مناجاتِ انبیاء: قرآن کریم میں مذکور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مقبول دعائیں کیا ہیں؟؟؟
مولانا محمد عمر انور بدخشانی
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے مقرب، برگزیدہ اور مستجاب الدعوات بندے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں سنتے اور قبول کرتے ہیں۔ لوگوں میںسب سے زیادہ آزمائشیں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر آتی ہیں۔ آزمائش کی گھڑیوں میں ان کا طرزِعمل کیا ہوتا ہے؟ وہ اللہ کی طرف کیسی عاجزی کے ساتھ رجوع کرتے ہیں؟ ان کے دل سے کیا دعاء نکلتی ہے؟ ان کا عزم اور یقین کس قدر مضبوط ہوتا ہے؟ سخت سے سخت امتحانات میں بھی ان کی تمام تر امیدیں اللہ تبارک وتعالیٰ سے کس طرح وابستہ رہتی ہیں؟ وہ اپنی نگاہ اور توجہ ظاہری اسباب کی بجائے خالق اسباب کی طرف ہمیشہ کیسے مرکوز رکھتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہمیں قرآن کریم بتاتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’إِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ۔‘‘ (الانبیاء: ۹۰)
ترجمہ:’’یقینا یہ لوگ (انبیاء) بھلائی کے کاموں میں تیزی دکھاتے تھے، اور ہمیں شوق اور رغبت کے عالم میں پکارا کرتے تھے، اور ان کے دل ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔‘‘
عموماً لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام تھے، اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے تھے، ان کی دعا تو لازمی سنی جائے گی اور قبول بھی ہوگی، جبکہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے عام بندے ہیں اور گناہ گار بھی ہیں، ہماری دعائیں کہاں اور کیسے قبول ہوں گی؟ اس طرح کی سوچ رکھنا درحقیقت یہ وسوسہ اور مایوسی ہے جو شیطان کی طرف سے ہے، اللہ تعالیٰ نے واضح اور صاف الفاظ میں اس وسوسہ اور مایوسی کو ختم کیا اور ارشاد فرمایا:
’’وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ۔‘' (البقرۃ: ۱۸۶)
ترجمہ :’’اور (اے پیغمبر!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو (آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں، لہٰذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں۔‘‘
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے مانگا جائے تو اس پر گراں گزرتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے، گویا عطائے خداوندی خود سائلوں کی تلاش میں رہتی ہے، اور گویا اس شعر کا مصداق ہوتی ہے کہ: ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں. اللہ تعالیٰ تو بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، البتہ دعا مانگنے کا طریقہ آنا چاہئے اور مذکورہ آیت کریمہ میں اس کی دو شرطیں بیان کی گئی ہیں:
۱- مانگنے والا میرا حکم ماننے والا ہو۔
۲- اس کا ایمان اور یقین کامل ہو۔
ظاہر ہے کہ جب ہم کسی سے سوال کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر اس کی بڑائی، طاقت اور قدرت ضرور ہوتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعا کو سن رہا ہے اور وہ اس کو قبول بھی ضرور کرے گا۔ ایک حدیث میں آتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ اس درجہ باحیا اور کریم ہے کہ وہ کسی دعا کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتا۔‘‘ اس لئے ہمیشہ یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اگر ہماری مانگی گئی دعا فوراً قبول نہیں ہوئی تو یقیناً اس میں انسان کی بہتری ہوگی، کیونکہ انسان خود اپنی بھلائی کو جانچ نہیں سکتا۔ قرآن‘ خالق کا بندے سے ہم کلام ہونے کا نام ہے تو دعا بندے کا اپنے خالق سے ہم کلام ہونے کا نام ہے۔ اور یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ہم جو دعا مانگیں وہ ہر حال میں قبول ہو، بلکہ احادیث طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی شرائط وآداب کو بجالاتے ہوئے مانگی ہوئی کوئی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاسکتی، بلکہ اللہ تعالیٰ وہ دعا کسی اور شکل میں ضرور قبول فرمالیتے ہیں، کیونکہ دعا کی قبولیت کی مختلف صورتیں ہیں: ۱- دعا کا فوراً قبول ہوجانا۔
۲- مطلوبہ دعا کا عرصہ بعد قبول ہونا۔
۳- مطلوبہ دعا کی بجائے اس سے بہتر صورت میں قبول ہوجانا۔
۴- آنے والی مصیبت کو دور کردیا جانا۔
۵- دعا کو آخرت کے لئے ذخیرہ کردیا جانا۔
ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندے کی دعا ہمیشہ شرفِ قبولیت سے نوازی جاتی ہے، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلدی نہ کرے ۔ عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! جلدی کرنے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ کہ وہ کہے میں نے تو بہت دعا کی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوگی، پھر وہ مایوس ہو کر دعا ترک ہی کردے۔‘‘ (صحیح مسلم)
ذرا سوچئے! اللہ تعالیٰ کا کلام ہو اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی دعا ہو تو بھلا وہ کیونکر قبول نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںاپنے محبوب بندوں - انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام - کی مقبول دعائیں ذکر کرکے گویا ہمیں خود مانگنے کے گُر سکھائے ہیں، یقینا یہ تو عطا کرنے کے بہانے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اللہ کی رحمت کیا ہوگی کہ ہمیں یہ بھی سکھادیا کہ کس طرح محبت بھرے عاجزانہ الفاظ و کیفیات میں اپنے رب کے سامنے دستِ سوال دراز کرو، یہ سب یقینا اس لئے ہے کہ وہ اپنے بندوں کو نوازنا چاہتا ہے۔ جس وقت ہم دعا کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناہی قوت اور طاقت ور ذات سے جوڑلیتے ہیں، جس نے اپنی قدرت سے فطرتاً ساری کائنات کی اشیا کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔ حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے الفاظ کی نقل میں در اصل وہ گوہر حاصل کرنا ہوتا ہے جو اِن برگزیدہ ہستیوں کے الفاظ میں پنہاں ہوتا ہے۔ اسی گوہر کے باعث وہی الفاظ دہرانے والے کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کر لیتی ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے کس طرح مشکلات میں اللہ تعالیٰ کو پکارا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد اور پکار کو سن کر کس طرح انہیں مشکلات سے نجات دی۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی دعائیں درحقیقت انسانوں کو سیدھا راستہ دکھانے اور مالک حقیقی کے ساتھ صحیح ربط قائم کرنے کے طریقہ کی تعلیم ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرت کو اپناتے ہوئے ہمیں بھی ان دعاؤں کو حفظ کرکے روزمرہ کی زندگی میں تلاوت اور پڑھتے رہنا چاہئے۔ اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ ہسے منقول دعاؤں پر ایک نظر ڈالی جائے اوران کی مختصر تشریح پیش کی جائے۔ حضرت آدم وحوا علیہم الصلوۃ والسلام کی طلب مغفرت ورحمت کی دعاء
’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَـنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔‘‘ (الاعراف: ۲۳)
’’اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔‘‘
تشریح: حضرت آدم اور حوّا علیہم الصلوۃ والسلام نے- جب ان سے ایک لغزش ہوگئی تھی تو- معافی چاہنے کے لیے یہ دعا مانگی تھی، جو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ہی سکھائی تھی، اور ان کلمات کی وجہ سے وہ دعا جلدی سے قبول بھی ہوگئی۔
اعترافِ قصور:
حضرت آدم وحوا علیہم الصلوۃ والسلام کوجیسے ہی تنبہ ہوا تو بے ساختہ ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو غلطی کے شدید احساس کے بعد طاری ہوتی ہے اورفوراً اپنے رب کو پکارتے ہوئے کہا کہ: اے ہمارے رب! ہم کوئی عذر پیش نہیں کرتے کہ ہم سے یہ غلطی کیوں سرزد ہوئی، ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے یہ حرکت کرکے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں کی، بلکہ اپنے نفس کا نقصان کیا۔ ہم نے غلطی کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا، اب ہم اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ ہی سے دست بستہ پوری عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہماری اس غلطی کو معاف فرما دیں۔ ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں، آپ ہم پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہ کو معاف فرمادیں، اس لیے کہ آپ نے اگر ہمیں معاف نہ فرمایا تو پھر ہماری نامرادی اور خسارے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی۔
حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے رویے میں امتیازی فرق:
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ گناہ شیطان سے بھی ہوا، جب اس نے سجدہ کرنے سے انکارکیا، لیکن اس نے بجائے عجز و اعتراف کے انکار و بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور ہمیشہ کے لئے راندۂ درگاہ ہوگیا۔ اور لغزش حضرت آدم و حوا علیہم السلام سے بھی ہوئی، لیکن وہ فوراً اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ جھک گئے۔ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کا طرزوانداز ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم اپنے اندر کبھی بغاوت وسرکشی کی جرأت پیدا نہ ہونے دیں، یہ ابلیس کا رویہ ہے۔ خدانخواستہ اگر کبھی کوئی غلطی ہوجائے یا معصیت کے راستے پر چل پڑیں تو تنبہ ہوجانے کے بعد فوراً توبہ کا راستہ اختیار کریں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے کے لئے یہ الفاظ نہایت مناسب ہیں اور ان کے ذریعے توبہ قبول ہونے کی زیادہ امید ہے، کیونکہ یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ ہی کے سکھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک طرف شیطان کو مہلت دے کر اسے انسان کو بہکانے کی صلاحیت دی ہے جو اپنے اثر کے اعتبار سے انسان کے لیے زہر جیسی تھی تو دوسری طرف علاج کے طور پر انسان کو توبہ اور استغفار کا تریاق بھی عطا فرمادیا کہ اگر شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ کبھی کوئی گناہ کر گزرے تو اُسے فوراً توبہ کرنی چاہئے. جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہو، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، اس طرح شیطان کا چڑھایا ہوا زہر اترجائے گا۔ (آسان ترجمہ قرآن)
جو شخص بھی اس آیت کو ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھ کر مغفرت کی دعا مانگے تو ان شاء اللہ تعالیٰ! اس کے گناہ معاف کردیے جائیںگے، کیونکہ یہ دعا حضرت آدم علیہ السلام کی ہے اور مقبول بھی ہوچکی ہے۔ (حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) حضرت نوح علیہ السلام کی دُعائیں سواری پر سوار ہوتے وقت کی دعا:
’’بِسْمِ اللّٰہِ مَجْــرٖیہَا وَمُرْسٰیہَا إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘ (ھود: ۴۱)
ترجمہ: ’’اس کا چلنا بھی اللہ کے نام سے ہے اور لنگر ڈالنا بھی۔‘‘
تشریح: طوفان کے وقت حضرت نوح علیہ السلام نے ایمان والوں کو اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہونے کا حکم دیا اور سوار ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھی، چنانچہ آپ کی کشتی جودی پہاڑ کی چوٹی پر لنگر انداز ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ دعا میری امت کے لیے غرق ہونے سے اَمان کا موجب ہے۔ (تفسیر قرطبی) معنی یہ ہیں کہ اس کشتی اور سواری کا چلنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور اس کے نام سے ہے اور رُکنا اور ٹھہرنا بھی اسی کی قدرت کے تابع ہے،اگر انسان ذرا بھی عقل سے کام لے تو اس کو سائنس کی اعجوبہ کاری اور عروج کے اس زمانہ میں بھی اپنی بے بسی اور عاجزی ہی کا مشاہدہ ہوگا، اور اس اقرار کے بغیر نہ رہ سکے گا کہ ہر سواری کا چلنا اور رُکنا سب خالق کائنات حق تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے۔ دیکھنے میں تو یہ ایک دو لفظی فقرہ ہے، مگر غور کیجئے تو یہ کلید اور کنجی ہے‘ ایک ایسے دروازہ کی جہاں سے انسان اس مادی دنیا میں رہتے ہوئے روحانی عالم کا باشندہ بن جاتا ہے، اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں جمالِ حق تعالیٰ کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے،یہیں سے مومن کی دنیا اور کافر کی دنیا میں فرق نمایاں ہوجاتا ہے، سواری پر دونوں سوار ہوتے ہیں، لیکن مومن کا قدم جو سواری پر آتا ہے وہ اس کو صرف زمین کی مسافت قطع نہیں کرواتا، بلکہ عالم بالا سے بھی روشناس کردیتا ہے۔ (معارف القرآن) لا علمی کی حالت میں سوال سے بچنے کی دعائے مغفرت ورحمت ’’رَبِّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۔‘‘ (ہود: ۴۷)
’’میرے پروردگار!میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ آپ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں، اور اگر آپ نے میری مغفرت نہ فرمائی اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوجاؤں گا جو برباد ہوگئے ہیں۔‘‘
تشریح: حضرت نوح علیہ السلام کو اپنے بیٹے کے کفر کا پورا حال معلوم نہ تھا، اس کے نفاق کی وجہ سے وہ اس کو مسلمان ہی جانتے تھے، اسی لیے اس کو اپنے اہل کا ایک فرد سمجھ کر طوفان سے بچانے کی دعا کر بیٹھے، ورنہ اگر ان کو حقیقت حال معلوم ہوتی تو ایسی دعا نہ کرتے۔ اصل حقیقت معلوم ہوجانے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے سوال پر اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ انداز میں استغفار اورطلب رحمت کی درخواست کی۔ سلسلۂ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول کی گئی، اللہ نے اس دعا کے نتیجے میں بطور قبولیت نزولِ برکت اور سلامتی کی بشارت دی، تاکہ ان کو تسلی ہوجائے۔ اس سے ایک مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ دعا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دعا کرنے والا پہلے یہ معلوم کرلے کہ جس کام کی دعا کر رہا ہے، وہ جائز و حلال ہے یا نہیں؟ مشتبہ حالت میں دعا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ تفسیر روح المعانی میں بحوالہ قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ جب اس آیت سے مشتبہ الحال کے لئے دعا کرنے کی ممانعت معلوم ہوئی تو جس معاملہ کا ناجائز و حرام ہونا معلوم ہو، اس کے لیے دعا کا ناجائز ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا۔ اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان سے اگر کوئی خطا سرزد ہوجائے تو آئندہ اس سے بچنے کے لیے تنہا اپنے عزم و ارادہ پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے پناہ اور یہ دعا مانگے کہ یا اللہ! آپ ہی مجھے خطاؤں اور گناہوں سے بچا سکتے ہیں۔ آج کل کے مشائخ میں جو یہ عام رواج ہوگیا ہے کہ جو شخص کسی دعا کے لیے آیا اس کے واسطے ہاتھ اٹھا دیئے اور دعا کردی ،حالانکہ اکثر اُن کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس مقدمہ کے لئے یہ دعا کروارہا ہے اس میں یہ خود ناحق پر ہے یا ظالم ہے، یا کسی ایسے مقصد کے لیے دعا کرا رہا ہے جو اس کے لئے حلال نہیں، کوئی ایسی ملازمت اور منصب ہے جس میں یہ حرام میں مبتلا ہوگا ، یا کسی کی حق تلفی کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے گا، ایسی دعائیں حالت معلوم ہونے کی صورت میں تو حرام و ناجائز ہیں ہی، اگر اشتباہ کی حالت بھی ہو تو حقیقتِ حال اور معاملہ کے جائز ہونے کا علم حاصل کیے بغیر دعا کے لیے اقدام کرنا بھی مناسب نہیں۔ (معارف القرآن) حقیقت بیانی پرجھٹلائے جانے کی صورت میں نصرتِ الٰہی کی دعا
’’رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ۔‘‘ (المومنون:۲۶)
ترجمہ: ’’یا رب!ان لوگوں نے مجھے جس طرح جھوٹا بنایا ہے، اس پر تو ہی میری مدد فرما۔‘‘
تشریح: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے آپ کی نبوت ورسالت کو تسلیم کرنے کے بجائے آپ کو اور آپ کی دعوتِ توحید کو جھٹلایا تواس وقت حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے مدداور نصرت کی دعا مانگی،حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کشتی بنانے کا حکم دیا اور اس کے ذریعہ طوفان سے نجات عطا فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی سچا ہو اور لوگ اُسے جھٹلا رہے ہوں یا جھوٹا سمجھ رہے ہوں تو اُسے یہ دعاء کثرت سے مانگنی چاہئے ۔ فتح ، فیصلہ طلبی اور دشمنوں سے نجات کی دعا:
’’رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔‘‘ (الشعراء: ۱۱۷، ۱۱۸)
ترجمہ: ’’میرے پروردگار! میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے، اب آپ میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیجیے، اور مجھے اور میرے مومن ساتھیوں کو بچالیجیے۔‘‘
تشریح: حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے، مگر انہوں نے آپ کی بات نہ مانی،آپ کو جھٹلاتے رہے، حتیٰ کہ قوم والوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں، ساڑھے نو سو برس سختیاں جھیل کر بھی قوم والے راہ راست پر نہ آئے توحضرت نوح علیہ السلام نے خدا سے فریاد کی کہ اب ان بدبختوں کے مقابلہ میں میری مدد فرمایئے، کیونکہ بظاہر یہ لوگ میری تکذیب سے باز آنے والے نہیں ،چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے قوم کو طوفان سے ہلاک کرنے کا فیصلہ فرمایا اور مومنوں کے بچاؤ کی تدبیر ارشاد فرمائی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی مذکورہ دونوں دعاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو حق پر ہونے کے باوجود جب جھٹلایا گیا تو وہ مایوس نہیں ہوئے، بلکہ تکذیب کے باوجود اللہ کے حضور مدد اور نصرت کی دعائیں مانگتے رہے، نیز جب انسان سچا ہو اور صراطِ مستقیم پر ہو اور لوگ اُسے جھٹلارہے ہوں، تو اُسے گھبرانا نہیں چاہئے. انجام کار اللہ کی مدد اور نصرت ان شآءاللہ! شاملِ حال ہوگی۔ سفر، سواری اور نئے شہر میں حفاظت وبرکت کے لئے دعا
’’رَبِّ أَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا وَّأَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ۔‘‘ (المومنون: ۲۹)
ترجمہ: ’’رب !مجھے ایسا اترنا نصیب کر جو برکت والا ہو، اور تو بہترین اُتارنے والا ہے۔‘‘
تشریح: حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی کہ جب کشتی میں سوار ہوجائیں تو پہلے ظالموں سے نجات ملنے پر اللہ کاشکر ان الفاظ سے ادا کریں:
’’الْـحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ نَجّٰانَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔‘‘ (المومنون: ۲۸)
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی۔‘‘ پھر حضرت نوح علیہ السلام کو حکم ہوا یہ دعا پڑھیں:
’’رَبِّ أَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا وَّأَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ۔‘‘ (المومنون: ۲۹)
یعنی کشتی میں اچھی آرام کی جگہ دے اور کشتی سے جہاں اتارے جائیں، وہاں بھی کوئی تکلیف نہ ہو، ہر طرح اور ہر جگہ تیری رحمت و برکت شامل حال رہے۔ (تفسیر عثمانی) حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (تفسیر قرطبی) اس کو پڑھنے سے سواری تمام آفات سے محفوظ رہتی ہے اور نیز گھر میں پڑھنے سے چور، دشمن اور جن وغیرہ سے حفاظت رہتی ہے، جب کسی شہر میں داخل ہونے لگے تو اس آیت کو پڑھ لے، ان شاء اللہ تعالیٰ! وہاں خیر خوبی سے بسر ہوگی۔ (حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) غلبہ ونصرت کے حصول کی دعا:
’’فَدَعَا رَبَّہٗ أَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔‘‘ (القمر:۱۰)
ترجمہ: ’’اس پر انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ میں بے بس ہوچکا ہوں، اب آپ ہی بدلہ لیجئے۔‘‘
تشریح: حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے جب ان کی تکذیب میں حد کردی اور جھوٹا اور مجنون کہا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے یہ دعا کی کہ:
’’أَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ‘‘ (القمر:۱۰)
’’میں بے بس ہوچکا ہوں، اب آپ ہی بدلہ لیجیے۔‘‘ چنانچہ اس دعا کی برکت سے حضرت نوح علیہ السلام اور ایمان والوں کو ان پر غلبہ نصیب ہوا،اور وہ لوگ طوفان میں غرق ہوکر تباہ وبرباد ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو بھی ایسے سنگین حالات سے گزرنا پڑا ہے کہ وہ خود کو مغلوب محسوس کرتے رہے ہیں، لیکن اس سے نہ ان کی استقامت میں کوئی فرق آیا اور نہ ان کے حوصلے پست ہوئے، بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس سے نصرت کی دعا کی، اس دعامیں ان مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا سامان ہے جوحق پر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مغلوب پا رہے ہوں، بہرحال مغلوب ہونے کی حالت میں اس دعا کو کثرت سے مانگنا چاہیے۔ اپنی اور اپنے والدین نیز تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت کی دعا
’’رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنٰتِ۔‘‘ (نوح: ۲۸)
’’میرے پروردگار! میری بھی بخشش فرمادیجیے، میرے والدین کی بھی، اور ہر اس شخص کی بھی جو میرے گھر میں ایمان کی حالت میں داخل ہوا ہے اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کی بھی۔‘‘
تشریح: یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا ہے، جو انہوں نے اپنے، اپنے والدین اور تمام مومنین ومومنات کے لیے مانگی تھی، سب سے پہلے اپنے لیے دعا کی، تاکہ یہ ظاہر ہو کہ انسان سب سے زیادہ خود اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا محتاج ہے، پھر اپنے والدین کے لیے دعا کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعد انسان پر سب سے زیادہ احسان اس کے والدین کا ہے، والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا، ان کے ساتھ احسان کرنا ہے، اسلام کی یہی تعلیم ہے، اس کے بعد تمام مومنین کے لئے دعا کی، حضرت نوح علیہ السلام نے اس صراحت کے ساتھ دعا کی کہ جو شخص بھی میرے گھر میں مومن بن کر داخل ہوا اُس کی مغفرت فرما، ساتھ ہی انہوں نے عمومیت کے ساتھ تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی دعائے مغفرت کی۔ گویا دعا مانگنے کا طریقہ بھی سکھا دیا کہ مغفرت کی دعا کن الفاظ سے مانگی جائے، اور یہ بھی بتادیا کہ دعا میں خود غرضی یعنی صرف اپنی ذات کے لیے دعا نہ ہو، بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے والدین اور پوری امت کے لیے بھی اللہ سے دعا کی جائے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/10/blog-post_59.html
No comments:
Post a Comment