سیاسی
حکمت عملی کی ضرورت
بقلم: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو مجموعہ اضداد بنایا ہے، یہاں روشنی بھی ہے اور تاریکی بھی، حرارت بھی ہے اور خنکی بھی، اس دنیا کو آگ کی بھی ضرورت ہے اور پانی کی بھی، مٹھاس کی بھی اور کڑواہٹ کی بھی، کائنات کی فطرت کے مطابق اللہ تعالی نے انسان کی زندگی اور اس کے احوال میں متضاد کیفیت رکھی ہے، انسان خوش بھی ہوتا ہے، اور غم سے بھی دوچار ہوتا ہے، یہی کیفیت اس کے دائرہ تعلقات میں بھی ہے،اس کے دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی، اگر محبت کرنے والے اسے گلے لگاتے ہیں تو کچھ نفرت کرنے والے اس کے جیب وگریباں سے کھیلنے پر تُلے رہتے ہیں، اگر اس کو ان لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے جو عدل وانصاف کرنے والے ہیں تو وہ ایسے لوگوں سے بھی دوچار ہوتا ہے جو اس پر ظلم وزیادتی کو روارکھتے ہیں، انسان کو ان کے درمیان انتخاب سے کام لینا پڑتا ہے، وہ بلیوں کی تو اپنے گھر میں پرورش کرسکتا ہے سانپوں کی نہیں؛ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ بلیاں اس کے گھر سے چند لقمے ہی کھاسکتی ہیں؛ لیکن وہ سانپ کی طرح ڈسیں گی نہیں؛ اس لئے یہ بات انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے کہ اگر خیروشر میں ٹکراؤ ہو تو وہ خیر کی طرف لپکے اور شر سے اپنے آپ کو بچائے، اس کے برخلاف عمل وہی شخص کرسکتا ہے جو یا تو عقل سے محروم ہو یا حد درجہ کم عقل ہو۔
انسان کی عقل کا امتحان اس وقت ہوتا ہے، جب دو مضرت رساں اور نقصان دہ چیزیں اس کے سامنے ہوں اور اس کے لئے کوئی تیسرا راستہ نہ ہو، اسے گڑھے ہی کو منتخب کرنا ہو، چاہے وہ ایک چھوٹے گڑھے کو منتخب کرے، جس میں پھسل جانے کا اندیشہ ہو یا وہ ایک ایسی کھائی کا انتخاب کرے، جس کا انجام بظاہر ہلاکت کے سوا کچھ اور نہ ہو، اگر وہ آگ سے بچ نہیں سکتا، چاہے ایک چنگاری پر سے گزرے یا آگ کے شعلہ سے گزرکر جانا پڑے، تو وہ چنگاری کو گوارا کرلیتا ہے، ایسی صورت حال میں انسان کی عقل اور اس کی ترجیحی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے، اور ان حالات میں بہتر انتخاب ہی اصل میں حکمت ودانائی ہے۔ عربی زبان کے ماہرین نے لکھا ہے کہ حکمت کا لفظ ’’حکم‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی معاملہ کو درست رکھنے کے لئے کسی عمل کو روکنے کے آتے ہیں
’’المنع للإصلاح‘‘ (مفردات القرآن: ۱۲۶)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت سے نواز دیا ہو، اسے خیر کثیر عطاکیا گیا:
وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا (البقرۃ: ۲۶۹)
اللہ تعالیٰ نے (حضرت) لقمان (علیہ السلام) کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان کو حکمت سے نوازا تھا:
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ (لقمان: ۱۲)
دعوت دین کا کام بڑا اہم بھی ہے؛ نازک بھی ہے اور مصلحت کے ساتھ کرنے کا بھی؛ اس لئے خاص طور پر فرمایا گیا کہ اللہ کے دین کی طرف حکمت کے ساتھ بلایا کرو:
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل: ۱۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو چمٹالیا اور دعاء دیتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! اسے حکمت سے نواز دیجئے:
اللہم علمہ الحکمۃ (ترمذی: حدیث نمبر ۳۸۲۴)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو ہی آدمی اصل میں رشک کے لائق ہیں، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالی نے حکمت سے نوازا ہو، وہ اس کے ذریعہ فیصلے کرتا ہو اور تعلیم وتربیت کی خدمت انجام دیتا ہو:
آتاہ اللہ الحکمۃ فہو یقضی بہا ویعلمہا (بخاری: حدیث نمبر: ۷۱۴۱)
اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ جب کوئی فرد یا گروہ اللہ کی طرف سے حکمت ودانائی سے سرفراز ہوتا ہے تو وہ صحیح فیصلے کرپاتا ہے۔ اچھے اور برے حالات سے افراد بھی دوچار ہوتے ہیں، اور قومیں بھی دوچار ہوتی ہیں، کم درجہ کے دشمنوں اور بڑے دشمنوں سے افراد کو بھی سابقہ پیش آتا ہے اور ملتوں کو بھی، انفرادی زندگی میں تو عموما انسان کا رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کم تر نقصان کو گوارا کرلے اور بڑے نقصان سے اپنے آپ کو بچائے رکھے؛ لیکن اجتماعی زندگی میں بسا اوقات ایسے فیصلہ میں قو می جذبات حارج ہوجاتے ہیں، اور بعض تکلیف دہ واقعات انسان کو اس درجہ متاثر کردیتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے میں حکمت ومصلحت کے پہلو کی رعایت نہیں کرپاتا، پھر اس کے نقصانات اتنے دوررس ہوجاتے ہیں کہ ان کی تلافی دشوار ہوجاتی ہے، تاریخ میں تو اس کی بہت سی مثالیں ہے؛لیکن خود ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں بھی اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں، جیسے ہندوستان کی تقسیم کا مسئلہ، اس وقت برصغیر میں علماء کی بڑی تعداد کا خیال تھا کہ متحدہ ہند وستان ہی مسلمانوں کے مفاد میں ہے، ملک کی تقسیم ملک کو بھی نقصان پہنچائے گی اور مسلمانوں کو خاص طور پر اس سے نقصان پہنچے گا، مگر لوگ جذبات کی رو میں بہہ گئے، انہوں نے علماء پر لعن طعن شروع کردیا، اور انہیں اکثریتی فرقہ کا ایجینٹ ٹھہرایا گیا، اکثریت میں جو فرقہ پرست اور چالاک لوگ تھے، انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو چھوٹا سا ہوم لینڈ دینے میں ہندو اکثریت کی بھلائی ہے؛ کیونکہ وہ طویل عرصہ سے محکومانہ زندگی گزارتے رہے ہیں، اب انہیں ایک بڑا خطہ حاصل ہوجائے اور وہ پوری مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرسکیں گے، بہرحال ملک تقسیم ہوا اور ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں، ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی، اور ظاہر ہے کہ کسی بھی بے قصور مارے والے انسان کی ہلاکت قابل افسوس ہے؛ لیکن بہرحال ایسے مظلوموں میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی، اس تقسیم کی سزا آج تک ہند وستان کے مسلمان بھگت رہے ہیں، اس کے نتیجہ میں جو ملک حاصل ہوا، وہ ایسا کہ پچیس ہی سال میں دو ٹکڑے ہوگیا اور جو کچھ بچاکچا حصہ موجود ہے، وہ خود اندر سے ٹوٹ رہا ہے، اور پوری دنیا میں بدنامی اور رسوائی کا عنوان بنا ہوا ہے۔
ہندوستان کی بعض مسلم ریاستیں ۱۹۴۸ تک موجود تھیں، قومی سطح کے بعض مسلم قائدین نے حکومت ہند کو اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ چند چیزوں میں اشتراک کے ساتھ اس مسلم ریاست کو باقی رہنے دے، ریاست کے حکمراں بھی اس کے حق میں تھے؛ کیونکہ مستقبل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس تربیت یافتہ فوج نہ ہو، ہتھیار کا ذخیر ہ نہ ہو، دوست ملک سے رابطہ نہ ہو، اور فضائیہ اور بحریہ نہ ہو، وہ بڑی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا؛ اس لئے انہوں نے صلح کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی؛ تاکہ خوں ریزی سے بچا جاسکے اور پُرامن طریقہ پر مسئلہ حل ہوجائے؛ لیکن کچھ جذباتی لوگوں نے قوم کو ورغلایا اور ایسے دعوے کرنے لگے جوان کی طاقت سے باہر تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھی ختم ہوا اور بے شمار مسلمان، مرد و عورت، بوڑھے بچے تہ تیغ کردئیے گئے، ممکن ہے کہ اس طرح کے فیصلے پورے جذبۂ خلوص کے ساتھ کئے گئے ہوں؛ لیکن یقیناً یہ حکمت ومصلحت اور تدبر کے تقاضوں کے خلاف تھے اور ان کا جو نقصان ہونا تھا، وہ ہوا۔ اب اس وقت ہندوستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور وطن عزیز میں اس وقت مقابلہ خیر وشر اور نیکی وبدی کا نہیں؛ بلکہ دو برائیوں کاہے اور ان دو میں سے کم تر برائی کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، ان حالات میں مسلمانوں کو گہرے تجزیہ کے ساتھ کام کرنے اور فہم وفراست کے ساتھ قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کو ایسی علاقائی اور قومی سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کی بنیاد پر معاملات طے کرنے چاہئیں، جن کو کم سے کم سیکولر ہونے کا دعوی تو ہو، ایک واضح ایجنڈے کے ساتھ ان سے گفت وشنید ہونی چاہئے، یہ گفتگو خفیہ بھی ہوسکتی ہے. اگر ذرائع ابلاغ میں ایسی خبر وں کا آنا نقصان دہ ہو، اور اندیشہ ہوکہ فرقہ پرست طاقتیں اس کو بہانہ بناکر برادران وطن کو اکسائیں گی، اور اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کے لئے اِس کا استعمال کریں گی، حکمت کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ فرقہ پرست طاقتو ں کو تقویت پہنچانے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں، ایک علانیہ طور پر ان کی تائید ہے اور بدقسمتی سے بعض مسلمان قائدین مودی کی حمایت میں بیانات بھی دے رہے ہیں، جس کو بے ضمیر ی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جہاں ایک فرقہ پرست پارٹی کا مقابلہ براہ راست کسی سیکولر پارٹی سے ہو، وہاں سیکولر پارٹی کی مخالفت میں مہم چلائی جائے، اس سے غیرمحسوس طریقہ پر فرقہ پرستوں کو تقویت حاصل ہوگی اور ان کا خواب شرمندہ تعمیر ہوجائے گا۔ ہمارے ملک میں کثیر جماعتی جمہوریت کا نظام رکھا گیا ہے، یہ طریقہ عوام کے حق میں بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ ان کو دو سے زیادہ اختیار حاصل ہوتا ہے؛ لیکن بدقسمتی سے اس وقت عملا ہمارا ملک دو جماعتی طرزحکمرانی کی طرف جارہا ہے، کمیونسٹ پارٹیوں کے زوال کی وجہ سے تیسرا محاذ نہایت کمزور ہے اور مستقبل قریب میں اٹھ کھڑے ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، ان حالات میں مسلمانوں کو نہایت حکمت اور تدبر سے کام لیتے ہوئے قدم اٹھانا چاہئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ علم وحکمت کی بات یہ نہیں ہے کہ آدمی شر کے مقابلہ میں خیر کو اختیار کرلے؛ بلکہ دانائی یہ ہے کہ جہاں دو برائیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر انسان مجبور ہو، وہاں کمتر برائی کا انتخاب کرکے بڑے نقصان سے اپنے آپ کو بچالے، ایسی حالت میں جبکہ ہندوستان کے سیاسی افق پر فرقہ پرستی کی سیاہ گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، اگر ہم نے فراست ایمانی اور نوربصیرت سے کام نہیں لیا اور جذبات، ردعمل اور نعروں میں بہہ گئے تو اس سے دوررس نقصانات کا اندیشہ ہے، ضرورت ہے کہ مسلمان قائدین ورہنما پارٹیوں کی وفاداریوں سے نیز حقیر اور وقتی سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملت کے مفاد میں اتحاد واجتماعیت کے ساتھ کام کریں اورسفینۂ ملت کو بھنور سے نکالنے کی مخلصانہ کوشش کریں۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post.html?m=1
No comments:
Post a Comment