Monday 18 April 2016

امت مسلمہ کی تباہی کے تین اسباب: ترکِ نماز، فقدانِ اتحاد، تصویر کشی

فضیل احمد ناصری ابن مولانا جمیل احمد ناصری
عصرِ رواں میں امت مسلمہ جس طرح تباہیوں میں گھری ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی-عہدِ نبوت میں بھی نہیں-حالات انتہائی پیچیدہ، دگرگوں اور خوں نابہ فشاں ہیں-مسلمان "کس نمی پرسد کی بھیّا کون ہو؟ "کےمصداق ٹھہرچکے-جسے اپنی آتشِ غضب سرد کرنی ہو، وہ آتاہےاور کسی کلمہ گو پر دھاوا بول دیتا ہے-کوئی شوقِ خوں آشامی کو پورا کرنے کےلیے اہلِ ایمان کے "بےرہنما "ریوڑ میں گھس جاتا ہے-کسی میں اذیت رسانی کی خواہش مچلتی ہے تو بے جھجھک مسلمانوں کی صفوں میں کھلبلی مچادیتاہے-غرض وابستگانِ اسلام "فٹ بال "بن گئے ،کبھی اس کی ٹھوکروں میں تو کبھی اس کی نوک پر- جسے "کک "لگانی ہو، ادھر چلا آتا ہے، بقول غالب:......... انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آناتھا....وہ نکلے سیرِگل کو، دیکھنا شوخی بہانےکی ............ سوال یہ ہے کہ امتِ مرحومہ زوال و زبوں حالی کی اس بدترین دلدل میں کیسے پھنس گئی؟ جواب پانے کےلیے بربادی کے اسباب پر میں نے ایک زمانے تک غور کیا، کرتا رہا اور اب اس نتیجے پر پہونچا ہوں کہ اسلامیوں کی "کس مپرسی "کے اہم ترین اسباب یہ تین ہیں...

ترک نماز:

بندے اور معبود کے درمیان تعلقات کی ہمیشہ ایک اہمیت رہی ہے-اللہ راضی ہے تو کائنات اس کے زیر نگیں-اللہ کی خوشنودی سمیٹنے کا سب سے مقبول اور افضل طریقہ نماز ہے-یہ واحد "عبادت "ہے، جس کی فرضیت کا مولاےکل نے آسمان پر اعلان کیا-ایسی عظیم ہمہ گیر عبادت کہ اس میں رکوع بھی ہے اور سجدہ بھی، درود بھی ہے اورسلام بھی، ثنا بھی ہے اور تقدیس بھی-حدیث بھی ہےاور قرآن بھی-یہ جامع ترین عبادت اور افضل ترین ذکر ہے-اس پر بڑےبڑےوعدے اور بڑی بڑی بشارتیں ہیں-نماز پڑھنےوالا گویا اپنے رب سے باتیں کرتاہے-انسانی طبیعت ہے کہ نامور شخصیات کےساتھ دوچار باتیں کرنےکاموقع مل جاے تو اس لمحے کو زندگی کا بیش قیمت سرمایہ اور قابلِ افتخار پل گردانتےہیں-اگراللہ سے بات چیت کا موقع مل جاے تو اس کے لطف و لذت اور حلاوت و چاشنی کاکیاکہنا!!!یہ پانچ وقت کی نمازیں بندےکےلیےاپنےمولا سے راز ونیاز کے مواقع فراہم کراتی ہیں ، لیکن صد حیف!! نماز سے حیرت ناک حد تک تعلق منقطع ہے-اذان کی آواز سماعت سے ٹکراتےہی ہوش اڑجاتےہیں، بدن کانپ جاتاہے،چہرےپر عجیب وحشت سی برسنےلگتی ہے-اگرکوئی مسجد کی طرف لےجاے تومعلوم ہوگا کہ "تختۂ دار "پر لٹکنےجارہاہے-لایعنی  مشاغل میں وقت کی بربادی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر " صداےمؤذن "صور اسرافیل کانمونہ -تفصیلات کا موقع نہیں-سبھی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ : گیاشیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں-.........نماز سے جس قدر دوری ہے اور امت اپنے رب سے جس طرح کٹی ہوئی ، رحمت نازل ہو تو کیسے اور عزت ہو تو کس بوتےپر؟                    

فقدانِ اتحاد:

کسی معرکہ کو سر کرنا ہو تو اس کےلیے جہاں جہد مسلسل اور عمل پیہم ضروری ہے، وہیں طاقت وقوت بھی ناگزیر  اور لابدی-یہ طاقت انفرادیت سے نہیں، اجتماعیت سے آتی ہے-مسلمان جب تک مکہ میں رہے ،مغلوب و مقہور اور مجبور رہے-اعداےاسلام کی ستم ایجادیاں برابرجاری رہیں-عبادات تک میں رخنے ڈالے جاتے، مسلمان اپنی بےمائیگی کے ہاتھوں "کچھ کرگزرنے "کی توانائی نہ رکھتےتھے-اللہ عز وجل نے بھی ان کی اس ناتوانی کےپیش نظر ان پر جہاد فرض نہیں کیا ،مگر جب یہی" پروانہ ہاے محمدی "مدینہ پہونچے اور قوت و جبروت حاصل ہوئی تو فتوحات کا دروازہ کھل گیا-مسلمان ہر محاذ پر چھاتے چلے گئے ،کفار کو زک پر زک پہونچاتے چلے گئے-باطل قدم قدم پر ذلتیں سہتا رہا ،شکست وریخت کا درد اٹھاتا رہا-وجہ صاف تھی ،صحابہ آپس میں شیر وشکر اور بھائی بھائی بن چکےتھے-ذاتی مفادات مذہبی مفادات کے سامنے سرد بلکہ گرد رہے- کسی بھی محاذ پر اپنا پرچم وہی قوم گاڑتی ہے،جو اتحاد و مودت کی قوت قاہرہ سے لیس رہتی ہے-اسلام نے "ارتکازِقوت "پر بڑا زور دیا اور مخلتف آیات وروایات کے ذریعے اجتماعیت کی تلقین کی ،مگرسوبار افسوس کہ امت "اتحاد "کے عظیم سرماےسےمحروم ہوگئی-اب فرقہ بندیاں ہیں ،جھگڑے اور قضیے ہیں ،انتشار وافتراق ہے، شکایتیں اور نفرتیں ہیں-ہرفرقہ دوسرے کی نظرمیں کافر-بریلوی ،دیوبندی ،جماعت اسلامی ،غیر مقلد اور نہ جانے کیا کیا !!! دوسرے فرقے کو چھوڑیے ،ان سے اتحاد ہوسکتاہے اور نہ اس کی امید کرنی چاہیے-فرقۂ ناجیہ ہر دور میں ایک رہاہےاور ایک ہی رہےگا -یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم آپس میں دست وگریباں ہیں-سب کےدل ایک دوسرے سے ٹوٹےہوے-ہرشخص پھن نکالے موقع کی تاک میں ،ذرا سی  غفلت ہوئی  اور اپنے حریف کو یک لخت  ڈس لیا-ہمارےیہاں تنظیموں کی کمی نہیں ،تنظیموں کی کثرت شکستگیِ دل کا واضح اعلان کررہی ہے-کوئی امیر نہیں ،کوئی رہبر نہیں ،مگرسبھی رہبرہیں اور سبھی قائد-پڑوسی پڑوسی سے نالاں اور "ہم ادارہ "اپنے ساتھی کے شکوہ کناں-ہرشخص دوسرےکےلیےشرکامنتظر اور اپنے لیے ہن کے انتظار میں-الاماشاءاللہ ،والغیب عنداللہ-ان حالات میں سانس لینے کو مل جاے ،یہی غنیمت ہے-فتوحات کا خواب دیکھنا "خودفریبی" کہلاےگا-کاش کہ امت کو سمجھ میں آجاے !

تصویر کشی :

امت کی تباہی کی تیسری اور اہم وجہ "تصویر کشی "ہے-یہ ایک حرام عمل ہے اور شدید وعیدیں اس پر آئی ہوئیں-شراب حرام ہے ،کوئی مذہبی اسے ہاتھ نہیں لگاتا ،ناچنا گانا حرام ہے ،آپ نےنہیں دیکھا ہوگا کہ کوئی سچا مسلمان اسے انجام دیتا ہو ،مگر تصویر کشی کی شدید حرمت کے با وجود مسلمان اس سے بچتے ہوے دکھائی نہیں دیتے-صورت حال یہ ہے کہ مذہبی اور دینی تقریبات بھی اس لعنت سے پاک نہ رہیں-جس گھر میں کتا یا تصویر ہو وہاں جبریل نہیں جاتے ،دوسرے فرشتے کیا جائیں گے ؟کیمرے کی وبا جب سے چلی ہے "سوزِ دروں "رخصت ہوگیا-نمائش ،ریاکاری ،عجب اور گھمنڈ جیسی بیماریاں عام ہوگئیں-اخبارات ورسائل اس لعنت کے سب سے بڑے سودا گر بن گئے-مؤثر شخصیات کےساتھ ہرشخص فوٹو کھنچوانےمیں مصروف-حد تو یہ کہ ایک شخص ڈوب رہاہے اور دوسرا کیمرہ چلارہاہے-ایک شخص سفرِ آخرت پر روانہ ہے اور دوسرا اس کی مووی بنانے میں مست-اب تو لوگ اس کی حلت کےفتوےبھی دینےلگےہیں اور دعوتی کاموں میں اس کی تاثیر کے قائل بھی-مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ یہ گناہ اتنے اہتمام سے کیوں کررہےہیں-حنفیوں کے یہاں تصویر کشی بالاتفاق حرام ہے ،مگر اس بت کی محبت اس درجہ جاگزیں کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی- تصویر کی ترقی یافتہ شکل ویڈیو گرافی ہے ،یہ بھی عام فقہا کے نزدیک تصویر کی طرح حرام ہے ،مگر "نئی روشنی "سے مرعوب بعض علما نے مختلف تاویلات سے اسے جواز کی سند دےدی- سمجھ میں نہیں اتا کہ جب حرام کا مقدمہ بھی حرام ہے تو تصویر ناجائز اور ویڈیو جائز کیسے ہوگیا ؟ یہ امت جس دور میں ہے ،اس دور میں جواز بمعنیٰ وجوب ہوتاہے-

No comments:

Post a Comment