Wednesday 22 May 2019

علماء سے بغض رکھنے پر چار قسم کے عذاب؟

علماء سے بغض رکھنے پر چار قسم کے عذاب؟
کیا یہ درست ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا علماء سے بغض رکھنے پر چار قسم کے عذاب؟ 1. قحط سالی ہوجائے گی 2. بادشاہوں کی طرف سے مظالم ہونے لگیں گے 3. حکام خیانت کرنے لگیں گے 4. دشمنوں کے پے در پے حملے ہونگے
کیا یہ صحیح ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
یہ روایت مستدرکم حاکم میں بایں الفاظ موجود ہے۔ 
إذا أبغضَ المسلِمونَ علماء َہُم، وأظہَروا عمارۃَ أسواقِہِم، وتناکَحوا علَی جمعِ الدَّراہمِ، رماہمُ اﷲُ عزَّ وجلَّ بأربعِ خصالٍ: بالقَحطِ منَ الزَّمانِ والجَورِ منَ السُّلطانِ والخیانَۃِ مِن ولاۃِ الأحکامِ، والصَّولۃِ من العدوِّ (مستدرک حاکم : 7923)
اسے شیخ البانی نے منکر کہا ہے۔ (السلسلۃ الضعیفۃ: 1528)
"علماء سے بغض رکھنے پر چار قسم کے عذاب" حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند اور غالب کرنے لگے گی تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر چار قسم کے عذاب مسلط فرمادیں گے۔
① قحط سالی ہوگی
② حاکم وقت کی طرف سے مظالم ہوں گے
③ حکام خیانت کرنے لگیں گے
④ دشمنوں کے پے درپے حملے ہوں گے۔ (فتاوی رحیمیہ 2/82-83، کتاب الایمان، معاصی اور توبہ کا بیان)
----------------------------------------------
علماءِ دین کو برا بھلا کہنے والوں کا حکم کچھ احمق علماء کے خلاف باتیں کرتے ہیں، ان کے بارے کیا رائے ہے؟ الجواب وباللہ التوفیق: علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتے ہیں، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائے، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین یا حافظِ قرآن کی اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے، اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قرار دیا گیا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہے تو یہ گناہ گار ہے۔ حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ لسان الحكام (ص: 415): "وفي النصاب: من أبغض عالماً بغير سبب ظاهر خيف عليه الكفر. وفي نسخة الخسرواني: رجل يجلس على مكان مرتفع ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، وهم يضربونه بالوسائد ويضحكون يكفرون جميعاً". البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134): "ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده". مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695): "وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً". فقط واللہ اعلم فتوی نمبر: 143909200566 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
---------------------------------------------------------------------------------
سوال: ایک شخص علماء دین کو لوطی کہتا ہے، اور کہتا ہے کہ دین فروشی ان کا پیشہ ہے اور علم دین پڑھا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، علمائے دین بدمعاش ہیں، مدارس عربیہ گمراہی کے اڈے ہیں اور مسجدوں کو اصطبل خانہ قرار دے اور مزید لغویات و بیہودہ باتوں کا کہنا اس وقت مذکورہ شخص کا پیشہ بن گیا ہے اور موصوف عاقل، بالغ و ذی فہم آدمی ہے۔ اب شرعا اس شخص کا کیا حکم ہے؟ جواب: مذکورہ کلمات سخت گستاخانہ ہیں اور تحقیق کے بغیر علماء کی پوری جماعت کو اس قسم کے قبیح و شنیع کلمات کہنا نہ صرف بدتریں فسق اور گمراہی ہے بلکہ ان کلمات کے کفریہ ہونے کا اندیشہ ہے (۱)۔ مذکورہ شخص پر واجب ہے کہ فورا ان کلمات سے صدق دل کے ساتھ علانیہ توبہ کرے بلکہ اسے احتیاطاً تجدید ایمان اور تجدید نکاح بھی کر لینی چاہئے اور جب تک وہ اپنے اس عمل سے توبہ نہ کرلے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہ رکھیں (۲)۔ واللہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ ۲۳-۳-۱۴۰۰ھ (۱) وفی خلاصۃ الفتاوی ج۴ ص۳۸۸ (مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ) (الفاظ الکفر) من ابغض عالما بغیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر، وراجع ایضاً شرح الفقہ الاکبر لملا علی القاری ص۴۷۰ (طبع دار الاشاعت الاسلامیہ بیروت)۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
علماء کرام کی توہین سوء خاتمہ کا سبب ہے
دین اسلام ابدی اورلازوال دین ہے جو قیامت تک باقی رہنے والاہے، اس دین کو باقی رکھنے کے لئے اللہ نے جہاں کتاب کو نازل کیا وہیں کتاب کی تفہیم وتشریح کےلئے افراد و اشخاص کو بھی پیدا کیا ہے، جو کتاب اور اس کے احکام کی مکمل حفاظت کرتے ہیں اور اس کے مسائل سے انسانوں کو واقف کرواتے ہیں، زمانے کے حالات کے تناظر میں اس میں غور فکر کرکے مسائل مستنبط کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد دین وایمان کی یہ ذمہ داری ایسے افراد کے ہاتھ آئی جنہیں حدیث میں روشنی میں ''علماء'' کہا جاتا ہے، یہ وہ پاک طینت افراد ہیں جنہوں نے جہد مسلسل اور عمل پیہم کے ذریعہ دین کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا، دین اسلام پر وارد ہونے والے ہر اعتراض کا قرآن و حدیث کی روشنی میں دفاع کیا، اس کے لئے ہر طرح کی قربانی انہوں نے پیش کی اور کبھی بھی دین کی حفاظت و اشاعت سے غفلت و سستی نہیں برتی، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں علماء کرام کی خوب ستائش کی گئی اور ان کے مقام ومرتبہ کو بتلایا گیا، اور انہیں عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا گیا، اور ان کی اہمیت وفضیلت کو اجاگر کیا گیا، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا:
''قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ''
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ (ان سے پوچھئے کہ) کیا عالم وجاہل دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (الزمر :۹)
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا کہ:
''يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ''
اللہ تعالی (دنیا وآخرت میں) بلند درجات عطا فرمائےگا ان مؤمنین کو جو اطاعت گذار ہیں اور اہل علم یعنی علماء کو (المجادلۃ ۱۱)
بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے علماء ہی کو بتلایا گیا (الفاطر۱۶) کسی چیز کی جانکاری کے لئے انہیں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا (النحل ۴۳)
احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں علماء کی فضیلت کو بیان کیا ہے، اور ان کی ناقدری کرنے والوں ، ان کی توہین کرنےوالوں اور ان سے بغض رکھنے والوں کے بارے میں بڑی سخت وعیدیں ذکر کی ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تم میں کے ادنی پر، پھر فرمایا: اللہ تعالی اس کے فرشتے، آسمان و زمین والے حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں عالم کے لئے خیر اور بھلائی کی دعاکرتی ہیں (ترمذی حدیث نمبر۲۶۸۵) ایک حدیث میں فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے، اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی) پورا پورا حصہ لیا (ابو داؤد، باب الحث علی طلب العلم، حدیث نمبر۳۶۴۱) صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: جس شخص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ خیر اور بھلائی کا معاملہ فرمانا چاہتے ہیں اس کو دین کی سمجھ اور علم عطا فرماتے ہیں. ان تمام روایات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علماء کا کس قدر خیال رکھ رہے ہیں، اور ان کی قدر دانی کرنے کی کتنی تاکید فرمارہے ہیں ۔
موجودہ معاشرہ میں علماء کی تعظیم و تو قیر، عزت و احترام میں بہت حد تک کمی پائی جاتی ہے، اورمنظم سازش کے ذریعہ علمائے امت پر سے اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے. دشمنانِ اسلام طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ کو پہنچے ہیں کہ مسلمانوں میں فکری الحاد پھیلانا ہو اور ان کو اپنے لحاظ سے مفلوج اور ناکارہ کرنا ہوتو ان کا رشتہ علماء سے توڑنا ضروری ہے، کیونکہ جب تک ان کا رشتہ علماء سے جڑا رہے گا اس وقت تک ان کے اندر دینی حمیت اور ایمانی جوش منتقل ہوتا رہے گا، اس لیے اب ان کی پوری توجہ اس بات پر ہے کہ عام مسلمان علما سے بدظن ہوجائیں اور ان سے اپنا ناطہ توڑلیں، اس کے لئے علماء کو بدنام کرنے کے لئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور ان کی حیثیت کو کم کرنے کے لئے سازشیں رچی جارہی ہیں، اور عام مسلمانوں کو ان سے بدظن کیا جارہا ہے، جس کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں میں علماء کی عزت وتوقیر کا فقدان ہے، چند دینی معلومات کی بنیاد پر علماء سے بحثیں کرنا روز کا معمول بن چکا ہے ، ان کی شان میں توہین آمیز کلمات کہنا بعض کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، علماء کی توہین کرنے اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے اور اذیت و تکلیف پہنچانے والوں کے بارے میں رسول اللہ علیہ وسلم نے بڑی سخت وعیدیں ذکر کی ہے ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے علماء کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارا اور اس کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے (مستدرک حاکم حدیث نمبر۴۲۱) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق ہی تکلیف دے سکتا ہے:
(۱) وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا،
(۲) عالم دین
(۳) عادل بادشاہ (الترغیب و الترہیب ۱؍۱۱۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی فقیہ (عالم) کو تکلیف پہنچائی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالی کو تکلیف پہنچائی (بخاری ، حدیث نمبر۶۰۴۴) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
''تم عالم بنو، یا طالب علم بنو، یا علم سننے والے بنو، یا ان سے محبت رکھنے والے بنو، پانچویں قسم میں ہرگز داخل نہ ہو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور پانچویں قسم یہ ہے کہ تو علم اور علماء سے بغض رکھے (مجمع الزوائد حدیث نمبر۴۹۵)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرتے ہیں،
(۱) قحط سالی
(۲) بادشاہ کی جانب سے مظالم
(۳) حکام کی خیانت
(۴) دشمنوں کے مسلسل حملے (مستدر حاکم ۴؍۳۶۱)
نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایاعالم زمین پر اللہ کی حجت ہے ، پس جس نے عالم کی عیب جوئی کی وہ ہلاک ہو گیا (کنزالعمال۱۰؍۵۹)
ان روایات کی روشنی میں آج کے معاشرہ کا جائزہ لیں کہ آج لوگوں نے کس جرأت کے ساتھ علماء کی توہین اور ان پر بے جا تنقید کرنے کو اپنے شیوہ بنالیا ہے جب کہ انہیں خود اپنے اعمال وکردار کی فکرنہیں ۔
فقہاء نے لکھا ہےکہ جو شخص علماء کی توہین کرتا ہے یا انہیں تکلیف دیتا ہے اس پر کفر یا سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ''
علم اور علماء کی توہین کفر ہے (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ ۱۶۰ )
علامہ شعرانی رحمة اللہ علیہ 'طبقات کبری' میں لکھتے ہیں کہ امام ابو تراب بخشی رحمة اللہ علیہ جو مشائخ صوفیہ میں ہیں فرماتے ہیں کہ "جو شخص اللہ تعالی سے نامانوس ہوجاتا ہے تو وہ اہل اللہ پر اعتراض کرنے کا خوگر (عادی) ہوجاتا ہے(طبقات کبری) نیز ملک کی مایہ ناز باوقار قدیم دینی درسگاہ ازہرالہند دارالعلوم دیوبند نے ایک فتوی کے جواب میں لکھا ہےکہ شریعت میں علماء کا مقام نہایت بلند وبرتر ہے عوام پر ان کی تعظیم ضروری ہے، علماء کو برا بھلا کہنا ان کو گالیاں دینا، ان کی توہین کرنا جائز نہیں بلکہ بسا اوقات اس سے سلب ایمان کا بھی خطرہ ہے، علماء نے صراحت کی ہے اگر عالم کی اہانت بمقابلہ امر دین وحکم شرع کے ہوتو اس سے آدمی کافر ہو جاتا ہے،ایسے شخص کو چاہئے کہ صدق دل سے توبہ واستغفار کرے اور تجدید ایمان کرلے (فتاوی دارالعلوم) نیز فتاوی عالمگیری میں ہے: جو شخص کسی عالم سے بغیر کسی ظاہری سبب کے بغض رکھے اس پر کفر کا اندیشہ ہے (فتاوی عالمگیری) اس لئے بزرگوں نے کہا ہےکہ مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے وارث ہیں، ان کی تضحیک ان کے منصب کی تضحیک ہے اور ان کے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے، ان کے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور امت کی بہتری کی ذمہ داری کی وجہ سے مسلمانوں پر ان کا احترام فرض ہے۔ علماء نے لکھا ہےکہ گمراہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے، مولانا عبد الحی رحمة اللہ علیہ اپنے فتوی میں لکھتے ہیں: اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں، بریلوی مسلک کے سرخیل حضرت مولانا احمد رضاخان صاحب فاضل ِبریلوی (رحمة اللہ علیہ) اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ علمائے دین کی توہین کرنا سخت حرام، سخت گناہ، اشد کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے، اس کی تحقیروتوہین معاذ اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی وعذابِ الیم ہے (فتاوی رضویہ ج ۲۳ ص ۶۴۹) نیز جو لوگ اپنے بڑوں اور بزرگوں کی جائز باتوں اور مبنی برحکمت اقوال و افعال پر تنقید برائے تنقید کرتے ہیں، ان کو دنیا میں نقد یہ سزا دی جائے گی کہ ان کی اولاد بے دین اور ملحد پیدا ہوگی (ماہنامہ بینات اکتوبر ۲۰۰۹) حضرات علماء اور محققین نے فرمایا ہے کہ جس طرح حضر ات انبیاء ا کرام علیہم السلام کی توہین وتنقیص یا ان پر بے جا تنقید پر یہ وعید ہے، ٹھیک اسی طرح وہ لوگ جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سچے وارث اور صحیح جانشین ہیں، ان کی توہین وتنقیص یا ان کی گستاخی اور بے ادبی کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے: "من عادیٰ لی ولیاً فقد آذنتہ بالحرب" جس نے میرے کسی ولی کی مخالفت اور عداوت کی، میرا اس سے اعلانِ جنگ ہے (مشکوٰة، ص: ۱۹۷) آج کل علماء کرام کی جو ناقدری، ان کے ساتھ بے ادبی وگستاخی اور انہیں برا بھلا کہنے کا جو رواج بنتا جارہا ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، غیر تو غیر اپنوں نے بھی علماء کو تنقید کا نشانہ بنالیا ہے، جس کسی مجلس میں بیٹھیں گے جب تک کسی عالم کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نہ نکالیں گے انہیں چین و سکون میسر نہیں آتا، جبکہ اسلام نے اختلاف رائے رکھنے کے بارے میں اصول و ضوابط بتائے ہیں حدود قیود متعین کئے ہیں، شائستگی اور سنجیدگی سے اختلاف کرنےکا طریقہ سکھلایا ہے، بے ادبی، سطحیت، تذلیل، حقارت اور توہین کو کسی صورت جائزقرار نہیں دیا ہے، کسی بھی ناگہانی بات پر گفت وشنید کا موقع فراہم کیا ہے، احسن طریقہ پر بحث ومباحثہ کی حکم دیا ہے، اس کی بجائے توہین آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے تحقیر وتذلیل کرنا انتہائی بداخلاقی ہے، ان باتوں سے اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی البتہ اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے۔ علماء پر بہتان لگانا اور سنی سنائی باتوں کو ان کی طرف منسوب کرنا اور ہر محفل میں زبان درازی کر کے اپنی علمی شان اور رفعت ِ مکانی ظاہر کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں، ایسے لوگ پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور علماء پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ہمارے پاس کیا اعمال ہیں ، جنہیں دربارِ الہی میں پیش کرسکیں گے۔
مولانا محمد غیاث الدین حسامی
(تدوین: ایس اے ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2019/05/blog-post_22.html


No comments:

Post a Comment