Saturday 19 December 2015

جشن ولادت یا جشن وفات؟

ایس اے ساگر

12 ربیع الاول کی قربت کیساتھ ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر جشن منانے کی بحث نے شدت اختیار کرلی ہے. فتاوی سے متعلق ایک گروپ میں  مسئلہ نمبر 64 کے تحت سوال پوچھا گیا ہے کہ ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ’عید میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم ‘کے نام پر (یعنی اس تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے)...جشن منایا جاتا ہے کیا شرعی اعتبار سے یہ جائز ہے...؟
اس کے جواب میں اہل علم حضرات کا کہنا ہے کہ لوگوں نے جو بدعات آج ايجاد كرلى ہيں ان ہی ميں سے ایک ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن منانا بھى ہے ( جسے جشن آمد رسول بھى كہا جانے لگا ہے
یہ جائز نہیں ہے...
یہ الگ بات ہے کہ عید میلاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت میں منایا جاتا ہے...لیکن اس میلاد کے منانے میں اتنی بدعت و خرافات اور گناہ ہوتے ہیں جنکا سد باب مشکل نظر آتا ہے...
مثلا..
ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔
نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ روک کر زبردستی چندے وصول کرتے ہیں۔ علما حضرات مسجدوں میں جشن ولادت منانے کے لئے دست ِسوال دراز کرتے ہیں۔
پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور گلیوں، بازاروں ، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں اور اس جیسے دوسرے حرام كام ہوتے ہيں مثلا مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنا، اور انہيں پكارنا، اور دشمنوں پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے مدد مانگنا، وغيرہ اعمال شامل ہوتے ہیں-اسلئے ان بدعات و خرافات کی وجہ سے جائز نہیں ہے... چنانچہ
امام احمد بصری لکهتے هیں چاروں مذاہب کے علماء نے عید میلاد منانے اور اس میں شامل ہو نے کی برائی پر اتفاق کر لیا ہے
(حوالہ تاریخ میلاد صفحہ 115)

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکهتے کسی پیغمبر کی وفات یا تولد کے دن کو عید کی طرح منانا جائز نہیں ہے..(حوالہ تحفہ اثنا عشر یه)
(حبیب الفتاوی۲ص۲۷۱)
(امدادالفتاوی۵ص۴۹تا۲۵۴)
(فتاوی رحیمیہ۲ص۷۲)
(بہشتی زیور حصہ ۶ص۲۹۵)

فائدہ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار بجاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے … مگر دیکھنا یہ ہے کہ حضور صلى اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ حضور صلى اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں…؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں…؟
عید ِمیلاد چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اسلئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سردست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔

حضور صلى اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘
(بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان؛۱۴)
صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔‘‘
(ایضاً ؛۱۵)
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی کی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسول کے اُسوئہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔
لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص ’عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اور حب ِرسول کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسول ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’فمن رغب عن سنتي فلیس مني‘‘ (بخاری؛۵۰۶۳)
’’جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

تیسری عید کہاں سے آئی؟
۱۲؍ ربیع الاول کو نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری ’عید‘ سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار آنحضرت صلی اللہ علیہ نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام کو متعین فرمایا ہے۔
جیسا کہ حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’إن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر‘‘
(ابوداود: کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین ؛۱۹۳۱)
’’اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو خوشی کے دن عطا فرمائی ہیں ؛ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی ہے۔‘‘
ان دونوں عیدوں کے موقع پر باادب طریقہ سے نمازِ عید ادا کی جاتی اور اللہ کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔ نیز عیدالاضحی کے موقع پر جانور قربان کئے جاتے ہیں،
مگر ۱۲؍ ربیع الاول کی ’عیدمیلاد‘ کو اوّل تو آنحضرت صلی اللہ علیہ نے مقرر ہی نہیں فرمایا پھر اسے عید قرار دینے والے اس روز نمازِ عید کی طرح کوئی نماز ادا نہیں کرتے اور نہ ہی عیدالاضحی کی طرح قربانیاں کرتے ہیں اور فی الواقع ایسا کیا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ ’عید‘ ہے ہی نہیں مگر اس کے باوجود اسے عید ہی قرار دینا بے جا تحکم، ہٹ دھرمی اور شریعت کی خلاف ورزی نہیں تو پھر کیا ہے؟

پھر یہ جشن ِولادت ہے یا جشن ِوفات؟
۱۲؍ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن ہے حالانکہ ۱۲ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول کو حضور صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ تفصیل سے واضح ہوتا ہے :

یومِ ولادت کی تاریخ
تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
’’ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ‘‘
’’یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔‘‘
(مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛۱۱۶۲)
البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ حضور صلى اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ
حضور صلى اللہ علیہ وسلم عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا)میں پیدا ہوئے۔
نیز فرماتے ہیں کہ
اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ پھر حافظ ابن کثیر نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا، ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔
(تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص۲۵۹ تا ۲۶۲؍ ج۲)
علاوہ ازیں بہت سے محققین نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ، مثلاً
قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان:قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ’التقویم العربی قبل الاسلام‘ میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ
’’عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز پیر کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول ’حضرت ابراہیمؑ ‘ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت ۲۰ ؍اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔‘‘
(بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص۶۲ ج۱/ حدائق الانوار:ص۲۹ ؍ج۱)
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب ’الرحیق المختوم‘ کے مصنف کے بقول
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹؍ ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ یعنی کہ پیر کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔‘‘
(ص:۱۰۱)
برصغیر کے معروف مؤرخین
مثلاً علامہ شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی رحم اللہ علیہم  وغیرہ نے بھی ۹؍ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق ِجدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔ (دیکھئے:سیرت النبی از شبلی نعمانی : ص۱۷۱؍ ج۱/تاریخ اسلام از اکبر شاہ :ص۸۷ ؍ج۱/رحمۃ للعالمین از منصور پوری: ص۳۶۱ ؍ج۲)

12 ربیع الاول یوم وفات ہے !
جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول حضور صلى اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے۔ بطورِ دلیل چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں:
1۔ابن سعد، حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد : ص۲۷۲ ج۲)
2۔حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔ (دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص۵۶۹)۔حافظ ابن کثیر ابن اسحق رحمة اللہ علیہ کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ۱۲؍ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔
(البدایۃ والنھایۃ: ۲۵۵؍۵)
4۔مؤرخ ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ۱۲؍ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔
(اسدالغابۃ: ۴۱؍۱/الکامل:۲۱۹؍۴)
5۔حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا ہے..
(فتح الباری ۲۶۱؍۱۶)
6۔محدث ابن حبان رحمة اللہ علیہ کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص۴۰۴)
7۔امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :۱۵؍۱۰۰)
8۔مؤرخ و مفسر ابن جریر طبری رحمة اللہ علیہ نے بھی ۱۲؍ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے..
(تاریخ طبری:۲۰۷؍۳)
9۔امام بیہقی رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے...(دلائل النبوۃ: ۲۲۵؍۷)
10۔ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ۱۰۴؍۱۱)
11۔سیرت نگار مولانا شبلی نعمانی رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبی: ص۱۸۳؍ج۲)
12۔قاضی سلیمان منصور پوری رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔
(رحمۃ للعالمین:ص۲۵۱ ج۱)
13۔صفی الرحمن مبارکپوری رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی فیصلہ ہے...
(الرحیق: ص۷۵۲)
14۔ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔
(السیرۃ النبویۃ: ص۴۰۴)

ایک اور تاریخی حقیقت
گذشتہ حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبی صلى اللہ علیہ وسلم ہے اور برصغیر میں عرصۂ دراز تک اسے ’۱۲ وفات‘ کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس دن جشن اور خوشی منانے والوں پرجب یہ اعتراض ہونے لگے کہ یہ تو یوم وفات ہے اور تم وفات پر شادیانے بجاتے ہو!… تو اس معقول اعتراض سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے اس کا نام ’۱۲ وفات‘ کی بجائے ’عیدمیلاد‘ رکھ دیا جیسا کہ روزنامہ ’مشرق‘ لاہور کی ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۴ء کی درج ذیل خبر سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے :
’’اس سے پیشتر یہ یوم بارہ وفات کے نام سے منسوب تھا مگر بعد میں انجمن نعمانیہ ٹکسالی گیٹ کے زیر اہتمام پیر جماعت علی شاہ ، مولانا محمد بخش مسلم، نور بخش توکلی اور دیگرعلما نے ایک قرار داد کے ذریعے اسے ’میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کا نام دے دیا۔‘‘
قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ یوم وفات ہے!

بدعت ِعیدمیلاد کا موجد کون؟
عیدمیلاد کاجشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبوی اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف’ میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم ‘ کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ’میلاد‘ بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ
’’یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیا کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔‘‘
نیز لکھتے ہیں کہ
’’فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میںمنکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں… سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔‘‘
(البدایۃ والنھایۃ : ۱۱؍۲۵۵ تا ۲۷۱)

بدعت ِعیدمیلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہی
1۔مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ’’أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام‘‘ میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ
’’إن أول من أحدثھا بالقاھرۃ الخلفاء الفاطمیون وأولھم المعز لِدین اﷲ توجہ من المغرب إلی مصر فی شوال سنۃ (۳۶۱ھ) إحدی وستین وثلاث مائۃ ھجریۃ …‘‘
’’سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعزلدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ، میلادِ علی، میلادِ فاطمہ، میلادِ حسن، میلادِ حسین، اور حاکم وقت کا میلاد… یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔‘‘
2۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں :
’’کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ الحاضر‘‘
(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰)
’’فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز New year پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبی صلى اللہ علیہ وسلم ، میلادِ علی، میلاد فاطمۃ الزہرا، میلادِ حسن، میلاد حسین اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔‘‘
3.مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں..
جشن عید میلاد النبی کی ابتداء ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن محمد الملکب الملک المظم مظفر الدین اربل (موصل) متوفی 18 رمضان 630هہ نے کی...
یہ بادشاہ ان محفلوں میں بے دریا پیسہ خرچ کرتا اور الات لهو لعب کے ساتھ راگ ورنگ کی محفلیں منعقد کرتا تها
مولانا رشید احمد گنگوہی لکهتے ہیں اہل تاریخ نے صراحت کی ہے کہ یہ بادشاہ بهانڈؤں (گانے والوں) کو جمع کرتا گانے کے آلات سے گانا سنتا اور خود ناچتا
(فتوی رشیدیه صفحہ 123)
واللہ تعالی اعلم،

مفتی منیار رفیق قاسمی
مولانا شیخ عزیزالرحمن مظاہری
مفتی منیار توفیق مظاہری
℡◇+919904115233
℡◇+917405404036
℡◇+919898475522

No comments:

Post a Comment