رہے ہو، اسی قدر رقم یا غلہ کسی یتیم، مسکین کو دے دو، تو اس پر ان کا دِل راضی نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ چپکے سے کسییتیم، مسکین کو دینے میں وہ نمائش نہیں ہوتی جو دیگ اُتارنے میں ہوتی ہے۔ اس عرض کرنے کا یہ مقصدنہیں کہ کھانا کھلاکر ایصالِ ثواب نہیں ہوسکتا، 
بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو حضرات ایصالِ ثواب کے لئے کھانا کھلائیں وہ نمود و نمائش سے احتیاط کریں، ورنہ ایصالِ ثواب کا مقصد انہیں حاصل نہیں ہوگا۔ 
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ثواب اسی کھانے کا ملے گا جو کسی غریب مسکین نے کھایا ہو، ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ میّت کے ایصالِ ثواب کے لئے جو کھانا پکایا جاتا ہے اس کو برادری کے لوگ کھاپی کر چلتے بنتے ہیں، فقراء و مساکین کا حصہ اس میں بہت ہیکم لگتا ہے، کھاتے پیتے لوگوں کو ایصالِ ثواب کے لئے دیا گیا کھانا نہیں کھانا چاہئے۔ بعضعلماء نے لکھا ہے کہ جو شخص ایسے کھانے کامنتظر رہتا ہے اس کا دِل سیاہ ہوجاتا ہے۔ الغرض جو کھانا خود گھر میں کھالیا گیا، یا دوست احباب اور برادری کے لوگوں نے کھالیا اس سے ایصالِ ثواب نہیں ہوتا، مُردوں کو ثواب اسی کھانے کا پہنچے گا جو فقراء و مساکین نے کھایا ہو، اور جسپر خیرات کرنے والے نے کوئی معاوضہ وصول نہ کیا ہو، نہ اس سے نمود و نمائش مطلوب ہو۔ 

یہ ہیں صحیح طور پر ایصال ثواب کرنے کا طریقہ 
                                       
ایصال ثواب بدنی و مالی ہر دو عبادت کا کیا جاسکتا ہے؟

اھل سنت والجماعت کے نزدیک ہر قسم کی نفلی عبادت کا ثواب چاہے بدنی ہو یا مالی دوسرے کو پہنچایا  جا سکتا ہے .
صحیح بخاری & صحیح مسلم ودیگر کتب حدیث اور کتب فقہ میں یہ مسئلہ صاف اور واضح ہے...
حدیث شریف میں ہے
حضرت سعد بن عبادہ رض کی والدہ کا انتقال ایسے وقت میں ہوا کہ حضرت سعد رض وجود نہیں تھے (جب غزوہ سے واپس آئے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہوا اگر میں انکی طرف سے صدقہ کردوں تو کیا وہ ان کے لئے فائدہ مند ھوگا .(اور ان کو ثواب پہونچے گا؟)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں پہونچےگا ....(صحیح بخاری, معارف الحدیث از احکام میت)

البتہ فرض کا ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں  اختلاف ہے 

احسن الفتاوی میں ہے 
والراجح الجواز نقل فی الشامیہ عن البحر لا فرق بین الفرض والنفل و عن جامع الفتاوی قیل لا یجوز فی الفرائض 

میت کو پہنچتا ہے؟

ہاں ضرور پہنچتا ہے کما مر.......
اور جو انکار کرتے ہیں جیسے معتزلہ ان کو پہونچانا بھی نہیں..... 

(کسی کو نظر نہ آئے تو اس کا اور اس کی آنکھ کا قصور ہے.چمگادر کو سورج سے گلہ نہیں کرنا چاہئے)


متعدد میتوں کو پہنچایا جائے تو سب کو یکساں برابر پہنچتا ہے یا  ایسا تقسیم ہوکر جیسا ۸ کو دو میں تقسیم کیا جاتا ہے؟

اس میں بھی دو قول ہے 
1) ہر ایک کو تقسیم ہوکر پہنچتا ہے....
2) ہر ایک کو پورا پورا پہنچتا ہے وسعت رحمت کا یہی تقاضہ ہے.اور بعض شوافع اسی کے قائل ہیں...

علامہ رشید احمد گنگوہی رح فرماتے ہیں 
میرے استاذوں کا قول ہے صحیح یہ ہے کہ ثواب تقسیم ہو کر پہنچتا ہے..نہ سب کو پورا پورا اور اس باب میں کوئ روایت حدیث کی صحیح نہیں ( فتاوی رشیدیہ)




کیا ثواب ایصال کرنے سے موصِل کو ثواب ملتا ہے؟ ملتا ہے تو کونسی نیکی کا؟

جی ہاں ملتا ہے 
اس کے ثواب میں سے کوئ کمی نہیں کی جاتی 

کیا زندہ کو ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے؟

جی ہاں  زندوں کو بھی ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے ........
کما فی کتاب الفتاوی وغیرہ...


واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم

No comments:

Post a Comment