Thursday, 14 October 2021

طائف کا مظلوم مبلغ (صلی اللہ علیہ وسلم)

طائف 

کا مظلوم مبلغ 

(صلی اللہ علیہ وسلم)

بقلم: مولانا محمد غیاث الدین حسامی

دعوتِ دین اور اشاعتِ اسلام ایک اہم فریضہ ہے، اُمتِ محمدیہ کی فلاح و کامیابی اسی میں مضمر اور پوشیدہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک اُمتِ مرحومہ نے اس فریضہ کو بحسن و خوبی ادا کیا، کامیابی و کامرانی ان کی حلیف رہی، عروج و اقبال مندی ان کے ہم آغوش رہی، اور جب بھی اُمتِ مرحومہ نے اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی اور سہل انگاری کا مظاہرہ کیا، ذلت و ناکامی کی عمیق کھائیوں میں جاگری، شکستہ مائی اور زبوں طالعی اس کا مقدر ہوئی۔

دین کی دعوت اور اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے مسلسل جدو جہد اور پیہم قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے، جب تک اس مہتم بالشان عمل کے لئے قربانی نہیں دی جائے گی، یہ عمل مطلوبہ حد تک نتیجہ خیز اور بارآور ثابت نہیں ہوسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک اہم پہلو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا بنیادی مقصد دین کی دعوت اور پیامِ حق کو پوری انسانیت تک پہنچانا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کے لئے کتنی قربانیاں دی ہیں؟ اور اس راہ میں کتنی مشقتیں اور مصیبتیں جھیلی ہیں، اس کے لئے طائف کا دعوتی سفر ہمارے لئے انمول اور قابلِ تقلید ہے۔

نبوت کا دسواں سال جس کو 'عام الحزن' یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے، اسی سال ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشفق چچا ابوطالب اور وفا شعار رفیقۂ حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تھا، چچا ابوطالب کے انتقال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ مغموم ہوئے، کیونکہ ابوطالب کفارِمکہ کے مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کررہے تھے، ایک تو ظاہری اسباب کے دائرہ میں چچا ابوطالب کی حمایت و مدد اُن کے انتقال کے وجہ سے ختم ہوچکی تھی ، دوسرے چچا ابوطالب کا انتقال کفر پر ہوا، اس کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت قلق تھا، پھر تھوڑے ہی دنوں بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا جو نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، بلکہ حق کی آواز، سب سے پہلے لبیک کہنے والی اور گلشنِ اسلام کی پہلی کلی تھیں، جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار و مشرکین کی ایذا رسانی سے ملولِ خاطر ہوتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غمگسار ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتیں۔ ان دونوں شخصیات کی وفات کے ساتھ ہی کفارمکہ کے ظلم و ستم کا بادل آپصلی اللہ علیہ وسلم پر پیہم برسنے لگا، طاغوتی طاقتوں نے مکرو فریب کے ترکش خالی کرنا شروع کردیئے، قریش کا یہ غیرانسانی اور بہیمانہ سلوک نہ صرف پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتے تھے، ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل، حکم ابن ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط اور اس کے ساتھیوں نے دوسروں کے مقابلے بہت زیادہ ایذاء و تکلیف پہنچائی۔

ابولہب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا تھا، مگر حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا۔ ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو تکلیف دینے کے در پے رہتا، موسم حج ہویا مکہ کا بازار جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو دین کی تبلیغ کرتے ہوئے پاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے آواز لگاتا اور کہتا کہ: لوگو! یہ شخص بددین اور جھوٹا ہے، اس کی باتوں میں مت آؤ، اور دوسروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکاتا، چنانچہ قریش آوارہ لڑکوں اور اپنے اوباش غلاموں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر بٹھادیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے سے گزرتے تو سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگ جاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنے کستے، انہی حالات کی وجہ سے مکہ کی سرزمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگ ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا کہ نبوت کا بادل پیہم برس رہا ہے، لیکن مکہ کی سرزمین بنجر اور غیر صالح ثابت ہورہی ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا رخ کیا جو آبادی اور خوشحالی کے اعتبار سے مکہ کے بعد دوسرے نمبر پر تھا، جیسے مکہ ہبل کی عبادت کا مرکز تھا تو طائف میں لات کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔

خاندانِ بنوہاشم کی طائف میں رشتہ داریاں تھیں، چند قبیلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموؤں کا خاندان کہا جاتا ہے، مکہ کے اہلِ ثروت تجارت اور گرمیاں گزارنے طائف آیا کرتے تھے۔ زرخیز زمین، خوبصورت موسم اور باغات کی کثرت کی وجہ سے یہاں کے باشندے کافی خوش حال تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر نہ وہاں کے باشندوں کی خوش حالی اور زرخیزی سے متاثر ہوکر کیا تھا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ننھیالی رشتہ داروں سے ملنے اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے آئے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفرپیدل چلتے ہوئے خالص توحید کے پیام کو عام کرنے اور انسانیت کو کفروشرک کے ظلمات سے نکال کر ایمان و یقین کے روشنی سے منور کرنے کے لیے کیا تھا اور اس اُمید سے آئے تھے کہ یہاں کے لوگ پیامِ توحید قبول کرلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ ٹھکانہ دے دیں، مگر طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کی اہلِ مکہ کو بھی جرأت نہیں ہوئی تھی۔

طائف کا دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سخت ترین دن تھا، چنانچہ صحیحین میں ہے کہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہرضی اللہ عنہا نے سوال کیا: "یا رسول اللہ! آپ کی زندگی میں اُحد سے بھی زیادہ سخت ترین دن کوئی گزرا ہے؟ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں عائشہ! طائف کا دن بڑا سخت ترین دن تھا جب میں نے اپنے آپ کو وہاں کے سرداروں کے سامنے پیش کیا تھا۔

طائف مکہ مکرمہ سے ۱۲۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر مشرقی جانب اور سطح سمندر سے تقریباً ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ رکھا۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے جب وہاں کے سرداروں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیالی رشتہ دار بھی تھے، ان دنوں طائف میں عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبدیالیل، مسعود اور حبیب بنو ثقیف کے سردار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے مذکورہ بالا تینوں سرداروں سے ملاقات کی اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور اپنی مدد کی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل دس دن وہاں قیام کرکے ان کو سمجھانے کی پوری کوشش کی، کفر و شرک چھوڑ کر ایمان کی طرف آنے کی دعوت دی، لیکن ان تینوں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا۔

ایک نے کہا: تمہارے سوا اللہ کو اور کوئی نہ ملا جسے نبی بناتا؟ دوسرے نے کہا: کعبۃ اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوگی کہ تم سا شخص پیغمبر ہو؟ تیسرا بولا: میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا، اگر تم سچے ہو تو تم سے گفتگو خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹے ہو تو گفتگو کے قابل نہیں۔ مذکورہ سرداروں نے نہ صرف ہدایت کو قبول نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو یہ حکم بھی دیا کہ بہت جلد آپ یہ بستی چھوڑدیں۔ ان بدبختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، طائف کے بدمعاشوں اور اوباشوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگادیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑائیں، چنانچہ انہوں نے راستہ سے گزرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر مارنے شروع کردیئے۔

حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ ان پتھروں کے لیے سپر بن جاتے، یہاں تک  انکا سر پھٹ گیا، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا جسم لہو لہان ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تیاں خون سے بھر گئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کردیتے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب چلنے لگتے تو پتھر برساتے، ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے، پتھروں کے برسانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکوبہت چوٹیں آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمزخموں سے بے ہوش ہوکر گرپڑے۔

حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو اپنی پیٹھ پر اُٹھاکر آبادی سے باہر عتبہ اور شیبہ کے باغ میں لے آئے، عتبہ اور شیبہ باوجود کفر پر قائم ہونے کے شریف الطبع اور نیک نفس تھے، اس باغ میں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے، اس دعا کا ایک ایک فقرہ معلوم ہوتا ہے کہ عبدیت اور تواضع و انکساری کے سانچے میں ڈھلا ہوا اور سوزو گداز اور درد و کرب کے عطر میں بسا ہوا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طائف کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بدسلوکی کی اور بدتمیزی کی اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر مغموم اور رنجیدہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((اللّٰہم إلیک أشکو ضعف قوتی وقلۃ حیلتی وہوانی علی الناس یا أرحم الراحمین أنت رب المستضعفین وأنت ربی ٗ إلی من تکلنی؟ إلی بعید یتجہمني ؟ أم إلی عدو ملکتہ أمری۔ إن لم یکن بک علی غضب فلا أبالی ٗ ولکن عافیتک ہی أوسع لی ٗ أعوذبنور وجہک الذی أشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ أمر الدنیا والآخرۃ من ان تنزل بی غضبک أو یحل علی سخطک ٗ لک العتبی حتی ترضی ٗ ولا حول ولا قوۃ إلا بک ۔))

"بارالٰہا! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں، یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے، تو مجھے کس کے حوالہ کررہا ہے؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا مطلوب ہے، یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔"

عتبہ اور شیبہ کے اسی باغ میں عداس نامی ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ انگور لے کر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم 'بسم اللہ الرحمن الرحیم' کہہ کر انگور کھانے لگے تو عداس حیرت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی صور ت دیکھنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کہاں کے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟ اس نے کہا کہ: وہ عیسائی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس صالح انسان کی بستی کے ہوجن کا نام یونس بن متی علیہ السلام تھا؟ عداس نے پوچھا کہ آپ کس طرح انہیں جانتے ہیں؟ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ: وہ میرے بھائی ہیں، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں، عداس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’محمد‘‘ تب عداس نے کہا کہ: میں نے توریت میں آپ کا اسمِ مبارک دیکھا ہے اور آپ کے اوصاف بھی پڑھے ہیں، اس کے بعد اس نے کہا کہ: میں ایک عرصہ سے یہاں آپ کے انتظار میں ہوں، مجھے اسلام کی تعلیم دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام پیش فرمانے پر وہ فوری مسلمان ہوگیا اور جھک کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا۔

طائف کے اس سفر میں بہت سی باتیں قابلِ توجہ اورلائق تقلید ہیں، پہلی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت کے لئے بہت فکر مند اور بے چین رہا کرتے تھے، مکہ کے مشرکین نے جب دینِ اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے لوگوں کو سمجھانے کے لئے وہاں کا سفر کیا، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کے ہر فردِ بشر کو اسلام کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی درد اور جذبہ کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا: ’’شاید اے محمد! آپ تو اہل مکہ کے ایمان نہ لانے کے غم میں اپنی جان کھودیں گے۔‘‘ (الشعراء: ۳)

سفرِطائف سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ دشمنوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا برتاؤ بہت بہتر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بہت اعلیٰ تھے، اور اسی اعلیٰ اخلاق کے ساتھ آپصلی اللہ علیہ وسلم طائف کے سرداروں اور لوگوں سے ملے اور ان کے نازیبا سلوک کے باوجود اپنے عالی اخلاق کو پیش کیا، اور اُمت کو بھی یہ تعلیم دی کہ دعوت و تبلیغ کے لئے داعی کے اندر عمدہ اخلاق اور صبر و تحمل کا ہونا ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی اخلاق کو قرآن مجید میں اخلاقِ عظیمہ کہا گیا اور اسی کی تکمیل کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا۔

اس سفر میں ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ کی طرف متوجہ رہے، خوشی ہو یا غم، راحت ہو یا مصیبت، ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرنا کامیاب انسان کی دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے سفر میں یہی کام کیا، جب طائف والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین تکلیفیں دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا جسم لہولہان ہوگیا، اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ ہی سے مدد کے طلب گار ہوئے۔

واقعۂ طائف میں ایک بات جو سب سے زیادہ اہم اور قابلِ توجہ ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگزر ہے، بے انتہا تکلیف دینے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کردیا، جبکہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کا فرشتہ بھی بھیج دیا تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کی ضرورت تھی؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ: اے جبرئیل! ان کو عذاب میں مبتلا مت کرو، ہوسکتا ہے کہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو میرے دین کو ماننے والے ہوں گے، اسی عفو و درگزر اور صبر و تحمل کا نتیجہ تھا کہ چند ہی سالوں میں طائف کے لوگ ایمان سے مشرف ہوئے۔

اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام تر مصائب و تکالیف کے باوجود تبلیغ کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے، جس بستی سے گزر تے، وہاں کے باشندوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عتبہ اور شیبہ کے باغ میں کام کرنے والے شخص عداس نے ایمان قبول کیا۔ علماء نے لکھا کہ عداس رضی اللہ عنہ کا ایمان قبول کرنا اس سفر کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_14.html




No comments:

Post a Comment