Sunday 3 July 2016

میانمار میں مسجد نذر آتش

ایس اے ساگر

دنیا بھر میں بودھ اور نوبل انعام بھلے ہی امن کی علامت شمار ہوتے ہوں لیکن معاملہ جب میانمار کا آتا ہے تو تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں. عین ماہ رمضان المبارک کے دوران میانمار کے مسلمانوں کیخلاف گذشتہ کئی برس سے جاری مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے. پچھلے ہفتے میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون کے قریب مسجد پر حملہ گذشتہ مہینوں میں ہونے والا مذہبی تشدد کا سب سے بڑا سانحہ ہے. جنوبی میانمار میں ایک مشتعل گروہ نے ایک مسجد کو نذرِ آتش کر دیا ۔ اس نوعیت کا دوسرا دردناک واقعہ ہے۔ مقامی پولیس ملک کی جنوبی ریاست کچن کے گاؤں ہپاکانت میں بدھ مت کے پیروکاروں کے اس حملے کو روکنے میں ناکام رہی، تاہم اب پولیس اہلکار وہاں پہرہ دے رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ملک کے مرکزی علاقے میں بھی ایک گروہ نے ایک مسجد کو تباہ کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ نے نوبل انعام یافتہ آں سانگ سوچی کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ میانمار میں مذہبی تشدد پر قابو پائے۔ جنوبی میانمار میں مسجد پر حملے کا یہ واقعہ جمعہ کے روز پیش آیا جب دیہاتیوں کے ایک گروہ نے مقامی مسجد پر دھاوا بول دیا اور اسے آگ لگا دی ۔ اطلاعات کے مطابق مشتعل ہجوم نے مسجد پر پہرہ دینے والے پولیس اہلکاروں پر بھی حملہ کیا اور آگ لگانے کے بعد فائر برگیڈ کو بھی وہاں آنے سے روکے رکھا۔ مقامی پولیس افسر موئی لوان نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مسئلہ شروع ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ مسجد بدھ مت کے ایک مندر (پگوڈا) کے قریب تعمیر کی گئی تھی۔ جب بدھ مت کے ماننے والوں کو اس مسجد کا پتا چلا تو انھوں نے مسلمانوں سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن مسلمانوں نے مسجد کو گرانے سے انکار کر دیا۔‘ مذکورہ اہلکار کے بقول اب حالات معمول پر آ گئے ہیں اور اس واقعے کے حوالے سے کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتے اسی قسم کے ایک واقعے میں ریاست باگو میں مقامی مسلمان اس وقت ایک قریبی گاؤں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے جب ایک مسجد کو آگ لگا دی گئی اور ایک مسلمان شخص پر تشدد کیا گیا۔ مقامی ذرائع ابلاغ شاہد ہیں کہ اس واقعے میں بدھ مت کے دو سو سے زیادہ پیروکاروں نے حملہ کر کے ایک سے زیادہ عمارتوں کا جلا دیا تھا۔ واقعے کے بعد گاؤں میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ یانگھی لی کے بقول ’مذہبی خطوط پر کشیدگی میانمار کے پورے معاشرے میں عام ہے۔‘ میانمار میں بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی اور نسلی کشیدگی سنہ 2012 میں شروع ہوئی تھی اور اس کی بڑی وجہ روہنجیا مسلمانوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔
میانمار میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ یانگھی لی نے کہا ہے کہ انھیں ان خبروں پر تشویش ہے کہ حکومت گذشتہ ہفتے مسجد پر ہونے والے حملے کی تفتیش نہیں کر رہی ہے۔
میانمار کے بارہ روزہ دورے کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ واقعے کی تفتیش نہ کرنے سے لوگوں کو ’نہایت غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔ حکومت کے لیے لازمی ہے کہ وہ بتائے کہ میانمار میں لوگوں کو نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر تشدد پر اکسانے اور اس قسم کی پرتشدد کاررائیوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘

http://www.bbc.com/urdu/world/2016/07/160702_myanmar_mosque_burned_sq

No comments:

Post a Comment