ایک مجلس کی تین طلاقیں
سوال: تین طلاق ایک مجلس میں تین ہوتی ہیں یا ایک،مشہور یہ کیا جارہا ہے کہ طلاق عورت کے حیض سے تعلق رکھتی ہے، کیوں کہ سورہ نساء میں تین حیض کا ذکر ہے، ایک حیض میں پچاس دفعہ بھی طلاق دینے سے ایک ہوگی؟
جواب: 1۔ طلاق دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل نہیں ہے، تاہم انتہائی مجبوری کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش ہے، شریعت نے مرد کو آسانی دیتے ہوئے اس کا بہترین طریقہ بھی بتادیا ہے ،تاکہ کل کو اگر جانبین اپنے اس فعل پر نادم اور پشیمان ہوں تو انہیں اس غلطی کی تلافی کرنا ممکن ہو، وہ بہترین صورت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر (پاکی) میں طلاق دے جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلقات قائم نہ کیے ہوں، پھر اسے چھوڑدے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے، اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایسے طہر (پاکی) میں طلاق دے جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلق قائم نہ کیا ہو، اس کے بعد اس کے قریب نہ جائے، جب دوسرا طہر (پاکی) آئے تو اس میں دوسری طلاق دے، اور پھر تیسری پاکی میں تیسری طلاق دے دے، ان دونوں طریقوں میں مرد اور عورت کو سوچنے اور اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ (1)
لیکن اگر کوئی شخص شریعت کی عطاء کردہ ان سہولیات کو کام میں نہ لائے اور بیک وقت تینوں طلاقیں زبان سے کہہ دے تو اس کا یہ اقدام ناجائز اور بدعت ہے، تاہم اپنی تاثیر کے لحاظ سے یہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے امور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے منع کیا ہے، لیکن جب کوئی شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حکم شرعی اپنے تمام احکام کے ساتھ واقع ہوتا ہے، مثلاً: ''ظہار'' کو قرآنِ مجید میں "مُنکَراً مِّنَ القَولِ وَزُورًا" کہا گیا ہے، لیکن جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ''ظہار'' کرتا ہے تو اس پر حکمِ شرعی نافذ ہوجاتا ہے، قتلِ ناحق جرم اور گناہ ہے، مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا جاتا ہے وہ قتل ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت اس کا انتظار نہیں کرتی کہ گولی جائز طریقے سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے؟ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو شخص شریعت کی آسانیوں اور سہولتوں کو نظر انداز کرکے بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔
2۔ قرآن کریم میں ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ [البقرة: 229]
ترجمہ: وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ۔ (بیان القرآن)
اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین حضرات یہ بیان کرتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگ بغیر کسی تعداد اور گنتی کے طلاق دیا کرتے تھے، مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت مکمل ہونے کا وقت قریب ہوتا تو وہ رجوع کرلیتا اور پھر طلاق دے کر دوبارہ رجوع کرتا، اس سے ان کا مقصد اس عورت کو تکلیف دینا ہوتا تھا، جس پر قرآنِ کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (2)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب "صحیح البخاری" میں یہ باب قائم کیا "باب من أجاز الطلاق الثلاث"(3)
امام قرطبی رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ فتویٰ دینے والے ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے"۔ (4)
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آیت ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے، اگرچہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔ (5)
3۔ آیت مذکورہ میں "مرتان" کا معنی "اثنان" ہے، یعنی طلاقِ رجعی دو ہیں، یہی معنی شانِ نزول کے موافق ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں "مرتان" کا معنی "اثنان" کے لیے استعمال ہوا ہے:
الف: ﴿وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا﴾ [الأحزاب: 31]
ترجمہ: اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کو اس کا ثواب دوہرا دیں گے۔ (بیان القرآن)
ب: ﴿أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا﴾ [القصص: 54]
ترجمہ: ان لوگوں کو ان کی پختگی کی وجہ سے دوہرا ثواب ملے گا۔ (بیان القرآن)
ج: حدیث میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
"أن النبي ﷺ توضأ مرتین مرتین". (6)
لہذا قرآنی حکم کا خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن طلاقوں کی ترتیب نہیں ،بلکہ تعداد بیان کررہا ہے۔
4۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
ترجمہ: اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی تو جب وہ عورت دوسرے نکاح نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)
امام شافعی رحمہ اللہ "کتاب الام" میں لکھتے ہیں قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے۔ (7)
5۔ احادیث مبارکہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کلمہ یا ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقین واقع ہوجاتی ہیں۔
الف: بخاری شریف میں ہے:
''عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»''(8)
اس حدیث میں "طلق امرأته ثلاثاً" کا لفظ اس بات پر دلیل ہے تین طلاقیں اکھٹی دی گئی تھیں، چناں چہ ''عمدۃ القاری'' میں ہے کہ "طلق امرأته ثلاثاً" کا جملہ اس حدیث کے ''ترجمۃ الباب'' کے مطابق ہے، کیوں کہ اس سے ظاہر یہی ہے کہ یہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں۔ (9)
''فتح الباری'' میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے "طلقها ثلاثاً" کے ظاہرسے استدلال کیا ہے؛ کیوں کہ اس سے یہی بات متبادر ہوتی ہے کہ یہ اکٹھی دی گئی تھیں۔ (10)
ب: صحیح البخاری میں ہے:
''أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»''۔ (11)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فبت طلاقي" کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ انہوں نے اس عورت کو ایسی طلاق دی تھی جس کے بعد تعلق بالکل ختم ہوجاتا ہے، اوروہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک ساتھ یا الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں، اس احتمال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ''کتاب الادب'' میں دوسرے طریق سے ذکر کیا ہے "طلقنی آخر ثلاث تطلیقات"۔ (12)
ج: امام بخاری رحمہ اللہ عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ کے واقعہ لعان کے بیان کے بعد حدیث کے یہ الفاظ بیان کرتے ہیں:
''قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: «فكانت تلك سنة المتلاعنين»''۔ (13)
مذکورہ واقعہ کے متعلق امام ابو داؤد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں طلاقوں کو نافذ کردیا تھا،چناں چہ فرماتے ہیں:
''عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (14)
د: سنن ابن ماجہ میں ہے کہ عامر شعبی سے روایت ہے کہ میں نے فاطمہ بنت حبیش سے کہا: مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں، وہ یمن سے باہر تھے تو آپ ﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ قراردیا۔ (15)
اس روایت سے امام ابن ماجہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر استدلال کیا ہے، اور باب قائم کیا ہے "باب من طلاق ثلاثاً في مجلس واحد"، جس کے تحت اس حدیث کو ذکر کیا ہے، اسی روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی (16) میں اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن ابی داؤد (17) میں ذکر کیا ہے۔
6۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہوچکا تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی، اس سلسلے میں محققین فقہاء ومحدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
الف: علامہ ابوبکر جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم، سنتِ مطہرہ اور سلف کا اجماع ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا لازم قرار دینا ہے، اگرچہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ (18)
ب: حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہمیں امت میں سے کسی ایک فرد کا علم نہیں جو اس سلسلے میں فیصلہ، قضا، علم اور فتویٰ دینے میں کھل کر مخالفت کرتا ہے، تاہم ایک چھوٹی سی جماعت سے اختلاف منقول ہے، جن پر ان کے معاصرین نے انتہائی درجہ کا انکار کیا ہے، ان میں سے اکثر اپنے اس مسلک کو چھپاتے تھے، کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ (19)
ج: علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہورصحابہ، تابعین اور ان کے بعد مسلمانوں کے ائمہ اس مذہب پر ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ (20)
د: علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کہے: "أنت طلاق ثلاثاً" (تجھے تین طلاق ہیں) اس کے حکم میں اختلاف ہے، امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ (21)
7۔ ''صحیح مسلم'' میں مذکور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت سے استدلال کیا ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہوا کرتی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے ایک ایسے معاملے میں جلدبازی شروع کردی جس میں ان کے لیے سہولت تھی، اگر ہم ان پر تینوں کو نافذ کردیں تو اچھا ہو۔اس کے بعد انہوں نے اس حکم کو نافذ کردیا۔ (22)
اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
الف: نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جب شوہر ایک طلاق دینے کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ بھی طلاق کے الفاظ استعمال کرتا تھا اور اس کی مراد پہلی دی گئی طلاق کی تاکید ہوتی تھی توآپﷺ اس طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے تھے، آپﷺ صاحبِ وحی تھے، کوئی شخص آپ سے غلط بیانی نہیں کرسکتا تھا، اگر کوئی غلط بیانی کرتا تو آپﷺ کو وحی کے ذریعہ اطلاع مل جاتی، جب حضورﷺکے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے الفاظِ طلاق کو دیکھتے ہوئے تین طلاقوں کا فیصلہ نافذ کیا، نیتِ تاکید کا اعتبار نہیں کیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگایا آیا ہوگا تو لوگوں کی دیانت کو دیکھتے ہوئے نیت کا اعتبار کیا جاتا ہوگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سے احکام نے قانونی شکل اختیار کی جس میں سےایک قانون یہ بھی ہے۔ (23)
صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نےفرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ کیا جاتا تھا، اب وحی منقطع ہوگئی، اب تم لوگوں کی پکڑ تمہارے ظاہری اعمال پر ہوگی،جو ہمارے سامنے خیر و بھلائی ظاہر کرےگاہم اسے امن دیں گے اور قریب کریں گے، ہمیں ا س کے باطن سے کوئی سروکار نہیں۔اللہ تعالیٰ اس کے باطن کا مواخذہ کرے گا، جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے گاہم اس کو نہ امن دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے اگرچہ وہ یہ کہے کہ میرا باطن اور میری نیت اچھی ہے۔ (24)
دورِفاروقی میں یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا، صدیوں سے اسلامی عدالتیں اسی قانون پر عمل پیرا ہیں۔
ب: صحیح مسلم کی اس روایت کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کئی روایات میں مروی ہے کہ وہ ایک جملہ میں تین طلاقوں کو تین طلاقیں سمجھا کرتے تھے، ان کے جلیل القدر شاگرد علماء، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، مجاہد اور طاووس ان سے یہی نقل کرتے ہیں۔ذیل میں چند روایات مذکور ہیں:
الف: مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ میں یہ سمجھا کہ شاید اس کی بیوی کو اس کی جانب لوٹانے والےہیں، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جاتا ہے اور حماقت کرجاتا ہے، پھر کہتا ہے اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کےلیے راہ نکالتے ہیں، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے، اس لیے مجھے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں مل رہی، تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی۔ (25)
امام ابوداؤد اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو حمید الاعرج وغیرہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے اور مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے، اور شعبہ رحمہ اللہ نے عمرو بن مرہ سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے، ۔۔۔۔ اور ابن جریج نے عبدالحمید بن رافع سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، اور اس حدیث کو اعمش نے مالک بن حارث سے، انہو ں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، اور ابن جریج نے عمروبن دینار سے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، سب نے تین طلاقوں کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے تین طلاقوں کو نافذ قرار دیا ہے اور کہا کہ تم سے بیوی جدا ہوگئی ۔(26)
ب: موطا امام مالک میں ہے کہ ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں، آپ میرے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تمہاری بیوی کو تم سے تین طلاقیں ہوگئی ہیں، اور ستانوے طلاقوں کے ذریعہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق بنایا ہے۔ (27)
ج: موطا امام محمد میں ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو رخصتی سے پہلے تین طلاقیں دیں ، پھر اس نے چاہا کہ اس سے نکاح کرے تو وہ مسئلہ پوچھنے آیا، اس نے ابن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، ان دونوں نے جواب دیا اس وقت تک نکاح نہیں کرسکتے جب وہ کسی اور سے نکاح نہیں کرلیتی، اس نے کہا کہ میں نے تو صرف ایک طلاق دی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے اپنے ہاتھوں سے اس گنجائش کو ختم کردیا جو تجھے حاصل تھی۔(28)
8۔ مسند احمد میں ہے کہ رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین بار ایک مجلس میں طلاق دی، تو اس پر وہ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے، رسول اکرمﷺ نے ان سے سوال کیا تم نے کیسے طلاق دی؟ انہوں نے کہا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا وہ ایک طلاق ہوئی، اگر چاہو تو رجوع کرلو، راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ (29)
اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
الف: علماء اور محدثین کی آراء کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے یہ حدیث معلول (ضعیف) ہے، چناں چہ حافظ ابن حجر نے ''التلخیص الحبیر'' میں اس حدیث کو ذکر کرکے فرمایا کہ " وهو معلول أیضاً" (30) ، اسی طرح حافظ ذھبی ؒ نے اس کو داؤد ابن الحصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے۔ (31)
ب: نیز مسند احمد کی مذکورہ روایت میں اضطراب ہے، بعض روایات میں طلاق کی تعداد مذکور نہیں ہے، محمد بن ثور الصنعانی کی روایت میں ہے "إني طلقتها" یعنی میں نے تجھے طلاق دی، اس میں نہ "ثلاثاً" کا لفظ ہے نہ "البته" کا، اور صنعانی کی جلالت قدر محدثین میں مسلم ہے۔ (32)
جب کہ سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، اور ابن ماجہ میں "ثلاثاً" کا لفظ نہیں ہے، بلکہ "البتة" کے الفاظ ہیں، ان تینوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو "البتة" سے طلاق دی (جس میں ایک سے تین طلاقوں کی گنجائش ہوتی ہے)، پھر آپ ﷺ کو اطلاع دی، اور فرمایا؛ خدا کی قسم میں نے لفظ " البتة"سے ایک طلاق کی نیت کی ہے، جس کی تصدیق آپﷺ نے ان سے کی کہ بخدا تمہاری نیت ایک ہی طلاق کی تھی؟ تو حضرت رکانہ نے کہا کہ بخدا میری نیت ایک ہی طلاق کی تھی، تب آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جو نیت کی تھی اسی کا اعتبار ہے۔ (33)
ج: حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے مسند احمد کی حدیث ذکر کرکے لکھا ہے کہ امام ابو داؤد نے اس سے بہتر طریق سے ذکر کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی سہیمۃ کو "البتة" کے لفظ سے طلاق دی تھی۔ (34)
د: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ روایت جسے مخالفین ذکر کرتے ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں جسے نبی کریم ﷺ نے ایک قرار دیا وہ مجہول راویوں سے منقول ضعیف روایت ہے، صحیح روایت وہی ہے جسے ہم نے ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو "البتة" کہہ کر طلاق دی، اور لفظ "البتة" ایک اور تین کا احتمال رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس ضعیف روایت کے راوی نے یہ سوچا کہ لفظ "البتة" تین کا احتمال رکھتا ہے تو انہوں نے روایت بالمعنی کی، اور اس میں غلطی کی۔ (35)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ایک نہیں، یہ کہنا غلط ہے کہ طلاق کا تعلق عورت کے حیض سے ہے، سورہ نساء میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں طلاق کے لیے تین حیض کو معیار بنایا گیا ہو، تاہم سورہ بقرہ میں عدت کے لیے تین حیض بتایا گیا ہے، آپ کو دونوں آیتوں میں شبہ ہورہا ہے، عدت کا حکم بتانے والی آیت کو طلاق سے جوڑ دیا۔
حوالہ جات
أحكام القرآن للجصاص ط: العلمية (1 / 459):
قَالَ أَصْحَابُنَا: أَحْسَنُ الطَّلَاقِ أَنْ يُطَلِّقَهَا إذَا طَهُرَتْ قَبْلَ الْجِمَاعِ ثُمَّ يَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا طَلَّقَهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً قَبْلَ الْجِمَاعِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَبَلَغَنَاعَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَزِيدُوا فِي الطَّلَاقِ عَلَى وَاحِدَةِ حَتَّى تَنْقَضِيَ الْعِدَّةُ، وَأَنَّ هَذَا عِنْدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً.
تفسير الألوسي = روح المعاني (1 / 530، ط: دار الکتب العلمیه):
فقد أخرج مالك والشافعي والترمذي رضي الله تعالى عنهما وغيرهم. عن عروة قال: كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدّتها كان ذلك له وإن طلقها ألف مرة، فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتى إذا ما شارفت انقضاء عدّتها ارتجعها ثم طلقها ثم قال: والله لا آويك إليّ ولا تخلين أبدا، فأنزل الله تعالى الآية.
صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):
باب من أجاز طلاق الثلاث لقول الله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229]
تفسير القرطبي (3 / 128):
تَرْجَمَ الْبُخَارِيُّ عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ" بَابُ مَنْ أَجَازَ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" وَهَذَا إِشَارَةٌ منه إلى أن هذاالتعديد إنما هو فسخه لَهُمْ، فَمَنْ ضَيَّقَ عَلَى نَفْسِهِ لَزِمَهُ. قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَاتَّفَقَ أَئِمَّةُ الْفَتْوَى عَلَى لُزُومِ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ.
أحكام القرآن للجصاص (1 /527، ط: قدیمی):
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْله تَعَالَى: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} الْآيَةَ، يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَعَ كَوْنِهِ مَنْهِيًّا عَنْهَا.
صحيح البخاري (1 / 43، دار طوق النجاة):
عن عبد الله بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم «توضأ مرتين مرتين».
الأم للشافعي (5 / 196، دار المعرفة - بيروت):
(قَالَ الشَّافِعِيُّ): وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا.
صحيح البخاري (2/791، ط: قدیمی):
عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول».
عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه)
مطابقته للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة.
فتح الباري لابن حجر (9 / 367):
فالتمسك بظاهرقوله طلقها ثلاثا فإنه ظاهر في كونها مجموعة.
صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):
أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»۔
فتح الباري لابن حجر (9 / 367، دار المعرفة - بيروت):
قوله فبت طلاقي فإنه ظاهر في أنه قال لها أنت طالق ألبتة ويحتمل أن يكون المراد أنه طلقها طلاقا حصل به قطع عصمتها منه وهو أعم من أن يكون طلقها ثلاثا مجموعة أو مفرقة ويؤيد الثاني أنه سيأتي في كتاب الأدب من وجه آخر أنها قالت طلقني آخر ثلاث تطليقات۔
صحیح البخاری، 2/ 791، ط: قدیمی
سنن ابی داؤد، 1/324، باب فی اللعان، ط: رحمانیه
سنن ابن ماجه (1 /145):
عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔
سنن نسائی، 2/100، کتاب الطلاق، باب الرخصة فی ذالک ط؛ قدیمی۔
سنن ابی داؤد، 1/331، رحمانیه
أحكام القرآن للجصاص (1 /529، ط: قدیمی):
فَالْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ تُوجِبُ إيقَاعَ الثَّلَاثِ مَعًا وَإِنْ كَانَتْ مَعْصِيَةً۔
الاشفاق( ص: 53، 54)
قال ابن رجب : لا نعلم من الأمة أحداً خالف في هذه المسئلة مخالفةً ظاهرةً ولا حکماً ولا قضاءً ولا علماً ولا إفتاءً ، ولم یقع ذلک إلا من نفر یسیر جداً وقد أنکر علیهم من عاصرهم غایة الإنکار وکان أکثرهم یستخفي بذلک ، ولایظهره.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 233):
وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.
شرح النووي على مسلم (1/474، قدیمی):
وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ يَقَعُ الثَّلَاثُ.
صحيح مسلم (1/477، 478، ط: قدیمی):
عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "۔
شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی):
فَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَابِهِ وَتَأْوِيلِهِ فَالْأَصَحُّ أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ إِذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَلَمْ يَنْوِ تَأْكِيدًا وَلَا اسْتِئْنَافًا يُحْكَمُ بِوُقُوعِ طَلْقَةٍ لِقِلَّةِ إِرَادَتِهِمُ الِاسْتِئْنَافَ بِذَلِكَ فَحُمِلَ عَلَى الْغَالِبِ الَّذِي هُوَ إِرَادَةُ التَّأْكِيدِ فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَغَلَبَ مِنْهُمْ إِرَادَةُ الِاسْتِئْنَافِ بِهَا حُمِلَتْ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى الثَّلَاثِ عَمَلًا بِالْغَالِبِ السَّابِقِ إِلَى الْفَهْمِ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْعَصْرِ۔
صحيح البخاري (1/360، کتاب الشهادات، ط: قدیمی):
سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول: " إن أناسا كانوا يؤخذون بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن الوحي قد انقطع، وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم، فمن أظهر لنا خيرا، أمناه، وقربناه، وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءا لم نأمنه، ولم نصدقه، وإن قال: إن سريرته حسنة ".
سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):
عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ، فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} [الطلاق: 2]، وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ.
سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):
رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ، وَغَيْرُهُ عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَيُّوبُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ كُلُّهُمْ قَالُوا: فِي الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ أَنَّهُ أَجَازَهَا، قَالَ: وَبَانَتْ مِنْكَ۔
موطأ مالك (199، باب ما جاء فی البتة):
عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي مِائَةَ تَطْلِيقَةٍ فَمَاذَا تَرَى عَلَيَّ؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ «طَلُقَتْ مِنْكَ لِثَلَاثٍ، وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ بِهَا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا».
موطأ امام محمد (203)
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَنْكِحَهَا فَجَاءَ يَسْتَفْتِي، قَالَ: فَذَهَبَتْ مَعَهُ، فَسَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالا: «لا يَنْكِحُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ طَلاقِي إِيَّاهَا وَاحِدَةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «أَرْسَلْتَ مِنْ يَدِكَ مَا كَانَ لَكَ مِنْ فَضْلٍ».
مسند أحمد (4 / 215، ط: مؤسسة الرسالة، ترکی):
حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟» قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: «فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ» قَالَ: فَرَجَعَهَا۔
التلخيص الحبير (3 / 458، دار الكتب العلمية):
وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ، وَهُوَ مَعْلُولٌ أَيْضًا.
ميزان الاعتدال (2 / 6، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت)
المستدرك على الصحيحين للحاكم (2 / 533، دار الكتب العلمية - بيروت):
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ بِمَكَّةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا يَزِيدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ أَبُو رُكَانَةَ أُمَّ رُكَانَةَ، ثُمَّ نَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُغْنِي عَنِّي إِلَّا مَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا، فَأَخَذَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِيَّةً عِنْدَ ذَلِكَ فَدَعَا رُكَانَةَ وَإِخْوَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِجُلَسَائِهِ: «أَتَرَوْنَ كَذَا مِنْ كَذَا؟» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ: «طَلِّقْهَا» فَفَعَلَ فَقَالَ لِأَبِي رُكَانَةَ: «ارْتَجِعْهَا» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ عَلِمْتُ ذَلِكَ فَارْتَجِعْهَا» فَنَزَلَتْ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»۔
سنن الترمذي ت شاكر (1/222، ط: قدیمی):
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ البَتَّةَ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ: «وَاللَّهِ؟» قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ: «فَهُوَ مَا أَرَدْتَ»۔
سنن أبي داود (1/318، ط: رحمانیه)
عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟» ، فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ، وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.
سنن ابن ماجه (149، قدیمی)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: «آللَّهِ، مَا أَرَدْتَ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً؟» قَالَ: آللَّهِ، مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً، قَالَ: فَرَدَّهَا عَلَيْهِ.
بلوغ المرام من أدلة الأحكام (2 / 98،ط: دار أطلس للنشر والتوزيع، الرياض):
وَقَدْ رَوَى أَبُو دَاوُدَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ أَحْسَنَ مِنْهُ: - أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ اَلْبَتَّةَ , فَقَالَ: "وَاَللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً, فَرَدَّهَا إِلَيْهِ اَلنَّبِيُّ -صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی)
وأما الرواية التي رواها المخالفون أن ركانة طلق ثلاثا فجعلها واحدة فرواية ضعيفة عن قوم مجهولين وإنما الصحيح منها ما قدمناه أنه طلقها ألبتة ولفظ ألبتة محتمل للواحدة وللثلاث ولعل صاحب هذه الرواية الضعيفة اعتقد أن لفظ ألبتة يقتضي الثلاث فرواه بالمعنى الذي فهمه وغلط في ذلك۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200962
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
--------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_27.html
No comments:
Post a Comment