جامع مسجد اور دہلی وقف بورڈ
از: اعجاز ارشد قاسمی ممبر دہلی وقف بورڈ
دہلی کی شاہی جامع مسجد کے منصب امامت کا مسئلہ ایک با پھر تنازعات کے گھیرے میں ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی نگاہیں وقف بورڈ کے موقف اور فیصلہ پر ٹکی ہوئی ہیں۔یوں تو ہر مسجد سے مسلمانوں کا جذباتی رشتہ ہوتا ہے؛ لیکن شاہجہانی جامع مسجد کی انفرادی شناخت اور تاریخی یادگار کے ساتھ اسلامی اقدار وروایات کی وہ امین رہی ہے،اس کے منبر ومحراب سے اٹھنے والی آواز ہمیشہ مسلمانوں کو کلمہ وحدت کی بنیاد پر جمع کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے اس کی حیثیت مسلمانوںکی نگاہ میں نہ صرف جامع مسجدکی رہی ہے ، بلکہ اسے ملت اسلامیہ ہند کا عظیم ترین قلعہ تصور کیا جاتا رہا ہے، اس لیے مسلمانوں کے جذبات واحساسات کا خیال کرتے ہوئے ہمیں وقف بورڈ کے رکن ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری تسلیم کرنی ہوگی اور کوئی ایسی مو¿ثر تدبیر اختیار کرنی پڑے گی، جس سے شاہی جامع مسجد کے وقار واعتبار پر کوئی حرف نہ آئے اور ہمیشہ کے لیے تنازعات کا سدباب ہو۔
جامع مسجد کے حوالے سے جب ہم ماضی کی طرف نظر ڈالتے ہیں،تو منصب امامت اور دستار بندی کو لے کر اپریل ۵۷۹۱ءکا وہ شدید تنازع نظر آتا ہے، جب بارہویں امام عبد اللہ بخاری مرحوم کو والد بزرگوار مولانا حمید مرحوم کی جگہ پرمستقل امام اور موجودہ امام مولانا سید احمد بخاری کو نائب امام مقرر کیا گیا تھا۔ تنازع کی شدت اور ملک گیر سطح پر مسلمانوں میں پیدا ہونے والی بے چینی کو دیکھتے ہوئے ارباب حل وعقد نے دہلی وقف بورڈ اور مولانا عبد اللہ بخاری مرحوم کے اتفاق رائے سے اس وقت کے وزیر مملکت حکومت ہند جناب شفیع قریشی کو ثالث مقرر کیا تھا، جو آج بھی الحمد للہ حیات سے ہیں اور سبھی امور کے عینی شاہد ہیں۔انہوں نے تمام پہلوﺅں پر انتہائی مخلصانہ غوروخوض کے بعد فیصلہ کن نتائج پر جانے سے پہلے اپنی کوٹھی پر ۸۱اپریل ۵۷۹۱ءکو وقف بورڈ کے چیرمین جناب مظفرحسین برنی اور جناب عبد اللہ بخاری مرحوم کے ساتھ تبادلہ¿ خیال کے بعدجو تجویزیں پیش کی ہیں، وہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔
جناب شفیع قریشی کی یہ تجویز یں دہلی وقف بورڈ کی ایک ہنگامی میٹنگ منعقدہ ۱۲اپریل ۵۷۹۱ءدہلی کے شاستری بھون میں منظور ہوگئی تھیں اور مولانا عبد اللہ بخاری نے بھی قبولیت کی مہر ثبت کردی تھی۔ میری رائے میں شفیع قریشی صاحب کی سفارشات کو آج بھی پیش نظر رکھ کر مسئلہ کا مستقل حل نکالا جاسکتا ہے۔قریشی صاحب نے ۴صفحات پر مشتمل جو سفارشات اور تجویزیں پیش کی ہیں، ان میں بجاطور پر یہ کہا گیا ہے کہ:
” مسجد اللہ کا گھر ہے اور وہ ایک مقدس اور پاکیزہ مقام ہے، مسلمانوں کے ہاتھ میں اللہ کی مقدس امانت ہے، اس کی عزت وحرمت کی نگہبانی مسلمانوں کا اجتماعی فریضہ ہے، اس کی دیکھ بھال ، صفائی ، حفاظت اور انتظام مسلمانوں کی مذہبی واجتماعی ذمہ داری ہے۔ مسجد کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں بن سکتی، ہر مسلمان مسجد کے معاملات میں دخل دے سکتا ہے۔ اس کی آمدنی واخراجات کے بارے میں سوال کرسکتا ہے،اس کی بہتری وترقی کے لیے سوچ سکتا ہے۔مسلمان ادنی ہو یا اعلی، غریب ہو یاامیر، گدا ہویا بادشاہ، جاہل ہو یا تعلیم یافتہ؛ مسجد پر اس کا حق ہے اور ہر ایک کے لیے اس کے دروازے کھلے ہیں۔کوئی فرد یا خاندان اس کو اپنی ملکیت نہیں بناسکتا، اس پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا، یہ مسجد ہی ہے جہاں پر آکر چھوٹے بڑے کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے، جہاں محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ جامع مسجد بھی اس کلیہ سے مستثنی نہیں ہے۔ تاہم شاہ جہاں کی تعمیر کردہ اس عظیم الشان تاریخی یادگارکی اپنی کچھ روایات رہی ہیں، مسلمانوں کی زندگی میں اس کا ایک مخصوص مقام ہے، یہ مسجد فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے اور ہندوستان کی سرزمین پر مسلم کلچر کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے، یہ ہماری تہذیبی زندگی کی خوبصورت علامت ہے۔ جامع مسجد کی مذہبی اہمیت کے علاوہ تاریخی، تہذیبی اور فنی اہمیت بھی ہے، اس کے ساتھ کچھ روایات بھی وابستہ رہی ہیں، ان میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس کی امامت ایک خاندان کی وراثت رہی ہے، شاہ جہاں کے دور میں ہی یہ روایت قائم کی گئی تھی اور تب سے اس پر عمل ہورہا ہے“۔
قریشی صاحب نے اپنی تجویز میں امام کے انتخاب کو لے کر اسلامی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ اسلام مسجد کی امامت کے معاملہ میں خاندانی وراثت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتا ہے ، امام بننے کا حق صرف اسی کو حاصل ہوسکتا ہے، جو اسلام کی متعین کردہ شرائط پر پورا اترتا ہواور جس کو عامة المسلمین کا اعتماد بھی حاصل ہو۔ اسلام کے مطابق امامت ایک جمہوری ادارہ ہے۔ ایک امام کے لیے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ دین کا علم ، متقی ، پرہیزگاراور ثقہ ہو ، بلکہ اس کے علم اور زہد وتقوی پر مسلمانوں کو اعتماد بھی ہو، جب تک وہ شریعت کی تمام شرطوں کو پورا کرتا ہے وہ امام رہ سکتا ہے۔ (خاندانی وراثت کو لے کر) جامع مسجد کے معاملہ میں صورت حال ذراسی مختلف ہے، اسلام نے تہذیبی وسماجی روایات کا احترام بھی سکھایا ہے، ایسی صورت میں جب کہ روایتی ڈھانچہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے نہ ٹکرائے اور اس کے منتشر ہونے سے نقض امن کا خطرہ پیدا ہو، اور مسلمانوں کے ملی ومعاشرتی شیرازہ پر ضرب نہ پڑتی ہو؛ اس کو تسلیم کرنا ہی بہتر وافضل ہے۔ دلی کی جامع مسجد کے معاملہ میں بھی تاریخی روایات کا احترام ضروری ہے۔
جامع مسجد کی امامت کے خاندانی ووراثتی کردار کو قایم رکھنے کی وقف بورڈ نے بھی ہر عہد میں تصدیق وتوثیق کی ہے، اس نے اب تک وقف ایکٹ ۵۴۹۱ کے تحت مولانا سید حمید بخاری ، مولاناسید عبد اللہ بخاری اور موجودہ امام مولانا سید احمد بخاری کو امام تسلیم کرتے ہوئے جامع مسجد کے روایتی کردار کو بحال رکھا ہے، اس لیے اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو ذہنی طور پر انتشار وافتراق سے بچانے کے لیے شاہجہانی جامع مسجد کے تاریخی تشخص کو برقرار رکھا جائے اور منصب امامت کے حوالے سے خاندانی کردار کی حفاظت کی جائے۔ ذاتی عناد کی خاطر کچھ لوگ ہر عہد میں غیر ضروری تنازعات پیدا کرتے رہتے ہیں، جن کے سدباب کے لیے یہ ضروری ہے کہ امامت کا انتخاب اور جملہ انتظام وانصرام جامع مسجد کمیٹی کے حوالے کردی جائے، جس کی سرپرستی خود امام صاحب کریں اور نائب امام کو بھی بطور رکن رکھا جائے۔یہ کمیٹی اندرونی انتظامات کی ذمہ داری نبھاتی رہے اور حسب ضابطہ ہر سال آڈٹ رپورٹ بورڈ میں جمع ہوتی رہے۔تاکہ جامع مسجد کی امتیازی شناخت پر بھی کوئی حرف نہ آئے اور وقف بورڈ کی بھی آئینی طور پر بالادستی قائم رہے۔۲۱جون ۵۶۹۱ءمیں ایک بار وقف بورڈ نے جامع مسجد انتظامی کمیٹی بنائی بھی تھی اور تقریبا اسی طرح کی تجویز بورڈ نے اپریل ۵۷۹۱ءکی میٹنگ میں بھی پاس کررکھی ہے، جس پرازسرنو غوروخوض کے بعد عملی شکل دی جائے تو ملی مفادمیں لائق تحسین اقدام ہوگا۔
(تجویز: برائے مذہبی امور کمیٹی دہلی وقف بورڈ)
’
No comments:
Post a Comment