Saturday 5 December 2015

ناموس رسالت؛ کیا کہتی ہے شریعت؟

ایس اے ساگر

وقت گذرنے کیساتھ ساتھ ناموس رسالت کا معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے. ایک طرف جغرافیائی سطح پر احتجاجی مظاہروں نے ملک گیر حیثیت اختیار کرلی ہے تو دوسری جانب اہل علم کی توجہ کے بعد اب سیاسی گلیاروں میں بھی بے چینی محسوس کی گئی ہے. ہوتا تو یہ کہ امت کو اس حال کا دین سمجھایا جاتا لیکن گذشتہ روز دہلی کی شاہی جامع مسجدکے امام مولاناسیداحمدبخاری نے اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرخبردارکرتے ہوئے یوپی میں برسراقتدار جماعت سماجوادی کے سربراہ ملائم کوخط لکھ ڈالا۔شاہی امام نے کہاہے کہ میں نہایت دکھ کیساتھ آپ کو یہ خط تحریر کررہاہوں کہ لکھنؤ میں ہندو مہاسبھا کی طرف سے اہانت رسول کے واقعہ پر مسلمان شدید بے چینی اور کرب میں مبتلاء ہیں اورمختلف سطح پر مسلمان احتجاج کررہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اس سے ایک روز قبل مہا سبھا نے کملیش تیواری سے پلہ جھاڑ لیا ہے لیکن امام بخاری کا ملائم سے کہنا ہے کہ  آپ حکمراں سماجوادی پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن اس انتہائی حساس اور سنگین مسئلہ پر آپ کی اوراترپردیش سرکارکی خاموشی ناقابل فہم ہے۔ شاہی امام نے افسوس کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ اترپردیش سرکار اور آپ اہانت رسول کے اس سنگین واقعہ پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے اور مسلمانوں کو یہ تأثر دیتے کہ سماجوادی پارٹی اور اترپردیش سرکار احترام مذاہب پر یقین رکھتی ہے لیکن سماجوادی پارٹی کی خاموشی سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی ہے ۔ گستاخ رسول کے خلاف معمولی سی کارروائی کرنے سے مسلمان مطمئن نہیں ہے بلکہ وہ آہنکاری مسلم وزیر بھی ذمہ دار ہے جس نے فرقہ پرستوں کو اکسایا ، اس لئے اس کیخلاف بھی سخت قانونی کارروائی ہوناچاہئے کیونکہ قانون سب کیلئے برابر ہے چاہے وزیر ہی کیوں نہ ہو۔

اعظم خان کے کرتوت :

اترپردیش کے نام نہاد مسلم وزیر (محمد اعظم خاں)نے ایک ہندو تنظیم کے تعلق سے چار روز قبل ایک بیان دیاتھا، اس پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہندومہاسبھا نے بیان جاری کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ بیان دیا۔ضروری تھا کہ آپ کی طرف سے اس مغرور وزیر کی سرزنش کی جاتی مگر آپ کی خاموشی اس بات کامظہرہے کہ آپ اس نام نہاد مسلم وزیر کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ میں پھر آپ کو تحریر کررہاہوں کہ اس شخص کو اگر پارٹی سے باہر کا راستہ نہ دکھایاگیا تو یا درکھئے کہ اس طرح کے بیانات سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلندہوں گے اوراس کا خمیازہ بہر حال اترپردیش کے مسلمانوں کو بھگتناپڑے گا جس کی ذمہ داری سماجوادی پارٹی اور آپ پر ہوگی. ہوسکتا ہے کہ اسے امام بخاری کی انتقامی کارروائی سمجھی جائے جبکہ اعظم خان نے موصوف کو آر ایس ایس کا ایجنٹ تک کہا ہے تاہم یہاں اصل مسئلہ امت کی رہنمائی کا ہے.

کیا کہتا ہے قرآن ؟

اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

انَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينََ
(سورۃ الاحزاب ۔ایت۵۷)
ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

نیز اللہ فرماتا ہے:

وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
(التوبہ:۶۱)

ترجمہ: ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔

اللہ جل شانہ کا مزید ارشاد ہے:

وَاِنْ نَکَثُوْا أَیْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْا آئِمَّةَ الْکُفْرِِ اِنَّهُمْ لَا أَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
(التوبہ :۱۲)
ترجمہ:اگر یہ لوگ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے لیڈروں سے قتال کرو اس لئے کہ ان کی قسمیں (قابل اعتبار) نہیں ہیں تاکہ یہ (اپنی شرارتوں اور توہین آمیز خاکے بنانے سے) باز آجائیں۔

ابن کثیر
وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أی عابوه وانتقصوه ومن هاهنا أخذ قتل من سب الرسول صلوات اﷲ وسلامه علیه أو من طعن فی دین الاسلام او ذکره بتنقص (ابن کثیر:۳؍۳۵۹، بتحقیق عبدالرزاق مهدی)
ترجمہ:یعنی تمہارے دین میں عیب لگائیں اور تنقیص کریں۔ یہاں سے ہی یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دے یا دین اسلام میںطعن کرے یا اس کا ذکر تنقیص کیساتھ کرے تو اسے قتل کردیاجائے۔

کیا کہتی ہیں احادیث ؟

صحیح بخاری،باب الرھن میں مذکور ہے کہ :
قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَايَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَا فَأَتَاهُ فَقَالَ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ مختصرترجمہ: حضرت عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے سنا کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف کیلئے کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیفیں دی ہیں تو محمد بن مسلمہ اٹھ کھڑے ہوےاورپھر جا کر اس کو قتل کردیا۔اور پھر حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے اس کو قتل کردیا۔

اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے ذریعے نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔حضرت عمرو رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور قریش کومسلمانوں کیخلاف ابھارتا تھا۔ یہ یہودی نبی صل اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا تو نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا اعلان کیا اور محمد بن مسلمہ نے اس کو قتل کرکے حضور صل اللہ علیہ وسلم کو اسکےقتل کی اطلاع دےدی۔

صحیح بخاری:
بعث رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم الیٰ ابی رافع الیھودی رجالا من الانصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم و یعین علیہ ۔ ترجمہ: رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے چند انصار کا انتخاب فرمایا ، جن کا امیر عبد اللہ بن عتیق مقرر کیا ۔یہ ابو رافع نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گستاخ رسول کے قتل کیلئے باقاعدہ آدمی مقرر کئے جاسکتے ہیں اور نیز یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے نہ کہ باعث سزاو ملامت۔ کیونکہ یہ لوگ ایک بہت ہی بڑا کارنامہ اور دینی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

عن انس بن مالک ان النبی صل اللہ علیہ وسلم دخل مکہ یوم الفتح و علی راسہ المغفر فلما نزعہ جاء رجل فقال ابن خطل متعلق باستار الکعبہ فقال اقتلہ۔
(صحیح بخاری) قال ابن تیمیہ فی الصارم المسلول وانہ کان یقول الشعر یھجو بہ رسول اللہ ویامرجاریتہ ان تغنیابہفھذا لہ ثلاث جرائم مبیحۃ الدم، قتل النفس ، والردۃ ، الھجاء۔(الصارم۔صفحہ ۱۳۵) امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل القینتین(اسمھما قریبہ و قرتنا) (اصح السیر ۔صفحہ ۲۶۶) ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کیساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو قتل کردو۔
(صحیح بخاری )
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے کیلئے کہا کرتا تھا، تو اس کے کُل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم قرار پایا ، اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صل اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ۔ اور سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے ابن خطل کے ان دونوں باندیوں کے قتل کانبی صل اللہ علیہ وسلم نےحکم دیا تھا.

دراصل اشعار ابن خطل کے ہوتے تھے اور اس کو عوام کے سامنے گانے والی اس کی دو باندیاں تھیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ گستاخی ناموس رسالت کی اشاعت میں مدد کرنے والے کو بھی قتل کیا جائے گا۔

امر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم بقتل الحویرث ابن نقیذ فی فتح مکہ وکان ممن یؤذی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم (البدایہ والنھایہ) وقتلہ علی رضی اللہ عنہ (اصح السیر)
ترجمہ: فتح مکہ کے دن نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے حویرث بن نقیذ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور یہ ان لوگوں میں سے تھا جو نبی صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچایا کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کیا۔

عن علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل و من سب اصحابہ جلد
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو برا کہے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو برا کہے اسکو کوڑے لگادئے جائیں۔

ان تمام دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ناموس رسالت کی گستاخی آدمی کو واجب القتل بنادیتی ہے اور اس کا خون مباح ہوجاتا ہے۔اور یہ حکم حضرت آدم سے لے کر نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم تک سب کو شامل ہے، یعنی آدم علیہ السلا م سے لے کر نبی صل اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیا کرام علیہم الصلوٰة والسلام ہیں،تو ان میں سے کسی ایک کی توہین سے بھی آدمی واجب القتل بن جاتا ہے۔

قانون اپنے ہاتھ میں لیا تو ؟

اگر کسی نے انفرادی طور پر اُٹھ کر ایسے گستاخ کو قتل کردیا تو اس کا کیا حکم ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ نبوی زندگی میں اس کی کوئی مثال اگر ہےتو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسےگستاخ کے قاتل کیساتھ کیا رویہ اپنایا۔

سنن ابی داؤد، باب الحکم فی من سب :
حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ اناعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ
ترجمہ: ایک نابینا كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى. راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے یوں فرمايا کہ،
" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور لڑكھڑاتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالک ہوں، وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا. تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں۔

سنن ابی داؤد :
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا
ترجمہ: حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی صل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور برا کہتی تھی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی ،تو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا۔

پہلی حدیث تو ایک مملوکہ باندی کی ہے اور دوسری حدیث غیر مملوکہ غیر مسلم کی ہے، مگر غیرت ایمانی نے کسی قسم کا خیال کئے بغیر جوش ایمانی میں جو کرنا تھا کردیا اور حضور صل اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا بدلہ باطل قرار دیا ۔ دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے مباح الدم بن جاتا ہے اور اگر کوئی اس گستاخ کو انفرادی طور پر قتل کرے تو قاتل کیلئے کوئی سزا نہیں ہے۔ بلکہ اس گستاخ کا قاتل ہر قسم کے جرم و سزا سے آزاد ہوگا۔ نیز حق کا علمبردار بن کر ثواب عظیم کا مستحق بن جاتا ہے۔ گستاخ رسول کے قتل حکومت کے ذمہ ہے۔ اور عام آدمی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے ،لیکن اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لے کر اس گستاخ کو قتل کیا تو اس قاتل پر کوئی قصاص یا تاوان نہیں ہوگا کیونکہ مرتد مباح الدم ہوتا ہے اور جائز القتل ہوتا ہے۔ عام آدمی اگر اس کو قتل کردے تو یہ آدمی مجرم نہیں ہوگا۔

ہر صورت قتل کی سزا :

اسلام سوال جواب ویب سائیٹ پر شیخ محمد صالح المنجد تحریر فرماتے ہیں:

” خلاصہ کلام یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا محرمات میں سب سے عظیم ترین گناہ ہے اور علما کا اِجماع ہے کہ ایسا کرنےوالاکافر اور مرتد ہوجاتاہے۔ چاہے اس نے یہ کام سنجیدگی سے کیا ہو یا مذاق اور مزاح میں ۔اور ایسا کام کرنے والے کی سزا ، چاہے وہ مسلم ہو یا کافر، قتل ہے چاہے وہ تائب ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ البتہ اگر اس نے سچے دل سے توبہ نصوحہ کی ہوگی اور اپنے کئے پر پشیمان ہوا ہوگا تو یہ توبہ اسے روزِ قیامت فائدہ دے گی اور اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادے گا،لیکن دنیا میں وہ ہر حال قتل ہوگا۔ “

کیا ہے مفتیان کرام کا موقف؟

اگر کوئی نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتاہے (نعوذ باللہ) تو اس کی سزا موت ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ اس گستاخ کو قتل کرنے کی ذمہ داری کس کو ہوگی؟عام پبلک کی یا حکومت ؟کیا اس کو توبہ کرنے کا موقع ملے گا؟

  Feb 09,2011

  Answer: 29322

فتوی(ل): 158=200-3/1432

حدودِ شرعیہ کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے، عام پبلک پر نہیں۔
(۲) گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر سچی توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ بھی قبول کی جاسکتی ہے۔ کما ہو مذہب الامام ابی حنیفة رحمہ اللہ ۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

قبلہ میرا سوال یہ ہے کہ شریعت کے اعتبار سے توہین اسلام اور گستاخ رسول کی کیا سزا ہونی چاہئے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں گے۔

  Jul 09,2007

  Answer: 1149

(فتوى: 283/د = 292/د)

اسلام کی توہین کرنے والا اپنے ایمان و اسلام کو خطرہ میں ڈالتا ہے اور مستحق عذابِ نار ہوتا ہے۔ جب اسلام کے ایک چھوٹے سے عمل کا استخفاف کرنا (ہلکا اور معمولی سمجھنا) کفر کا باعث ہوتا ہے تو توہین تو بہت سخت ترین جرم ہے۔ اسی طرح شانِ رسالت میں جب ادنیٰ سى بے ادبی کو حبط اعمال کا سبب قرار دیا گیا ہے تو گستاخی شدید ترین جرم ہے۔ اس کے بعد ایمان سلامت رہنا بھی دشوار ہے۔ قال في الشامي لو لم یر السنة حقا کفر لأنہ استخفاف و وجھہ أن السنة أحد الأحکام الشرعیة المتفق علی مشروعیتھا عند علماء الدین فإذا أنکر ذلک ولم یرھا شیئا ثابتا ومعتبرًا في الدین یکون قد استخف بھا واستھانھا وذلک کفر: ج۱ ص۳۵۰۔ وقال في سابّ الأنبیاء: والکافر یسب نبي من الأنبیاء فإنہ یقتل حدا ولا تقبل توبتہ مطلقا ج6 ص370، زکریا) گستاخ رسول کی سزا فقہاء نے لکھی ہے کہ اس کو بطور حد کے قتل کردیا جائے گا اور توبہ کرنے پر بھی یہ سزا اس سے معاف نہیں ہوگی۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس طرح کی سزاوٴں کا جاری کرنا حکومت کا کام ہے، ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھے گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دی اسے درے مارے جائیں۔ براہ کرم، اس کی صحت بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا یہ صرف یہی حدیث کافی ہے کہ توہین رسالت کرنے والوں کو قتل کیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والا واجب القتل ہے ۔ براہ کرم، قرآن کریم کی کسی آیت سے ثابت کریں۔ 

  Jan 16,2011

  Answer: 28353

فتوی(د): 106=77-2/1432

ابن ماجہ میں یہ حدیث کافی تلاش کے باوجود نہ مل سکی، حدیث کا عربی متن یا باب وغیرہ لکھ کر بھیجیں، تبھی اس کی صحت سے متعلق جواب دیا جاسکتا ہے، البتہ ابوداوٴد اور اس کی شرح معالم السنن میں بعض حدیثیں ہیں جن سے ”شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ کا حکم معلوم ہوسکتا ہے، عن انس بن مالک: من یشتم النبي - صلی اللہ علیہ وسلم - من الیہود والنصاری قُتِل إلاّ أن یُسْلِمَ (معالم السنن: ۳/۲۹۷ المطبعة العلمیة حلب) احادیث کی روشنی میں شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ مسلمان ہے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا، اگر توبہ کرلیتا ہے تو وہ معصوم الدم ہے؛ لیکن اگر توبہ سے انکار کردے تو وہ مرتد کے حکم میں ہے اور ”ارتداد“ کی وجہ سے اسے قتل کیا جائے گا۔ اگر وہ ذمی، غیرمسلم ہے اور برسرِ عام ایسا کرتا ہے تو وہ واجب القتل ہے؛ لیکن قتل کا اختیار صرف حکومت وقت کو ہے في رد المحتار: ۶/۳۸۲ زکریا، ”إن کان مسلما یستتاب فإن تاب وإلاّ قتل کالمرتد وفیہ ۶/۳۴۵ زکریا ”فصار الحاصل أن عقد الذمة لا ینتقض بما ذکروہ مالم یشترط انتقاضہ فإذا اشترط انتقض وإلا فلا إلا إذا أعلَن بالشتم أو اعتادہ“۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment