Monday 18 July 2016

اذان میں انگوٹھے چومنا

اذان میں انگوٹھے چومنے کے سلسلہ میں فتوی کسی صاحب کہ موجود ہو تو ارسال فرمائیں.
الجواب :
الحمد لله
أولا :
لا بد لنا أن نعرف أن السنن لا تثبت بمجرد الحكاية ، فليس كل ما نقرؤه في كتاب أو نسمعه من خطيب يكون ثابتا في دين الله حتى يتبين لنا بشهادة أهل الاختصاص من العلماء المشهود لهم بالإمامة في الدين والمعرفة التامة بحديث خاتم المرسلين صلى الله عليه وسلم أن ذلك ثابت عنه صلى الله عليه وسلم صحيح السند إليه .
أما شيء ينص أهل العلم على بطلانه أو كونه لا أصل له أو على عدم ثبوته ، وخاصة بالنسبة لما تتوافر الهمم والدواعي على نقله عادة ، فلا يمكن إثبات أنه سنة بمثل هذا .
وقد تقدم في جواب السؤال رقم (140158) أن ما ينفرد به الديلمي فهو ضعيف غير ثابت .
ثانيا :
بخصوص ما ذكر هنا : فليس إسماعيل حقي من أهل العلم بالحديث حتى نقر له بما يذكره ونحتج به ، وخاصة فيما يخالف فيه أهل العلم .
وإسماعيل حقي رحمه الله من أصحاب الطريقة الخلوتية الصوفية ، يورد في تفسيره كثيرا من الأحاديث الموضوعة والأخبار المصنوعة والإسرائيليات لأنه ليس من أهل الشأن ، فلا يعول على ما يذكره من ذلك ، شأنه في ذلك شأن الصوفية الذين لا عهد لهم بالحديث وعلومه .
وما ذكره العجلوني عن القاري من قوله : " إذا ثبت رفعه إلى الصديق فيكفي العمل به "
صحيح ، لكنه لا أصل له عن الصديق رضي الله عنه ، فلا تجوز نسبته إليه ولا العمل به .
والعجلوني رحمه الله ذكر ما ذُكر في هذه المسألة ، وضعفه كله .
وأما ما ذكره ابن عابدين في حاشيته فهو إنما ذكره معتمدا على رواية الديلمي ، وقد تقدم أن ما ينفرد به لا يحتج به ، مع ما يأتي ، ثم إن ابن عابدين قال بعد ذلك : " وذكر ذلك الجراحي – يعني العجلوني - وأطال ثم قال : ولم يصح في المرفوع من كل هذا شيء " انتهى .
"حاشية ابن عابدين" (1 /398) فنقل عدم صحة شيء من ذلك ، وهو المعوّل عليه .
ثالثا :
هذه بعض النقول عن أهل العلم بشأن هذه المسألة وما روي فيها :
قال الحافظ السخاوي رحمه الله :
حديث ( مسح العينين بباطن أنملتي السبابتين بعد تقبيلهما عند سماع قول المؤذن أشهد أن محمدا رسول الله مع قوله أشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا ) :
ذكره الديلمي في " الفردوس " من حديث أبي بكر الصديق أنه لما سمع قول المؤذن : " أشهد أن محمدا رسول الله " ، قال هذا وقبل باطن الأنملتين السبابتين ومسح عينيه فقال : " من فعل مثل ما فعل خليلي فقد حلت عليه شفاعتي " : ولا يصح . "
ونقل في هذا الموضع ، بعضا من الحكايات في ذلك ، ثم قال :
" ولا يصح في المرفوع من كل هذا شيء " انتهى من"المقاصد الحسنة" (ص 604-606) .
وقال الشوكاني رحمه الله :
" حديث من قال حين يسمع أشهد أن محمدا رسول الله مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ثم يقبل إبهاميه ويجعلهما على عينيه لم يعم ولم يرمد أبدا " : قال في التذكرة : لا يصح " انتهى من "الفوائد المجموعة" (ص 20) .
وقال الشيخ بكر أبو زيد رحمه الله في كتابه "تصحيح الدعاء" (447 ) :
" النفخ على الإبهامين ومسح العينين بهما : جهالة ؛ لا أصل له " انتهى .
وقال عبد الرزاق البدر في كتابه "فقه الأدعية والأذكار" (2/195-196) :
" ومن الهيئات المحدَثة في رفع اليدين تقبيل الإبهامين ووضعُهما على العينين عند ذكر اسم النبي صلى الله عليه وسلم في الأذان أو غيره ، وقد روي في ذلك حديثٌ باطلٌ لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم ، ولفظه : " من قال حين يسمع أشهد أنَّ محمداً رسول الله: مرحباً بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ثمَّ يُقبِّل إبهامَه ويجعلهما على عينيه لَم يعمَ ولم يرمد أبداً " ، و قد نصَّ غيرُ واحدٍ من أهل العلم على أنَّ هذا الحديث باطلٌ لا يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم ، ومن خزعبلات المتصوِّفة أنَّ بعضهم ينسب ذلك لقول الخضر عليه السلام " انتهى.
والله تعالى أعلم .
انگوٹھے کے بوسہ دینے کے
سلسلے میں درج ذیل حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جو بتصریحِ محدثین اور فقہاء موضوع اوربے اصل ہیں۔
حدیث نمبر۱:
ذَكَرَهُ الدَّيْلَمِيُّ فِي الْفِرْدَوْسِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ لَمَّا سَمِعَ قول المؤذن أشهد أن محمد رَسُولُ اللَّه قَالَ هَذَا، وَقَبَّلَ بَاطِنَ الأُنْمُلَتَيْنِ السَّبَّابَتَيْنِ وَمَسَحَ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ خَلِيلِي فَقَدْ حَلَّتْ عَلَيْهِ شَفَاعَتِي(المقاصد الحسنة:1/604)
اس کے بارے میں علامہ سخاوی ؒ فرماتے ہیں :
ولا يصح
کشف الخفاء میں اس حدیث کی روایت کے بعد علامہ عجلونی ؒ فرماتے ہیں :
قال في المقاصد ولا يصح، وقال القاري وإذا ثبت رفعه إلى الصديق فيكفي العمل به لقوله عليه الصلاة والسلام عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي، وقيل لا يفعل ولا ينهي،
ملا علی قاری ؒ اس کے رفع کو ثابت نہ مانتے ہوئے بھی اسے حضرت صدیق ِ اکبر ؓ کے فعل کی بناء پر قابلِ عمل قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
وكل ما يروى في هذا فلا يصح رفعه البتة قلت وإذا ثبت رفعه على الصديق فيكفي العمل به لقوله عليه الصلاة والسلام عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين وقيل لا يفعل ولا ينهى وغرابته لا تخفى على ذوي النهى(الموضوعات الکبری:1/316)
لیکن یہ بات اس وجہ سے قابل عمل نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کی طرف اس کی نسبت ہی صحیح نہیں ہے،کیونکہ یہ حدیث اگر چہ علامہ سخاویؒ نے مسند الفردوس للدیلمی سےنقل کی ہے لیکن مسند ِفردوس میں تلاش ِ بسیار کےباوجود یہ حدیث ہمیں نہیں مل سکی،ملا علی قاری ؒ،علامہ شوکانی ؒاور علامہ طاہر پٹنی ؒ نےبھی کتبِ موضوعات میں اسے علامہ سخاوی ؒ کے حوالے سے ہی ذکر کی ہے، گویاان سب کا مأخذ علامہ سخاوی ؒ کی’’المقاصد الحسنہ‘‘ہےجنہوں نےفردوس دیلمی کے حوالے سےیہ حدیث ذکرکی ہے اور فردوس کے موجودہ نسخہ مطبوعہ (طبع عباس احمد الباز مکۃ ، اورطبع دار الكتب العلمية – بيروت)میں تلاش اور تتبع بسیا ر کے باوجود یہ حدیث ہمیں نہیں مل سکی (فلعله تصرف من النساخ أوحذف من المؤلف،وعلی کل فإنه یوجب شکا فی نسبته إلی الصدیق رضی الله عنه)اسی وجہ سے علامہ سرفراز خان صفدررحمہ اللہ نے اسے ملا علی قاری ؒ کا وہم قرار دیکر رد فرمایا ہے۔(دیکھئے راہ ِسنت:۲۴۰)
دوسری حدیث:
وكذا ما أورده أبو العباس أحمد ابن أبي بكر الرداد اليماني المتصوف في كتابه "موجبات الرحمة وعزائم المغفرة" بسند فيه مجاهيل مع انقطاعه، عن الخضر عليه السلام أنه: من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمد رسول اللَّه: مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثم يقبل إبهاميه ويجعلهما على عينيه لم يرمد أبدا(المقاصد للسخاوی، المصدر نفسه)
الفوائد المجموعة (1/20)
19 - حديث: " من قال حين يسمع أشهد أن محمدا رسول الله: مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ثم يقبل إبهاميه ويجعلهما على عينيه لم يعم ولم يرمد أبدا.قال في التذكرة: لا يصح (2)
یقول محققه :
(2) في المقاصد: أن هذا أورده بعض المتصوفة، بسند فيه مجاهيل مع انقطاعه، عن الخضر، أقول: أفمثل هذا يقتصر فيه على كلمة (لا يصح) ؟
علامہ شوکانی ؒنے یہ حدیث تذکرۃالموضوعات للفتنی کے حوالے سےنقل کرکے ان کے تبصرےپر اکتفاء کیا ہے۔
المقاصد الحسنہ کے علاو ہ موضوعات اور ضعیف احادیث کی کسی کتاب میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملا ہے۔اولا تو اسکی سند ہی منقطع بلکہ معدوم یا پھر کم ازکم مجہول ہے ،یہی وجہ ہے کہ کتاب کا محقق ’’لا یصح‘‘ کے خفیف حکم سےمتحیر ہوکر کہتےہیں:أقول:أفمثل هذا يقتصر فيه على كلمة (لا يصح)؟
ثانیااس حدیث میں خضر علیہ السلام سے اس عمل کے ذریعہ آشوب ِ چشم سے حفاظت
نقل کی گئی ہے جو اگر ثابت بھی ہوجائے تو یہ محض ایک تدبیر اور طریقہ علاج ہی کے درجے میں ہوگا، لہذا کسی شرعی حکم کے اثبات میں اس سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
تیسری حدیث:
«من قبل ظفري إبهامه عند سماع أشهد أن محمدا رسول الله في الأذان أنا قائده ومدخله في صفوف الجنة
یہ حدیث بھی علامہ شامیؒ نے مسندِ فردوس دیلمی کے حوالے سےذکر کی ہے ،لیکن تلاش اور تتبع بسیار کے باوجود بھی یہ حدیث نہ ہمیں مسند دیلمی میں ملی ہے اور نہ ہی حدیث کی کسی دوسری کتاب میں،حتی کہ موضوع اور ضعیف احادیث سےمتعلق کتابوں میں بھی کہیں اس کا تذکرہ نہیں ملا۔
(ب)اوپر ذکرکردہ تفصیل سے واضح ہوا کہ اس مسئلہ میں سرے سے کوئی صحیح حدیث منقول ہی نہیں ہے ، جو حدیثیں بعض حضرات نے نقل کی ہیں وہ موضوع ہیں جن پر کسی بھی حالت میں عمل کرنا جائز نہیں ہے، علامہ سخاوی ؒ فرماتے ہیں :
(حكم الموضوع)
وأما الموضوع فلا يجوز العمل به بحال(القول البدیع، 1/256 ،طبع دار الريان للتراث)
تا ہم اگر انہیں موضوع قرار نہ بھی دیں تو ان کے ضعیف ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں اور چونکہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کے مقبول ہونے کی تین شرائط ہیں:
(أحدها أن يكون الضعيف غير شديد الضعف، الثاني أن يندرج تحت أصل معمول به، الثالث أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته بل يعتقد الاحتياط)
جبکہ مذکورہ احادیث میں یہ شرائط نہیں پائی جاتی ہیں ، بلکہ ان کے برخلاف ہیں ،اس طرح کہ ان کا ضعف شدید ہے،نیز یہ عمل شریعت کے کسی اصل کے تحت بھی نہیں آتا ،نیز یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ثبوت کے اعتقاد کے ساتھ یہ عمل کیا جاتا ہے،اس اعتبار سے بھی مذکورہ احادیث کو معتبر اور قابل عمل نہیں قرار دیا جاسکتا.
- من صلى سنة الفجر في بيته يوسع له في رزقه وتقل المنازعة بينه وبين أهله ويختم له بالإيمان
الراوي: - المحدث: السخاوي- المصدر: الأجوبة المرضية -الصفحة أو الرقم: 3/916
خلاصة حكم المحدث: لا أصل له

روایت کی فنی تحقیق


مولانا ساجد خان صاحب نقشبندی
ہمار ے معاشرے میں ایسی بہت سی حدیثیں زبان زد عام ہیں جن کا ثبوت موجود نہیں ۔ چنانچہ محدثین کرام ان روایتوں کو صاف الفاظ میں بے اصل اور غیر ثابت شدہ قرار دیتے ہیں۔کیونکہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی کلام اور کلمات کو رسول اللہ ﷺ کی جانب ایک خاص اصل اور قاعدے سے منسوب کیا جاسکتا ہے،جسے’’ اسناد‘‘ کہتے ہیں اس اسناد میں موجود راویوں کے حالات ،ان کے مابین اتصال اور انقطاع وغیرہ امور کو دیکھ کر حفاظ حدیث ہر حدیث کو اس کا فنی مقام دیتے ہیں ،اس چھان بین میں بعض حدیثوں کو وہ بے اصل قراردیتے ہیں لہٰذا ایسی حدیثوں کو بیان کرنا جائز نہیں۔ اسی سلسلے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب ایک روایت ہے جس میں اذان کے وقت انگوٹھے چومنے کا ذکر ہے۔اس عنوان کے تحت ہم اس روایت کی تحقیق کریں گے۔
تحقیق کا خلاصہ


۱۔ روایت کے مصادر اصلیہ
۲۔ روایت کے متعلق آئمہ کے اقوال
۳۔ تحقیق کا خلاصہ
۴۔ فوائد شتٰی
روایت کے مصادر اصلیہ
اس روایت کا مصدر اصلی حضرت ابومنصور شیر ویہ بن شہر دار الھمدانی الدیلمیؒ (المتوفی ۵۵۸)کی ’’مسند الفردوس‘‘ ہے ۔مگرمسند فی الحال راقم الحروف کو دستیاب نہیں۔ لہذا اب ہم اس روایت کے مصدر ثانی یعنی علامہ سخاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۹۰۲ ؁ھ)کی ’’المقاصد الحسنۃ‘‘کی طرف مراجعت کریں گے۔علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ ’’المقاصد الحسنہ‘‘(۱) میں مسند الفردوس کے حوالے سے حضرت ابو بکرالصدیقؓ کی طرف
منسو ب یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’مسح العینین بباطن انملتی السبابتین بعد تقبیلھما عند سماع قول الموذن:اشھد ان محمد رسول اللہ مع قولہ اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ ،رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا
ذکرہ الدیلمی فی الفردوس ،من حدیث ابی بکر الصدیق:انہ لما سمع قول الموذن اشھد ان محمد ا رسول اللہ قال ھذا و قبل باطن انملتین السبابتین و مسح عینیہ ،فقال ﷺ من فعل مثل ما فعل خلیلی فقد حلت علیہ شفاعتی ،ولایصح‘‘
ترجمہ:دیلمی ؒ نے اپنی مسند میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی روایت ذکر کرتے ہیں کہ بے شک جب انہوں نے موذن سے ان کا قول اشھد ان محمدا۔۔۔الخ تو یہ دعا پڑھی(رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا)اور شہادت کی انگلیوں کے پورے باطنی جانب سے چومے اور آنکھوں پر ملے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے میرے دوست کی طرح کیا تواس کیلئے میری شفاعت حلال ہوگئی۔
(علامہ سخاوی ؒ فرماتے ہیں کہ) یہ روایت ’’صحیح‘‘ نہیں 
حضرت علامہ سخاوی ؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’و کذا ماأوردہ ابو العباس أحمد بن ابي بکر الرداد الیماني المتصوف فی کتاب الموجبات الرحمۃ و عزائم المغفرۃ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہٖ عن الخَضِر علیہ السلام أنَّہ من قال حین یسمع الموذن یقولٍ أشھد أن محمدا رسول اللہ مرحباًبحبیبی و قرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ ﷺثم یقبل ابھامیہ ویجعلھما علی عینیہ لم یرمد ابداً ‘‘
اور اسی طرح یہ روایت بھی ہے جو صوفی ابو العباس احمد بن ابی بکر یمانی نے کتاب موجبات الرحمۃ و عزائم المغفرۃ میں ایسی سند کے ساتھ بیان کیا جس میں مجہول راوی ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ سند بھی منقطع بھی ہے حضرت خضر علیہ السلام سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ جو موذن کو أشھد أنَّ محمدا رسول اللّٰہ کہتے وقت سنے اوریہ کہے مرحبابحبیبی۔۔۔الخ پھر اپنے انگوٹھوں کو چومے اور دونوں آنکھوں پر رکھ دے اس کی آنکھیں کبھی خراب نہ ہوں گی۔
ان دونوں روایتوں کے بعدحافظ سخاوی ؒ بعض صوفیاء کے مجربات نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں :
ولا یصح فی المرفوع من کل ھذا شیء
ان تمام حکایات میں سے کوئی بھی چیز مرفوع حدیث سے ثابت نہیں 
امام سخاوی ؒ کے کلام کی تفصیل و توضیح آگے آرہی ہے۔
علامہ محمد بن طاہر فتنی ؒ نے اسے ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ (۲)میں نقل کیا ہے۔
ملا علی قاری ؒ نے اسے ’’المصنوع‘‘ (۳) اور ’’الاسرار المرفوعۃ‘‘(۴) میں نقل کیا۔
روایت کے متعلق آئمہ حدیث کے اقوال
چونکہ مصدر اصلی میں یہ روایت ہمیں نہیں مل سکی اور جن حضرات نے اسے نقل کیا ہے انہوں نے بھی بغیر سند کے نقل کیا ہے ،ا ب ہم اس روایت کے متعلق آئمہ کے اقوال نقل کریں گے:
حافظ سخاوی رحمہ اللہ کا قول
حافظ سخاوی ؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ’’ولایصح‘‘(۵)۔
اور حضرت خضر علیہ السلام کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
’’فیہ مجاہیل مع انقطاعہ‘‘ٖ(۶)
اس کی سند منقطع ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں مجہول راوی بھی ہیں 
اس کے بعد صوفیاء کی چند حکایات و مجربات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’ولا یصح فی المرفوع من کل ھذا شیء‘‘(۷)
ان تمام حکایات میں سے کوئی بھی چیز مرفوع حدیث سے ثابت نہیں 
علامہ عجلونی رحمہ اللہ کا قول
حضرت علامہ عجلونی ؒ (المتوفی ۱۱۶۲ ؁ھ)نے بھی اس روایت کو علامہ سخاوی ؒ کے حوالے سے نقل کرنے کے بعد ان کی رائے ’’ولایصح‘‘ (۸) سے نقل کرتے ہیں۔
علامہ محمد بن طاہرفتنی رحمہ اللہ کاقول
علامہ ابن طاہر فتنی ؒ (المتوفی ۹۸۶ ؁ھ) بھی اس روایت کے متعلق یہی فرماتے ہیں ’’ولایصح‘‘(۹)۔
علامہ شوکانی کاقول
علامہ ابن طاہر پٹنیؒ کے اس قول کو علامہ شوکانی ؒ (۱۲۵۰ ؁ھ)نے ’’الفوائد المجموعۃ‘‘ (۱۰) میں بھی نقل کیا ہے۔
محمد بن درویش محمد بن الحو ت رحمہ اللہ کاقول
محمد بن درویش محمد بن الحو تؒ (المتوفی ۱۲۷۷ ؁ھ)نے بھی ’’اسنی المطالب ‘‘ میں اس کے متعلق ’’لایصح‘‘ (۱۱) کہا۔
محمد بن خلیل الطرابلسیؒ کاقول
محمد بن خلیل الطرابلسی ؒ (الموفی ۱۳۰۵ ؁ھ) ’’الؤلؤ المرصوع‘‘(۱۲)میں فرماتے ہیں :
’’انکرہ السخاوي و قال کل ما یروی فی ھذا فلا یصح رفعہ ألبتہ‘‘
علامہ سخاوی ؒ نے اس حدیث کی صحت کا انکار کیا ہے اور فرمایا کہ اس باب میں جتنی بھی روایات نقل کی جاتی ہیں وہ یقینی طور پر درست نہیں۔
علامہ احمد بن عبد الکریم العامریؒ کاقول
علامہ احمد بن عبد الکریم العامریؒ نے’’الجدالحثیث‘‘ میں(۱۳) نقل روایت کے بعد فرماتے ہیں :
’’لا اصل لہ فی المرفوع نعم یروی عن بعض السلف‘‘
مرفوع طور پراس روایت کی کوئی اصل نہیں، ہاں بعض سلف سے(ان کے مجربات کے طور پر) منقول ہے۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ کاقول
ملا علی قاری ؒ (المتوفی ۱۰۱۴ ؁ھ )روایت صدیقؓ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’لایصح رفعہ علی ما قال السخاوي‘‘(۱۴)
یہ روایت مرفوعا صحیح نہیں جیسا کہ علامہ سخاوی نے فرمایا۔
نیز ’’الاسرار المرفوعۃ‘‘(۱۵)
میں ملا علی قاری ؒ ان دونوں روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’و کل ما یروی فی ھذا فلایصح رفعہ ألبتۃ قلت اذا ثبت رفعہ علی الصدیق فیکفی العمل بہ لقولہ علیہ السلام علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین‘‘اس باب میں جو کچھ بھی منقول ہے قطعی بات ہے کہ وہ سب مرفوعا آپ ﷺ سے صحیح نہیں ہے میں (ملا علی قاریؒ ) کہتا ہوں جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک صحیح ہوگیاتو حدیث علیکم بسنیتی و سنۃ الخلفاء الراشدین (تم پر میری اور میرے خلفائے راشدینؓ کی سنت لازم ہے)کی وجہ سے عمل کیلئے کافی ہوگیا۔
اہم نکتہ
ملا علی قاری رحمہ اللہ کو یہاں علامہ سخاوی ؒ کے قول کو سمجھنے میں اشتباہ ہوگیا ہے تفصیل اس کی آگے انشاء اللہ آرہی ہے، شیخ ابو غدہ ؒ نے حضرت ملا علی قاری ؒ کی اس بات کا تعاقب کیاہے:
حضرت ملا علی قاری ؒ کے قول پر شیخ ابو غدہ ؒ کا تعاقب
حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ ’’المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع للعلامۃ علی القاری‘‘ (۱۶) میں مذکورہ روایت کے حاشیہ پر لکھتے ہیں :
’’و من العجب أنَّ المؤلف لمانقل فی الموضوعات الکبری قولَ السخاوي و أوردہ الشیخ أحمد الرداد فی کتابہ موجبات الرحمۃ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام و کل ما یروی فی ھذا فلا یصح رفعہ ألبتۃ تعقبہ بقولہ وأذا ثبت رفعہ ألی الصدیق فیکفی العمل بہ لقولہ علیہ السلام علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین فکان تعقبہ لا معنی لہ ألاالخطاء أذ لم یصح أسنادہ ألی أبی بکر‘‘
عجیب بات یہ ہے کہ مولف نے (مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں )موضوعات کبری میں علامہ سخاوی ؒ کا قول نقل کیا (جس سے حدیث کا ثابت نہ ہونا معلوم ہوتا ہے )اور خود ہی اس قول (قول ذکر کرنے کے بعد)اپنا یہ قول (جب اس کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک ثابت ہوجائے گا تو حدیث تم پر میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت لازم ہے کی وجہ سے عمل کیلئے کافی ہوگا)ذکر کیا ہے اس کا تو لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے اپنے بعد والے قول کے کوئی معنی نہیں ،یہ ان سے خطاء ہوگئی ہے اس لئے کہ اس حدیث کی سند حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک بھی ثابت نہیں۔
طحطاوی رحمہ اللہ کا قول
علامہ طحطاوی ؒ حاشیۃ الطحطاوی(۱۷)میں لکھتے ہیں:
’’و بمثلہ یعمل فی فضائل الأعمال‘‘
اس جیسی روایتوں پر فضائل اعمال میں عمل کیا جاتا ہے ۔
علامہ طحطاو ی رحمہ اللہ کے قول کی توجیح
؂علامہ طحطاوی رحمہ اللہ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
و بمثلہ یعمل فی فضائل الاعمال
لیکن علامہ طحطاوی یہ بات اس تناظر میں کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت’’ مسند الفردوس ‘‘ میں موجود ہے اوریہ روایت جب آپ ﷺ سے ثابت ہے تو خواہ وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو فضائل الاعمال میں اس کو قبول کیا جائے گا (۱) اور ہماری آگے آنے والی بحث کا خلاصہ ہی یہی نکلتاہے کہ یہ روایت ثابت نہیں آپ ﷺ سے ثابت ہی نہیں اس لئے اسے فضیلت عمل کے طور پر بھی قبول کرنا درست نہیں۔
خلاصہ کلام
مندرجہ بالا اقوال سے یہ با ت واضح ہوگئی کہ اکثر ائمہ نے اس روایت کے متعلق اپنی رائے’’لایصح‘‘ کہہ کر واضح کی۔اب یہاں اس مقام پر اس بات کی وضاحت درکار ہے کہ محدثین کا اس ’’لایصح‘‘ سے آخر مراد کیا ہے؟آنے والی تفصیل سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہاں محدثین کا لا یصح سے مراد لا یثبت ہے یعنی یہ روایت ثابت نہیں۔چنانچہ ا ب ہم آگے اسی کے متعلق ایک بحث نقل کریں گے۔
علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ کا صنیع
علامہ سخاوی ؒ کے کلام پر غور کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں بعض دیر مواقع کی طرح ’’لایصح‘‘ ،’’لا یثبت‘‘ کے معنی میں لے رہے ہیں (۲)اس کی دلیل یہ ہے کہ علامہ سخاوی پہلے مسند الفردوس کی روایت نقل کرنے کے بعد ’’لایصح‘‘ اس روایت کے
متعلق نقل کرتے ہیں اس کے بعد وہ ایک اور روایت حضرت خضر علیہ السلام کی طرف منسوب نقل کرتے ہیں جس کے متعلق وہ خود فرماتے ہیں :
و کذاما أوردہ أبو العباس أحمد بن ابي بکر الرداد الیماني المتصوف فی کتابہ موجبات الرحمۃ و عزائم المغفرۃ بسند
فیہ مجاھیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام ۔۔۔الخ(۱۸)
یعنی اس کی سند میں مجہول راوی ہیں اور سند بھی منقطع ہے۔
اس کے بعد فقیہ محمد بن البابا کے حوالے سے ایک حکایت نقل ٖفرمانے کے بعد فرماتے ہیں :
’’بسند فیہ من لم أعرفہ‘‘ (۱۹)۔
یعنی اس کی سند میں ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں جانتا۔
اس کے بعد شمس محمد بن صالح المدنی کے حوالے فقیہ محمدزرندی ،فقیہ محمد بن سعید الخولانی،طاوسی سے ان کے بعض مجربات نقل کرتے ہیں کہ اگر اذان کے وقت یہ عمل کیا جائے تو اس سے آنکھیں خرا ب نہیں ہوتیں(۲۰)۔
ان تمام حکایتوں کو نقل فرمانے کے بعد ایک دفع پھر وہ یہ نقل کرتے ہیں :
’’ولا یصح فی المرفوع من کل ھذا شیء‘‘(۲۱)
ان تمام حکایات میں سے کوئی بھی چیز مرفوع حدیث سے ثابت نہیں
امام سخاوی رحمہ اللہ کے اس کلام کی وضاحت
امام سخاوی ؒ فرمانا چاہتے ہیں کہ میں نے یہ روایت دو طرح سے نقل کی ہے’’ مرفوعا‘‘ اور’’ مجربات صوفیاء‘‘ البتہ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس باب میں آپ ﷺ سے کوئی بھی چیز اسنادی حیثیت سے ثابت نہیں ہے اگرچہ بعض حضرات صوفیاء نے اسے اپنایا ہے اور مختلف حوائج میں مجرب پایاہے۔اس تفصیل سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ حافظ سخاویؒ کا کلام ’’لایصح‘‘ ،’’لایثبت‘‘ کے معنی میں ہے۔
امام سخاوی ؒ کے کلام ’’لا یصح‘‘ کے بمعنی’’ لم یثبت ‘‘ہونے پر ایک شاہد یہ بھی ہے کہ علامہ احمد بن عبد الکریم العامریؒ نے’’الجدالحثیث‘‘(۲۲) نقل روایت کے بعد فرماتے ہیں کہ:
لا اصل لہ فی المرفوع نعم یروی عن بعض السلف
مرفوع طور پراس روایت کی کوئی اصل نہیں ہاں بعض سلف سے(ان کے مجربات کے طور پر) منقول ہے
حاصل یہ رہا کہ یہ روایت امام سخاوی ؒ کے اور دیگر ائمہ کے کلام کے مطابق آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے ، اس لئے اسے آپ ﷺ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں، ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کی جانب انتساب صرف اسی صورت میں کیا جاسکتاہے کہ روایت کسی معتبر سند سے ثابت ہو بصورت دیگر انتساب باالرسول ﷺ جائز نہیں۔چنانچہ شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ ؒ ’’ألمصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع للعلامۃ علی القاری‘‘ (۲۳)کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’وأذا کان الحدیث لا أسناد لہ فلا قیمۃَ ولا یلتفت الیہ أذا لاعتماد فی نقل کلام سیدنا رسول اللہ ﷺ ألینا أنما ھو علی الاسناد الصحیح الثابت أو ما یقع موقعہ وما لیس کذالک فلا قیمۃ لہ‘‘۔
اور جب حدیث کی سند ہی نہ ہو تو وہ بے قیمت اور غیر قابل التفات ہے، کیونکہ ہماری جانب ہمارے آقا رسول اللہ ﷺ کے کلام کونقل کرنے میں اعتماد صرف اسی سند پر ہوسکتا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہو یا جو اس کے قائم مقام ہو اورجو حدیث ایسی نہ ہو تووہ بے قیمت ہے ۔
ایک اہم فائدہ 
سابقہ تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ امام سخاوی کے کلام ’’ولا یصح فی المرفوع من کل ھذا شی‘‘میں لفظِ مرفوع ،مجربا ت صوفیاء کے مقابلے میں ہے یعنی یہ روایت مرفوعا ثابت نہیں مجربات صوفیاء میں ثابت ہے ،یہ نہیں کہ لفظ مرفوع موقوف کے مقابلے میں ہو اور سمجھا جائے کہ مرفوعا ثابت نہیں ہے موقوفا ثابت ہے جیسا کہ ملا علی قاری ؒ نے’’ لم یصح‘‘ کے مقابلے میں اخذ کیا ہے کہ رفع کی نفی سے روایت کے موقوف ہونے کی نفی نہیں ہورہی، بلکہ خود ملا علی قاری ؒ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ’’ لم یصح لم یثبت‘‘ کے معنی میں ہوتا ہے (اگرچہ اس موقع پر آپ اس بات کے قائل نہیں)چنانچہ ایک مقام پر خود ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں 
’’لایقال اَنّہ موضوع غایتہ أنّہ ضعیف مع أنّ قولَ السخاوی لا یصح لا ینافی الضعیف والحسن ألا أن یرید بہ أنہ لا یثبت و کان المَنُوْفِی فھِم ھذا المعنی حتی قال فی مختصرہٖ أنہ باطل لاأصلَ لہ‘‘(۲۴) 
یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ حدیث موضوع ہے زیادہ سے زیادہ ضعیف کہہ سکتے ہیں کہ علامہ سخاوی کا ’’لا یصح ‘‘کہنا ضعیف اورحسن کی نفی نہیں کرتا الا یہ کہ ’’لایصح‘‘ سے مراد’’ لا یثبت‘‘ لیا جائے گویا کہ منوفی اس بات کو سمجھتے تھے تبھی اس روایت کے بارے میں اپنی کتاب مختصر میں باطل اور لا اصل لہ کہا۔
بہرحا ل ملا علی قاری رحمہ اللہ کو یہاں علامہ سخاوی کا قول سمجھنے میں اشتباہ ہوا ہے کیونکہ اس روایت کو موقوفا تسلیم کرنا تو اس وقت درست ہوتا جب علامہ سخاوی رحمہ اللہ لا یصح کا قول موقوف کے مقابلے میں ذکر کرتے حالانکہ در حقیقت حافظ سخاوی یہاں یہ بات صوفیاء کے مجربات کے ذیل میں اور ان کے مقابلے میں ذکر کررہے ہیں(جس کی تفصیل گذرچکی ہے) ۔ شیخ ابو غدہ صاحب ؒ نے بھی ایک دوسرے انداز سے ملا علی قاری رحمہ اللہ کے اس قول کا تعاقب کیا ہے۔جس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے ۔
ایک اور توجیہ 
اب تک کی بحث تو اس تناظر میں تھی کہ مذکورہ روایت میں محدثین کے قول ’’لا یصح ‘‘ سے مراد ’’لم یثبت‘‘ لیا جائے ،البتہ لایصح کی ایک اور توجیہ بھی علماء نے نقل کی ہے جس کو ذیل میں نقل کیا جارہا ہے۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمۃ اللہ علیہ کا لایصح کے متعلق کلام
شیخ ابو غدہ ’’المصنوع‘‘(۳) کے مقدمے میں اس اصطلاح کے بار ے میں فرماتے ہیں :
’’قولھم فی الحدیث: لایصح ،لا یثبت ،لم یصح، لیس بصحیح ،لیس بشیء ،غیر ثابت ،لا یثبت فیہ شیئاو نحو ھذہ التعابیر أذا قالوہ فی کتب الضعفاء أو الموضوعات فالمراد بہ أنّ الحدیث المذکور موضوع لا یتصف بشیء من الصحۃ وأذاقالوہ فی کتب أحادیث اأاحکام فالمرادبہ نفي الصحۃ الاصطلاحیۃ ،قال شیخنا الامام الکوثري رحمہ اللہ تعالی فی مقدمتہ لکتاب ’’انتقاد المغنی عن الحفظ والکتاب‘‘ص۱۱:تنبیہ:ألمسند الاوحد ابن ھمات الدمشقی فی ’’ألتنکیت والافادۃ فی تخریج أحادیث خاتمۃ (سفر السعادۃ): أعلم أنّ البخاري و کل من صنف فی الاحکام یرید بقولہ (لم یصح)ألصحۃ الاصطلاحیۃ و من صنف فی الموضوعات والضعفاء یریدبقولہ (لم یصح)أو (لم یثبت)المعنی الاعم ولا یلزم من الأول نفی الحسن أوالضعف ویلزم من الثاني البطلان۔ و قال شیخنا الکوثري أیضا فی مقدمۃ الکتاب المذکور فی ص۹:تعلیقا علی صنیع العقیلی فی جرحہ کثیرا من رجال (الصحیحین)في کتابہ المسمی (الضعفا):وحیث کان کتابہ فی الضعفا یتبادر من قولہ فی الحدیث (لایصح) أو (لا یثبت)کونہ مکذوبا کما قال المسند الاوحد ابن ھمات الدمشقی وقال شیخنا الکوثری ایضا في کتابہ (المقالات الکوثری)ص۳۹: أن قول النقاد فی الحدیث انہ لا یصح بمعنی أنّہ باطل فی کتب الضعفاء والمتروکین لابمعنی أنّہ حسن و أن لم یکن صحیحا کما نص علی ذالک أھل الشان بخلاف کتب الأحکام کما أوضحت ذالک في مقدمۃ انتقاد المغنی‘‘۔ 
ترجمہ:ائمہ کاکسی حدیث کے بارے میں ’لایصح ،لا یثبت ،لم یصح، لیس بصحیح ،لیس بشیء ،غیر ثابت ،لا یثبت فیہ شیء ‘‘مذکورہ تعبیرات اور اس قسم کی دیگر تعبیرات حضرات محدثیین جب ضعیف اور موضوع احادیث کی کتب میں ذکر فرماتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث موضوع ہے اور اس میں صحت کی کوئی گنجائش نہیں اور مذکورہ تعبیرات محدثین حضرات جب احادیث احکام کی کتب میں ذکر فرماتے ہیں تو اس سے اصطلاحی صحیح کی نفی مراد ہوتی ہے ۔
شیخ امام کوثری ؒ اپنی کتاب ’’انتقاد المغنی عن الحفظ والکتاب‘‘کے مقدمہ (ص۱۱)میں ایک تنبیہ بیان فرماتے ہیں کہ :ابن ہمات الدمشقی ؒ ’’التنیکت والافادہ ‘‘ میں فرمایا ہے کہ ’’امام بخاری ؒ اور احادیث احکام کے تمام مصنفین جب لم یصح فرماتے ہیں تو اس سے ’’اصطلاحی صحیح‘‘ کی نفی مراد ہوتی ہے۔اورموضوعات اور ضعفاء کتب کے مصنفین جب لم یصح اور لم یثبت کہتے ہیں تو اس کے معنی میں عموم پایاجاتا ہے پہلے حضرات کے قول سے حسن یا ضعیف کی نفی لازم نہیں آتی جبکہ دوسر ے حضرات کے قول سے باطل ہونا لازم آتا ہے ۔
شیخ کوثری ؒ نے مذکورہ کتاب کے مقدمے ص۹ میں علامہ عقیلی ؒ کے طرز پر یہ بھی فرمایاہے(علامہ عقیلی ؒ اپنی کتاب الضعفاء میں صحیحین (بخاری و مسلم)کے رجال پر کثرت سے جرح کرتے نظر آتے ہیں )علامہ کوثری ؒ فرماتے ہیں کہ علامہ عقیلی ؒ اپنی کتاب الضعفاء میں جہاں بھی کسی حدیث کے بارے میں ’’لایصح ‘‘ یا ’’لایثبت‘‘ کہتے ہیں تو اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ یہ حدیث جھوٹی ہے جیسا کہ ابن ہمات دمشقی کا قول ہے اور اسی طرح شیخ کوثری ؒ نے مقالات کوثری ص۳۹ میں بھی یہ فرمایا ہے کہ ضعیف اور متروک احادیث کی کتب میں جب ناقدین کسی حدیث کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ ’’لایصح‘‘ تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے ’’انہ باطل ‘‘ (یہ حدیث باطل ہے)یہ مطلب نہیں ہوتاکہ یہ حدیث حسن ہے اگرچہ فی نفسہ صحیح نہ ہوبرخلاف کتب احادیث احکام کے او ر اس میں اصطلاحی صحیح کی نفی ہوتی اور اس کی وضاحت میں نے انتقاد المغنی کے مقدمے میں کردیا ‘‘ (مقالات کوثری ص۳۹)۔
اس کے بعد شیخ ابو غدہ نے اس پر بڑا تفصیلی کلام کیا اور اپنے اس موقف پر دلائل بھی دئیے۔
خلاصہ 
اس تمام تر تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ کتب احکام میں اگر چہ لا یصح صحت اصطلاحی کی نفی کیلئے بھی آتا ہے اور اس وقت اس سے حسن یا ضعیف کی نفی مراد لینا درست نہیں مگر کتب الضعفاء والمتروکین میں جب کسی روایت کے متعلق لا یصح یا لم یصح بولا جائے تو اس سے اس روایت کا موضوع ہونابیان کرنا مقصود ہوتا ہے ۔چنانچہ علامہ سخاوی ؒ بھی لایصح سے موضوع مراد لیتے ہیں (۲۶)
خلاصہ تحقیق
تحقیق کا حاصل یہ رہا کہ علامہ سخاوی ؒ اور ان کی اتباع نے (علامہ عجلونیؒ ،محمد بن درویش الحوتؒ ،علامہ عامریؒ ،محمد الامیر المالکیؒ علامہ شوکانیؒ علامہ طرابلسیؒ )ان تمام علماء وضاحت کردی ہے کہ یہ روایت آپ ﷺ سے ثابت نہیں ،اور علامہ عامری ؒ نے اسے’’ بے اصل‘‘ نیز شیخ ابو غدہ ؒ نے صریح لفظوں میں’’ من گھڑت‘‘ کہا ہے اس لئے اس روایت کو آپ ﷺ کی طرف منسوب کرنا جائز نہیں ہے ۔اسی طرح یہ مضمون صحابہؓ میں سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں ہے (اس کی تفصیل گزرچکی ہے)اس لئے صحابہؓ کی جانب انتساب بھی بے دلیل ہے، درست نہیں۔ 
فائدہ نمبر ۱
برصغیر میں بدعتی فرقے کے بانی اور موسس نواب احمد رضاخان صاحب بریلوی ان روایات کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اذان میں وقت استماع نام پاک صاحب لولاک ﷺ انگوٹھوں کے ناخن چومنا آنکھوں پر رکھنا کسی حدیث صحیح مرفوع سے ثابت نہیں۔۔۔ ہاں بعض احادیث ضعیفہ مجروحہ میں تقبیل ابہامین وارد‘‘۔
(ابر المقال ۔ص:۱۶۔برکاتی پبلی شرز کراچی)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب اگرچہ ان روایات کو موضوع تو نہیں مانتے مگر ’’ضعف شدید‘‘ کے وہ بھی قائل ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ان روایات کیلئے ’’ضعیفہ مجروحہ‘‘ کی اصطلاح نقل فرمارہے ہیں، اور ضعیف احادیث پر عمل کرنے کیلئے پہلی متفق علیہ شرط یہ ہے کہ وہ ’’ضعف شدید‘‘سے خارج ہو(القول البدیع:ص۴۹۶۔دارالیسر المدینۃ المنورۃ)
فائدہ نمبر ۲
نواب صاحب بھی اس عمل کو ’’سنیت‘‘ کے بجائے’’ مشایخ کے مجربات ‘‘کے طور پر کرنے کے قائل ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
’’پس حق اس میں اس قدر ہے کہ جو کوئی بہ امیدزیارت روشنائی بصر مثلا از قبیل اعمال مشایخ جان کر بتوقع فضل ان کتب پر لحاظ اور ترغیب وارد پر نظر رکھ کر بے اعتقاد سنیت فعل و صحت حدیث و شناعت ترک اسے عمل میں لائے اس پر بنظر اپنے نفس فعل و اعتقاد کے بغیر کچھ مواخذہ بھی نہیں ‘‘۔
(ابر المقال ۔ص:۱۷)
یہ وہی با ت ہے جو ہم نے ماقبل اپنی تحقیق میں نقل کی کہ ان روایات کا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے تو کوئی ثبوت نہیں ہاں بعض مشایخ سے ا ن کے مجربات کے طور پر منقول ہے۔
فائدہ نمبر۳
حافظ سخاوی ؒ نے حضرت خضر علیہ السلام والی روایت صوفی ابو بکر الرداد الیمانی کی سند سے ان کی کتاب موجبات الرحمۃ سے نقل کی ۔ان صاحب کے متعلق علامہ زِرِکلی ؒ فرماتے ہیں:
قال سخاوی غلب علیہ المیل الی تصوف الفلاسفۃ فافسد عقائد اہل زبید الا من شاء اللہ ،لہ کتب ،منھا موجبات الرحمۃ فی الحدیث غریب فی بابہ 
(الاعلام ۔ج۱۔ص:۱۰۴۔دارالعلم للملایین بیروت)
سخاوی فرماتے ہیں کہ یہ فلسفیانہ تصوف کی طرف مائل ہوگئے تھے پس اہل زبید کے اکثر لوگو ں کے عقائد کو ان صاحب نے خرا ب کیا ، ان کی بہت سی کتب ہیں جن میں سے ایک موجبات الرحمۃ بھی ہے حدیث کے موضو ع پر اپنے فن میں ایک عجیب کتاب ہے۔
خود علامہ سخاوی ؒ نے انکو بدعتی کہا اور لکھا ہے کہ یہ بدعات کے داعی تھے اور اہل زیبد کے اکثر لوگوں کے عقائد اس شخص نے خراب کئے ( الضوء اللامع ج۱ص۲۶۱)
شمس بن محمد بن الیمانی کے حوالے سے حافظ صاحب نے جو مجربات نقل کیئے تو ان صاحب کا تذکرہ مجھے نہیں ملا سکا اگر کسی صاحب کو ان کا ترجمہ معلوم ہو تو مطلع فرمادیں۔جزاکم اللہ
فائدہ نمبر ۴
شیخ الاسلام علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ احکام الاحکام میں فرماتے ہیں :
’’و ان کا ن ضعیفا لا یدخل فی حیز الموضوع فان احدث شعارا فی الدین منع منہ و ان لم یحدث فھو محل نظر ‘‘
(احکام الاحکام ۔ص:۲۰۲۔ مکتبۃ السنہ قاہرہ)
یعنی اگر ضعیف حدیث ہو بشرطیکہ وہ موضوع نہ ہو تو اس پر عمل جائز ہے لیکن اگر اس سے دین کے اندر کوئی شعار قائم اور پیدا ہوتا ہو تو اس سے بھی منع کیا جائے گا ورنہ اس پر غور کیاجائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ ضعیف حدیث پر عمل کی گنجائش تو ہے مگر ضعیف حدیث پر بھی ایک صورت میں عمل کرنے سے منع کردیا جائے گا جب اسے اہل بدعت اپنا شعار بنالیں۔ اور انگوٹھے چومنے کے عمل کو آج کے اہل بدعت نے نہ صرف اپنا شعار بنایا ہوا ہے بلکہ کفر و ایمان کے رمیان حد فاصل قرار دیا ہوا ہے مطالبہ پر انشاء اللہ اس پر بھی دلائل دیے جائیں گے لہذا اس اصول کے تحت بالفرض اگر یہ روایت آج کسی طورضعیف بھی ثابت ہوجائے تب بھی اس روایت کو ترک کیا جائے گا۔
فائدہ نمبر۵
حافظ ابو بکر احمد بن محمد بن اسحاق الدینوری الشافعی المعروف بابن سنی (المتوفی ۳۶۴ھ )نے ایک روایت نقل کرتے ہیں :
’’حدثنی احمد بن الحسین بن ادیبویہ الاصبھانی ،حدثنا محمد بن عوف ، انا عصام بن خالد الحضرمی ،ثنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان،عن عطاء بن قرۃ عن عبداللہ بن ضمرۃ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال کان مع رسول اللہ ﷺ رجلان احدھما لا یری ولا یری لہ کثیر عمل فمات فقال النبی ﷺ اعلمتم ان اللہ قد ادخل فلانا الجنۃ؟ قال فعجب القوم لانہ کان لا یکاد یری فقام بعضھم الی اھلہ فسال امراتہ عن عملہ؟ فقالت ما کان لہ کثیر عمل الا ما قد رایتم غیر انہ کانت فیہ خصلۃ کان لا یسمع الموذن فی لیل ولا نھار ولاعلی ای حال کان یقول اذا قال المنادی اشھد ان لا الہ الا اللہ الا قال مثل قولہ اقر بھا و اکفر من ابی و اذا قال اشھد ان محمدا رسول اللہ قال اقر بھا و اکفر من ابی قال الرجل بھذا دخل الجنۃ‘‘۔
(عمل الیوم واللیلۃ ۔ص:۹۲۔رقم ۱۰۱۔مطبوعۃ مکتبۃ الشیخ بھادر آبادی کراتشی)
یعنی ایک شخص جو بظاہر کثیر العمل نہ تھا جب اس کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ فلاں کو اللہ تعالی نے جنت میں داخل کردیا صحابہ کرامؓ کو اس پر بڑا تعجب ہوا کہ چنانچہ بعض لوگ ان کی اہلیہ کے پاس گئے اور اس سے اس کے عمل کے متعلق سوال کیا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس کے کوئی زیادہ نیک اعمال نہ تھے البتہ اس میں ایک خوبی تھی کہ جب بھی موذن کی زبان سے یہ کلمہ اشھد ان لاالہ الا اللہ اشھد ان محمدا رسول اللہ سنتا تو جواب میں اقر بھا و اکفر من ابی کہتا کہنے والے نے کہا کہ اسی عمل کی وجہ سے جنت میں مقام ملا۔ 
یہ روایت ماقبل کی تمام روایات سے بالکل مختلف اور متعارض ہے ابن ادیبویہ کے بعد کے اس کے تمام راوی بھی ثقہ ہیں نہ معلوم رضاخانی حضرات اس روایت پر عمل کرنے کی اتنی شدومد کے ساتھ دعوت کیوں نہیں دیتے جتنی پہلی بلا سند روایت کے متعلق دیتے ہیں۔
فائدہ نمبر۶
ہمارے ہاں اس روایت کو انگوٹھے چومنے والی حدیث کہا جاتا ہے اور ہم نے بھی اسی عرف کی وجہ سے اسے یہی نام دیا مگر آپ نے ماقبل میں ملاحظہ فرمالیا کہ روایت میں انگوٹھوں کا ذکر کہیں بھی موجود نہیں۔نیزحضرت خضر علیہ السلام کی طرف منسوب جس روایت کا ذکر ہوا اس میں اگر چہ انگوٹھے چومنے کا ذکر تو ہے مگر چومتے وقت جو دعا بتائی گئی وہ حضرت صدیق اکبرؓ کی طرف منسوب روایت میں موجود دعا سے بالکل مختلف ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
مولوی سعید اللہ خان قادری کا تسامح
بریلوی علامہ سعید اللہ خان قادری صاحب لکھتے ہیں:
’’لیکن دشمنان دین جس طرح ان کی عادت ہے کہ جہاں بھی سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی شان بیان ہو تو یہ دشمن اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں انہوں نے مسند الفردوس سے اس حدیث مبارکہ کو نکال لیا ہے آج کل بازار میں جو مسند فردوس موجود ہیں اس میں یہ حدیث مبارکہ نہیں ہیں‘‘۔
(انگوٹھے چومنے کا مدلل ثبوت۔ص:۹۲مکتبہ میاں گل جان کراچی)
یہ الزام علامہ صاحب کا تسامح اور عدم توجہ کا شاخسانہ ہے ۔بات دراصل یہ ہے کہ ابو شجاع شیرویہ بن شھرداد بن شیرویہ بن فنَّاخُسْرو الدیلمی الہمدانی (المتوفی ٰ۵۰۹ ھ ؁)نے ’’مسند الشھاب‘‘ کو سامنے رکھ کر بلا سند ’’الفرودس بماثور الخطاب‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ ترتیب دیاتھا۔بعد میں ان کے بیٹے ابو منصور شہردا ر بن شیرویہ الشافعی (المتوفی ۵۵۸ھ ؁)نے اپنے والد کے جمع کردہ احادیث کے مجموعہ میں موجود تمام روایتوں کی سند جمع کی اور سند کے ساتھ ایک مجموعہ ترتیب دیا جسے ’’مسند الفردوس‘‘ کا نام دیا گیا گویا باپ کا مجموعہ غیر مسند ہے اور بیٹے کا مجموعہ مسند ہے ۔اس تفصیل کے بعد اب سمجھئے مارکیٹ میں اس وقت جو نسخہ دستیاب ہے اور جو مطبوعہ ہے وہ ’’الفردوس بماثور الخطاب‘‘ ہے یعنی والد ابو شجاع کی تصنیف بیٹے ابو منصور کی ’’مسند الفردوس‘‘ ابھی تک شایع ہی نہیں ہوئی مولوی سعید اللہ خان صاحب الفردوس کو مسند الفردوس سمجھ رہے ہیں جو ان کا تسامح ہے ۔ بجائے یہ کہ اپنی اس غلطی کا تدارک کریں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے وہابی بیچاروں کو کوسنا شروع کردیا جو تعصب کی بدترین مثال ہے جسے یہ بریلوی معاذ اللہ دشمنان اسلام کہہ رہے ہیں یہ ان ہی حضرات کی کوششیں ہی تو ہیں کہ آج نبی کریم ﷺ کے فضائل و سیرت پر متقدمین و متاخرین کی جتنی عربی کتب ہیں وہ آپ کے سامنے مطبوعہ صورت میں موجود ہیں ان کو اگر نبی کریم ﷺ کی شان سے کوئی بغض ہوتا تو المقاصدالحسنۃ سے بھی اس روایت کو نکالتے جو اس وقت پوری دنیا میں اس روایت کا واحد مطبوعہ ماخذ اول ہے۔اس بات کو راقم الحروف نے اس لئے یہاں ذکر کردیا کہ ایک تو ان کا تعصب ظاہر ہوجائے دوسرا اس وجہ سے کہ اگر یہ تسامح کسی دیوبندی عالم سے سرزد ہوجاتا تو رضاخانیت آسمان سر پر اٹھالیتی کہ جاہل ہیں انہیں کسی چیز کا علم نہیں۔
کتاب الفردوس مطبوعہ دارالکتب العلمیہ اس وقت راقم الحرو ف کے سامنے ہے اس میں یہ روایت موجود نہیں اس کا ایک نسخہ مکۃ المکرمۃ سے بھی شایع ہوا ہے جو دارالعلوم کراچی کی لائبریر ی میں موجود ہے اس میں یہ بھی یہ روایت موجود نہیں۔مسند الشہاب بھی محدث عبد اللہ الغماری رحمہ اللہ کی تحقیق اور کوششوں سے مصر سے ۴ جلدوں میں شایع ہوگئی ہے راقم الحروف نے اس میں بھی اس روایت کوتلاش کیا مگر دستیاب نہیں ہوسکی۔ واللہ اعلم بالصواب
مسند الفردوس پر ایک تعلیق ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’زھر الفردوس‘‘ کے نام سے لکھی ہے مگر یہ بھی اب نایاب ہے۔
نوٹ: بندے نے یہ تحقیق روایت کے متعلق خالصۃ فنی اصول کے تحت کی ہے روایت سے متعلق جو فقہی مباحث ہیں یا ان سے جن امور کا استدلال کیا جاتا ہے ان کی تحقیق و تردید فی الحال مقصود نہیں جو صاحب بھی اس کا جواب لکھنا چاہیں وہ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
۱۔المقاصد الحَسَنَۃ في بیان کثیر من الأحادیث المُشْتَہَرۃ علی الألْسِنَۃ :۴۴۰ / ۴۴۱ ، رقم:۱۰۱۹،للعلامۃ شمس الدین أبي الخیرمحمد بن عبد الرحمن السَخَاوي (۸۳۱ھ/ ۹۰۲ھ) ، ت:عبد اﷲ محمد الصدیق،دار الکتب العلمیۃ بیروت،الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۲۷ھ.
۲۔تذکرۃالموضوعات:۳۴،تالیف علامہ محمد طاہر بن علي فتني(۹۱۰ھ/۹۸۶ھ)، کتب خانہ مجیدیہ ملتان، پاکستان.
۳۔المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع:۱۶۸/۱۶۹،رقم:۳۰۰،للملاّ علي بن سلطان الہروي القاري(۱۰۱۴ھ)، ت:الشیخ عبد الفتّاح أبو غدّہ،ایج ایم سعید کمپنی کراچی(پاکستان).
۴۔الاسرار المروعۃ
۵۔المرجع السابق
۶۔المرجع السابق
۷۔المرجع السابق:۴۴۱
۸۔کَشْفُ الخَفَاء ومُزِیلُ الإلباس عما اشْتُہِرَمن الأحادیث علی ألَسِنَۃ الناس:للحافظ أبي الفداء إسماعیل بن محمد العَجْلَوني الجراحي(۱۰۸۷ھ/۱۱۶۲ھ) ، ت:عبد الحمید ھندا وي،المکتبۃ العصریۃ بیروت،الطبعۃ ۱۴۲۷ھ.
۹۔المرجع السابق
۱۰۔الفوائد المجموعۃ في الأحادیث الموضوعۃ:۱۱،رقم۱۸،للعلامۃ محمد بن علي بن محمد الشَوْکَانِي(۱۱۷۳ھ/۱۲۵۰ھ)،عبد الرحمن بن یحیی،دار الکتب العلمیۃ بیروت،الطبعۃ ۱۴۱۶ھ.
۱۱۔أسنی المطالب في أحادیث مختلفۃ المراتب:۲۵۵،رقم :۱۳۰۵،للعلاّمۃ محمد بن درویش بن محمد الحُوت(۱۲۰۳ھ/۱۲۷۷ھ)، دار الکتب العلمیۃ بیروت.
۱۲ ۔اللُؤْلُؤُ المَرْصُوع فیما لا أصل لہ أو باصلہ موضوع:۱۶۸،رقم ۵۰۵،للعلامۃ محمد بن خلیل بن إبراہیم القاوقجي أبي المحاسن(۱۲۲۴ھ/۱۳۰۵ھ)،ت:فوّاز أحمد زمرلي،دار البشائر الإسلامیۃ بیروت،۱۴۱۵ھ.
۱۳۔الجد الحثیث فی بیان ما لیس بحدیث،۲۰۹،رقم۴۵۰،لاحمد بن عبد الکریم الغزی العامری،ت:فواز احمد زمرلی،دار الفکر۔بیروت
۱۴۔الاسرار المرفوعۃ۔ص:
۱۵۔المرجع السابق
۱۶۔المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع:۱۶۹،للملاّ علي بن سلطان الہروي القاري(۱۰۱۴ھ)، ت:الشیخ عبد الفتّاح أبو غدّہ،دارالبشائر الاسلامیہ ،بیروت
۱۷۔حاشیۃ الطحاوی :۱۳۸،المکتبۃ الکبری ببولاق،مصر)
۱۸۔المرجع السابق
۱۹۔المرجع السابق
۲۰۔المرجع السابق
۲۱۔المرجع السابق
۲۲۔المرجع السابق
۲۳۔المصنوع:شذرات فی بیان بعض اصطلاحات ،ص:۱۸،ت:الشیخ عبد الفتاح ابو غدۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی۔
۲۴۔الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ:۳۳۵،للملاّ علي بن سلطان الہَرَوِي القاري(۱۰۱۴ھ)،محمد بن لطفي، المکتب الإسلامي بیروت،الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۰۶ھ.
۲۵۔المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع:۲۷۔۳۸،للملاّ علي بن سلطان الہروي القاري(۱۰۱۴ھ)، ت:الشیخ عبد الفتّاح أبو غدّہ،دارالبشائر الاسلامیہ ،بیروت
۲۶۔و قال فی المقاصد الحسنہ ص ۴۹ حدیث الارز لیس بثابت وسیاتی فی لوکان من اللام ،و قال فی حرف اللام ص۳۴۶ لوا کان الارز رجلا لکان حلیما قال شیخنا(ای الحافظ ابن حجر)ھوموضوع۔

No comments:

Post a Comment