Thursday, 28 October 2021

استاذ کے کلاس میں آنے پر طلبہ کا استاد کے لئے کھڑا ہوجانا


استاذ 
کے کلاس میں آنے پر 
طلبہ کا استاد کے لئے کھڑا ہوجانا

سوال: اسکول کالج میں طلبہ استاد کے آنے پر کھڑے ہوتے ہیں. کیا یہ جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کے لئے کھڑے ہونے یا نہ کھڑے ہونے سے متعلق مختلف احادیث وارد ہیں، بعض احادیث اور صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے عمل سے اس کا ناجائز ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعض احادیث اور صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے عمل سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے، شراح حدیث نے ان دونوں قسم کی احادیث میں محتلف اعتبار سے تطبیق دی ہے، علامہ عینی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح  عمدۃ القاری میں نقل کیا ہے کہ: قیام (کسی کے لیے کھڑے ہونے) کی چار قسمیں لکھی ہیں: (۱) ممنوع (۲) مکروہ (۳) جائز (۴) مستحسن۔
(1)  ممنوع: جو شخص تکبر  کی بناپر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے یہ پسند کرتا ہوکہ جب وہ آئے تو لوگ اس کے لئے کھڑے ہوجائیں، یہ ناجائز ہے۔
(2) مکروہ: جس شخص کے دل میں تکبر نہ ہو اور  نہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے چاہے کہ اس کے لیے لوگ کھڑے ہوں، لیکن کھڑا ہونے والا یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ کھڑا نہیں ہوا تو کچھ نقصان ہوسکتا ہے، یہ قیام ناپسندیدہ  ہے۔
(3) جائز: نیکی اور اعزاز واکرام کی غرض سے کسی کے لئے کھڑا ہونا جب کہ اُس کی طرف سے کھڑے ہونے کی کوئی خواہش نہیں۔ یہ جائز ہے۔
(4) مستحسن: کوئی سفر سے آیا تو مارے خوشی کے سلام ومصافحہ کے لئے کھڑے ہوجانا، یا کسی کو کوئی نعمت ہاتھ آگئی، اس کو مبارک باد دینے کے لئے کھڑے ہونا یا کوئی مصیبت آن پڑی تو تسلی ودلاسہ دینے کے لئے کھڑے ہوجانا۔ یہ مستحسن ہے۔
"وَعَن أبي الْوَلِيد بن رشد: أَن الْقيام على أَرْبَعَة أوجه: الأول: مَحْظُور، وَهُوَ أَن يَقع لمن يُرِيد أَن يُقَام إِلَيْهِ تكبراً وتعاظماً على القائمين إِلَيْهِ. وَالثَّانِي: مَكْرُوه وَهُوَ أَن يَقع لمن لَا يتكبر وَلَا يتعاظم على القائمين، وَلَكِن يخْشَى أَن يدْخل نَفسه بِسَبَب ذَلِك مَا يحذر، وَلما فِيهِ من التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالثَّالِث: جَائِز وَهُوَ أَن يَقع على سَبِيل الْبر وَالْإِكْرَام لمن لَايُرِيد ذَلِك، ويؤمن مَعَه التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالرَّابِع: مَنْدُوب وَهُوَ أَن يقوم لمن قدم من سفر فَرحاً بقدومه ليسلم عَلَيْهِ أَو إِلَى من تَجَدَّدَتْ لَهُ نعْمَة فيهنيه بحصولها. أَو مُصِيبَة فيعزيه بِسَبَبِهَا". (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22 / 251)
شراحِ  حدیث اور فقہاءِ کرام کی اس مسئلہ سے متعلق  عبارتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی قابل شخص کی تعظیم کے لئے، یا کسی عادل بادشاہ کے آنے پر  رعایا کا، یا استاذ کے آنے پر طلبہ کا، یا بزرگ شخصیت کے احترام کے لئے، یا بیوی کا شوہر کے لئے، اولاد کا والدین کے لئے، یا قرابت دار کے احترام میں، یا آںے والے کو سلام یا مصافحہ کے لئے اکراماً کھڑا ہونا، جائز ہے، بلکہ بعض مواقع پر مستحب ہے، البتہ جس کے لئے کھڑا ہوا جائے اس کے دل میں بڑائی یا تکبر کی وجہ سے اپنے لئے کھڑے ہونے کی خواہش نہ ہو، اور کھڑے ہونے والا اس کے شر یا مفسدہ سے بچنے کے لئے کھڑا نہ ہو۔
جب کہ اس شخص کے لئے کھڑا ہونا جو اپنے لئے کھڑا ہونے کو پسند کرتا ہو، یا جس کے لئے کھڑا نہ ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو، یا وہ کوئی فاسق فاجر شخص ہو، یا اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر مستقل کھڑا رہا جائے جیساکہ عجمی بادشاہوں کا طرز ہے، یا جب تک آنے والا شخص نہ بیٹھ جائے اس کے سامنے کھڑا رہنا ضروری ہو اور نہ کھڑے ہونے پر عتاب ہو، یہ درست نہیں ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ استاذ کے کلاس میں آنے پر استاذ کے اکرام میں طلبہ ازخود کھڑے ہوجائیں اور انہیں سلام کریں اور استاذ کے دل میں یہ خواہش نہ ہو کہ میرے لئے یہ سب کھڑے ہوں اور نہ کھڑے ہونے پر ادارہ کی انتظامیہ کی طرف سے ان کے لئے کوئی سزا بھی نہ ہو تو یہ جائز ہے، یہ استاذ کا اکرام ہے، جیساکہ علامہ ابن حجر اور علامہ عینی رحمہما اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔
"وفيه: أن قيام المرؤوس للرئيس الفاضل والإمام العادل والمتعلم للعالم مستحب". (فتح الباری 11/51۔ عمدۃ القاری 22/251)
اور اگر اسکول/ کالج انتظامیہ یا خود استاد کی طرف سے یہ پابندی ہو کہ کلاس میں آںے پر سب طلبہ کھڑے ہوجائیں، اور جو کھڑا نہ ہو اس کو سزا دی جائے، یا جب تک استاد کلاس میں اپنی مسند پر بیٹھ نہ جائے طالب علموں کے لئے کھڑا ہونا ضروری ہو تو یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے۔ جیساکہ فتح الباری میں ہے:
"وإنما يكره لمن كان بغير هذه الصفات، ومعنى حديث "من أحب أن يقام له" أي بأن يلزمهم بالقيام له صفوفاً على طريق الكبر والنخوة".  (فتح الباري لابن حجر (11 / 51)
اور دوسری صورت میں طلبہ کے لئے یہ مسئلہ ہوکہ اگر کلاس میں استاد کے لئے نہیں کھڑے ہوں گے تو استاد کے دل میں کینہ، حسد اور دشمنی پیدا ہوگی، اور یہاں عمومی فضا اسی طرح کھڑے ہونے کی بن چکی ہو تو طلبہ کے لئے ایسی صورت میں کھڑے ہونے کی گنجائش ہے، جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:
"قال ابن وهبان: أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام؛ لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة، لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام". (6/384)
تاہم اس صورت میں خود استاد اور اسکول/کالج انتظامیہ کو اس ضابطہ پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (14 / 288):
"وَفِيه: أَمر السُّلْطَان وَالْحَاكِم بإكرام السَّيِّد من الْمُسلمين وإكرام أهل الْفضل فِي مجْلِس السُّلْطَان الْأَكْبَر وَالْقِيَام فِيهِ لغيره من أَصْحَابه وسَادَة أَتْبَاعه، وإلزام النَّاس كَافَّة بِالْقيامِ إِلَى سيدهم، وَلَايُعَارض هَذَا حَدِيث مُعَاوِيَة: من سره أَن يتَمَثَّل لَهُ الرِّجَال فَليَتَبَوَّأ مَقْعَده من النَّار، لِأَن هَذَا الْوَعيد إِنَّمَا توجه للمتكبرين وَإِلَى من يغْضب أَو يسْخط أَن لَا يُقَام لَهُ، وَقَالَ الْقُرْطُبِيّ: إِنَّمَا الْمَكْرُوه الْقيام للمرء وَهُوَ جَالس، قَالَ: وَتَأَول بعض أَصْحَابنَا. قَوْله: (قومُوا إِلَى سيدكم) على أَن ذَلِك مَخْصُوص بِسَعْد، وَقَالَ بَعضهم: أَمرهم بِالْقيامِ لينزلوه عَن الْحمار لمرضه، وَفِيه بعد، وَقَالَ السُّهيْلي: وَقَامَ رَسُول الله، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، لِصَفْوَان بن أُميَّة ولعدي بن حَاتِم حِين قدما عَلَيْهِ وَقَامَ لمَوْلَاهُ زيد بن حَارِثَة وَلغيره أَيْضا، وَكَانَ يقوم لابنته فَاطِمَة، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهَا، إِذا دخلت عَلَيْهِ، وَتقوم لَهُ إِذا قدم عَلَيْهَا، وَقَامَ لجَعْفَر ابْن عَمه. وَفِيه: جَوَاز قَول الرجل للْآخر: يَا سَيِّدي، إِذا علم مِنْهُ خيرا أَو فضلا، وَإِنَّمَا جَاءَت الْكَرَاهَة فِي تسويد الرجل الْفَاجِر". 
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22 / 251):
"وَفِيه: أَمر السُّلْطَان وَالْحَاكِم بإكرام السَّيِّد من الْمُسلمين، وَجَوَاز إكرام أهل الْفضل فِي مجْلِس السُّلْطَان الْأَكْبَر، وَالْقِيَام فِيهِ لغيره من أَصْحَابه، وإلزام النَّاس كَافَّة للْقِيَام إِلَى سيدهم، وَقد منع من ذَلِك قوم وَاحْتَجُّوا بِحَدِيث أبي أُمَامَة رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه، قَالَ: خرج النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، متوكئاً على عَصا، فقمنا لَهُ فَقَالَ: لَا تقوموا كَمَا تقوم الْأَعَاجِم. قَالَ الطَّبَرِيّ: هَذَا حَدِيث ضَعِيف مُضْطَرب السَّنَد فِيهِ من لَا يعرف، وَاحْتَجُّوا أَيْضا بِحَدِيث عبدالله بن بُرَيْدَة، أخرجه الْحَاكِم: أَن أَبَاهُ دخل على مُعَاوِيَة فَأخْبرهُ أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، قَالَ: من أحب أَن يتَمَثَّل لَهُ الرِّجَال قيَاما وَجَبت لَهُ النَّار. وَقَالَ الطَّبَرِيّ: إِنَّمَا فِيهِ نهي من يُقَام لَهُ عَن السرُور بذلك لَا من يقوم إِكْرَاما لَهُ. وَقَالَ الْخطابِيّ: فِي حَدِيث الْبَاب جَوَاز إِطْلَاق السَّيِّد على الحبر الْفَاضِل، وَفِيه: أَن قيام المرؤوس للرئيس الْفَاضِل وَالْإِمَام الْعَادِل والمتعلم للْعَالم مُسْتَحبّ، وَإِنَّمَا يكره لمن كَانَ بِغَيْر هَذِه الصِّفَات، وَعَن أبي الْوَلِيد بن رشد: أَن الْقيام على أَرْبَعَة أوجه: الأول: مَحْظُور، وَهُوَ أَن يَقع لمن يُرِيد أَن يُقَام إِلَيْهِ تكبراً وتعاظماً على القائمين إِلَيْهِ. وَالثَّانِي: مَكْرُوه وَهُوَ أَن يَقع لمن لَا يتكبر وَلَا يتعاظم على القائمين، وَلَكِن يخْشَى أَن يدْخل نَفسه بِسَبَب ذَلِك مَا يحذر، وَلما فِيهِ من التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالثَّالِث: جَائِز وَهُوَ أَن يَقع على سَبِيل الْبر وَالْإِكْرَام لمن لَا يُرِيد ذَلِك، ويؤمن مَعَه التَّشَبُّه بالجبابرة. وَالرَّابِع: مَنْدُوب وَهُوَ أَن يقوم لمن قدم من سفر فَرحا بقدومه ليسلم عَلَيْهِ أَو إِلَى من تَجَدَّدَتْ لَهُ نعْمَة فيهنيه بحصولها. أَو مُصِيبَة فيعزيه بِسَبَبِهَا".
فتح الباري لابن حجر (11 / 54):
"وقد قال الغزالي: القيام على سبيل الإعظام مكروه، وعلى سبيل الإكرام لايكره، وهذا تفصيل حسن". 
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6 / 2547):
"(قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم): قال النووي: فيه إكرام أهل الفضل وتلقيهم والقيام لهم إذا أقبلوا، واحتج به الجمهور، وقال القاضي عياض: ليس هذا من القيام المنهي عنه، وإنما ذاك فيمن يقومون عليه وهو جالس، ويتمثلون قياماً طول جلوسه، وقيل: لم يكن هذا القيام للتعظيم، بل كان للإعانة على نزوله لكونه وجعاً، ولو كان المراد منه قيام التوقير لقال: قوموا لسيدكم، ويمكن دفعه بأن التقدير: "قوموا متوجهين إلى سيدكم"، لكن الأول أظهر؛ لأن الصحابة رضي الله عنهم أجمعين ما كانوا يقومون له صلى الله عليه وسلم".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2972):
"(قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للأنصار) أي: مخاطباً لهم كلهم أو لقومه خاصة فإنهم كانوا طائفتين. (قوموا إلى سيدكم). قيل أي: لتعظيمه، ويستدل به على عدم كراهته، فيكون الأمر للإباحة ولبيان الجواز، وقيل: معناه قوموا لإعانته في النزول عن الحمار إذ كان به مرض وأثر جرح أصاب أكحله يوم الأحزاب، ولو أراد تعظيمه لقال: قوموا لسيدكم، ومما يؤيده تخصيص الأنصار والتنصيص على السيادة المضافة، وأن الصحابة رضي الله عنهم ما كانوا يقومون له صلى الله عليه وسلم تعظيماً له، مع أنه سيد الخلق؛ لما يعلمون من كراهيته لذلك على ما سيأتي.
قال التوربشتي: ليس هذا من القيام الذي يراد به التعظيم على ما كان يتعاهده الأعاجم في شيء، فكيف يجوز أن يأمر بما إسناده صحيح أنه نهى عنه وعرف منه إلى آخر العهد، وإنما كان سعد بن معاذ رضي الله عنه وجعا لما رمي في أكحله مخوفا عليه من الحركة حذرا من سيلان العرق بالدم، وقد أتي به يومئذ للحكم الذي سلمت إليه بنو قريظة إليه عند النزول على حكمه، فأمرهم بالقيام إليه ليعينوه على النزول من على الحمار، ويرفقوا به فلايصيبه ألم من المركب، ولو كان يريد به التوقير والتعظيم لقال: قوموا لسيدكم، وأما ما ذكر في قيام النبي صلى الله عليه وسلم لعكرمة بن أبي جهل عند قدومه عليه، وما روي «عن عدي بن حاتم: ما دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قام إلي أو تحرك»، فإن ذلك مما لا يصح الاحتجاج به لضعفه، المشهور عن عدي إلا وسع لي، ولو ثبت فالوجه فيه أن يحمل على الترخيص حيث يقتضيه الحال، وقد كان عكرمة من رؤساء قريش، وعدي كان سيد بني طيئ، فرأى تأليفهما بذلك على الإسلام، أو عرف من جانبهما تطلعا إليه على حسب ما يقتضيه حب الرياسة اهـ.
والظاهر أن قيامه لعكرمة إنما كان لكونه قادما مهاجرا كما سبق أنه قال له: مرحبا بالراكب المهاجر، وقد تعقب الطيبي التوربشتي بأن" إلى "في هذا المقام أفخم من اللام، وأتى بما يرجع عليه الملام، وخرج عن مقام المرام، وقال بعض العلماء: في الحديث إكرام أهل الفضل من علم أو صلاح أو شرف بالقيام لهم إذا أقبلوا، هكذا احتج بالحديث جماهير العلماء. وقال القاضي عياض: القيام المنهي تمثلهم قياما طول جلوسه، وقال النووي: هذا القيام للقادم من أهل الفضل مستحب، وقد جاءت أحاديث ولم يصح في النهي عنه شيء صريح، وقد جمعت كل ذلك مع كلام العلماء عليه في جزء وأجبت فيه عما يوهم النهي عنه اهـ. وتعقبه ابن الحاج المالكي في مدخله ورد عليه ردا بليغا، ثم اختلفوا في الذين عناهم النبي - صلى الله عليه وسلم - بقوله: قوموا إلى سيدكم، هل هم الأنصار خاصة أم جميع من حضر من المهاجرين معهم؟ قلت: هذا وهم فإنه مع صريح قوله للأنصار: قوموا، كيف يتصور العموم الشامل للمهاجرين؟ نعم يحتمل عموم الأنصار وخصوص قومه منهم على ما قدمناه والله أعلم. وقال الإمام حجة الإسلام: القيام مكروه على سبيل الإعظام لا على سبيل الإكرام، ولعله أراد بالإكراه القيام للتحية بمزيد المحبة، كما تدل عليه المصافحة، وبالإعظام التمثل له بالقيام وهو جالس على عادة الأمراء الفخام، والله أعلم بكل حال ومقام. (متفق عليه)".
فتح الباري لابن حجر (11 / 51):
" وقال الخطابي: في حديث الباب جواز إطلاق السيد على الخير الفاضل، وفيه أن قيام المرءوس للرئيس الفاضل والإمام العادل والمتعلم للعالم مستحب، وإنما يكره لمن كان بغير هذه الصفات، ومعنى حديث "من أحب أن يقام له" أي بأن يلزمهم بالقيام له صفوفاً على طريق الكبر والنخوة، ورجح المنذري ما تقدم من الجمع عن ابن قتيبة والبخاري، وأن القيام المنهي عنه أن يقام عليه وهو جالس، وقد رد ابن القيم في حاشية السنن على هذا القول بأن سياق حديث معاوية يدل على خلاف ذلك، وإنما يدل على أنه كره القيام له لما خرج تعظيماً، ولأن هذا لايقال له القيام للرجل، وإنما هو القيام على رأس الرجل أو عند الرجل، قال: والقيام ينقسم إلى ثلاث مراتب: قيام على رأس الرجل، وهو فعل الجبابرة، وقيام إليه عند قدومه، ولا بأس به، وقيام له عند رؤيته، وهو المتنازع فيه، قلت: وورد في خصوص القيام على رأس الكبير الجالس ما أخرجه الطبراني في الأوسط عن أنس قال: إنما هلك من كان قبلكم بأنهم عظموا ملوكهم بأن قاموا وهم قعود. ثم حكى المنذري قول الطبري وأنه قصر النهي على من سره القيام له؛ لما في ذلك من محبة التعاظم ورؤية منزلة نفسه، وسيأتي ترجيح النووي لهذا القول، ثم نقل المنذري عن بعض من منع ذلك مطلقاً أنه رد الحجة بقصة سعد بأنه صلى الله عليه وسلم، إنما أمرهم بالقيام لسعد لينزلوه عن الحمار؛ لكونه كان مريضاً، قال: وفي ذلك نظر. قلت: كأنه لم يقف على مستند هذا القائل، وقد وقع في مسند عائشة عند أحمد من طريق علقمة بن وقاص عنها في قصة غزوة بني قريظة وقصة سعد بن معاذ ومجيئه مطولاً، وفيه: قال أبو سعيد: فلما طلع قال النبي صلى الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم، فأنزلوه. وسنده حسن، وهذه الزيادة تخدش في الاستدلال بقصة سعد على مشروعية القيام المتنازع فيه، وقد احتج به النووي في كتاب القيام، ونقل عن البخاري ومسلم وأبي داود أنهم احتجوا به، ولفظ مسلم: لاأعلم في قيام الرجل للرجل حديثاً أصح من هذا، وقد اعترض عليه الشيخ أبو عبد الله بن الحاج فقال، ما ملخصه: لو كان القيام المأمور به لسعد هو المتنازع فيه لما خص به الأنصار، فإن الأصل في أفعال القرب التعميم، ولو كان القيام لسعد على سبيل البر والإكرام لكان هو صلى الله عليه وسلم أول من فعله وأمر به من حضر من أكابر الصحابة، فلما لم يأمر به ولا فعله ولا فعلوه دل ذلك على أن الأمر بالقيام لغير ما وقع فيه النزاع، وإنما هو لينزلوه عن دابته لما كان فيه من المرض، كما جاء في بعض الروايات؛ ولأن عادة العرب أن القبيلة تخدم كبيرها، فلذلك خص الأنصار بذلك دون المهاجرين، مع أن المراد بعض الأنصار لا كلهم، وهم الأوس منهم؛ لأن سعد بن معاذ كان سيدهم دون الخزرج، وعلى تقدير تسليم أن القيام المأمور به حينئذ لم يكن للإعانة، فليس هو المتنازع فيه، بل لأنه غائب قدم، والقيام للغائب إذا قدم مشروع، قال: ويحتمل أن يكون القيام المذكور إنما هو لتهنئته بما حصل له من تلك المنزلة الرفيعة من تحكيمه والرضا بما يحكم به، والقيام لأجل التهنئة مشروع أيضاً.
ثم نقل عن أبي الوليد بن رشد أن القيام يقع على أربعة أوجه: الأول محظور، وهو أن يقع لمن يريد أن يقام إليه تكبراً وتعاظماً على القائمين إليه. والثاني: مكروه، وهو أن يقع لمن لايتكبر ولايتعاظم على القائمين، ولكن يخشى أن يدخل نفسه بسبب ذلك ما يحذر، ولما فيه من التشبه بالجبابرة. والثالث: جائز، وهو أن يقع على سبيل البر والإكرام لمن لايريد ذلك ويؤمن معه التشبه بالجبابرة. والرابع: مندوب، وهو أن يقوم لمن قدم من سفر فرحاً بقدومه ليسلم عليه، أو إلى من تجددت له نعمة فيهنئه بحصولها، أو مصيبة فيعزيه بسببها".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 384):
"وفي الوهبانية: يجوز بل يندب القيام تعظيماً للقادم كما يجوز القيام، ولو للقارئ بين يدي العالم وسيجيء نظماً.

(قوله: يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم إلخ) أي إن كان ممن يستحق التعظيم قال في القنية: قيام الجالس في المسجد لمن دخل عليه تعظيماً، وقيام قارئ القرآن لمن يجيء تعظيماً لايكره إذا كان ممن يستحق التعظيم، وفي مشكل الآثار: القيام لغيره ليس بمكروه لعينه، إنما المكروه محبة القيام لمن يقام له، فإن قام لمن لايقام له لايكره. قال ابن وهبان: أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام، وما ورد من التوعد عليه في حق من يحب القيام بين يديه كما يفعله الترك والأعاجم اهـ. قلت: يؤيده ما في العناية وغيرها عن الشيخ الحكيم أبي القاسم كان إذا دخل عليه غني يقوم له ويعظمه، ولايقوم للفقراء وطلبة العلم، فقيل له في ذلك، فقال الغني: يتوقع مني التعظيم، فلو تركته لتضرر والفقراء والطلبة إنما يطمعون في جواب السلام والكلام معهم في العلم، وتمام ذلك في رسالة الشرنبلالي". 
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_28.html

No comments:

Post a Comment