Thursday, 14 October 2021

حضرت ‏لقمان ‏علیہ ‏السلام ‏کون ‏تھے؟

حضرت لقمان علیہ السلام کون تھے؟
قرآن مجید نے حضرت لقمان علیہ السلام کے پیغمبر ہونے پر بحث کو ضروری نہیں سمجھا لیکن بعض حضرات انہیں پیغمبر تسلیم کرتے ہوئے حضرت الیاس علیہ السلام کا نام دیتے ہیں لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر امت کے نزدیک  اتفاق رائے موجود نہیں. اکثر کا قول ہے کہ وہ حبشی تھے اور داؤد علیہ السلام کے دور میں تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے مقنول  ہے: ”کہ لقمان علیہ السلام حبشی تھے تجارت ان کا پیشہ تھا.“ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں: ”حضرت لقمان پست قد، موٹے ہونٹ والے نوبیا قبیلے سے تھے.“ سعد بن مسیب فرماتے ہیں: ”آپ علیہ السلام مصر کے رہنے والے حبشی تھے.“
تعارف: اکثر علماء کرام کی رائے ہے کہ: حضرت لقمان علیہ السلام نبی نہیں تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیروکار تھے۔ 1100 ق م میں وہ نوبیا میں تشریف لائے۔ یہ حبشی النسل تھے اور بڑھئی تھے. مگر اللہ تعالیٰ جس کو چاہے ذہانت عطا فرمادے، وہ ایک پاکباز متقی انسان تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجے کی عقل وفہم، حکمت، دانائی  عطاء فرمائی۔ انہوں نے عقل کی راہ سے وہ باتیں کھولیں جو پیغمبروں کے احکام وہدایت کے موافق تھیں۔ رب العزت نے ایک حصہ قرآن میں نقل فرماکر ان کا مرتبہ اور زیادہ بڑھادیا ہے۔ اور بتایا کہ دیکھو یہ حکیم لقمان جو اپنی سلامتی طبع  وفکر کے ذریعے یہاں تک پہنچا وہ وہی اصول ہیں جن کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں دعوت دے رہے ہیں.
قرآن کریم اور حکمت لقمان علیہ السلام:
قرآن میں اللہ تعالیٰ حضرت لقمان علیہ السلام کو حکمت ودانائی عطاء کرنے کا ذکر یوں فرماتے ہیں:
"وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّـهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿١٢﴾"
حضرت لقمان علیہ السلام کی حکمت ودانائی:َ
حضرت لقمان علیہ السلام کی بنیادی شہرت ان کی دانائی اور خاص اپنے بیٹے کو وہ دانشمندانہ نصیحت ہے جس کو اپناتے ہوئے انسان ایک خوشحال اور پاکیزہ زندگی کے راستے پر چل سکتا ہے۔ لقمان علیہ السلام کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ علیہ السلام ستاروں، جانوروں اور اپنے اردگرد پائی جانے والی دیگر چیزوں کو دیکھتے ہوئے ان پر غور وفکر فرمایا کرتے.
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے ایک عجیب روایت منقول ہے: ”ایک دن جب آپ علیہ السلام درخت کے نیچے سورہے تھے تو ایک فرشتہ آیا اور کہا: اللہ رب العزت آپ کو حکمت ونبوت میں سے ایک چیز عطاء کرنا چاہتے ہیں. انتخاب آپ کو کرنا  ہے، آپ علیہ السلام نے حکمت ودانائی کو چن لیا۔ راتوں رات ان پر حکمت برسائی گئی۔ آپ علیہ السلام خود کو فطرت سےز یادہ قریب پانے لگے۔ صبح کو ان  کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں۔ آپ علیہ السلام سے سوال ہوا۔ آپ علیہ السلام نے نبوت کے مقابلے میں حکمت  کیسے اختیار کی؟ تو جواب دیا: اگر  اللہ مجھے نبی بنادیتا۔ ممکن ہے کہ میں منصب نبوت کو نبھا جاتا۔ جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہیں ایسا نہ ہو میں نبوت کا بوجھ نہ اٹھاسکوں. اس لئے میں نے حکمت کو پسند کیا۔“ (اخذ: تفسیر ابن کثیر)
حضرت خالد ربعی کا قول ہے: ”حضرت لقمان علیہ السلام جو حبشی غلام بڑھئی بھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا: بکری ذبح کرو اور اس کے جسم کا بہترین حصہ میرے پاس لاؤ۔ آپ دل وزبان  لے کر آگئے. اب کچھ دنوں بعد مالک نے پھر کہا: بکری  ذبح کرو اور اس کے جسم کا بدترین حصہ میرے پاس لاؤ۔ آپ علیہ السلام پھر دل وزبان مالک کے پاس لے آئے. وہ حیران ہوا اور پوچھا ایک ہی وقت میں یہ دونوں چیزیں  بدترین اور بہترین  کیسے ہوسکتی ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی حصہ نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر  سب سے بدتر بھی یہی  ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)
آپ علیہ السلام کا غلام ہونا:
بعض روایتوں میں آپ علیہ السلام کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو اس بات کا  ثبوت ہے کہ  آپ علیہ السلام نبی نہ تھے۔ کیونکہ غلامی نبوت  کے منافی ہے۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان ہوا کرتے ہیں. حضرت لقمان علیہ السلام  کسی بڑے گھرانے وکنبے سے نہ تھے، ان میں بہت سی بھلی عادتیں  تھیں، وہ خوش اخلاق، خاموش، غوروفکر  کرنے والے، دن کو نہ سوتے، غسل کرتے، لغو باتوں سے دور رہتے، ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے حکمت سے خالی نہ ہوتا، اپنی اولاد کی وفات پر بالکل نہ روئے، و ہ بادشاہوں، امیروں کے پاس اس لئے جاتے کہ غور وفکر، عبرت ونصیحت  حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔ اور دانائی کا تقاضہ ہے کہ جو اصل  ہے اس کو پہچان  لیا جائے لہذا للہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اس پر تو میری شکر گزاری کر، شکر گزار مجھ پر کچھ احسان  نہیں کرتا وہ اپنا  ہی بھلا کرتا ہے،
حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو نصیحت ووصیت:۔
یہ لقمان بن عنقاء بن سدون تھے ان کے بیٹے کا نام سہیلی کے بیان کی رو سے "ثاران" ہے، انہوں نے جو  بہترین نصیحت اپنے بیٹے کو کیں دوسرے لوگ بھی ان سے مستفید ہوئے اور اچھائی کی راہ اختیار  کی۔  
اولاد سے پیاری چیز انسان کی اور کوئی نہیں ہوتی۔ انسان  اپنی بہترین اور انمول چیز اپنی اولاد کو دینا چاہتا ہے۔ لہذآ  مشہور ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنے انتقال سے قبل وصیت کے طور پر اپنے بیٹے کو بہترین نصیحت کیں وہ یہ ہیں:
پہلی نصیحت: (شرک نہ کرنا)
سب سے پہلے یہ نصیحت کی کہ صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو  شریک نہ ٹھہرانا. یاد رکھو اس سے بڑے بے حیائی اور زیادہ برا کام  کوئی نہیں۔
"وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾" (سورۃ لقمان)
حضرت لقمان علیہ السلام نے شرک کو "ظلم عظیم" فرمایا ہے۔ ایک روایت ہے کہ کہ جب سورہ الانعام کی یہ آیت نازل ہوئی:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٨٢﴾"
تو صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہت شاق  گزری۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا تو کوئی  شخص نہ ہوگا جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام  کے خلاف کچھ ظلم نہ کیا ہو”،
تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ وہ ظلم ہے جو حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا. مطلب یہ کہ ظلم سے مراد شرک ہے.“
دوسری نصیحت:    
"يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ ﴿١٦﴾" (سورۃ لقمان)
اے میرے بیٹے اگر اچھائی یا برائی رائی کے دانے کے برابر   بھی ہو یا فرض کرو پتھر کی کسی سخت چٹان کے اندر یا آسمانوں کی بلندیوں میں اللہ  تعالیٰ سے کوئی بات چھپی  نہیں ہوتی، اس ذات پاک کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ نیکی  وبدی کو ظاہر کردے گا۔
تیسری نصیحت: "يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ" (سورۃ القمان 17)
اے میرے بیٹے  نماز پڑھو. اللہ کے لئے اور نیکی کا حکم کرو  یعنی خود اللہ کی توحید  پر قائم  ہوکر دوسروں کو بھی نصیحت کرو کہ اچھی بات سیکھیں اور برائی سے بچے رہیں.
چوتھی نصیحت: "وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ" 
اے میرے بیٹے! دنیا میں جو سختیاں پیش آئیں انہیں تحمل سے برداشت کرو، سختیوں سے  گھبراکر ہمت ہار دینا حوصلہ مند بہادروں کا کام نہیں،
پانچویں  نصیحت: "وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ"
اے میرے بیٹے! غرور سے مت دیکھنا لوگوں کو اور حقیر نہ سمجھنا۔ متکبروں کی طرح بات  نہ کرنا بلکہ خندہ پیشانی سے ملنا۔
چھٹی نصیحت: "إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ" (18) سورہ لقمان 
اے میرے  بیٹے! اترانے اور شیخیاں مارنے والے کی کچھ عزت نہیں ہوتی بلکہ وہ ذلیل وحقیر ہوتا ہے۔ سامنے نہیں تو پیچھے لوگ اسے برا کہتے ہیں۔
ساتویں نصیحت: "وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ﴿١٩﴾"
اے  میرے بیٹے! تواضع ومتانت  اور میانہ روی اختیار کرنا، بلاضرورت مت بولنا، کلام کرتے وقت چلاکر بات نہ کرنا، اگر اونچی آواز سے بولنا کمال ہوتا تو گدھے کی آواز پر خیال کرو، زور سے بولنے  سے آدمی کی آواز بے سری ہوجاتی ہے.
حضرت  لقمان علیہ السلام نے اپنے  بیٹے کو جو نصیحتیں کیں ہیں ان میں حسن خلقی  اور تواضع کی ترغیب، شرک، شیخی  اور بداخلاقی کی مذمت کی گئی ہے، حضرت لقمان علیہ السلام نےان باتوں کو خصوصیت کے ساتھ اس لئے انتخاب فرمایا کہ کائنات میں جس قدر بھلائی وبرائی پیش آتی ہے۔ ان سب کی بنیادی جڑ یہی امور ہیں. چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کو  درجہ  کمال تک پہنچاؤں."
حضرت حکیم لقمان علیہ السلام کے حکیمانہ قول:َ
عرب میں حکمت لقمان کا کافی چرچ تھا. اکثر مجالس میں ان کے حکیمانہ اقوال کو نقل کیا جاتا۔ چنانچہ تابعین، صحابہ رضوان اللہ اجمعین  بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس سلسلے میں  بعض  اقوال منقول ہیں۔
1۔ حکمت ودانائی  مفلس کو بادشاہ بنادیتی ہے.
2۔  اللہ تعالیٰ جب کسی کو امانت دار بنائے تو امین کا فرض ہے کہ اس امانت کی حفاظت  کرے۔
3۔  اے بیٹے خدا تعالیٰ سے ڈر اور ریاکاری سے خدا کے ڈر کا مظاہرہ نہ کر لوگ اس وجہ سے تیری عزت کریں اور تیرا دل حقیقتاً گنہگار ہو۔
4۔ اے بیٹے خاموشی میں کبھی ندامت اٹھانی نہیں پڑتی. اگر کلام چاندی ہے سکوت سونا ہے۔
5۔ جو بوؤگے وہی کاٹوگے ۔
6۔  نرم گوئی دانائی کی جڑ ہے.
کسی نے لقمان علیہ السلام سے دریافت کیا سب سے زیادہ صابر کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا: جس کے صبر کے پیچھے ایذاء نہ ہو۔ دسترخوان پر ہمیشہ نیک لوگوں کا اجتماع رہے تو بہتر ہے اور مشورہ صرف علماء حق ہی سے  لینا چاہئے۔ حضرت لقمان علیہ السلام سے پوچھا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دانائی کا راز کیا ہے؟ تو فرمایا: "سچ بولنا، وعدے کو پورا کرنا اور ان چیزوں سے گریز کرنا جن کا براہ راست مجھ سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق: "جس کو دانائی عطاء کی گئی اسے بہت  بڑی خیر سے نوازا گیا." اور یہ دانائی کی تاریخی کتب وقرآن  مجید کی روشنی میں حضرت لقمان علیہ السلام کی وراثت  ہے۔ مولانا حاؔلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
حکمت  کو ایک گمشدہ لال سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو
حضرت لقمان علیہ السلام کی حکیمانہ صلاحیتوں اور طب  کی ادویات سے لوگ آج تک  فائدہ حاصل کررہے ہیں اور رہتی دنیا تک کرتے رہیں گے. بقلم: بنت احمد (الصفہ اسلامک ریسرچ  سینٹر) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_12.html



No comments:

Post a Comment