حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز کی حقیقت کیا ہے؟
بقلم: مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العز ت نے چار صاحبزادیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہیں، جن کی شادی مکہ میں حضرت خدیحہ رضی اللہ عنہا کے خالہ کے لڑکے ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئی، دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور تیسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا، ان شادیوں کے جو تذکرے کتابوں میں ملتے ہیں، اس سے پتہ چلتاہے کہ ان صاحبزادیوں کو نکا ح کے بعد ان کے شوہروں کے گھر پہنچادیا گیا، کسی بھی حدیث اور سیر وتاریخ کی کتاب سے یہ پتہ نہیںچلتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صاحبزادیوں کو کچھ جہیز کے طور پر دیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں، جب آپ کچھ بڑی ہوئیں تو حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، آپ فداہ ابی وامی نے کم عمری کا عذر کیا اور بات ختم ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ شرماتے ہوئے دراقدس پر حاضر ہوئے اور جھجکتے ہوئے اپنا پیغام دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے لڑکے تھے، عمر میں کم وبیش حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھ سال بڑے تھے، رہنے سہنے کا انتظام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچیرے بھائی اور سرپرست تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہا کے اس پیغام کا تذکرہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیا، جب وہ شرم کی وجہ سے خاموش رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اس رشتہ کو قبول کرلیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دینے کے لئے کچھ ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جوا ب دیا: جنگ بدر میں جو زرہ ہاتھ آئی تھی، وہ ہے، اور ایک گھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑا تمہارے کام کا ہے، البتہ زرہ بیچ دو، چنانچہ یہ زرہ چار سو اسّی درہم میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے خرید لی، حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ رقم لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے کچھ رقم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دی کہ وہ خوشبو خرید کر لائیں۔ اور بقیہ رقم حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دی کہ وہ حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کا انتظام کریں۔ خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ جاکر حضرت ابوبکر، حضرت عمر، عثمان، طلحہ، زبیر اور انصاری صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کو بلا لاؤ، یہ سب لوگ حاضر ہوگئے تو آپ نے مختصر سا خطبہ پڑھ کر نکاح کردیا، اور چھوارے تقسیم کروادیئے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ہمراہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر بھیج دیا جوپہلے سے کرایہ پر حاصل کرلیا گیا تھا، بعد میں حضرت حارثہؓ بن نعمان نے اپنا مکان دے دیا تو حضرت فاطمہؓ مسجد نبوی کے قریب اس مکان میں منتقل ہوگئیں۔
حضرت ام سلیمؓ نے حضرت علیؓ کی زرہ والی رقم سے حضرت فاطمہؓ کی رخصتی کا جوسامان لیاتھا، وہ بھی حضرت فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر بھیجودایا، تذکروں میں ملتا ہے کہ یہ معمولی قسم کے گھریلو سامان تھے،جس میں دوچادریں، کچھ اوڑھنے بچھانے کامختصر سامان، دوبازو بند، ایک کملی، ایک تکیہ، ایک پیالہ، ایک چکی، ایک مشکیزہ، ایک گھڑا اوربعض روایتوں میں ایک پلنگ کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔
یہ ہے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کی پوری تفصیل جو کتب احادیث سیر وتاریخ میں عام طور پردیکھا جاسکتا ہے، اسے ایک بار پھر پڑھ لیں اورغورکریں تو تین باتیں بہت صاف طور پر آپ کے سمجھ میں آئیں گی:
۱۔ حضرت علیؓ بچپن سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، ان کی علیحدہ کوئی مستقل سکونت نہیں تھی، اورنہ ہی الگ سے کوئی گھریلو سامان تھا، اس طرح آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سرپرست تھے، مربی اور ولی تھے۔
۲۔ بحیثیت ولی اورسرپرست آپ کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ شادی کے بعد حضرت علیؓ کے گھردر کا انتظام کرتے، تاکہ حضرت علیؓ کی سکونت ورہائش جب آپ سے الگ ہو تو کسی قسم کی دقت روزمرہ کی زندگی میں پیش نہ آئے، اسی خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ضروری سامان حضرت علیؓ کے لیے مہیا کرایا،گویا ان چیزوں کی فراہمی آپؐ نے حضرت علیؓ کے لیے بحیثیت سسر نہیں، بلکہ سرپرست ہونے کے ناطے کیا۔
۳۔ یہ سامان کی فراہمی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رقم سے نہیں، بلکہ حضرت علیؓ کی زرہ بیچ کر جو رقم حاصل ہوئی تھی اس رقم سے کیا۔
یہی وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد پرعلماء امت نے بہت واضح اور صاف طور پرلکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو دیے گئے سامان سے جہیز کے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا استدلال صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی لکھتے ہیں:
’’جہیز کے موجودہ طریقہ کے سنت نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ گھریلو سامان جو حضرت فاطمہؓ کو آپؐ نے بوقت رخصتی (یا اس کے بعد) دیا تھا، جسے عوام جہیز دینا کہتے ہیں، وہ خود حضرت علیؓ کی طرف سے فراہم کردہ رقم سے خریدکردیا تھا، جس کی صراحت اہل سیر نے کی ہے‘‘۔
حافظ محمد سعد اللہ صاحب لاہوری نے تو صاف لفظوں میں اسے خلاف شرع اور خلاف قرآن وسنت قرار دیا ہے، لکھتے ہیں:
’’اس کو حضرت فاطمہ زہرہؓ کی پاک ذات کی طرف منسوب کرکے جو ایک مذہبی تقدس دی جاتا ہے، اور اس مذہبی تقدس کی آڑ میں جو نمود ونمائش اور اظہار دولت کیا جاتا ہے، اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور برتری حاصل کرنے کی جو سعی نامشکور کی جاتی ہے وہ بہرکیف غلط، ممنوع خلاف شرع اور قرآن وسنت ہے‘‘۔
حضرت مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’ہمارے زمانہ میں جہیز کو جس طرح نکاح کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے، جس طرح اس کے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کا مرادف سمجھ لیا گیا ہے، اور جس طرح اس کی مقدار میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیا جارہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے کر رشوت اور مال حرام استعمال کرکے اس مقدار کوپورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہو لڑکیاں بغیر نکاح کے بیٹھی رہتی ہیں، یہ پورا طرزعمل سنت کے قطعی خلاف ہے‘‘۔
مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری لکھتے ہیں:
’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے موقع پر آپؐ کی طرف سے دونوں کو جو کچھ دیا گیا اس کو جہیز کی مروجہ ملعون رسم کے ثبوت میں پیش کرنا بالکل غلط اور نادرست ہے‘‘۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’لینے اور دینے کی یہ رسم چاہے اس کا جو بھی نام رکھ دیا جائے، شرعاً ناجائز اور واجب الترک ہے‘‘۔
حافظ محمد سعداللہ جونپوری ریسرچ آفیسر مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری لاہور نے جہیز سے متعلق اپنے تفصیلی مقالہ ’’جہیز کی شرعی حیثیت‘‘ میں تمام روایات کا جائزہ لینے کے بعد بالکل صحیح لکھا ہے:
’’قرآن مجید میں، کتب احادیث میں، متقدمین فقہاء کی کتابوں میں مروجہ جہیزکا وجود ہی نہیں، صحاح ستہ، معروف کتب احادیث اور چاروں ائمہ فقہاء کی امہات الکتب میں ’’باب الجہیز‘‘ کے عنوان سے کوئی باب نہیں، اگر یہ کوئی شرعی حکم ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگراحکامات مثلاً نان نفقہ، مہر، بہتر معاشرت ، طلاق، عدت، وغیرہ تفصیلاً بیان ہوتے، وہاں جہیز کا بیان نہ ہوتا‘‘۔
خلاصہ کلام یہ کہ جہیز کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اور جہیز فاطمی سے استدلال کرکے اس کو مذہبی رنگ دینا یا تو کم علمی ہے یا ڈھٹائی، اس لیے اس سے احتراز ہی بہترہے، رہ گئی بات گھریلو ساز وسامان کی تیاری کی تو علماء نے اس سلسلہ میں صراحت کی ہے کہ اس کا ذمہ دار خاوند ہے اور شریعت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی بنیاد پرعورت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ اسباب خانہ بھی لائے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_45.html
No comments:
Post a Comment