Monday 7 December 2015

کیسے نصیب ہو رحمت و مغفرت ؟

ایس اے ساگر

ہر وقت کی الجھنیں، رنجشیں اور احساس محرومی، یہ وہ آفتیں جنھوں نے بنی نوع انسان کو اللہ تعالی کی مغفرت و رحمت سے بعد پیدا کردیا ہے. اہل علم کے نزدیک شیطان آدمی میں خون کی طرح دوڑتا ہے، اور رات دن اسے گناہ میں مبتلا کرکے خدائی رحمت سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اللہ تعالی کی رحمت پر قربان کہ انھوں نے معمولی معمولی نیکیوں پر بخشش کا وعدہ فرماکر شیطان کی ساری محنت کو ضائع فرما دیا،
ذیل میں ان اعمال کی جھلک دکھائی گئی ہے جن کے اہتمام پر مغفرت کا وعدہ ہے،

خوش خلقی کی تاکید :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  خوش خلقی خطاؤں کو یوں پگھلا دیتی ہے جس طرح پانی برف کو پگھلا دیتا ہے،
اور بد خلقی اعمال کو یوں بگاڑتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو بگاڑ دیتا ھے (بیہقی)

عمومی رحمدلی :

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  رحم کرو تم پر بھی رحم کیا جائیگا
بخش دیا کرو تم کو بھی بخش دیا جائیگا،
خرابی ھے ان لوگوں کیلئے
جو قیف کی طرح علم کی بات سنتے ہیں لیکن نہ اس کو یاد رکھتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں (ایسے لوگوں کو قیف سےتشبیہ دی) اور خرابی ھے ضد کرنے والوں کیلئے جو گناہوں پر اصرار کرتے ہیں حالانکہ ان کو علم ھے (کنز العمال)

ملاقات میں خوشدلی :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، دو مسلمان جب آپس میں ملیں اور مصافحہ کریں اور ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کے چہرے کو دیکھ کر مسکرائے، اور یہ تمام عمل اللہ ہی کیلئے ہو تو جدا ہونے سے پہلے دونوں کی مغفرت کر دی جائے گی (طبرانی)

ایمان کے بقدر آزمائش :

ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ،یا رسول اللہ تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  انبیاء کرام (علیہم السلام )  کی،
اس کے بعد درجہ بدرجہ جو افضل ہو،
آدمی کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے،
اگر اس کی دینی حالت پختہ ہو تو آزمائش بھی سخت ہوگی،اگر دین کمزور ہے تو اس کے دین کے موافق اللہ تعالی اس کو آزمائے گا، مسلسل بندہ پر مصائب آتے رہتے ہیں حتی کہ وہ اس حال میں زمین پر چلتا پھرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رھتا .

بحوالہ،
ابن ابی الدنیا
صفحہ 87

No comments:

Post a Comment