Thursday 7 April 2016

کیا اذان اول بدعت ہے؟

جیسا کہ شیعہ و غیر مقلدین اس کے قائل ہے کہ یہ اذان حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں نہیں تھی اس لئے یہ بدعت ہے ..اس مسئلہ پر سیر حاصل بے غبار  مع الدلائل بحث فرمائیں....

الجواب حامدا و مصلیاً ومسلماً:

جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے جو اذان دی جاتی ہے یہی اذان اول ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، پھر جب اسلامی فتوحات زیادہ ہوئیں اور لوگ اسلام میں کثرت سے داخل ہوئے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پہلی والی اذان کا صحاب کرام کے مشورہ سے اضافہ کیا گیا، اور اس لیے کیا گیا کہ خطبہ والی اذان سن کر سب لوگ خطبہ میں شریک نہیں ہوپاتے تھے، کثرت تعداد کی وجہ سے۔ پھر جب یہ پہلی اذان کا اضافہ ہوا تو لوگ اذان سن کر جمعہ کے لیے آتے آتے خطبہ سے پہلے تک سارا مجمع اکٹھا ہوجاتا اور اطمینان سے سب کو خطبہ اور جمعہ پڑھنے کا موقع ملنے لگا۔ اب اصل اذان غائبین کو بلانے کے لیے یہی پہلی اذان متعین ہوگئی اور خطبہ کی اذان حاضرین کو اطلاع دینے کے لیے متعین ہوئی کہ اب خطبہ ہونے والا ہے، سب لوگ تیار ہوجائیں خطبہ سننے کے لیے۔

تمام صحابۂ کرام،  تابعین اور آئمہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کی پیروی کرتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی موافقت فرمائی ہے:

"علیکم بسنتی وسنة خلفاء الراشدین"
(ابن ماجہ)
تم پر یہ لازم ہے کہ تم میرے طریقے کو اور میرے صحابہ کے طریقے کو اختیار کرو...

پہر دوسری بات یہ بھی مسلم ہے کہ امت محمدیہ کبھی کسی گمراہی ہر جمع نہیں ہو سکتی،  صدیوں سے جاری اس عمل کی مخالفت یقینا گمراہی اور خلفاء راشدین کی مخالفت کے زمرے میں آسکتی ہے، شیعہ اور فرقہ غیر مقلدین کے علاوہ اس مسئلہ میں کسی اور سے انکار ثابت نہیں،
شیعوں کا مذھب ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے اور بعینہ یہی غیر مقلدین کا مذھب ہے
(کنز الحقائق ۳۶)

جبکہ جمہور امت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جاری کردہ اس عمل کی پیروی کرتے ہیں،

چنانچہ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں،

ترجمہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو پہلی اذان کا عمل اختیار کیا لوگوں نے بعد میں اس پر اتفاق کیا اور چاروں مذاھب میں اسے اختیار کیا گیا جیسا کہ تراویح میں ایک امام پر لوگوں کو جمع کرنے کے سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جاری کردہ طریقہ پر اتفاق کیا .....

اذان اول کو بدعت قرار دینے والے سے خطاب کرکے کہتے ہیں:
"یہ آپ کس بناء پر کہہ رہے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی شرعی دلیل کے یہ عمل انجام دیا...

ایک جگہ فرماتے ہیں...
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اس کے استحباب پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اتفاق کیا حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے بھی ان کی موافقت فرمائی ہے، جیسے حضرت عمار حضرت سھیل بن حنیف اور سابقین اولین سے تعلق رکھنے والے دوسرے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، اگر یہ بڑے صحابہ اس کا انکار کردیتے تو کوئی ان کی مخالفت نہ کرتا ....
(منھاج السنہ ۳/۲۰۴)

مزید لکھتے ہیں:

یہ اذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ ہے،اور مسلمانوں نے اس پر اتفاق کیا ہے اسلئے اذان شرعی کہا جائے گا
(منھاج السنہ ۴/۱۹۳)

نام نہاد اھل حدیث نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ سنت کو بدعت ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.

چنانچہ ترجمان غیر مقلد حافظ جلال الدین نے احسن الجدال ص۸۸ پر علامہ عینی و عسقلانی کے حوالے سے لکھتے ہیں......
مصنف عبد الرزاق میں ابن جریح سے روایت ہے کہ سلیمان بن موسی نے کہا کہ مدینہ میں سب سے پہلے اذان جس نے زیادہ کی وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے،
حضرت عطا نے کہا کہ وہ اذان ہرگز نہ تھی وہ تو ایک بلاوا اور اعلان تھا،  اذان تو ایک ہی ہوتی تھی
اور حسن بصری کہتے ہیں کہ اذان تو پہلی ہے جو امام کے نکلتے وقت دی جاتی ہے اور جو اس سے پہلے دی جاتی ہے وہ بدعت ہے،
اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے اپنی ایک روایت میں کہا ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے....

      ⬅   اظہار حقیقت  ➡

محترم حافظ صاحب نے اپنی عادت کے مطابق عمدة القاری اور فتح الباری کی صرف وہ عبارتیں نقل کی ہے جو ان کے مزعومہ مقصد کے موافق تھی.
چناںچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں.
روی ابن ابی شیبہ من طریق ابن عمر قال: الاذان الاول یوم الجمعة بدعۃ فیحتمل ای یکون قال ذلک علی سبیل الانکار ویحتمل انہ یرید انہ لم یکن فی زمن النبی صلی للہ علیہ وسلم وکل ما لم یکن فی زمنہ یسمی بدعۃ لکن منھا ما یکون حسنا ومنھا ما یکون بخلاف ذلک وتتبین بما مضی ان عثمان احدثہ لاعلام الناس بدخول الوقت الصلوة قیاسا علی بقیۃ الصلوة
(فتح الباری ۳/۵۵)

ترجمہ: ابن رضی اللہ عنھما سے جو مروی ہے کہ اذان اول بدعت ہے تو ممکن ہے کہ یہ قول علی سبیل الانکار ہو اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کی مراد اس سے یہ ہو کہ یہ رسول ﷺ کے زمانہ میں نہ تھی اور ہر وہ چیز جو رسول ﷺ کے زمانہ میں نہ ہو اس کو (لغة) بدعت کہا جاتا ہے، لیکن اس میں سے بعض اچھی ہوا کرتی ہے اور بعض اس کے خلاف بھی. اور گذشتہ سطور سے واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ اضافہ لوگوں کو یہ بتلانے کے لئے کیا تھا کہ جمعہ کی نماز کا وقت ہو چکا بقیہ تمام نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے.....

اور حافظ صاحب آپ کا یہ کہنا کہ یہ اذان صرف مدینہ میں شروع کرائی تھی مبنی بر جہالت ہے.
بخاری کی روایت میں صراحتا ہے
"فثبت الامر کذلک"اور یہ معاملہ مقرر ہو گیا یعنی اس پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے،
اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں.
ان الناس اخذوا بفعل عثمان فی جمیع البلاد (فتح الباری)

علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں.
فثبت الامر ای امر الاذان علی ذلک ای علی اذانیں و اقامة کما ان الیوم علیہ فی جمیع الامصار اتباعا للسلف والخلف (عمدة القاری ۲۱۴/۶۲۰)

شارحین بخاری علامہ ابن حجر و علامہ عینی رحمھما اللہ کی عبارت سے بلکل واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو اذان مدینہ میں اضافہ کیا تھا اس پر تمام شہروں میں بلا کسی نکیر کے عمل ہونے لگا،  اگر یہ عمل بدعت یا خلاف شریعت ہوتا تو اجلہ صحابہ کرام اور تابعین عظام ضرور اس پر نکیر کرتے.
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ عمل سارے صحابہ کو اور دنیا کے سارے مسلمانوں کو پسند آیا صرف نومولود اور فرقہ شاذہ غیر مقلدین کو پسند نہ آیا کیونکہ یہ صحابہ کے دشمن ہے ان کو حضرات صحابہ کرام کے عمل سے چڑھ ہے،  اس فرقہ میں رافضیت کا کافی عنصر ہے ....

اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو صراط مستقیم نصیب فرمائیں آمین

(ماخوذ از غیر مقلدین کے اعتراضات حقیقت کے آئینہ میں.
دار الافتاء دار العلوم دیوبند اون لائن)

العبد محمد اسلامپوری....

فقہی سمینار 

           آج کا سوال نمبر ۱۴۴
۲۱ محرم الحرام  ۱۴۳۷ھ  مطابق ۴ نومبر  
٢٠١٥ع    بروز چہار شنبہ.

No comments:

Post a Comment