Thursday 24 December 2015

کیسے اتریں گے پار؟

ایس اے ساگر
کیا آپ نے جیتے جی تیاری کرلی ہے؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ قیامت کے دن کی مقدار اور لمبائی کتنی ہے؟ پچاس ہزار سال كے برابر، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
تعرج الملئكة و الروح اليه في يوم كان مقداره خمسين الف سنة.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت کے پچاس موقف ہیں، اور ہر موقف ایک ہزار سال کا ہو گا.
جب آیت،
یوم تبدل الأرض غیر الأرض و السماوات،
نازل ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ جب یہ زمین و آسمان بدل دئیے جائیں گے تب ہم کہاں ہوں گے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا کہ تب ہم پل صراط پر ہوں گے.
پل صراط پر سے جب گزر ہوگا اس وقت صرف تین جگہیں ہوں گی :
1. جہنم
2. جنت
3. پل صراط
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: سب سے پہلے میں اور میرے امتی پل صراط کو طے کریں گے.
کیسا ہے پل صراط؟
قیامت میں جب موجودہ آسمان اور زمین بدل دئے جائیں گے اور پل صراط پر سے گزرنا ہوگا وہاں صرف دو مقامات ہوں گے جنت اور جہنم. جنت تک پہنچنے کے لیے لازما جہنم کے اوپر سے گزرنا ہوگا.
جہنم کے اوپر ایک پل نصب کیا جائے گا، اسی کا نام الصراط ہے، اس سے گزر کر جب اس کے پار پہنچیں گے وہاں جنت کا دروازہ ہوگا، وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہوں گے اور اہل جنت کا استقبال کریں گے.
یہ پل صراط درج ذیل صفات کا حامل ہو گا:
1- بال سے زیادہ باریک ہوگا.
2- تلوار سے زیادہ تیز ہو گا.
3- سخت اندھیرے میں ہوگا، اس کے نیچے گہرائیوں میں جہنم بهی نہایت تاریکی میں ہوگی. سخت بپهری ہوئی اور غضبناک ہوگی.
4- گناہ گار کے گناہ اس پر سے گزرتے وقت مجسم اس کی پیٹھ پر ہوں گے، اگر اس کے گناہ زیادہ ہوں گے تو اس کے بوجھ سے اس کی رفتار ہلکی ہو گی، اللہ تعالیٰ ہمیں اس صورت سے اپنی پناہ میں رکھے. اور جو شخص گناہوں سے ہلکا ہوگا تو اس کی رفتار پل صراط پر تیز ہوگی.
5- اس پل کے اوپر آنکڑے لگے ہوئے ہوں گے اور نیچے کانٹے لگے ہوں گے جو قدموں کو زخمی کرکے اسے متاثر کریں گے. لوگ اپنی بد اعمالیوں کے لحاظ سے اس سے متاثر ہوں گے.
6- جن لوگوں کی بے ایمانی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے پیر پهسل کر وہ جہنم کے گڑهے میں گر رہے ہوں گے ان کی بلند چیخ پکار سے پل صراط پر دہشت طاری ہو گی.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پل صراط کی دوسری جانب جنت کے دروازے پر کھڑے ہوں گے، جب تم پل صراط پر پہلا قدم رکھ رہے ہوگے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہیں گے
" یا رب سلم، یا رب سلم"
آپ بهی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے درود پڑهئے: اللهم صل وسلم على الحبيب محمد.
لوگ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے بہت سوں کو پل صراط سے گرتا ہوا دیکھیں گے اور بہت سوں کو دیکھیں گے کہ وہ اس سے نجات پا گئے ہیں. بندہ اپنے والدین کو پل صراط پر دیکهے گا لیکن ان کی کوئی فکر نہیں کرےگا، وہاں تو بس ایک ہی فکر ہو گی کہ کسی طرح خود پار ہو جائے.
کیوں روپڑیں اماں جان؟
روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قیامت کو یاد کر کے رونے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:
عائشہ کیا بات ہے؟
حضرت عائشہ نے فرمایا: مجهے قیامت یاد آگئی، یا رسول اللہ کیا ہم وہاں اپنے والدین کو یاد رکهیں گے؟ کیا وہاں ہم اپنے محبوب لوگوں کو یاد رکھیں گے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ہاں یاد رکھیں گے، لیکن وہاں تین مقامات ایسے ہوں گے جہاں کوئی یاد نہیں رہے گا.
(1) جب کسی کے اعمال تولے جائیں گے.
(2) جب نامہ اعمال دیئے جائیں گے .
(3) جب پل صراط پر ہوں گے.
میزان عدل کا منظر :
نیکیاں اور بدیاں میزان عدل میں تولی جائیں گی، جس کا نیکی کا پلہ بھاری ہو گا وہ جنت میں جائے گا جس کا وہ پلہ ہلکا ہو گا وہ دوزخ میں جائے گا جس کے دونوں پلے برابر ہوں گے وہ کچھ مدت اعراف میں رہے گا، پھر اللّٰہ تعالٰی کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔ میزان میں اعمال تولنے کی کیفیت اللّٰہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے۔
اللہ کی مخلوق کے حقوق :
حقوق العباد کا بدلہ اس طرح دلایا جائے گا کہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دلائی جائیں گی اور جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوم کی برائیاں ظالم پر ڈالی جائیں گی، چرندوں پرندوں اور وحشی جانوروں وغیرہ کا بھی حساب ہو گا اور سب کو بدلہ دلا کر سوائے جن و انس کے سب کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ میزان حق ہے اس کا منکر کافر ہے پل صراط حق ہے اور اس کا منکر بھی کافر ہے، میدان حشر کے گرداگرد دوزخ محیط ہو گی .
پل صراط پر سوائے ایمان کی روشنی کے اور کوئی روشنی نہ ہو گی، اس کی سات گھاٹیاں ہیں، سب لوگوں کو اس پر چلنے کا حکم ہو گا، سب سے پہلے نبیوں کے سردار محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس پر سے گزریں گے آپ کے بعد آپ کی امت گزرے گی، پھر اور مخلوق باری باری گزرے گی، سوائے انبیاء علیہ السلام کے ۔اور کوئی کلام نہ کرے گا اور انبیاء علیہم السلام کا کلام یہ ہوگا ...
اَللّٰھُمَّ سَلِّم سَلِّم
اے اللّٰہ سلامت رکھنا سلامت رکھنا ...
جہنم میں پل صراط کے دونوں طرف کانٹوں کے جو آنکڑے ہوں گے، جن کی لمبائی اللّٰہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے، وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے پکڑیں گے، بعض کو پکڑ کر جہنم میں گرا دیں گے اور بعض کا گوشت چھیل ڈالیں گے لیکن زخمی کو اللّٰہ تعالٰی نجات دے گا، مومن سب گزرجائیں گے، بعض بجلی کی مانند بعض تیز ہوا کی مانند بعض پرندوں کی مانند، بعض تیز گھوڑے کی مانند، بعض تیز اونٹ کی مانند جلد گزر جائیں گے، بعض تیز دوڑنےوالے آدمی کی مانند، بعض تیز چلنے والی پیدل کی مانند، بعض عورتوں کی طرح آہستہ، بعض سرین پر گھسیٹتے ہوئےاور بعض چیونٹی کی چال چلیں گے، کفارومنافق سب کٹ کر دوزخ میں گر جائیں گے،
شریعت پر کتنا چلے؟
جس کو اس دنیا میں شرعیت پر چلنا آسان ہو گا اتنا ہی پل صراط پر چلنا آسان ہو جائے گا اور جتنا یہاں شرعیت پر چلنا مشکل ہو گا، اتنا ہی وہاں پل صراط پر چلنا اس کے لئے دشوار ہو گا حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالٰی کے سامنے گناہگار بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔
جہنم کی کمر 
پل صراط کیسی ہوگی
ثُمَّ يُضْرَبُ الْجِسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ وَتَحِلُّ الشَّفَاعَةُ وَيَقُولُونَ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْجِسْرُ قَالَ دَحْضٌ مَزِلَّةٌ فِيهِ خَطَاطِيفُ وَکَلَالِيبُ وَحَسَكٌ تَكُونُ بِنَجْدٍ فِيهَا شُوَيْکَةٌ يُقَالُ لَهَا السَّعْدَانُ فَيَمُرُّ الْمُؤْمِنُونَ کَطَرْفِ الْعَيْنِ وَکَالْبَرْقِ وَکَالرِّيحِ وَکَالطَّيْرِ وَکَأَجَاوِيدِ الْخَيْلِ وَالرِّکَابِ فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ وَمَخْدُوشٌ مُرْسَلٌ وَمَكْدُوسٌ فِي نَارِ
(مسلم،باب معرفۃ طریق الرؤیۃ،حدیث نمبر:۲۶۹)
(ترجمہ)پھردوزخ پر ایک پل قائم کیا جائے گا اور شفاعت کی اجازت عام ہوجائے گی تو اہل جنت عرض کریں گےاے اللہ سلامتی عطا فرما،عرض کیا گیا اے رسول اللہﷺیہ پل کیا شئے ہے؟فرمایا: پھسلنے ہی پھسلنے کی جگہ ہے ،اس میں ٹیڑھے لوہے ہیں جن سے چیزیں اچک لی جاتی ہیں،لوہے کے کانٹے دار کونڈے ہیں جیسے نجد میں کانٹے دار(اونٹ کٹارے کی)جھاڑیاں ہیں جسے "سعدان"کہاجاتا ہے ،پس اس سے مومن پلک جھپکنے یا بجلی یا ہوا یا پرندے یاعمد ہ گھوڑے یا سواروں کی(رفتار کی) طرح گذرجائیگا ،کوئی سلامتی سے نجات پائے گا،کوئی لٹک لٹک کر زخمی ہوکر نجات پائے گا اور کوئی گھٹے ہوئے مونہہ کے بل دوزخ میں جا گرے گا۔
حضرت زید بن اسلمؒ مذکورہ حدیث ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مومن پل صراط سے اپنے نور کے ساتھ گذرجائیں گے اور ان میں سے بعض تو پلک جھپکنے کی دیر میں گذریں گے (الحدیث)۔        
(تفسیر آدم بن ابی ایاس)
(حدیث)حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:
ویضرب الجسریین طھر انی جھنم فاکون انا وامتی اول من یجیز ہ ولا یتکلم فی ذلک الیوم الا الرسل ودعوۃ الرسل یومئذ:اللھم سلم سلم‘وفی جہنم کلا لیب مثل شوک السعدان ھل رایتم السعدان؟قالوا:نعم یا رسول اللہ قال فانھا مثل شوک السعدان غیرانہ لا یعلم قدر عظمتھا الا اللہ عزوجل تخطف الناس باعمالھم فمنھم الموبق بعملہ ومنھم المجازی حتی ینجی الحدیث     
(بخاری ومسلم)
(ترجمہ)پشت جہنم پر ایک پل نصب کیا جائے گا میں اور میری امت اس پر سے سب سے پہلے گذرنے والے ہوں گے،اس روز سوائے رسولوں کے کسی کو گفتگو کی مجال نہیں ہوگی اور رسول اس دن یہ دعاء فرماتے ہوں گے"اللھم سلم سلم" اے اللہ سلامتی ہی سلامتی عطا فرما جبکہ جہنم میں "سعدان"(اونٹ کٹارہ) یعنی خاردار جھاڑی جسے اونٹ رغبت سے کھاتے ہیں) کے کانٹوں کی طرح آگ کے کنڈے ہوں گے(آپﷺنے صحابہ سے فرمایا) کیا تم نے سعدان دیکھی ہے؟عرض کیا ہاں یا رسول اللہ دیکھی ہے(تو)فرمایا پس وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوگی لیکن اس(کے کانٹوں)کی لمبائی کو اللہ عزوجل کے علاوہ کوئی نہیں جانتا)لوگوں کو ان کے اعمال کے حساب سے اچک لے گی، پس ان میں سے کوئی تو اپنے اعمال بد کی وجہ سے ہلاک ہوجائے گا اور کوئی گذر کر نجات حاصل کرلے گا۔
(حدیث)حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت حذیفہؓ حدیث شفاعت میں حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا:
فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُومُ فَيُؤْذَنُ لَهُ وَتُرْسَلُ الْأَمَانَةُ وَالرَّحِمُ فَتَقُومَانِ جَنَبَتَيْ الصِّرَاطِ يَمِينًا وَشِمَالًا فَيَمُرُّ أَوَّلُكُمْ کَالْبَرْقِ قَالَ قُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَيُّ شَيْءٍ کَمَرِّ الْبَرْقِ قَالَ أَلَمْ تَرَوْا إِلَى الْبَرْقِ کَيْفَ يَمُرُّ وَيَرْجِعُ فِي طَرْفَةِ عَيْنٍ ثُمَّ کَمَرِّ الرِّيحِ ثُمَّ کَمَرِّ الطَّيْرِ وَشَدِّ الرِّجَالِ تَجْرِي بِهِمْ أَعْمَالُهُمْ وَنَبِيُّكُمْ قَائِمٌ عَلَى الصِّرَاطِ يَقُولُ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ حَتَّى تَعْجِزَ أَعْمَالُ الْعِبَادِ حَتَّى يَجِيءَ الرَّجُلُ فَلَا يَسْتَطِيعُ السَّيْرَ إِلَّا زَحْفًا قَالَ وَفِي حَافَتَيْ الصِّرَاطِ کَلَالِيبُ مُعَلَّقَةٌ مَأْمُورَةٌ بِأَخْذِ مَنْ أُمِرَتْ بِهِ فَمَخْدُوشٌ نَاجٍ وَمَكْدُوسٌ فِي النَّارِ وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ إِنَّ قَعْرَ جَهَنَّمَ لَسَبْعُونَ خَرِيفًا
(مسلم،باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ فیھا،حدیث نمبر:۲۸۸)
(ترجمہ)پس (اہل محشر)حضرت محمدﷺکے پاس آئیں گے تو آپ ﷺ(اللہ تعالی کے ہاں)تشریف لے جائیں گے پھر آپ ﷺکو(شفاعت کی)اجازت دی جائے گی اور آپ ﷺکے ساتھ امانت اور صلہ رحمی کو بھی بھیج دیا جائے گا جو پل کے دونوں جانبوں پر دائیں بائیں کھڑی ہوجائیں گی، پس تم میں پہلا(گروہ)بجلی(کی رفتار)کی طرح(اس پر سے)گذر جائے گا،(حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان! بجلی کو نہیں دیکھا وہ کیسے پل جھپکنے میں جاکر واپس لوٹ آتی ہے،پھر ہوا کی طرح(ایک گروپ گذرے گا)پھر پرندہ کی طرح (ایک گروپ گذرے گا اور لوگوں میں سب سے سخت حالت میں وہ لوگ ہوں گے جن کو (پل صراط سے)اعمال پار کرائیں گے؛جبکہ تمہارے نبی اکرمﷺپل صراط پر کھڑے ہوکر دعا فرماتے رہیں گے اے پروردگار(میری امت کو پل صراط عبور کرنے میں دوزخ سے اورپل صراط کے خطرات سے)سلامتی ہی سلامتی عطا فرما یہاں تک کہ بندوں کی نیکیاں عاجز آجائیں گی،حتی کہ ایک آدمی ایسا بھی آئے گا جو چلنے کی طاقت نہیں رکھے گا مگر سرین کے بل دھیرے دھیرے گھسٹے گا،حضورﷺنے یہ بھی فرمایا کہ پل صراط کے دونوں اطراف میں لٹکتے ہوئے لوہے  کے کنڈے ہوں گے وہ ان لوگوں کو پکڑنے پر مامور ہوں گے جنہیں پکڑنے کا حکم ہوگا پس زخمی (جنتی)نجات پا جائے گا اورجکڑے ہوئے بدن والا(دوزخی)دوزخ میں گر پڑے گا،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں ابوہریرہ کی جان ہے بے شک جہنم کی گہرائی ستر سال(کی مسافت کے برابر )ہے۔
(حدیث)صور کی لمبی حدیث میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ہے جس کی طرف پہلے اشارہ گذرچکا ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا:
ویضرب الصراط بین ظھر انی جہنم کقدر الشعرۃ اوکحدسیف لہ کلالیب وخطاطیف وحسک کحسک السعدان دونہ جسردحض مزلقۃ
(ترجمہ)جہنم کی کمر پر بال برابر یا تلوار کی دھار برابر پل صراط نصب کی جائے گی جسے لوہے کے کنڈے،اچک لینے والے کنڈے اور سعدان(ایک خاردار جھاڑی جسے اونٹ شوق سے کھاتے ہیں) کے کانٹوں کی طرح کانٹے ہوں گے اس کے نیچے پھسلنے ہی پھسلنے والا پل ہوگا۔
(فائدہ)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جسر اورصراط دو الگ الگ پل ہوں گے جبکہ سابقہ صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ(دوزخ پر) ایک ہی پل ہے(منہ)
(حدیث)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺنے ایک طویل حدیث میں فرمایا:
والصراط كحد السيف دحض ، مزلة ، فيقال : انجوا على قدر نوركم ، فمنهم من يمر كانقضاض الكوكب ، ومنهم من يمر كالطرف ، ومنهم من يمر كالريح ، ومنهم من يمر كشد الرجل ، ويرمل رملا ، فيمرون على قدر أعمالهم حتى يمر الذي نوره على إبهام قدمه قال : يجر يدا ويعلق يدا ويجر رجلا ويعلق رجلا وتضرب جوانبه النار
(المستدرک،باب تفسیر سورۃ مریم،حدیث نمبر:۳۳۸۱)
(ترجمہ)پل صراط تلوار کی دھار کی طرح(تیز)اورنہایت ہی پھسلانے والی ہوگی،پس(فرشتے پکار کر)کہیں گے اپنے اپنے نور کے اندازہ کے موافق اپنی اپنی نجات حاصل کرو،پس ان میں سے کچھ شہابے کے ختم ہونے کی مثل اور کچھ پلک جھپکنے کی دیر میں اور کچھ ہوا کی طرح اور کچھ تیز رفتار آدمیوں (کی دوڑ) کی طرح،اپنے نیک اعمال کے حساب سے گذریں گے حتی کہ جس کا نور قدموں کے انگوٹھوں جتنا ہوگا  بھی ایک ہاتھ سے گرتا ہوگا اور ایک سے لٹکتا ہوگا اور ایک آدمی گرتا ہوگا اور آدمی لٹکتا ہوگا اور اس کے پہلے آگ کو چھوتے ہوں گے ۔   
(مستدرک حاکم)
(حدیث)ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے جہنم کو یاد فرمایا اور روپڑیں،تو حضور اکرم ﷺنے ان سے فرمایا اے عائشہ تجھے کیا ہوگیا ہے؟تو انہوں نے عرض کیا کہ جہنم کو یاد کیا تھا تو روپڑی ہوں،کیا آپ اپنے گھرانوں کو روز قیامت یاد فرمائیں گے؟ تو حضوراکرمﷺنے فرمایا تین موقعے ایسے ہیں جہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا(ایک)میزان کے وقت حتی کہ اسے معلوم ہو کہ اس کا پلڑا ہلکا ہوا ہے یا وزنی،(دوسرے)کتابوں کے وقت جب یہ کہا جائے گا کہ آؤ اپنے اپنے اعمالناموں کو پڑھ لو حتی کہ وہ جان لے کہ اس کی کتاب کہاں ملتی ہے دائیں  میں یا پشت پیچھے،(تیسرے)پل صراط کے وقت جب اسے جہنم کی کمر پر رکھا جائے گا اس کے دونوں لب کنڈوں اورکانٹوں سے پر ہوں گے،اللہ تعالی جسے چاہیں گے ان کے ساتھ پھانس لیں گے یہاں تک کہ آدمی جان لے گا کہ وہ نجات پاتا ہے کہ نہیں۔         
   (ابوداؤدشریف)
(حدیث)حضرت قاسمؒ حضرت عائشہؓ سے وہ آنحضرت ﷺسے گذشتہ حدیث کے مطابق روایت کرتے ہیں مگر اس میں میزان،اعمالناموں کے اڑنے اوردوزخ سے گردن کے نکلنے کا ذکر بھی کیا ہے اور یہ(بھی کہ)آپﷺنے فرمایا جہنم کا ایک پل ہوگا جو بال سے زیادہ باریک اورتلوار سے زیادہ تیز ہوگا،اس پر لوہے کے کنڈے اورکانٹے ہوں گے جس کو خدا چاہیں گے یہ ان کو پکڑلیں گے اور لوگ اس پر سے پلک جھپکنے یا بجلی یا ہوا عمدہ گھوڑوں اور سواریوں کی طرح سے گذریں گے اور فرشتے کہتے ہوں گے اے رب سلامتی فرمائیے سلامتی فرمائیے ،کچھ لوگ خراش پاکر(بھی)گذریں گے اور کچھ منہ کے بل سمٹے ہوئے بدن کی شکل میں دوزخ میں گرجائیں گے۔      
(مسند احمد)
(حدیث)بنوکندہ کا ایک آدمی نقل کرتا ہے کہ میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضورﷺنے آپ کو کوئی ایسی بات بتلائی ہے کہ آپ ﷺپر کوئی ایسی گھڑی بھی آئے گی جس میں وہ کسی کی شفاعت نہیں کرسکیں گے؟حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ میں نے اس کے متعلق آپ ﷺسے پوچھا تھا آپﷺنے فرمایا:
نعم حین یوضع الصراط الااملک لاحد فیہ شفاعۃ حم تبیض وجوہ وتسود وجوہ حتی انظر ماذا یفعل بی اوقال:یوحی الی وعند الجسر حین یستحد ویستحر
(ترجمہ)ہاں جب پل صراط نصب کی جائے گی تو اس وقت مجھ میں سفارش کرنے کی ہمت نہ ہوگی یہاں تک کہ میں جان لوں کہ مجھے کدھر چلایا جاتا ہے،اس دن بہت سے چہرے بارونق ہوں گے اور بہت سے افسردہ،یہاں تک کہ میں دیکھ لوں گا جو میرے ساتھ معاملہ کیا جائے گا یا آپ ﷺنے یوں فرمایا کہ میری طرف وحی فرمائی جائے گی اور(میں) پل کے پاس ہوں گا جب  اسے تیز کیا اور بھڑکایا جائے گا،میں (یعنی بنوکندہ کے آدمی) نے کہا یہ تیز کرنا اور بھڑکانا کیسا ہوگا تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ پل صراط کو اتنا تیز کیا جائے گا کہ وہ تلوار کے لب کی طرح ہوجائے گی اور اتنا گرم کیا جائے گا کہ انگارہ کی مثل بن جائے گی مومن تو بغیر تکلیف کے اس سے گذرجائے گا،لیکن منافق رہ جائے گا حتی کہ جب پل کے درمیان میں پہنچے گا تو اپنے قدموں سے پھسل جائے گا پس اپنے ہی ہاتھوں سے قدموں کے بل گرپڑے گا،پھر حضرت عائشہ ؓنے فرمایا تونے کبھی ننگے پاؤں دوڑنے والے کو دیکھا ہے جب اسے کانٹالے لے اور اس کے قدموں میں پیوست ہونے کو ہو اور وہ خودبخود اپنے قدموں میں جھک جائے،پس(یہ منافق بھی اسی طرح اپنے ہاتھوں اور سرکو اپنے قدموں کی طرف جھکائے گا تو جہنم میں پھینک دیں گے،پس یہ پچاس(ہزار)سال کے زمانہ تک اس میں گرتا رہے گا،میں نے پوچھا کہ آدمی کا اپنا وزن کیا ہوگا تو آپ ﷺنے فرمایا دس موٹی تازی گابھن اونٹنیوں کے وزن کے برابر،پس اس دن مجرم اپنی نشانیوں سے پہچانے جائیں گے اور انہیں سروں اور ٹانگوں سے پکڑا جائے گا۔     
(مسند بقی بن مخلد،تفسیر ابن ابی حاتم فی اسناد جہالہ وفی بعض الفاعہ فکارہ)
(فائدہ)اس حدیث کی بعض باتیں درست نہیں ہیں کیونکہ صحیح احادیث وضاحت کرتی ہیں کہ پل صراط شفاعت کی اجازت کے بعد نصب کی جائے گی جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔
پل صراط سے اللہ تعالی اپنی رحمت سے نجات عطاء فرمائیں گے
(حدیث)امام احمد نے حضرت ابوبکر سے حضور علیہ السلام کا ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
يُحْمَلُ النَّاسُ عَلَى الصِّرَاطِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، فَيَتَقَادَعُ بِهِمْ جَنْبَتَا الصِّرَاطِ تَقَادُعَ الْفِرَاشِ فِي النَّارِ ، فَيُنَجِّي اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ
(مسند البزار کاملا من،باب مسند ابی بکرۃ ؓ:۲/۴۴)
(ترجمہ)روزقیامت لوگوں کو پل صراط پر سوار کیا جائے گا تو وہ اس کے اطراف سے اس طرح سے گریں گے جس طرح سے پتنگے آگ میں گرتے ہیں،پس اللہ تعالی جسے چاہیں گے اپنی رحمت سے نجات عطا فرمائیں گے۔
پل صراط سے فرشتوں کا خوف
(حدیث)حضرت سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا:
يوضع الصراط مثل حد الموسی فتقول الملائكة : من ینجو على هذا ؟ فيقول : من شئت من خلقي فيقول : سبحانك ما عبدناك حق عبادتك    
(خرجہ الحاکم وصححہ والمعروف انہ موقوف علی سلمان الفارسی من قولہ)
(ترجمہ)استرہ کی طرح تیز پل صراط نصب کیا جائے گی پس فرشتے (رب تعالی سے عرض کریں گے) اس پر سے کون نجات پائے گا؟تو اللہ تعالی فرمائیں گے اپنی مخلوق میں سے میں جسے چاہوں گا(نجات دوں گا)تو فرشتے (خوف کے مارے)عرض کریں گے(اے اللہ) آپ کی ذات پاک ہے ہم نے تیری عبادت اس طرح سے نہیں کی جس طرح تیری عبادت کرنے کا حق تھا(آپ ہمیں اپنی عبادت کی کوتاہیوں پر مواخذہ نہ کریں ؛بلکہ معاف فرمادیں )۔ 
   (حاکم)
(حدیث)حضوراکرمﷺنے فرمایا:
وتسلکون جسرا من الناریطا احدکم الجمرۃ فیقول:حس حس فیقول ربک:ادنہ         
(الحاکم فی المستدرک)
(ترجمہ)تم جہنم کے پل پر چلوگے،تم میں سے جوانگارے کو روندے گا تو کہے گا"حس حسس" تو اللہ تعالی فرمائیں گے جنت کے (اور) قریب ہوجا(مستدرک)(حدیث)حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺنے فرمایا:
الصراط کحد الشفرۃ اوکحد السیف وان الملائکۃ ینجون المومنون والمؤمنات وان جبریل لاخذ بحجزتی وانی لاقول:یارب سلم سلم فالزالون والزالات یومئذ کثیر
  (بیہقی)
(ترجمہ)پل صراط موچی کی رانپی یا تلوار کی دھار کی طرح(تیز)ہوگی اور فرشتے مؤمن مرد اور خواتین کو پار کرارہے ہوں گے،اور حضرت جبریلؑ  میری کمر سے پکڑے ہوں گے اور میں کہتا ہوں گا اے پروردگار سلامتی فرمائیے،سلامتی فرمائیے پس اس روز بہت سے لوگ پھسلنے والے ہوں گے اوربہت سی خواتین پھسلنے والی ہوں گی۔
پل صراط اور اس پر سے گذرنے والوں کی کچھ تفصیلی حالت
(حدیث)حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :
علی جھنم جسر مجسورادق من الشعر واحد من السیف اعلاہ نحو الجنۃ دحض مزلۃ بجنتیہ کلالیب وحسک من النار یجلس اللہ بھا من یشآء من عبادہ الزالون والزالات یومئذ جاز،ویعطون النور یومئذ علی قدر ایمانھم باعمالھم فمنھم من یمضی علیہ کلمع البرق ومنھم من یمضی علیہ  کمر الریح ومنھم من یمضی علیہ کمر الفرس السابق و منھم من یشد علیہ شداومنھم من یھرول ومنھم من یعطی نورہ الی موضع قدمیہ ومنھم من یحبوا حبوا وتاخذ النار منھم بذنوب اصابو ھا فعندک ذلک یقول المومن:بسم اللہ حس حس و یلتوی وھی تحرق من شاء اللہ منھم  علی قدر ذنوبھم
(بیہقی وقال فیہ زیادہ المنیری ویزید الرقاشی وسعید بن زربی لیسو ابا قویاء)
(ترجمہ)جہنم پر ایک پل نصب ہوگا جو بال سے باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا اس کا اوپر کا حصہ ڈھال کی مانند پھسلنے والا ہوگا اس کے جانبین میں آگ کے کونڈے اور کانٹے ہوں گے جسے اللہ تعالی چاہیں گے ان کے ساتھ اپنے بندوں کو پکڑلیں گے،اس روز پھسلنے والے مرد اورپھسلنے والی عورتیں بہت ہوں گی،فرشتے اس کی جانبین میں کھڑے ہوکر پکارتے ہوں گے اے اللہ سلامتی فرمائیے سلامتی فرمائیے، پس جو آدمی حق کے ساتھ آیا ہوگا وہ اس روزپار ہوجائے گا اور یہ لوگ اس دن اپنے ایمان اور اعمال کے بقدر نور عطا کئے جائیں گے،پس ان میں سے کوئی تو اس پر سے بجلی کی طرح ایک لمحہ میں گذرے  گا اور کوئی ہوا کے گذرنے    کی طرح اور کوئی تیز رفتار گھوڑے کی طرح اور کسی کے لئے اس پر سے گذرنا بہت مشکل ہوگا،کوئی ان میں سے اپنی تیز رفتاری کی طرح گذر جائے گا،ان میں سے کسی کے لئے دو قدموں کے بقدر نور عطا ہوگا اورکوئی پاؤں پر بیٹھ کر ٹانگوں   کو سکیڑ کر سہارالے گا،اورجو گناہ انہوں نے کئے تھے ان کے بدل میں بعض کو آگ پکڑلے گی پس اس موقع  پر مؤمن  کہے گا"بسم اللہ حس حس" اس کا گذرنا دشوار ہوگا اوران میں سے جسے خدا چاہے گا گناہوں کے حساب سے آگ جلاتی رہے گی۔   
(بیہقی)
پل صراط کے کونڈے
(حدیث)حضرت عبید بن عمیرؒ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
الصراط علی جہنم مثل حرف السیف بجنبتیہ الکلالیب والحسک فیرکیہ الناس فیختطفون والذی نفسی یدہ انہ لیوخذیالکلوب الواحد اکثر من رییعۃ ومضر
(بیہقی)
(ترجمہ)تلوار کی دھار کی طرح(تیز)پل جہنم پر نصب کیا جائے گا جس کے جانبین میں آگ کے کونڈے اور کانٹے ہوں گے پس لوگ اس پر سوار ہوں گے تو یہ انہیں اچک لیں گے،مجھے اس   ذات کی قسم ہے جس کے قبضے میں میری جان ہے قبیلہ ربیعہ اورقبیلہ مضر کے افراد سے زیادہ لوگوں کو(پل صراط)ایک ہی کونڈے سے پکڑلے گا۔
پل صراط پر مومنین کا شعار
(حدیث)حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
شعار المومنین علی الصراط :رب سلم سلم
(ترجمہ)پل صراط پر مؤمنین کا نشان "رب سلم سلم" ہوگا
(یعنی وہ یہ دعا کریں گے کہ اے رب سلامتی ہی سلامتی عطا فرمادیجئے)
(فائدہ)حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے یہ ارشاد فرمایا کہ جب میری امت کو پل صراط پر سوار کیا جائے گا تو ان کا شعار"لا الہ الا انت" ہوگا،لیکن اس روایت میں نکارت ہے۔ واللہ اعلم
آسمان وزمین کی تبدیلی کے وقت لوگ کہاں ہوں گے؟
(حدیث)حضرت عائشہؓ نے نبی اکرمﷺسے سوال کیا کہ جس دن دوسری زمین بدل جائے گی اس زمین کے علاوہ اور آسمان بھی(دوسرے بدل دئے جائیں گے ان آسمانوں کے علاوہ؛کیونکہ اول مرتبہ از سرنو زمین وآسمان بنیں گے)تو اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ تو آپﷺنے ارشاد فرمایا پل صراط پر ہوں گے۔      
  (مسلم شریف)
(فائدہ)ایک یہودی عالم نے حضورﷺسے سوال کیا جس روز اس زمین کی جگہ دوسری زمین اور دوسرے آسمان بد ل دئے جائیں گے تو لوگ کہاں ٹھہریں گے؟آپﷺنے فرمایا وہ پل کے بجائے اندھیرے میں ہوں گے پھر اس نے پوچھا کہ سب سے پہلے اس پر سے کون گذریں گے؟تو آپ ﷺنے فرمایا فقرائے مہاجرین۔الحدیث                
(مسلم شریف)
دونوں حدیثوں میں مطابقت
گذشتہ دونوں حدیثوں میں اتفاق کی صورت یہ ہے کہ اندھیرا پل کے علاوہ تو ہے مگر پل کے حکم میں ہے جس میں پل سے گذرنے کے لئے انوارات کو تقسیم کیا جائے گا،زمین اور آسمان کی تبدیلی دوسری زمین و آسمان کے ساتھ اس وقت واقع ہوگی اور آسمان اس وقت لپیٹا جائے گا جب لوگ اندھیرے میں ہوں گے اور یہ زمانہ پل صراط سے گذرنے کے وقت تک طویل کردیا جائے گا۔ واللہ اعلم
پل صراط سے کون سے لوگ گذریں گے کون نہیں
لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔(۱)وہ مومن جوصرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ (۲)وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ غیروں کی عبادت کرتے ہیں پس یہ مشرک پل صراط پر سے نہیں گذر پائیں گے؛بلکہ پل صراط کے نصب ہونے سے قبل ہی جہنم رسید ہوں گے،جیسا کہ اس پر حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ مَنْ کَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْهُ فَيَتَّبِعُ مَنْ کَانَ يَعْبُدُ الشَّمْسَ الشَّمْسَ وَيَتَّبِعُ مَنْ کَانَ يَعْبُدُ الْقَمَرَ الْقَمَرَ وَيَتَّبِعُ مَنْ کَانَ يَعْبُدُ الطَّوَاغِيتَ الطَّوَاغِيتَ وَتَبْقَى هَذِهِ الْأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا۔
(مسلم،معرفۃ الطریق الرویہ،حدیث نمبر:۲۶۷)
(ترجمہ)روز قیامت اللہ تعالی سب لوگوں کو جمع فرمائیں گے پھر ارشاد فرمائیں گے جو جس کی عبادت کرتا تھا اسی سے منسلک ہوجائے پس سورج پرست سورج سے،چاند پرست   چاند سے اور طاغوت(من دون اللہ)پرست طاغوت سے منسلک ہوجائیں گے اس کے بعد یہ امت باقی رہ جائے گی جس میں منافق بھی(چھپے ہوئے)ہوں گے(لیکن انجام کار منافق پل صراط  سے گزرتے ہوئے جہنم میں گرجائیں گے)پھر دوزخ کی کمر پر پل صراط کو نصب کیا جائے گا جس پر سے سب سے پہلے میں اور میری امت گزریں گے۔ 
  (بخاری ومسلم)
(حدیث)حضرت ابو سعید خدریؒ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ لِيَتَّبِعْ كُلُّ أُمَّةٍ مَا کَانَتْ تَعْبُدُ فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ کَانَ يَعْبُدُ غَيْرَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ مِنْ الْأَصْنَامِ وَالْأَنْصَابِ إِلَّا يَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ کَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ مِنْ بَرٍّ وَفَاجِرٍ وَغُبَّرِ أَهْلِ الْكِتَابِ فَيُدْعَى الْيَهُودُ فَيُقَالُ لَهُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ عُزَيْرَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ کَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ فَمَاذَا تَبْغُونَ قَالُوا عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ أَلَا تَرِدُونَ فَيُحْشَرُونَ إِلَى النَّارِ کَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ ثُمَّ يُدْعَى النَّصَارَى فَيُقَالُ لَهُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ قَالُوا كُنَّا نَعْبُدُ الْمَسِيحَ ابْنَ اللَّهِ فَيُقَالُ لَهُمْ کَذَبْتُمْ مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ صَاحِبَةٍ وَلَا وَلَدٍ فَيُقَالُ لَهُمْ مَاذَا تَبْغُونَ فَيَقُولُونَ عَطِشْنَا يَا رَبَّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُشَارُ إِلَيْهِمْ أَلَا تَرِدُونَ فَيُحْشَرُونَ إِلَى جَهَنَّمَ کَأَنَّهَا سَرَابٌ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا فَيَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا مَنْ کَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ تَعَالَى مِنْ بَرٍّ وَفَاجِرٍ أَتَاهُمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي أَدْنَى صُورَةٍ مِنْ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا قَالَ فَمَا تَنْتَظِرُونَ تَتْبَعُ كُلُّ أُمَّةٍ مَا کَانَتْ تَعْبُدُ قَالُوا يَا رَبَّنَا فَارَقْنَا النَّاسَ فِي الدُّنْيَا أَفْقَرَ مَا كُنَّا إِلَيْهِمْ وَلَمْ نُصَاحِبْهُمْ فَيَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْکَ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا حَتَّى إِنَّ بَعْضَهُمْ لَيَکَادُ أَنْ يَنْقَلِبَ فَيَقُولُ هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ آيَةٌ فَتَعْرِفُونَهُ بِهَا فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ فَلَا يَبْقَى مَنْ کَانَ يَسْجُدُ لِلَّهِ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِهِ إِلَّا أَذِنَ اللَّهُ لَهُ بِالسُّجُودِ وَلَا يَبْقَى مَنْ کَانَ يَسْجُدُ اتِّقَاءً وَرِيَاءً إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ ظَهْرَهُ طَبَقَةً وَاحِدَةً كُلَّمَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ خَرَّ عَلَى قَفَاهُ ثُمَّ يَرْفَعُونَ رُءُوسَهُمْ وَقَدْ تَحَوَّلَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي رَأَوْهُ فِيهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمْ فَيَقُولُونَ أَنْتَ رَبُّنَا ثُمَّ يُضْرَبُ الْجِسْرُ عَلَى جَهَنَّمَ
(مسلم، بَاب مَعْرِفَةِ طَرِيقِ الرُّؤْيَةِ،حدیث نمبر:۲۶۹)
(ترجمہ)جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی نداکرے گا ہرگروہ جس کی عبادت کرتا تھا اس سے منسلک ہوجائے،پس کوئی بھی باقی نہ رہیں گے جو اللہ کے علاوہ بتوں اورمورتیوں کی پرستش کرتے تھے مگر جہنم میں گرجائیں گے،یہاں تک کہ جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے تھے ان میں سے نیک گناہگار اوریہود نصاری کے علاوہ کوئی نہیں بچے گا،تو یہودیوں کو بلایا جائے گا اورکہا جائے گا،تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے ہم خدا کے بیٹے عزیر  کی عبادت کرتے تھے تو انہیں فرمایا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اللہ تعالی نے(اپنا)کوئی بیوی بیٹا نہیں بنایا تھا،اب تم کیاچاہتے ہو؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم پیاسے ہیں ہمیں پانی پلادیجئے، تو انہیں اشارہ کرکے فرمایا جائے گا کہ تمہاری اس خواہش کو رد نہیں کیا جائے گا پھر انہیں جہنم کی طرف چلایا جائے گا(جہنم دور سے دیکھنے میں سراب نظر آئے گی تویہ(اسے پانی سمجھ کر دوڑ پڑیں گے)جبکہ جہنم کا ایک حصہ دوسرے پر سوار ہوگا تو اس طرح سے وہ جہنم میں جاگریں گے۔پھر عیسائیوں کو بلایا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا! تم کس کی عبادت کرتے تھے؟وہ کہیں گے اللہ کے بیٹے حضرت مسیح کی،تو انہیں کہا جائے گا کہ تم بھی جھوٹ بولتے ہو اللہ نے اپنی کوئی بیوی اور بیٹا نہیں بنایا تھا،پھر انہیں بھی کہا جائے گا تم کیا چاہتے ہو؟تو وہ بھی کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم(بہت)پیاسے ہیں  ہمیں (پانی)پلادیجئے،آپ ﷺفرماتے ہیں پس ان کی طرف بھی اشارہ کیا جائے گا کہ تمہیں خالی نہیں لوٹایا جائے گا پس انہیں بھی جہنم کی طرف چلایا جائے گا گویا کہ(جہنم)سراب ہے اس کا ایک حصہ دوسرے پر سوار ہے تو وہ بھی اسی طرح آگ میں جاگریں گے،حتی کہ جب خدا کی عبادت کرنے والے نیک اور گناہ گار لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں بچے گا تو  ان کے پاس رب العالمین تشریف لائیں گے پس اپنی پنڈلی مبارک سے پردہ ہٹائیں گے تو جو بھی(دنیا میں)اللہ تعالی کو سجدہ کرنے والا تھا باقی نہیں بچے گا مگر اسے اللہ تعالی سجدہ کرنے کی اجازت فرمائیں گے اور جو بھی ڈر اور ریاکاری سے(دنیا میں)سجدہ کرتا تھا وہ باقی نہ رہے گا مگر اللہ عزوجل اس کی کمر کو ایک پاٹ بنادیں گے وہ جب بھی سجدہ کرنے کا ارادہ کرے گا اپنے منہ کے بل گرپڑے گا،پھر یہ لوگ جب اپنے سر اٹھائیں گے تو اللہ تعالی اپنی اس صورت کو بدل چکے ہوں گے جس میں انہوں نے اللہ تعالی کو پہلی بار دیکھا ہوگا،پھر اللہ تعالی ان سے فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں تو وہ(انکار کے لہجے میں) کہیں گے آپ ہمارے رب ہیں؟ اس کے بعد پل صراط کو جہنم پر نصب کردیا جائےگا۔
(بخاری ،مسلم)
(فائدہ)یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کی،جیسے حضرت مسیح ؑ کی عیسائیوں نے اور حضرت عزیرؑ کی یہود نے کی تو یہ  بھی  پل صراط نصب کرنے سے پہلے جہنم میں ڈالنے کے لئے مشرکین کے ساتھ منسلک کردئے جائیں گے۔
مگر یہ بات الگ ہے کہ بت پرست سورج پرست چاند پرست وغیرہ  مشرک لوگوں میں سے ہر فرقہ اس سے منسلک کردیا جائے گا جس کی وہ دنیا میں پرستش کرتا تھا پس ان میں سے ہر ایک فرقہ کو سب سے پہلے اپنےمعبود سمیت دوزخ میں ڈال دیاجائے گا فرعون کے متعلق قرآن کریم میں اس مفہوم کی وضاحت موجود ہے؛چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
"يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ"
  (ھود:۹۸)
(ترجمہ)(فرعون)قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا پھر ان(سب)کو دوزخ میں اتارے گا اور وہ(دوزخ)بہت ہی بری جگہ ہے اترنے کی۔
اوریہود ونصاری میں سے جن لوگوں نے حضرت مسیح اورحضرت عزیز ؑ کی عبادت کی تو وہ انبیاء کی طرف منسوب ہونے والوں کے ساتھ خلط  ملط ہوجائیں گے(لیکن)اس کے بعد وہ بھی جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔
منافقوں کو بھی یہودیوں کے ساتھ کردیا جائے گا
اور ایک حدیث میں  یہ وارد ہوا ہے کہ جو   حضرت مسیح  علیہ السلام کی عبادت کرتا تھا اس کے لئے شیطان کوحضرت مسیحؑ کی شکل میں لایا جائے گا تو یہ اس کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے اور اسی طرح وہ بھی جو حضرت عزیر کی عبادت کرتا تھا۔
اور صور کی حدیث میں ہے کہ ان کے لئے ایک فرشتہ حضرت مسیح کی شکل اختیار کرلے گا اور ایک فرشتہ حضرت عزیرؑ کی شکل اختیار کرلے گا،اس کے بعد کوئی آدمی باقی نہیں رہےگا(سب دوزخ میں چلے جائیں گے)مگر وہ آدمی جوصرف اللہ کی عبادت کرتا تھا،چاہے وہ اس میں مخلص تھا یا منافق چاہے اس امت سے تھایا کسی دوسری امت سے،پھر منافقوں کو سجدہ سے روک کر مومنوں سے جدا کردیا جائے گا،اسی طرح جب مومنین کے لئے نور تقسیم کیا جائے گا اس وقت بھی ان(منافقوں) کو مومنین سے الگ کردیا جائے گا۔
پل صراط پرمنافقوں کا نور بجھادیا جائے گا
(حدیث)حضرت حسن(بصری)فرماتے ہیں رسول اکرم ﷺنے فرمایا:
یرفع یوم القیامۃ الی کل مؤ من نور والی کل منافق نور فیمشون معہ فینما نحن علی الصراط اذ غشینا ظلمۃ،فیطفا نور المنافق ویضی نورالمؤ من فعند ذلک(قالوا رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا (التحریم:۸)حین یطفئی نور المنافقین
(آدم بن ابی ایاس)
(ترجمہ)روز قیامت ہرمومن اورہر منافق کو نور عطاء کیا جائے گا تو یہ اس نور کے ساتھ ساتھ چلتے ہوں گے پس جب ہم(مسلمان) پل صراط پر ہوں گے تو ہم پر تاریکی چھاجائے گی تو منافق کا نور بجھ جائے گا،لیکن مؤمن کا نور روشن ہوجائے گا اس وقت جب منافقوں کا نور گل ہوگا تو مؤ من  کہیں گے اے ہمارے رب ہمارے اس نور کو اخیر تک رکھئے(یہ راستہ میں گل نہ ہوجائے)اور ہماری مغفرت فرمادیجئے۔
پل صراط پر کس کی چال درست ہوگی
(فائدہ)ایمان اورعمل صالح دنیا میں صراط مستقیم ہے جس پر چلنے کا اوراس پر استقامت کا اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو حکم فرمایا ہے اورانہیں اپنی ذات باری سے ہدایت کے سوال کرنے کا حکم بھی فرمایا،پس جس نے اپنے عمل کو دنیا میں اس صراط مستقیم پر ظاہری اورباطنی طور پر ڈالدیا جہنم پر نصب شدہ پل صراط پر بھی اس کی چال درست ہوگی اور جس نے اپنے اعمال دنیا میں صراط مستقیم کے مطابق استوار نہ کئے ؛بلکہ وہ اس سے منحرف ہوکر شبہات کے فتنوں یا خواہشات کے فتنوں کی طرف چل دیا تو ان شبہات اورخواہشات کے گناہوں کے مطابق جہنم کے پل صراط پر موجود آگ کے کونڈے اس کو اچک لیں گے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث میں ہے کہ لوگوں کو ان کے اعمال بد کے مطابق اچک لیا جائے گا۔
پل صراط کے بعد تین پل اورہیں
"إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ"            
(الفجر:۱۴)
بے شک تیرا رب گھات میں ہے
کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ پل صراط کے پیچھے تین پل اور ہیں ایک پل پر امانت ہوگی،دوسرے پر رحم ہوگا اورتیسرے پر خود رب تبارک وتعالی ہوں گے۔
پل صراط کے ساتھ برج اورہر ایک پر امتحان
ایفع بن عبدالکلاعیؒ فرماتے ہیں کہ جہنم کے ساتھ برج ہوں گے جن پر پل صراط قائم ہوگی پہلے برج کے پاس لوگوں کو روک کر نماز کے بارہ میں سوال کیا جائے گا پس جن کو ہلاک ہونا ہوگا وہ ہلاک ہوجائیں گے اورجن کو نجات پانی ہوگی وہ نجات پاجائیں گے اور دوسرے برج کے پاس انہیں روکا جائے گا تو ان سے امانت کے بارہ میں سوال کیا جائے گا کہ اسے انہوں نے ادا کیا تھا یا ضائع کیا تھا پس ہلاک ہوں گے جو ہلاک ہوں گے اور نجات پائیں گے جو نجات پائیں گے،پھر انہیں تیسرے برج کے پاس  روکا جائے گا تو ان سے صلہ رحمی کے متعلق سوال ہوگا۔
الزام تراش پل پر روکا جائے گا
(حدیث)حضرت معاذ بن انس جہنی ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا:
مَنْ رَمَى مُسْلِمًا بِشَيْءٍ يُرِيدُ شَيْنَهُ بِهِ حَبَسَهُ اللَّهُ عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ
(ابی داؤد،من رد عن مسلم غیبۃ،حدیث نمبر:۴۲۳۹)
(ترجمہ)جس نے کسی مسلمان پرعیب جوئی کرتے ہوئے کوئی الزام لگایا اسے اللہ تعالی جہنم کے پل صراط پر روک لیں گے یہاں تک کہ وہ اس الزام سے بری ہوجائے ۔
(فائدہ)امام ابو داؤد کی ایک حدیث میں اس طرح بھی مروی ہے کہ جس نے کسی مسلمان کے متعلق ایسی بات کہی جس کا اسے علم نہ تھا تو اللہ تعالی ایسے آدمی کو جہنم کے پل پر روک لیں گے حتی کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے(کسی طرح سے)بری ہوجائے۔
نیک بی بی اور پل صراط
حضرت ابو سلیمان دارانی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن حضرت عبدہ سے جہنم کے برجوں میں سے ایک برج کا حال بیان کیا تو وہ اپنی ایک ہی چیخ سے رات دن بے ہوش رہی اور افاقہ نہ ہوا بعد میں جاکر ہوش آیا،پس جب بھی  میں اس کے سامنے(پل صراط)کا حال بیان کرتا تو اس کی چیخ نکل جاتی،ابو سلیمان سے پوچھا گیا کہ اس کا چیخیں مارنا کس وجہ سے تھا؟تو فرمایا میں خود اسی کو برج کے سامنے پیش کردیتا تھا جسے وہ برداشت نہ کرپاتی تھی۔             
  (ابن ابی الدنیا)
پل صراط پر ایمان رکھنے والے کی حالت
ابو سلیمان دارانی فرمایا کرتے تھے جب میں کسی آدمی سے سنتا ہوں جب وہ کسی سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ میرے اور تیرے درمیان پل صراط ہی فیصلہ کرے گی،تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ شخص نہ تو پل صراط کو جانتا ہے نہ اس کی حقیقت کو اگر وہ پل صراط کو جانتا ہوتا تو وہ پسند کرتا کہ وہ کسی سے میل جول نہ کرے اورنہ کوئی اس سے میل جول رکھے۔   
(ابن ابی الدنیا)
حضرت ابو مسلم خولانیؒ اپنی بیوی کو کہا کرتے تھے اے"ام مسلم" اپنا سامان سفر باندھ لے(یعنی آخرت کی تیاری کرلے)جہنم کے پل صراط پر تمہیں پار کرانے والے کوئی نہیں ہوگا۔
عجیب خواب ابو الیمان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نوجوان تھا اس کا سر اور ڈاڑھی بالکل سیاہ تھے وہ ایک رات سو یا تو اس  نے خواب میں دیکھا کہ جیسے لوگ زندہ ہوگئے ہیں اور جہنم کی شعلہ زن نہر کے پاس موجود ہیں اور یہ کہ ایک پل ہے جس پر سے لوگ گذررہے ہیں اورانہیں ان کے ناموں سے پکارا جارہا ہے پس جب بھی کوئی آدمی بلایا گیا تو ان میں کوئی نجات پانے والا تھا تو کوئی ہلاک ہونے والا تھا،وہ کہتا ہے کہ کسی نے مجھے بھی میرے نام سے پکارا تو میں بھی پل پر سوار ہوگیا پس وہ تو تلوار کی دھار کی طرح تیز تھی اور میرے دائیں بائیں تیزی سے کانپتی تھی،ابو الیمان بیان کرتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو اس آدمی کا سر اور داڑھی سفید دیکھے گئے۔(یہ سب تبدیلی خواب کے کربناک منظر کا ہولناک اثر تھا)۔             
  (ابن ابی الدنیا)
ایک واقعہ
حضرت اسود بن سالم نے ایک آدمی کو یہ دوبیت پڑھتے ہوئے سنے:
امامی موقف قدام رہی یسالنی وینکشف الغطاء
وحسبی ان امر علی صراط کحد السیف اسفلہ لظاء
(ترجمہ)میرے سامنے خدا کی بارگاہ میں میدان محشر ہے جو مجھ سے حساب لینے والا ہے اور پردہ فاش ہونے والا ہے، مجھے عبرت حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ میں پل صراط سے گذرنے والا ہوں جو تلوار کی طرح تیز ہے اور اس کے نیچے شعلہ زن جہنم موجود ہے۔
یہ دو شعر کہنے کے بعد اس پر بے ہوشی چھاگئی۔
پل صراط کا فاصلہ
بشر بن حارث فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا اے بشر! پل صراط کا سفر ۱۲۰۰۰۰(ایک لاکھ بیس ہزار کلو میٹر) ہے کچھ غور وفکر تو کر توپل صراط پر کس حال میں ہوگا۔
پل صراط عبور کرنے کی مدت
محمد بن سماک فرماتے ہیں کہ میں نے بصرہ کے بزرگ انسانوں کو کہتے سنا ہے کہ پل صراط تین ہزار(۳۰۰۰)سال(کا سفر)ہے، ہزار سال میں اس کی بلندی پر پہنچیں گے،ہزار سال اس کی سطح پر چلیں گے اور ہزار سال اس سے اترنے میں لگائیں گے۔
پل صراط کے فاصلہ کے متعلق حضرت فضیل کا ایک اور ارشاد
فیض بن اسحاقؒ حضرت فضیل سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا پل صراط کی لمبائی ۳۲۰۰۰۰(تین لاکھ بیس ہزار) کلو میٹر ہے۔
اولیاء اللہ کے لئے پل صراط کی کشادگی اور گذرنے کا وقت
حضرت مالک بن دینار نے حضرت علی بن زید کو روتے ہوئے دیکھ کر سوال فرمایا کہ اے ابوالحسن(یہ علی بن زید کی کنیت ہے)آپ کو کتنی مدت پہنچی ہے جس میں اللہ تعالی اپنے ولی کو پل صراط پر رکھیں گے؟تو انہوں نے فرمایا اس آدمی کی نماز کی مقدار جس نے اس کے رکوع وسجود کو مکمل طور پر ادا کیا،حضرت مالک بن دینار نے ان سے یہ سوال بھی فرمایا کہ آپ کو یہ خبر بھی پہنچی ہے کہ پل صراط اولیاء اللہ کے لئے وسیع بھی ہوگی؟ تو انہوں نے فرمایا ہاں (کتاب الاولیاء امام ابن ابی الدنیا)۔
(فائدہ)یہ جو پل صراط میں فاصلہ بیان کیا گیا ہے اور اس کی اسناد صحیح ہیں تو ان فاصلوں کا اختلاف گذرنے والوں کے اختلاف احوال پرمبنی ہوگا۔      
   (واللہ اعلم)
نیک لوگوں کے لئے پل صراط کیسی ہوگی
سعید بن ہلال فرماتے ہیں ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ پل صراط بعض لوگوں پر تو بال سے بھی زیادہ باریک ہوگی اور بعض پر بہت بڑی وادی کی مثل وسیع ہوگی۔
حضرت سہل تستریؒ فرماتے ہیں جس پر دنیا میں صراط تنگ ہوگئی تو اس کے لئے آخرت میں وسیع ہوجائے گی اور جس پر دنیا میں صراط وسیع ہوگئی تو اس کے لئے آخرت میں تنگ ہوجائےگی۔
(فائدہ)حضرت سہل تستریؒ کے اس ارشاد کی وضاحت یہ ہے کہ جس نے دنیا میں اپنے نفس پر مشقت ڈالی،احکام کی اتباع کی،ممنوعات سے پرہیز کیا تو دنیا میں یہ صراط مستقیم پر ہے جو استقامت کی حقیقت ہے اس کی (ایک)جزایہ ہوگی کہ اس کے لئے آخرت میں پل صراط کشادہ ہوجائے گی اور جس نے دنیا میں حرام خواہشات اور گمراہ کن شبہات کی پیروی کرکے کشادگی حاصل کی حتی کہ صراط مستقیم سے باہر ہوگیا تو اس پر آخرت میں پل صراط تنگ ہوجائے گی(اور)یہ تنگی لوگوں کے گناہوں کے مطابق ہوگی۔
(واللہ اعلم) منہ
ایک بزرگ نے کسی آدمی کو ہنستے دیکھا تو فرمایا!کیوں ہنس رہا ہے؟آخرت میں تیری آنکھ کبھی ٹھنڈی نہ ہوگی(کیا اس کی وجہ سے تو اس دنیا ہی میں ہنس لینا چاہتا ہے؟) یاتونے دوزخ کو خوف کھا کر پیچھے چھوڑدیا ہے (اورہنستے ہوئے اس کی خوشی کا اظہار کر رہا ہے؟)
پل صراط کے لئے مومن کی کیفیت
(حدیث)حضرت معاذ بن جبلؓ حضورﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:
ان المومن لا تسکن روعتہ ولا یامن اضطرابہ حتی یخلف جسرجھنم خلف ظھرہ
(ابن ابی حاتم وفیہ راویان مجہولان وابو حمزہ عن معاذ مرسل)
(ترجمہ)مؤ من کو خوف سے چین نہیں آئے گا اور گھبراہٹ سے محفوظ نہ ہوگا جب تک کہ دوزخ کے پل صراط کو اپنی پشت پیچھے نہ چھوڑ آئے۔             
(ابن ابی حاتم)
حضرت خالد بن معدان فرماتے ہیں جب  جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو عرض کریں گے کہ ہم سے ہمارے پروردگار نے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم دوزخ پر سے گذریں گے؟تو اللہ تعالی فرمائیں گے ہاں کیا تھا لیکن تم تو اس پرسے گذر کر آئے ہو(لیکن) اس وقت دوزخ کی لپٹیں دبی ہوئی تھیں۔
حضرت اشعت حدانی فرماتے ہیں کہ مجھے یہ اطلاع پہنچی ہے کہ جب اہل ایمان پل صراط سے گذریں گے تو جہنم ان سے کہے گی مجھ سے (جلدی جلدی)گذر جاؤ تم نے میری تپش کو ٹھنڈا کردیا مجھے اور میرے اہل کو(ہمارے حال پر)چھوڑدو۔
(فائدہ)پل صراط سے گذرنے کے لئے مو منین کی مختلف حالتیں ہوں گی بعض تو وہ ہوں گے جن کو پل صراط عبور کرنے کا علم تک نہ ہوگا اور بعض کو علم تو ہوگا مگر برق رفتاری سے عبور کرجائیں گے اور بعض اس سے کم رفتار میں جیسا کہ اس کی تفصیل مذکورہ روایات میں کافی تفصیل سے ذکر ہوچکی ہے۔
جہنم سے گذرنے کاذکر
اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے:
"وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا کَانَ عَلَى رَبِّکَ حَتْمًا مَقْضِيًّا ، ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا"           
(مریم:۷۱،۷۲)
(ترجمہ)اورتم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا اس (جہنم)پر سے گذرنہ ہو(کسی کا دخولااورکسی کا عبورا)یہ(وعدہ کے موافق)آپ کے رب کی طرف سے(بطور)لازم (مؤکدکے)ہے جو(ضرور) پورا ہوکر رہے گا،پھر(اس جہنم پر عبور سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس میں مؤ من وکافر برابر ہیں ؛بلکہ)ہم ان لوگوں کو نجات دیدیں گے جو خدا سے ڈر (کر ایمان لائے تھے)خواہ اول ہی دفعہ میں نجات ہوجائے جیسے مؤ منین کاملین کو اور خواہ بعد کسی تکلیف کے جیسے مؤ منین ناقصین کو)اورظالموں کو(یعنی کافروں کو)اس میں(ہمیشہ کے لئے)ایسی حالت میں رہنے دیں گے کہ (مارے رنج وغم کے)گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے۔
ابن رواحہؓ   کی حالت
ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ رونے لگے تو آپ کی اہلیہ بھی رونے لگ گئیں ،تو انہوں نے بیوی سے فرمایا تو کیوں روتی ہے؟تو انہوں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو روتے دیکھا تو میں (آپ کے غم کے صدمہ کو محسوس کرکے) روپڑی۔
فرمایا کہ میں تو اس لئے رویا تھا کہ اس آیت "وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا" کو یاد کرلیا تھا،اور یہ توجان لیا  کہ مجھے اس میں داخل ہونا ہے لیکن یہ نہیں جانتا ہوں کہ میں اس سے نجات پاؤں گایا نہیں۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آیت "وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا"نازل ہوئی تو ابن رواحہؓ اپنے گھر میں چلے گئے اور رونے لگ گئے جب ان کی اہلیہ آئیں تو وہ بھی رونے لگ گئیں پھر خادم آیا تو وہ بھی رونے لگ گیا پھر باقی گھر والے آئے تو وہ بھی رونے لگ گئے،جب آپ ؓ کا رونا ختم ہوا تو اپنے گھرانے سے سوال فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے رلایا ہے؟انہوں نے عرض کیا ہم نہیں جانتے بس یہ کہ آپ کو روتے ہوئے دیکھا تو ہم بھی رونے لگ پڑے توآپؓ نے اپنےرونے کا سبب بتلایا کہ ایک آیت رسول اللہ ﷺپر نازل ہوئی ہے جس میں میرے پروردگار نے یہ خبر دی ہے کہ میں جہنم میں وارد ہونے والا ہوں اور یہ خبر نہیں دی کہ میں ا س سے نجات بھی پانے والا ہوں۔    
(ابن المبارک)
حضرت ابن رواحہؓ جب غزوہ موتہ کی طرف جانے لگے تو روپڑے تو انہیں روتا دیکھ کر ان کے اہل خانہ بھی رونے لگے تو انہیں نے فرمایا خدا کی قسم میں موت سے گھبراکر نہیں رویا اور نہ تمہاری محبت میں رویا ہوں؛بلکہ میں اللہ تعالی کے فرمان"وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا"سے گھبرا کر رویاہوں،مجھے جہنم میں داخل ہونے کا تو یقین ہے لیکن اس بات کا علم نہیں کہ میں اس سے خلاصی بھی پاؤں گا یانہیں۔          
    (مغازی موسی بن عقبہ)
حضرت عمر کی حالت
حضرت عمر بن خطابؓ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو فرماتے(معلوم نہیں)اے میرے پروردگار میں ان لوگوں میں سے ہوں جو جہنم سے آزاد ہوں گے یا ان لوگوں میں سے ہوں جو دوزخ میں گھٹنوں کے بل پھینک دئے جائیں گے۔
حضرت ابو میسرہ کی حالت
حضرت ابو میسرہ جب اپنے بستر کی ٹیک لگاتے تو کہتے کاش میری ماں مجھے نہ جنتی،تو ان کو ان کی اہلیہ کہتیں اے ابو میسرہ !اللہ نے آپ سے بھلائی فرمائی (یعنی)اسلام کی طرف ہدایت کی(آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟)تو وہ فرماتے ٹھہرجا! اللہ تعالی نے ہمیں یہ تو بتلایا ہے کہ ہم جہنم میں داخل ہونے والے ہیں جب کہ یہ نہیں بتلایا کہ ہم اس سے خلاصی بھی پانے والے ہیں۔
صحابہ کی حالت
آنحضرت ﷺکاکوئی صحابی دوسرے صحابی سے ملتا تو ایک دوسرے سے کہتا تجھے یہ اطلاع پہنچی ہے کہ تو جہنم میں داخل ہونے والا ہے تو وہ کہتاجی ہاں،پھر وہ پوچھتا کیا یہ خبر بھی پہنچی ہے     کہ تو اس سے خلاصی پائے گا،تو وہ کہتا نہیں تو(پہلا)کہتا کہ اب خوشی کیسی؟
حضرت حسن(بصری)فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنے بھائی سے کہا کیا تجھے اطلاع ہوئی کہ تو جہنم میں وارد ہوگا؟تو اس نے کہا ہاں پھر، اس نے کہا تجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تو اس سے چھٹکارا بھی پائےگا؟تو اس نے کہا نہیں،تو اس آدمی نے کہا تو اب خوشی کیسی؟ پھر وہ اپنی موت تک کبھی بھی ہنستا ہوا نہ دیکھا گیا۔
حضرت حسن(بصری) سے"وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا" کے متعلق مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بھائی سے کہا اللہ تعالی کی طرف سے تیرے پاس یہ خبر پہنچی     ہے کہ تو جہنم میں وارد ہوگا؟اس نے کہا ہاں تو اس نے کہا کہ پھر تونے ورود کایقین کرلیا ہے؟اس نے کہا ہاں،تو اس آدمی نے کہا تو یقین کے ساتھ اس کی تصدیق بھی کرتا ہے؟کہا کہ ہاں میں اس کی تصدیق کیسے نہ کروں جبکہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے"وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا کَانَ عَلَى رَبِّکَ حَتْمًا مَقْضِيًّا" تو اس نے پوچھا کہ تجھے اس کا یقین بھی ہے کہ تو اس سے خارج بھی ہوگا؟ تو اس نے جواب دیا اللہ کی قسم مجھے اس کا علم نہیں کہ میں اس سے باہر بھی آؤں گایا نہیں،تو اس آدمی نے کہا کہ پھر(دنیا میں)آخرت کی تیاری میں سستی کیوں ہے؟خوشی کیسی ہے؟کھیل تماشہ کیا ہے؟               
   (مسند احمد)
(فائدہ)مذکورہ روایات دوزخ میں وارد ہونے کے بیان میں ہیں اور ورود کے معنی میں حضرات اہل علم نے اختلاف فرمایا ہے جس کو ذیل میں کچھ تفصیل سے عرض کیا جاتاہے:
وردد جہنم میں اختلاف
حضرات صحابہ کرام اور بعد کے علماء نے وردد کی تفسیر میں اختلاف فرمایاہے۔
پہلا مذہب
(۱)ایک جماعت فرماتی ہے کہ ورود کا معنی پل صراط کو عبور کرنا ہے اس کے قائل حضرت ابن مسعودؓ حضرت جابرؓ حضرت حسن بصریؒ حضرت قتادہؒ حضرت عبدالرحمان بن زید بن اسلمؒ اورحضرت کلبیؒ وغیرہ ہیں۔
اس مذہب کے دلائل یہ ہیں
(۱)حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:
يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثُمَّ يَصْدُرُونَ مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ فَأَوَّلُهُمْ کَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ کَالرِّيحِ ثُمَّ کَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ کَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ ثُمَّ کَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ کَمَشْيِه
        (سنن الترمذی،ومن سورۃ مریم،حدیث نمبر:۳۰۸۴)
(ترجمہ)لوگ جہنم پر وارد ہوں گے پھر وہاں سے اپنے اعمال کے مراتب کے موافق گذریں گے ،ان میں سے پہلا آدمی بجلی کے لمحہ بھر کی طرح گذرے گا، دوسرا ہوا کی طرح،تیسرا تیز گھوڑے کی دوڑ کی طرح،چوتھا اونٹ کے سوار کی طرح، کوئی تیز رفتار آدمی کی طرح،کوئی آدمی کی چال کی طرح۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں وردد کا معنی دوزخ میں داخل ہونا نہیں ہے ؛بلکہ اس کے سامنے پیش ہونا اور اس کے سامنے ٹھہرنا مراد ہے جیسا کہ جانور پانی پر پیش کیا جاتا ہے اور اس میں داخل نہیں ہوتا پھر حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا جہنم پر پل صراط کو نصب کیا جائے گا جس پر سے اللہ کے بندے گذریں گے۔
دوسرا مذہب
جن بزرگو کا مذہب سب لوگوں کے جہنم میں داخل ہونے اور بعد میں مؤ منین کی نجات کا ہے وہ یہ ہیں حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کعب وغیرہ
ان کے دلائل درج ذیل ہیں
(۱)اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرعون کے متعلق ارشاد فرمایا ہے
"يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ"                
(ھود:۹۸)
فرعون روز قیامت اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا پس وہ ان کو جہنم میں لے جائے گا۔
(۲)نیز اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
" وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا"              
(مریم:۸۶)
ہم جہنم میں ڈالنے کے لئے مجرموں کو ہنکالے جائیں گے۔
(۳)نیز ارشاد فرمایا:
"لَوْ کَانَ هَؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا"           
   (الانبیاء:۹۹)
اگریہ(بت وغیرہ)خدا ہوتے تو جہنم  میں داخل نہ ہوتے۔
ان آیات میں ورود کا معنی داخلہ کا آیا ہے اس لئے آیت "وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا"میں "وَارِدُهَا"کا معنی بھی داخلھا کا ہے یعنی سب لوگ بالعموم جہنم میں اولاً ضرور داخل ہوں گے۔
حضرت مجاہد نے بھی"وَارِدُهَا"کا معنی داخل ہونے کا کیاہے
(۴)حضرت کعب سے مذکورہ آیت کے معنی پوچھے گئے تو فرمایا آگ خوفناک شکل اختیار کرکے لوگوں کو گذرنے سے روک دے گی جب گذرتے ہوئے نیک وبد سب کے قدم اس پل پر پہنچ جائیں گے تو اللہ عزوجل اسے حکم فرمائیں گے کہ"تو اپنے اصحاب کو گرفتار کرلے اور میرے اصحاب کو چھوڑدے،تو وہ اپنے سب دوستوں کوپکڑلے گی اور اللہ تعالی تمام مؤمنوں کو ان کے گیلے کپڑوں کے ساتھ نجات عطاء فرمادیں گے۔   (یعنی جہنم کی معمولی حرارت بھی نہ پہنچے گی)
اگر مومنین پل صراط عبور کرتے ہوئے دوزخ میں داخل ہوئے تو ان کی حالت کیا ہوگی؟
حضرت ابو سمیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ورود کے معنی میں اختلاف کیا تو ہم میں  سے کسی نے کہا کہ مؤ من جہنم میں داخل نہیں ہوگا اور کسی نے کہا سب جہنم میں جائیں گے مگر بعد میں اللہ تعالی ان لوگوں کو نجات عطاء فرمادیں گے جنہوں نے تقوی اختیار فرمایا ہوگا،پھر میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے ملا تو میں نے عرض کیا ہم نے ورود کے معنی میں اختلاف کیا ہے(اس کا حل کیا ہے؟)تو فرمایا اس میں سب داخل ہوں گے میں نے حضوراکرمﷺسے سنا ہے کہ کوئی نیک وبد باقی نہ رہے گا مگر وہ جہنم میں ضرور داخل ہوگا لیکن جہنم مؤمنین پر ٹھنڈک اورسلامتی والی ہوگی جس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام  پر ہوئی تھی حتی کہ جہنم ان کی ٹھنڈک کی وجہ سے شور وغل مچائے گی(کہ مؤ منین جلدی گذرجائیں نہیں تو یہ میری حرارت کو ختم کردیں گے)پھر اللہ تعالی ان لوگوں کو جہنم سے نجاتج عطاء فرمادیں گے جنہوں نے تقوی اختیار کیا اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل جہنم میں رہنے دیا جائے گا۔  
(مسند احمد)
مسافر کی طرح دوزخ کو عبور کرنے والا
(حدیث)حضورﷺنے فرمایا:
من مات لہ ثلاثۃ اولا دلم یبلغو ا الحنث لم یرد النار الا عابر سبیل          
(عبد الملک بن عمیر)
(ترجمہ)جس کے تین نابالغ بچے فوت ہوئے وہ جہنم سے نہیں گذرے گا مگر راستہ طے کرنے والے مسافر کی طرح۔
(۶)(حدیث)حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا:
مَنْ حَرَسَ مِنْ وَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَکَ وَتَعَالَى مُتَطَوِّعًا لَا يَأْخُذُهُ سُلْطَانٌ لَمْ يَرَ النَّارَ بِعَيْنَيْهِ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَى يَقُولُ" وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا
     (مسند احمد،باب حدیث معاذ بن انس الجھنیؓ،حدیث نمبر:۱۵۰۵۹)
(ترجمہ)جس نے خدا کی راہ میں ثواب کیلئے مسلمانوں کی سرحد کی حفاظت کی،اسے کوئی جرم گرفتار کرنے کا سبب نہیں بنے گا، وہ  جہنم میں بھی نہیں جائے گا مگر صرف قسم کو پورا کرنے کے لئے؛کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں مگر وہ دوزخ میں ضرورداخل ہوگا۔
(۷)(حدیث)حضرت ابوبکر صدیقؓ کی روایت ہے کہ رسول اکرمؓ نے ارشاد فرمایا:
إنما حر جهنم على أمتي كحر الحمام
(طبرانی)
(ترجمہ)میری امت کے لئے جہنم کی گرمی حمام کی گرمی کی طرح ہوگی۔
(حدیث)رسول اکرمﷺسے مروی ہے کہ
تقول جہنم للمومنین: جزیا مومن فقد اطفأ نورک لھبی
(مقاصد الحسنہ :۱۷۴،بحوالہ طبرانی)
(ترجمہ)جہنم مؤمن سے کہے گی: اے مؤ من !(جلدی جلدی) گذرجا تیرے نورنے میرے شعلوں کو بجھادیا ہے۔
(یعنی مؤ من کے اعمال کی یہ طاقت ہوگی کہ اس کے گذرنے سے جہنم کو خوف ہوگا کہ میری حرارت نہ ختم ہوجائے یہ مطلب نہیں کہ جہنم واقعی طور پر مؤ من کے نور سے بجھ جائے گی۔
تیسرا مذہب
بعض علماء نے دنیا میں بخار سے ورود کی تعریف کی ہے یہ مجاہد اور عثمان بن اسود روایت کرتے ہیں اس میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
الحمی حظ المومن من النار
(واسنادہ ضعیف)مؤمن کے لئے بخار ہی جہنم کا حصہ ہے۔
چوتھا مذہب
علماء کرام کی ایک جماعت یہ فرماتی ہے کہ یہ وردد عام نہیں ہے؛بلکہ یہ ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو جہنم کے پاس حاضر کئے جائیں گے جن کا ذکر اللہ تعالی کے اس ارشاد میں ہے:
"فَوَرَبِّکَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّيَاطِينَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِيًّا، ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِيعَةٍ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمَنِ عِتِيًّا، ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِينَ هُمْ أَوْلَى بِهَا صِلِيًّا ، وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّاوَارِدُهَا"
                 (مریم:۶۸،۷۱)
(ترجمہ)سو قسم ہے آپ کے رب کی ہم(روز قیامت  )ان کو جمع کریں گے اور شیاطین کو بھی،پھر ان دوزخ کے اردگرد اس حالت سے حاضر کریں گے کہ(مارے ہیبت کے)گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے،جوان میں سب سے زیادہ اللہ سے سر کشی کیا کرتے تھے،پھر ہم ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو دوزخ میں جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ اور تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا اس میں داخلہ نہ ہو۔
(فائدہ)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے متعلق ہے جو ان آیات کے مخاطب ہیں سارے انسان مخاطب نہیں ہیں یہ تفسیر حضرت زید بن اسلم سے منقول ہے(اور تفسیر قرطبی میں اس کو کئی دلائل سے نقل کیاہے)
(فائدہ)مذکورہ اقوال میں جو دلائل ذکر کئے گئے ہیں وہ اپنی جگہ درست ہیں ان وجہ سے علماء میں اس مسئلہ میں اختلاف ظاہر ہوا ہے،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مذکورہ احادیث میں جو کچھ مروی ہے وہ لوگوں کے اختلاف احوال پر مشتمل ہو کوئی جہنم سے بجلی کی رفتار سے گذرجائے گا تو کوئی تیز گھوڑے کی دوڑ کی طرح اور کوئی جہنم میں داخل ہو گا پھر وہاں سے نجات پاکر جنت میں داخل ہوگا اور کسی کو معمولی سی تپش پہنچے گی اور کسی کو اس سے گذرنے کی خبر تک نہ ہوگی واللہ اعلم ۔           
(امداد اللہ انور)
جب انسان اللہ کے حضور پیش ہوگا  تو جہنم اس کے سامنے ہوگی
(حدیث)حضرت عدی بن حاتم ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺنے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُکَلِّمُهُ اللَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ
(مسلم،باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ،حدیث نمبر:۱۶۸۸)
(ترجمہ)کوئی آدمی بھی تم میں سے ایسا نہیں مگر اس سے اس کا پروردگار(روز قیامت) کلام کرے گا اس کے اورخداتعالی کے درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پس وہ اپنی بھلائی کی طرف نظر کرے گا تو اسے کچھ نظر نہ آئے گا سوائے اس کے جو اس نے اپنے لئے(آخرت میں)بھیجا تھا اور اپنی بد بختی کی طرف دیکھے گا تو اسے کچھ نظر نہ آئے گا سوائے اس کے جو اس نے اپنے لئے(آخرت میں)بھیجا تھا اوراپنے سامنے دیکھے گا تو اپنے بالمقابل سوائے جہنم کے کچھ نہ دیکھے گا پس تم جہنم سے بچو اگرچہ ایک کھجور کے ٹکڑے کے ذریعہ۔
(فائدہ)مسلم شریف میں اس حدیث کا آخری حصہ یوں) ہے کہ تم میں سے جس میں قدرت ہو کہ وہ جہنم سے حفاظت طلب کرسکتا ہے اگرچہ ایک کھجور کے ٹکڑ کے ساتھ بھی کیوں نہ ہو تو وہ ایسا کرلے۔
(حدیث)حضرت عدی بن حاتم ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا:
لَيَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ ثُمَّ لَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أُوتِکَ مَالًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى ثُمَّ لَيَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَيْکَ رَسُولًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ فَلْيَتَّقِيَنَّ أَحَدُكُمْ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِکَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ
   (بخاری،باب الصدقۃ قبل الرد،حدیث نمبر:۱۳۲۴)
(ترجمہ)تم میں کا ہر آدمی اللہ عزوجل کے سامنے پیش ہوگا ،اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان میں کوئی پردہ نہیں ہوگا اور نہ کوئی ترجمان ہوگا جو اس کی ترجمانی کرے اسے کہا جائے گا کہ میں نے تجھے مال نہیں دیا تھا؟تو وہ جواب دے گا دیا تھا،اسے کہا جائے گا کیا تیرے پاس رسول نہیں بھیجا تھا؟تو وہ جواب دےگاکیوں نہیں،پھر وہ اپنےدائیں دیکھے گا سوائے جہنم کے کچھ نظر نہ آئے گا،پھر وہ اپنے بائیں دیکھے گا تو بھی اس کو جہنم نظر آئے گی،پس ضروری ہے کہ تم میں سے ہر ایک(جہنم سے)بچے اگرچہ کھجور کے ایک حصہ سے بھی، پس اگر کوئی(کھجور کا کوئی حصہ)نہ پائے تو نیک بات سے(اپنے کو جہنم سے بچالے) 
(بخاری)
دوزخ سے حفاظت کا ایک ذریعہ
(حدیث)حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺایک روز تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے آج رات ایک عجیب خواب دیکھا ہے پھر آپؓ نے (اپنے خواب کے بارے میں)طویل حدیث سنائی جس میں یہ بھی تھا:
رایت رجلا من امتی یتقی وھج النار و شررھا ییدہ من وجھہ فجاء تہ صدقتہ فصارت سترا علی رائسہ وضلا علی وجھہ  
(بخاری)
(ترجمہ)میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا جو جہنم کی تپش اور اس کے شعلوں سے اپنے چہرہ کو اپنے ہاتھ سے بچا رہا تھا تو اس کے پاس اس کا صدقہ آیا اور اس کے سرپہ ڈھال اور چہرہ پر سایہ بن گیا۔

No comments:

Post a Comment