Monday 25 July 2016

"ہر معقول پسند دیندار کا نام دیوبندی ہے"

علماء ِدیوبند اپنے مسلک اور دینی رخ کے لحاظ سے کلیۃ ً اہل ِسنت والجماعت ہیں اور اہل ِسنت کا بھی اصل حصہ ہیں ہندوستان میں یہ سلسلہ قوت کے ساتھ اجتماعی رنگ میں حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ سے زیادہ پھیلا اور چمکا اس سلسلہ کی وہ کڑی جو آج ہندوستان میں اہل ِ سنت والجماعت کے مسلک کی ترجمان اور رواں دواں ہے علمائے دیوبند ہیں ، جنہوں نے تعلیم وتربیت کے ذریعہ اس سلسلہ کو مشرق سے مغرب تک پہنچایا اور پھیلایا ۔
مسلک ِدیوبند کو ئی جدید فرقہ نہیں!
علماء ِدیوبند صرف اہل ِ سنت والجماعت کے اصول وقوانین ہی کے از اول تا آخر پابند رہے ہیں بلکہ ان کے متوارث ذوق کو بھی انہوں نے تھاما اور محفوظ کیا ہے پھر وہ خود رَوقسم کے اہل ِ سنت نہیں بلکہ اوپر ان کا استناد اور سندی سلسلہ ملا ہو اہے اس لئے مسلک کے لحاظ سے نہ وہ کوئی جدید فرقہ ہیں اورنہ بعد کی پیداوار ہیں بلکہ وہی قدیم اہل ِ سنت والجماعت کا مسلسل سلسلہ ہے جو اوپر سے تسلسل اور استمرار اور سند ِ متصل کے ساتھ کابر اً عن کابرٍ چلا آرہا ہے، وقت کے عوامل اور افراط وتفریط نے چونکہ اہل ِ سنت میں مختلف شاخیں پیدا کردیں اور ہر نئی شاخ نے اصل ہو نے کا دعویٰ کیا جودعوے کی حد تک نہ رہا بلکہ اپنے وجود وبقاء کیلئے ہر شاخ نے اصل طبقہ کے خلاف محاذ بناکر اسے غیر اصل اور اپنے کو اصل ثابت کرنے کی جد وجہد کا آغاز بھی کردیا جیسا کہ اصل سے کٹی ہو ئی شاخوں کا طرزِ عمل یہی ہوتا ہے اس لئے حقیقی اصل عوام کی نگاہوں میں مشتبہ ہونے لگی اور بہت سے سوالات اٹھنے لگے مگر اصل بہر حال اصل ہی ہو تی ہے اورمعیار پر کسنے کے بعد اس کی اصلیت پوری طرح کھل کرسامنے آجاتی ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی تعلق مع اللہ کی ساری نسبتوں کے جامع

اہل ِ سنت و الجماعت کے اس اصل طبقے یا علمائے دیوبند کے اس جامع ومعتد ل ترین مسلک جس میں افراط ہے نہ تفریط نہ غلو ہے نہ مبالغہ بلکہ کمال ِ اعتدال اور جامعیت کا جوہر پیوست ہے وہ اس وجہ سے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام منتسب شعبوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب تمام ذوات ِ قدسیہ کے تعلق کواپنے مسلک کا رکن بنایا اور انہی کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی تعلق مع اللہ کی ساری نسبتوں کے جامع اور فرد ِ اکمل ہیں ۔
اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو شریعت کے تمام علمی وعملی شعبے اور نہ صرف علمی اور شرعی شعبے بلکہ دین کی ساری حجتیں جن سے یہ شعبے اور خود شریعت بنتی ہے وہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے مختلف الانواع نسبتوں کے ثمرات وآثار ہیں مثلاً آپ کی نسبت اسلامی سے عملی احکام کا شعبہ پیدا ہواجس کا اصطلاحی نام ’’فقہ‘‘ ہے آپ کی نسبت ِایمانی سے عقائد کاشعبہ پیدا ہوا جس کا فنی نام ’’ کلام ‘‘ ہے آپ کی نسبت ِاحسانی سے تزکیۂ نفس اور تکمیل ِ اخلاق کاشعبہ پیداہوا جس کا اصطلاحی نام’’ تصوف‘‘ ہے ۔

اہل ِ سنت والجماعت اور مسلک ِ دیوبند کے عناصر ِ ترکیبی

غرض دین کے شعبے ہوں یا حجتیں سب سنت ِ نبوی کی مختلف نسبتوں سے پیدا شدہ ہیں جن کے اصطلاحی نام بعد میں رکھ لئے گئے جب کہ ان کواور ان کے قواعد وضوابط کوسنت ِ نبوی سے اخذ کر کے فنون کی صورت دے دی گئی مگر ان کی حقیقتیں قدیم اور پہلے ہی ذاتِ نبوی سے وابستہ تھیں اس لئے یہ سارے  دین کے شعبے فقہ ،تصوف ،حدیث ، تفسیر ، روایت ، درایت حقائق ، اصول ، حکمت ، کلام اور سیاست وغیرہ  سنت کے اجزاء ثابت ہوئے جن کوعلمائے دیوبند نے جوں کا توں لے کر اپنے مسلک کا رکن بنالیا اور اس مسلک کے عناصر ِترکیبی قرار پائے پھر انہی شعبوں کی تحقیقات اور خصوصی مہارت وحذاقت سے اسلام میں خاص خاص طبقات پیداہوئے جو اپنے اپنے فن کے مناسب ناموں سے موسوم ہوئے جیسے متکلمین ، فقہاء، صوفیاء ، محدثین ،مجتہدین، اصولیین ،عرفاء ، حکماء اور خلفاء وغیرہ ۔
پس جیسے علمائے دیوبند کارجوع ان شعبوں کی طرف یکساں ہے اور کسی شعبہ پر غلو کے ساتھ زورِ دنیا ان کا مسلک نہیں بلکہ ان تمام شعبوں کی طرف ان کارجوع یکساں ہے جبکہ یہ تمام شعبے یکسانیت کے ساتھ ذات ِ بابرکت نبوی سے انتساب رکھتے ہیں ایسے ہی ان شعبوں کی مقدس شخصیتوں کی طرف رجوع اور ان کا ادب واحترام یکساں ہے جب کہ ان میں سے ہر شخصیت کسی نہ کسی جہت سے ذات ِ اقدس ِ نبوت سے وابستہ ہے ۔
جیسا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہر رنگ اور ہر طبقے کے افراد جمع تھے او رایک دوسرے کی عظمت ، ومحبت اورادب واحترام میں بھی انتہائی مقام پر تھے اس لئے امت کے اہل ِ علم وفضل افراد میں افضل ترین اور مقبول ترین ذوات اور اعلیٰ ترین طبقات وہی سمجھے گئے ہیں جن میں ان تمام شعبہائے دین کے اجتماع سے جامعیت کی شان پیداہو گئی ہو اور وہ بیک دم قرآن وحدیث فقہ واصول ، تصوف ، کلام ،روایت ، درایت ،پھر راہِ عمل کے اخلاق میں فقر وامارت، زہد ومدنیت ،عبادت وخدمت ،خلوت پسندی وجلوت آرائی ،بوریہ نشینی وحکمرانی کے ملے جلے احوال وکیفیات سے سرفرازہوئے ہوں۔

مسلک ِ علمائے دیوبند کا مزاج

مسلک علمائے دیوبند محض اصول پسندی کا نام ہے نہ شخصیت پرستی کانہ ان کے یہاں دین اوردینی تربیت کے لئے تنہا لٹریچر کا فی ہے نہ تنہا شخصیت ،نہ تنہا مطالعہ، نہ اپناذاتی ذہن غور و فکر کے لئے کافی ہے بالفاظ ِ مختصر لٹریچر بشرط ِ معیت وملازمت ِ صدیقین سے اس مسلک کامزاج بنا جس میں کسی ایک کے احترام سے قطع نظر جائز نہیں اور جبکہ جامعیت واعتدال اور احتیاط ومیانہ روی ہی مسلک کا جوہر ہے تودین کے ان تمام شعبوں اور علمی اصول میں قرآن وحدیث سے لے کرفقہ وکلام اور تصوف واصول وغیرہ کی چھوٹی سے چھوٹی جزئی پر جمنا اور حکمت و اعتدال کے ساتھ اسے مشعل ِراہ بنانا ہی اس مسلک کا امتیاز ہے۔ ذوات اور شخصیات کی لائن میں حضرات انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام سے لے کر ائمہ ، صلحاء ،مشائخ صوفیاء اور حکماء رحمہم اللہ کی ذوات ِقدسیہ تک کے بارے میں افراط وتفریط سے الگ رہ کران کی عظمت متابعت پر قائم رہناہی اس مسلک کی امتیازی شان ہے ۔

عقیدہ ٔتوحید اور مسلک علمائے دیوبند کا نقطہ ٔاعتدال

سو اس مسلک میں اصل چیز توحید ِخداوندی پر زور دینا ہے جس کے ساتھ شرک یا موجبات ِشرک جمع نہ ہو سکیں اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو .لیکن ساتھ ہی تعظیم اہل اللہ اور توقیر اہل فضل وکمال کو اس کے نافی سمجھنا مسلک کاکوئی عنصر نہیں پس تعظیم اس حد تک کہ توحید مجروح نہ ہو اور توحید اس درجہ تک کہ تعظیم اہل ِ دل متاثر نہ ہو یہی نقطہ ٔ اعتدال ہے جو مسلک علمائے دیوبند ہے۔

حضرات انبیاء علیہم السلام اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دیوبند کامسلک

حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں نہ تو ان کا مسلک غلو زدہ اور بے بصیرت طبقوں کی طرح ہے کہ خدا اور انبیاء کرام علیہم السلام میں کوئی فرق نہیں صرف ذاتی اور عرضی کا فرق ہے (معاذاللہ ) یا خدا ان میں حلول کئے ہوئے ہیں اور وہ ایک محض پر دہ ٔ مجاز ہیں جن میں ربانی حقیقت سمائی ہوئی ہے گویا وہ خدا کے اوتار ہیں یا وہ بشر کی عام نوع سے الگ مافوق الفطرت کوئی اور مخلوق ہیں جن میں نوع ِبشری کی مماثلت نہیں بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں علمائے دیوبند کامسلک یہ ہے کہ وہ بشر بھی ہیں، نوع ِبشر سے الگ ان کی کوئی نوع نہیں اس لئے جہاں انکی بے ادبی کفر ہے اور عظمت عین ایمان ہے وہیں اس عظمت میں شرک کی آمیزش بھی کفر  ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی علمائے دیوبند کا مسلک وہی نقطہ ٔاعتدال اور میانہ روی ہے جو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی پیدا کردہ ہے چنانچہ علمائے دیوبند بصدق ِ قلب سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الکائنات افضل البشر اور افضل الانبیاء یقین کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ آپ کی بشریت کا اقرار کرتے ہیں غلوئے عقیدت ومحبت میں نفی بشریت یا ادعاء ِ اوتار یا پردہ ٔ مجاز وغیرہ کہنے کی جرأت نہیں کرتے، وہ آپ کی ذات ِ بابرکت کو تمام انبیاء کرام علیھم السلام کی تمام کمالاتی خصوصیات ،خلت ،اصطفائیت ، کلمیت، روحیت، صادقیت ، مخلصیت ، صدیقیت وغیرہا کا جامع بلکہ مبداء نبوت انبیاء اور منشاء ولایت اولیاء سمجھتے ہیں ،وہ آپ کی اطاعت ِمطلقہ کو فر ض عین جانتے ہیں لیکن آپ کی عبادت کو جائزنہیں سمجھتے، وہ آپ کو ساری کائنات میں فر د ِ اکمل اور بے نظیر جانتے ہیں لیکن آپ ؐ میں خصوصیات ِ الوہیت تسلیم نہیں کرتے اور اس میں ذاتی اور عرضی کا فرق معتبر نہیں سمجھتے وہ آپؐ کے ذکر ِمبارک اور مدح وثناء کو عین عبادت سمجھتے ہیں لیکن اس میں عیسائیوں جیسے مبالغے جائز نہیں سمجھتے کہ حدود ِبشریت کوحدود ِ الوہیت سے جا ملائیں، وہ برزخ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جسمانی حیات کے قائل ہیں لیکن وہاں معاشرت ِدنیوی کے قائل نہیں وہ اس کے اقراری ہیں کہ آج بھی امت کے ایمان کاتحفظ گنبد ِ خضراء ہی کے منبع ِ ایمانی سے ہورہا ہے لیکن پھر بھی وہ آپ کو حاضر وناظر نہیں جانتے جو کہ خصوصیت ِ الوہیت میں سے ہے وہ آپ کے علم ِ عظیم کو ساری کائنات کے علم سے خواہ ملائکہ ہوں یا انبیاء یا اولیاء بمراتب بے شمار زیادہ اور بڑھ کر جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے ذاتی اور محیط ہونے کے قائل نہیں ۔
غرض تمام ظاہری وباطنی کمالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ساری مخلوقات میں بلحاظ ِ کمال وجمال یکتا بے نظیر اور بے مثال سمجھتے ہیں لیکن خالق کے کمالات سے ان کمالات کی وہی نسبت مانتے ہیں جومخلوق سے ہو سکتی ہے خالق کی ذات وصفات اورکمالات سب لا محدود ہیں اور مخلوق کی ذات وصفات اورکمالات سب محدود ہیں۔

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں علمائے دیوبند کا مسلک

خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے من حیث الطبقہ اگر کسی گروہ کی تقدیس بیان کی ہے تووہ صرف صحابہ کرامؓ کاطبقہ ہے ان کے سوا کسی طبقہ کو من حیث الطبقہ مقدس نہیں فرمایا کہ کسی طبقہ کی تقدیس کی ہو مگر اس پورے کے پورے طبقہ کو راشد ومرشد ، راضی ومرضی، تقی القلب ، پاک باطن ،مستمر الطاعت ،محسن وصادق اور موعود بالجنۃ فرمایا پھر ان کی عمومی مقبولیت وشہرت کوکسی خاص قرن اوردور کے ساتھ مخصوص اور محدود نہیں رکھا بلکہ عمومی گردانا ۔
علمائے دیوبند نے اپنے اس مسلک میں بھی رشتہ ٔ اعتدال کوہاتھ سے نہیں جانے دیا اور کسی گوشہ سے بھی افراط وتفریط اور غلو کو آنے نہیں دیا ان کے نزدیک تمام صحابہ کرام شرف ِ صحابیت اور صحابیت کی بزرگی میں یکساں ہیں اس لئے محبت وعظمت میں بھی یکساں ہیں .البتہ باہم فرق ِ مراتب بھی ہے ، لیکن یہ فرق چونکہ نفس ِصحابیت کا فرق نہیں اس لئے اس سے نفس ِصحابیت کی محبت وعقیدت میں بھی فرق نہیں پڑسکتا ۔
اسی طرح علمائے دیوبند ان کی عظمت وجلال کی وجہ سے انھیں بلااستثناء نجومِ ہدایت مانتے ہیں اور یہ کہ بعد والوں کی نجات انہی کے علمی وعملی اتباع کے دائرہ میں محدود ہے لیکن انہیں شارع تسلیم نہیں کرتے کہ حق ِ تشریع ان کیلئے ماننے لگیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید اور مشاجراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مسلک ِدیوبند

چونکہ ان مقدسین میں کمالِ زہد وتقویٰ اور کمالِ فراست و بصیرت کی وجہ سے جذبات ِمعصیت مضمحل اور دواعی ٔ طاعت مستقل تھے ،معصیت سے وہ ہمہ وقت بیگانہ تھے اور طاعت ِ حق میں یگانہ ایمان وتقویٰ ان کے قلوب میں مزین اور کفر وفسوق ان کے باطن میں مبغوض تر تھا یہی وجہ ہیکہ علمائے دیوبند انہیں غیر معصوم کہنے کے باوجود بوجہ محفوظیت دین کے بارے میں قابل ِ تنقید وتبصرہ نہیں سمجھتے ، ان کے مشاجرات اور باہمی نزاعات میں خطاء وصواب کا تقابل ہے ، حق وباطل یا طاعت ومعصیت کانہیں .اور سب جانتے ہیں کہ مجتہد خاطی کو اجر ملتا ہے نہ کہ زجر ۔ پس ان کا باہمی معاملات میں (جوکہ نیک نیتی اور پاک نفسی پر مبنی تھی) حسب ِ مسلک ِ علمائے دیوبند نہ بد گمانی جائزہے نہ بد زبانی یہ توحید کامقام ہے نہ تنقید کا ’’تلک دماء طھّر اللّٰہ عنھا ایدینا فلانلوّث بھا السنتنا‘‘
(حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ)
یہی وجہ ہے کہ علمائے دیوبند نے شخصیتوں کے عظمت کے اقرا ر کے ساتھ ان کے صواب کوصواب کہا اور خطاء کو خطاء پھر خطاء کا وہ علمی عذر بھی پیش ِنظر رکھاجو ایک اچھی اور مقدس شخصیت کی خطا ء میں پنہاں ہوتا ہے نیز اس خطاء پر اس کی ساری زندگی کو خاطئانہ قرار دینے کی غلطی نہیں کی.

اولیاءاللہ، تصوف اور علمائے دیوبند

اولیائے کرام ،صوفیائے عظام رحمہم اللہ کا طبقہ مسلکِ علمائے دیوبند کی رو سے امت کے لئے روح ِ رواں کی حیثیت رکھتا ہے، جس سے امت کی باطنی حیات وابستہ ہے جو اہلِ حیات ہے، اس لئے علمائے دیوبند ان کی محبت وعظمت کو ایمان کے تحفظ کے لئے ضروری سمجھتے ہیں مگر غلوکے ساتھ اس محبت وعظمت میں انہیں ربوبیت کامقام نہیں دیتے، ان کی تعظیم شرعاً ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس کےمعنیٰ عبادت کے نہیں لیتے کہ انہیں یا ان کی قبروں کو سجدہ ورکوع اور طواف ونذر یا منت یا قربانی کا محل بنا لیا جائے وہ ان کی منور قبروں سے استفادہ اور فیض حاصل کرنے کے قائل ہیں ، لیکن انہیں مشکل کشا ،حاجت روا، دافع البلا ء و الوباء نہیں سمجھتے کہ وہ صرف شان ِکبریائی ہے۔
مروجہ رسوم ،ایصال ِ ثواب اور مسلک ِدیوبند
وہ رسوم ِ شادی و غم کو اسوہ ٔحسنہ اور سلف ِ صالحین رحمہم اللہ کے سادہ اور بے تکلف طریق ِ عمل میں محدود رکھنا چاہتے ہیں ، اغیار کی نقالی یا تشبہ کو قابلِ ردسمجھتے ہیں ،غمی کے رسموں ، تیجہ ، دسواں ، چہلم اور برسی وغیرہ کو بدعت سمجھتے ہیں .اس لئے سختی سے روکتے ہیں ، اور شادی کی مروجہ رسوم کو خلاف ِسنت جانتے ہیں اس لئے انہیں رد بھی کرتے ہیں ۔
وہ ایصالِ ثواب کو مستحسن اور اموات کا حق سمجھتے ہیں مگر اس کی مخصوص صورتیں بنانے کے قائل نہیں ، جنھیں مخصوص اصطلاحات نیاز ، فاتحہ وغیرہ کے وضع کردہ عنوانات سے یا د کیا جاتا ہے۔

تکمیل ِ اخلاق تزکیۂ نفس اور شریعت وطریقت سے متعلق مسلک ِدیوبند

وہ تکمیل ِ اخلاق اور تزکیۂ نفس کے لئے حسب ِ سلاسلِ طریقت مشائخ کی بیعت وصحبت کو حق اور طریقت کے اصول وہدایات کی پابندی تجربۃً مفید اور ضروری سمجھتے ہیں ،لیکن طریقت کو شریعت سے الگ کوئی مستقل راہ نہیں سمجھتے جو سینہ بسینہ چلی آرہی ہو بلکہ شریعت ہی کے باطنی اور اخلاقی حصہ کوطریقت کہتے ہیں جو اصلاحِ قلب کا راستہ ہے اور جسے شریعت نے احسان کہا ہے اس لئے کہ اس اصول کو کتاب وسنت ہی سے ثابت شدہ جانتے ہیں .مگر اس لائن کی بے اصولی یا خلاف ِ اصول یا من گھڑت رواجی رسوم کو طریقت نہیں سمجھتے اور ان کے اختیار کرنے کو خلافِ سنت سمجھ کر قابلِ رد سمجھتے ہیں۔

فقہ اور فقہاء سے متعلق مسلک ِ دیوبند

فقہ اور فقہاء کے سلسلہ میں بھی علمائے دیوبند کا مسلک وہی جامعیت اورجواہر اعتدال لئے ہوئے ہے جو اولیاء ، علماء کے بارے میں انہوں نے اپنے سامنے رکھا جس کا خلاصہ بطور اصول یہ ہے کہ وہ دین کے بارے میں آزادی ٔنفس سے بچنے دینی بے قیدی اور خود رائے سے دور رہنے اور دین کو تشتت اور پراگندگی سے بچانے کے لئے اجتہادی مسائل میں فقہ معین کی پابندی اور ایک ہی امام ِ مجتہد کے مذہب کے دائرے میں محدود رہنا ضروری سمجھتے ہیں اس لئے وہ اور ان کی تربیت یافتہ جماعت فقہیات میں حنفی المذہب ہے لیکن اس سلسلہ تقلید اور اتباع میں بھی اعتدال وجامعیت کی روح سرایت کئے ہوئے ہے جس میں افراط وتفریط کا وجود نہیں نہ تو ان کے یہاں یہ آزادی ہے کہ وہ سلف کے قائم کردہ اصولِ تفقہ اور ان سے استنباط کردہ مسائل ہی کے قائل نہ ہوں اورہر قدم پر اور ہر زمانہ میں ایک نیا فرقہ مرتب کرنے کے خبط میں گرفتار ہوں یا بالفاظ ِ دیگر اپنے فہم ورائے کی قطعیت کے توہّم میں اجتہادِ مطلق کا دعویٰ لیکر کھڑے ہوں۔ اور نہ اس کے برعکس فقہیات میں ایسے جمود اور بے شعوری کے قائل ہیں کہ ان کے فقہی مسائل کی تحقیق وتدقیق یا ان کے مآخذوں کا پتہ چلانے کے لئے کتاب وسنت کی طرف مراجعت کرنا بھی گناہ تصور کرنے لگیں اور ان فقہی استنباطوں کارشتہ بھی قرآن وحدیث سے جوڑنا اور ان کی مزید حجتیں اپنی وسعت ِ علم سے نکال لانابھی خود رائے اور آزادی ٔ نفس کے مترادف باور کریں ۔
پس وہ بلاشبہ مقلد اورفقہ ِ معین کے پابند ہیں مگر اس تقلید میں بھی محقق ہیں جامد نہیں تقلید ضرور ہے مگر کورانہ نہیں پس ایک طرف تو وہ خود رائے اور آزادی ٔنفس سے بچنے کی خاطر نصوص ِ کتاب وسنت کو بنیاد مانتے  ہیں اقوالِ سلف اور ذوق ِ سلف تک کا پابند رہنا ضروری سمجھتے ہیں اور دوسری طرف بے بصیرتی اور کور ذہنی سے بچنے کی خاطر اصول ِ افتاء اور فتاویٰ کو ان کے اصل مآخذوں سے نکلتا ہو ا دیکھنے سے بھی بے تعلق رہنا نہیں چاہتے .غرض نہ تو وہ مجتہدین فی الدین کے بعد اجتہاد ِ مطلق کے قائل ہیں اور نہ ہی جنس ِ اجتہاد کی کلی نفی کرکے فتاویٰ کے حقائق وعلل کے استخراج اور ان کے مؤیدات کے استنباط سے گریزاں ہیں بلکہ تقلید کے ساتھ تحقیق کا ملاجلارنگ لئے ہوئے ہے۔
حدیث اورمحدثین سے متعلق مسلک ِ دیوبند
حدیث کے سلسلہ میں بھی علمائے دیوبند کا مسلک نکھرا ہوا اور صاف ہے اور اس میں وہی جامعیت اور اعتدا ل کا عنصر غالب ہے جو دوسرے مقاصد ِ دین میں ہے بنیادی بات یہ ہیکہ وہ حدیث کو چونکہ قرآن شریف کا بیان اور دوسرے درجہ میں مصدرِ شریعت سمجھتے ہیں اس لئے کسی ضعیف سے ضعیف حدیث کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے بشرط یہ کہ وہ قابل ِ احتجاج ہو حتیٰ کہ متعارض روایات کے سلسلہ میں بھی ان کی سب سے پہلے سعی اخذ وترک کے بجائے تطبیق وتوفیق اور جمع بین الروایات کی ہوتی ہے تاکہ ہر حدیث کسی نہ کسی طرح عمل میں آجائے متروک نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک سلسلہ روایات میں اِعمال اولیٰ ہے اِہمال سے.

فہم ِمرادات ِربانی اور تعین مرادات ِنبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی اصل

علمائے دیوبند کا مسلک فہم ِمرادات ِربانی اور تعین مرادات ِنبوی میں کیا ہے اور وہ کن اصول سے یہ متعین کرتے ہیں کہ فلاں آیت اور فلاں روایت سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فلاں مطلب کا ارادہ کیا ہے کیونکہ فہمِ مراد کے سلسلہ میں جبکہ مختلف مذاق اور طریقے پیدا ہوگئے ہیں جن میں اصل اور حقیقی طریقہ مل کر فی زمانہ کچھ غیر متعارف بلکہ نا قابلِ توجہ ہو گیا ہے ۔
علمائے دیوبندکے مسلک پر ہر فہمِ مراد کا طریقہ نہ خود رائے ہے نہ ادبیت ہے نہ رسم ورواج ہے نہ افسانہ وحکایات ہے او رنہ نظریات ِ زمانہ ہے بلکہ تعلیم وتربیت ہے جس کے وہی دو بنیادی رکن ہیں ایک کتاب وسنت اور ایک روشن ضمیر مربی واستاد اور اس کے ساتھ دو شرطیں. ایک استاد اور ایک تربیت یافتہ ذہنیت۔

متوارث ذوق کیا ہے؟ کیوں ضروری ہے؟

جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تابعین رحمہم اللہ نے تابعین سے تبع تابعین رحمہم اللہ نے اور پھر ان سے قرون ِ مابعد نے سلسلہ بہ سلسلہ کابراً عن کابرٍ اساتذہ رحمہم اللہ کے ساتھ کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی اور فہم ِ قرآن وحدیث میں ان کی تربیت سے وہ متوارث ذوق حاصل کیا جو اوپر والوں کاتھا اور وہی سلف سے خلف تک توارث کے ساتھ آج تک منتقل ہو تا چلا آرہا ہے اور اس ذوق اور تیار کردہ ذہن میں وہ منقولہ مرادیں جو اللہ سے رسول ؐ تک ،رسول سے صحابہ تک ،صحابہ سے تابعین تک ،تابعین سے تبعِ تابعین تک اس کے بعد سے آج کے دور تک سند کے ساتھ آئیں کیونکہ کلام کی بہت سی خصوصیات لب ولہجہ طرز وادا اور طریق ِتکلم اور ہیئت ِ متکلم سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کیفیات ِ کلام اور ہیئتیں کاغذ پر مرتسم نہیں ہوسکتیں پھر مراد کی تعیین میں اوپروالوں کا طرز ِ عمل اور نمونہ ٔ عمل بھی کافی اورد خیل ہے ظاہر ہیکہ عمل کا یہ نقشہ بھی کاغذ اور کالے نقوش میں نہیں سما سکتا مزید یہ کہ دلوں میں ایمانی حرارت کی کیفیات اور عشق ومحبت کے جذبات جو اپنے جذب وکشش سے اتباعِ حق پر ابھارتے ہیں دلوں سے ہی دلوں میں آسکتے ہیں کاغذ اور سیاہ حروف کے راستہ یا کسی اور طریقہ سے منتقل نہیں ہوسکتے اور جب کہ ان سب چیزوں کو تعین ِ مراد میں عظیم دخل بلکہ فہمِ مراد ان پر موقوف ہے اور ان کا تعلق صرف صاحب ِ ذوق اور صاحب ِ عمل اور صاحب ِ طرز شخصیتوں سے ہے کاغذ سے نہیں۔

کتاب اللہ کے ساتھ رجال ا للہ کی ضرورت

اس لئے جو طبقہ ان سارے شخصیاتی موثرات سے کٹ کر محض کاغذ اور لٹریچر کا ہو رہا ہے وہ صرف اپنے ہی نا تربیت یا فتہ نفس اور اپنے ہی خود رَو ذہن کے آزاد تخیلات اور مجر درائے سے مرادات ِ خداوندی کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تو ظاہر ہے کہ یہ خود اس کا اپنا مفہوم اور خود اس کی اپنی ہی مراد ہوگی خدا کی مراد نہیں ہوسکتی اسلئے یہ فہمِ مراد نہ ہو گا بلکہ وہمِ مراد ہوگااسی لئے جیسا کہ علمائے دیوبند کا اصل مسلک قانون ا ورشخصیت سے مرکب تھا ایسے ہی ان کا تفہیمی مسلک اور فہمِ مراد کا راستہ بھی انہی دو چیزوں سے ہے کتاب اور استاذ اور ان کے ساتھ استناد اور تربیت ِ ذہن وذوق وہ کتاب سے دین کی متعینہ تعبیر لیتے ہیں اور شخصیتوں سے ان تعبیروں کے معانی ومرادات اخذ کرتے ہیں استناد سے ان کارابطہ ذات ِنبوی سے قائم کرتے ہیں اورتربیت سے ذہن کو زیغ سے بچا کراخذ ِ مراد کی استقامت پیدا کرتے ہیں ان میں سے جو رکن بھی گرجائے گا فہم ِ مراد کی عمارت میں اتنا نقص اور کھوٹ پیدا ہو جائے گا جس سے وہ غیر معتبر ٹہر جائیگا ۔
تعلیم ہی اصل ِاصول
بہرحال دارالعلوم کایہ مسلک جامع معتدل اور ہمہ گیر ہے اور اس کے لئے اصل اصول تعلیم کورکھا ہے کیونکہ دین کا ہر شعبہ علم سے ہی وجود پذیر ہوتا ہے جہل سے نہیں تبلیغ یا تصنیف ، تمکین ہو یا سیاست ، تصوف ہو یا ریاضت ،یہ سب علم کی فروعات ہیں جو علم ہی سے وجود پذیر ہوتی ہیں علم نہ ہوتو جہالت کے ساتھ یا ان کاوجود ہی نہیں ہوسکتا یااگر ہوگاتو فتنہ بنے گا .سیاست علم سے کٹ جائے تو پرویزی وچنگیزی ،خطابت علم سے کٹ جائے تو پیشہ ورانہ وعظ گوئی ہے ، تبلیغ کی پشت پر علم نہ ہو تو رسمی تحریک اور رواجی تنظیم ہے جو علم کے لئے مہلک ہے ، تصوف کے ساتھ علم نہ ہو تو رہبانیت اور زندقہ ہے ، بحث ومناظرہ کے پیچھے علم نہ ہو تو گروہی جھڑپ اور دھڑہ بندی ہے السنۂ غیر کی پشت پر علمی مقاصد نہ ہو تو محض فنی ریسرچ یا غرض مندی ہے جس سے دین برپانہیں ہوسکتا بلکہ تلبیس کا فتنہ پھیل سکتا ہے غرض یہ تمام شعبے علم کی فروعات ہیں اور علم کے بغیر فتنے ہیں البتہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے بغیر علم بھی طاقتور نہیں ہو سکتا اس کی قوت، وسعت ِ زینت اورتاثیر وتصرف انہی شعبو ں پر موقوف ہے اگر یہ نہ ہو تو علم کا بقاء واستحکام مشکل ہے علم کی زیادتی تو بعد کی بات ہے  پس یہ شعبے تو علم کے بغیر وجود نہیں پا سکتے اور علم ان کے بغیر بقا نہیں پا سکتا دونوں ہی ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں مگر اصل اصول علم ہے اور اس کے فروعی مقاصد یہ شعبے ہیں اس لئے مسلک ِ علمائے دیوبند میں تعلیم کو جو اہمیت حاصل ہے وہ مستقلاً کسی دوسرے شعبہ کو حاصل نہیں ۔
مسلک کاعملی نقشہ شخصی کیوں نہیں ؟
مسلک کے اس عملی نقشہ کو ادار ہ کی بنیادوں میں لپیٹ کر پیش کیا گیااور اس کا نام بھی نہیں لیا گیاکہ وہ کوئی نقشہ پیش کیا جارہاہے بلکہ ادار ی عمل کی لائنوں سے ذہنو ںمیں جماتے رہے اور عمل کرتے رہے اس لئے افراد بدلتے گئے مگر نقشہ قائم رہااور ان اسلاف کے بعد بھی ان کے اخلافِ رشید نے مسلک کے اسی نقشہ کے مطابق جد وجہد جاری رکھی جس سے دارالعلوم کے راستے تعلیم وتدریس کے عموم کے ساتھ ساتھ کم وبیش یہ تمام شعبے اور عملی نقشے جاری رہے اور ان کے چلانے والے علماء کی پیدا وار بھی بدستور جاری رہی جس سے اس ادارہ کے مسلک کے تحت اس کے مخلص محافظ ہزار ہا علماء ، محدث فقیہ ،متکلم ، خطیب ، واعظ ، مناظر  مفتی ، قاضی ،صوفی ،سیاسی اور محقق پیداہوئے اورہند و بیرونِ ہند میں پھیل کر اعلاءِ کلمۃ اللہ کافریضہ انجام دیا ۔
اس جامع ِمسلک کے عناصرِترکیبی
تو علمائے دیوبند کا یہی وہ جامع مسلک اور طریقۂ عمل ہے جس سے اس جماعت کامزاج جامع بنا اور اسمیں جامعیت کے ساتھ اعتدال قائم ہوا جس سے چند بندھے جڑے مسائل یا خاص خاص فنون یا عملی گوشوں کو لیکر ان میں جمود اختیار کرلینا اور اسی میں اسلام کو منحصر کردینایااسی کو پورا اسلام سمجھ لینا اس کامسلک نہیں بلکہ اس میں تعلیم ، تبلیغ ، تصنیف، سلوک، تذکیر ،اصلاح ،اجتماعیت اورجمعیت اور ساتھ ہی تعلیمی سلسلہ دین کے تمام علمی شعبے کلام، فقہ،تصوف ،حدیث ،تفسیر اصول اور حکمت وغیرہ پھر انداز ِ فکر میں دین کی ایک ایک جزئی پر تصلب اورجمنا مگر اصولِ مذہب کے دائرہ میں رہ کر مسائل وفتوے کے اختلافی اقوال میں ترجیح وانتخاب کی حد تک صلاحیت مند مفکر اہلِ علم کا اجتہاد کرلینا بشرطیکہ اجتہاد اور وسعت ِفکر خود رائے اورذہنی بے قیدی سے خالی ہو ساتھ ہی ہمہ وقت ذکر سے غافل نہ رہنا بشرطیکہ وہ تقشف اور رنگ ِ رہبانیت سے خالی ہو نیز اجتماعیت سے خالی نہ ہونا بشرطیکہ وہ زمانہ کی رسمیات کی نقالی سے خالی ہو وغیرہ یہ سب اس جامع مسلک کے عناصر ِ ترکیبی ہیں اسی طرح ان شعبوں سے متعلقہ طبقات کی شخصیتوں میں سے کسی ایک طبقہ یا ایک شخصیت کو لیکر دوسری شخصیتوں سے منحرف ہوجانا یا ان سے سوءِ ادب اور گستاخی سے پیش آنا بھی ان کامسلک نہیں بلکہ وہ بیک وقت محدثین، متکلمین ، فقہاء،صوفیاء،حکماء،عرفاء،خلفاء، امراء سبھی کے ادب کے جامع اور سب ہی سے استفادہ اور خوشہ چینی کے مقام پر ہیں اس لئے یہ مسلک جامع ِعقل و عشق جامعِ علم ومعرفت ،جامع ِ عمل واخلاق، جامعِ دیانت وسیاست ،جامع ِ مجاہد ہ وجہاد ، جامع ِ درایت وروایت جامعِ خلوت وجلوت ،جامع ِ عبادت و معاشرت ،جامعِ حکم وحکمت جامعِ ظاہر وباطن اور جامع ِحال وقال مسلک ہے نقل وعقل کے لباس میں پیش کرنے کا مکتب ِ فکر اسے حکمت ِ ولی اللہ ہی سے ملا، اصولِ دین کو معقول سے محسوس بنا کردکھلانے کا فکر اسے حکمت ِ قاسمیہ سے ملا ، فروع ِدین میں رسوخ واستحکام پیدا کرنے کا جذبہ اسے قطب الارشاد حضرت رشید احمد گنگوہی ؒؒکی حکمت ِ عملی سے ملا ، سلوک میں عاشقانہ جذبات کا والہانہ جوش وخروش اسے قطب ِ عالم حضرت حاجی امداد اللہ قدس سرہ  سے ملا اورتصوف کے ساتھ اتباع ِ سنت کا شوق وذوق اسے حضرت مجدد الف ِثانی  ؒ اور سید احمد شہید رائے بریلی قدس سرّ ھما سے ملا ،حدیث کے ساتھ فقہ فی الدین کی نسبت اور استناد اسے حضرت شاہ عبد الغنی نقشبندی قدس سرہ سے ملا اس طرح اس مسلک میں جامعیت واعتدال کے یہ سارے عناصر بیک وقت جمع ہو گئے اور اس طرح دین کے مختلف شعبوں کی ظاہری وباطنی نسبتیں مختلف اربابِ نسبت اہل اللہ کی توجہات وتعرفات سے اسے حاصل ہوئیں جنہوں نے ملکر اور یک جا ہو کر ایک مجموعی اور معتدل مزاج پیدا کردیا۔

دیوبندی مسلک کے متعلق علامہ اقبال کا مقولہ

مسلک علمائے دیوبند کے اس جامع اور معتدل مزاج کو دیکھ کر ڈاکٹر اقبال مرحوم نے دیوبند یت کے بارے میں ایک جامع اور بلیغ جملہ استعمال کیا تھا جو اس مسلک کی صحیح تصویر کھینچ دیتا ہے ان سے کسی نے پوچھا کہ یہ دیوبندی کیا فرقہ ہے ؟ کہا کہ نہیں!  
’’ ہر معقول پسند دیندار کا نام دیوبندی ہے ‘‘
بہر حال اس جامعیت ِاصول وشخصیات سے پیدا شدہ امتزاج کا نام مسلک ِ علمائے دیوبند ہے اور یہی دیوبندیت یا قاسمیت ہے محض درس نظامی کی کتابیں پڑھنے پڑھانے کا نام دیوبندیت نہیں۔
الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات
(از: حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوّراللہ مرقدہ،
تلخیص :مولاناسید نذیر احمدصاحب قاسمی)

No comments:

Post a Comment