Wednesday 6 July 2016

چاند رات کی قدر کیجئے

ایس اے ساگر

احادیث ِ مبارکہ میں یکم شوال عرف چاند رات کو ”لیلة الجائزہ“ یعنی انعام کی رات کا نام دیا گیا ہے، اس کی تفصیل میں اہل علم حضرات فرماتے ہیں کہ چوں کہ اس رات میں حق تعالی شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کو انعام دیا جاتا ہے، اس لیے اس رات کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے،پورا مہینہ اللہ کے بندے اللہ کو راضی کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، ایک عجیب تبدیلی کااحساس ہر بندہ محسوس کرتا ہے، عبادات میں ترقی ہو جاتی ہے۔ نماز ، تلاوت کلام ِپاک، ذکر و اذکار، رب عز وجل سے مناجات ،الغرض ہر ایک بندہ اپنے رب کی بندگی میں آگے سے آگے بڑھنے کی تگ و دو میں لگا ہوتا ہے، یہ تو عام لوگوں کا حال ہوتاہے، خواص کا تو پوچھنا ہی کیا، ان کے ہاں تو رمضان المبارک کا مہینہ ایک الگ ہی منظر پیش کررہا ہوتا ہے، دنیاوی معاملات و مصروفیات کو تو گویا بالکلیہ ہی خیر باد کہہ دیا جاتا ہے اور دن، رات رب عزوجل کے تعلق وخوش نودی کے حصول کے لیے کوششوں میں ایک کر دیے جاتے ہیں۔
ایسے میں جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو پھر پہلی رات سے ہی پورے ماہ کی محنت کے بدلے ملنے والے انعامات کا اعلان شروع ہو جاتا ہے، مذکورہ تفصیل کے بعد جب اپنے اوپر اور اردگرد کے ماحول میں نظر ڈالتے ہیں تو پھر عام لوگ تو درکنار کچھ خواص قسم کے افراد بھی رمَضان کے تھکے ہارے اس رات بے فکر میٹھی نیند سوتے نظر پڑتے ہیں، حالانکہ یہ رات بھی بہت زیادہ خصوصیت کی حامل ہے۔
عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں وارد ہونے والی کئی روایات سند کے اعتبار سے اگرچہ کچھ کمزور ہیں، لیکن ایک تو فضائل کے معاملہ میں ضعیف روایات قابلِ قبول ہوتی ہیں (بشرطیکہ ضعف شدید نہ ہو) دوسرے ان روایات کے مختلف سندوں کے ساتھ مروی ہونے کی وجہ سے ضعف کسی درجہ میں دور بھی ہو جاتا ہے ، لہٰذا اس موقعہ پر روایات کی سندوں کے ضعف کو بنیاد بنا کر عیدین کی راتوں کی فضیلت کا یکسر انکار کر دینا جمہور کے موٴقف کے خلاف ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اور بعض دیگر محدثین نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
چناں چہ امام نووی رحمہ اللہ” شرح مسلم “میں لکھتے ہیں:
”اتفقوا علی استحباب إحیاء لیلتي العیدین وغیر ذلک“․
(شرح النووي علی صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف، باب الاجتھاد في العشر الأواخر من شھر رمَضان:1/372، قدیمي)
اور اسی طرح اپنی کتاب”الأذکار“ میں لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ ینبغي لمن بلغہ شيء في فضائل الأعمال أن یعمل بہ، ولو مرة واحدة، لیکون من أھلہ، ولا ینبغي لہ أن یترکہ مطلقاً، بل یأتي بما تیسر منہ، لقول النبي صلی الله علیہ وسلم فيالحدیث المتفق علی صحتہ ((إذا أمرتکم بشيء فأتوا منہ ما استطعتم)) ․(الأذکار للنووي، المشروعة في العیدین، ص:8، دارالبیان، دِمَشق)․
نیزایک اور جگہ لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ یستحب إحیاء لیلتي العیدین بذکر اللہ تعالیٰ والصلاة و غیرھما من الطاعات، للحدیث الوارد في ذلک: ((من أحیا لیلتي العید لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب))․․․․․․وہو حدیث ضعیف رویناہ من روایة أبي أمامة مرفوعاً وموقوفاً، وکلاھما ضعیف، لکن أحادیث الفضائل یتسامح فیھا کما قدمناہ في أول الکتاب، واختلف العلماء فيالقدر الذي یحصل بہ الإحیاء، فالأظھر أنہ لایحصل إلا بمعظم اللیل وقیل یحصل بساعة“․ (الأذکار للنووي،المشروعة في العیدین،ص:224، دارالبیان، دِمَشق)․
چناں چہ بہت سی کتب ِاحادیث مثلاً:ابن ماجہ، الترغیب والترہیب، شعب الإیمان للبیہقی،الجامع الصغیر، کنزالعمال، مصنف عبد الرزاق، سنن الکبری للبیہقی وغیرہ میں مذکور ہے :
”من قام لیلتي العیدین محتسباً لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب“․
(السنن الکبری للبیہقي، باب عبادة لیلة العیدین، رقم :6518، 3/319، مجلس دائرة المعارف)․
ترجمہ:جس شخص نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں کو ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے زندہ رکھا (عبادت میں مشغول اور گناہ سے بچا رہا) تو اس کا دل اس (قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک ) دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل (خوف وہراس اور دہشت و گھبراہٹ کی وجہ سے) مردہ ہو جائیں گے۔
اتنی بڑی فضیلت اوراس سے ہماری غفلت! ! ڈر ہے کہ کہیں ہماری اس ناشکری کا وبال ہمیں اس منعم کے عتاب میں ہی نہ مبتلا کر دے۔

No comments:

Post a Comment