Thursday 28 July 2016

علما کا تمسخر؛ کفر کا اندیشہ

دینی مصلحت کا تقاضا ہے کہ علماء کی نصرت کرنا چاہئے۔ علماء کی غیبت کرنا،  ان کی تذلیل وتوہین کرنا، ان کے عیوب تلاش کرنااور ان کی پگڑیاں اچھالنا، یہ سب باتیں بہت ہی خطرناک ہیں؛ اس لیے کہ اگر عوام کے قلوب سے علماء کی وقعت نکل گئی تو وہ سب ہی علماء سے بدگمان ہوجائیں گے۔اورجب علماء سے ہی بدگمان ہوجائیں گے تودین کس سے سیکھیں گے؟
علماء سے لوگوں کو بدگمان کرنا نفرت دلانا، دور رکھنے کی کوشش کرنا' لوگوں کے لیے بد دینی کا سبب ہوتا ہے اور ایسا کرنے والوں کا ایمان بھی سلامت نہیں رہتا ۔
فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی شخص عالم کو اس لیے برا کہتا ہے کہ وہ ’’عالم‘‘ ہے تو یہ صریح کفر ہے.
اور اگر- بہ وجہ علم -اس کی تعظیم تو فرض جانتاہے؛ مگر کسی دنیوی خصومت  وعداوت(دشمنی) کے باعث،  برا کہتا ، گالی دیتا  اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق و فاجر ہے اور اگر بے سبب اور بلاوجہ بغض رکھتا ہے تو ایسے مریض القلب، خبیث الباطن  شخص کے کفر کا اندیشہ ہے۔
وَمَنْ أَبْغَضَ عَالِمًا مِنْ غَيْرِ سَبَبٍ ظَاهِرٍ خِيفَ عَلَيْهِ الْكُفْرُ وَلَوْ صَغَّرَ الْفَقِيهَ أَوْ الْعَلَوِيَّ قَاصِدًا الِاسْتِخْفَافَ بِالدِّينِ كَفَرَ(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، كتاب السير، باب أحكام المرتدين:  5/134)
وَمَنْ قَالَ لِلْعَالِمِ عُوَيْلِمٌ أَوْ لِعَلَوِيٍّ عُلَيْوِيٌّ قَاصِدًا بِهِ الِاسْتِخْفَافَ كَفَرَ.وَمَنْ أَهَانَ الشَّرِيعَةَ أَوْ الْمَسَائِلَ الَّتِي لَا بُدَّ مِنْهَا كَفَرَ وَمَنْ بَغَضَ عَالِمًا مِنْ غَيْرِ سَبَبٍ ظَاهِرٍ خِيفَ عَلَيْهِ الْكُفْرُ وَلَوْ شَتَمَ فَمَ عَالِمٍ فَقِيهٍ أَوْ عَلَوِيٍّ يُكَفَّرُ وَتَطْلُقُ امْرَأَتُهُ ثَلَاثًا إجْمَاعًا كَمَا فِي مَجْمُوعَةِ الْمُؤَيَّدِيِّ نَقْلًا عَنْ الْحَاوِي لَكِنَّ فِي عَامَّةِ الْمُعْتَبَرَاتِ أَنَّ هَذِهِ الْفُرْقَةَ فُرْقَةٌ بِغَيْرِ طَلَاقٍ عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ فَكَيْفَ الثَّلَاثُ بِالْإِجْمَاعِ، تَدَبَّرْ.
حُكِيَ أَنَّ فَقِيهًا وَضَعَ كِتَابَهُ فِي دُكَّانٍ وَذَهَبَ ثُمَّ مَرَّ عَلَى ذَلِكَ الدُّكَّانِ فَقَالَ صَاحِبُ الدُّكَّانِ هَاهُنَا نَسِيت الْمِنْشَارَ فَقَالَ الْفَقِيهُ: عِنْدَك لِي كِتَابٌ لَا مِنْشَارٌ، فَقَالَ صَاحِبُ الدُّكَّانِ: النَّجَّارُ يَقْطَعُ الْخَشَبَةَ بِالْمِنْشَارِ وَأَنْتُمْ تَقْطَعُونَ بِهِ حَلْقَ النَّاسِ أَوْ قَالَ حَقَّ النَّاسِ أَمَرَ ابْنُ الْفَضْلِ بِقَتْلِ ذَلِكَ الرَّجُلِ لِأَنَّهُ كَفَرَ بِاسْتِخْفَافِ كِتَابِ الْفَقِيهِ وَفِيهِ إشْعَارٌ بِأَنَّ الْكِتَابَ إذَا كَانَ فِي غَيْرِ عِلْمِ الشَّرِيعَةِ كَالْمَنْطِقِ وَالْفَلْسَفَةِ لَا يَكُونُ كُفْرًا لِأَنَّهُ يَجُوزُ إهَانَتُهُ فِي الشَّرِيعَةِ.(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، باب المرتدِ، ألفاظ الكفر أنواع: 1/695)
وَفِي النّصاب من ابغض عَالما بِغَيْر سَبَب ظَاهر خيف عَلَيْهِ الْكفْر وَفِي نُسْخَة الخسرواني رجل يجلس على مَكَان مُرْتَفع ويسألون مِنْهُ مسَائِل بطرِيق الِاسْتِهْزَاء وهم يضربونه بالوسائد وَيضْحَكُونَ يكفرون جَمِيعًا.
وَفِي النّصاب رجل قَرَأَ على ضرب الدُّف أَو الْقصب،يكفر لاستخفافه بِالْقُرْآنِ (لسان الحكام في معرفة الأحكام،فصل فِيمَا يكون كفرا من الْمُسلم ومالا يكون: ص 416،417)
مأخوذ از کتاب "فضائل علم و علماء (گجراتی)"
مصنف: مفتی احمد بیمات صاحب رحمہ اللہ
مترجم : خلیل احمد لولات ندوی

No comments:

Post a Comment