Tuesday 30 December 2014

مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نام!

ہندوستان میں برطانوی سامراجیت کے دور استبداد میں حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریک کو جاری رکھنے ، مسلمانانِ ہند کے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے ، مسلک حنفیہ کی مسند تدریس کو منور رکھنے ، دشمنان اسلام ، مشرکین ہندوستان اور عیسائی مبلغین کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کا بیڑا جس ادارے نےاحسن طریقے سے اٹھایا ۔ وہ دیوبند مکتبہ فکر ہے۔ اسلامی تعلیمات کی تدریس کے لیے الازہر یونیورسٹی ، مصر کے بعد درسگاہ عالمگیر شہرت نصیب ہوئی۔
مہتمم دارالعلوم دیوبند کے نام!
مکرمی!
مفتی محمدظفیرالدین مفتاحی نے دارالعلوم دیوبند میںپچاس سال سے بھی زائد عرصہ گزارااوراس پورے عرصے میں اُنھوں نے اپنے خونِ جگرسے اس عظیم ادارے کی خدمت کی،اُنھیں انتظامیہ نے جونسی ذمے داری سونپی،اُنھوںنے اُسے بخوبی نبھایا،کتب خانے کی ترتیب کاکام ہو یا مبلغ کا فریضہ،تدریس کی ذمے داری ہویافتویٰ نویسی و مطالعاتِ قرآنی ؛ہرشعبے میں اُنھوں نے اپنی بے مثال علمی صلاحیت کا لوہا وقت کے کبارِ اہلِ علم سے منوایا۔حکیم الاسلام قاری محمد طیب اور شیخ الاسلام مولانا حسین مدنی ان کی بے پناہ صلاحیت کی بناپرہی اُنھیںبہارکے معمولی قصبے سے دیوبندجیسی آفاق گیرجگہ پرلائے تھے،انھیں ان کی صلاحیتوں کا اندازہ پہلی ملاقات میں ہی ہوگیاتھا ۔دارالعلوم میں آنے کے بعدان کی صلاحیتوں کے جوہر واقعتاًخوب کھلے اور انھوں نے پوری جدوجہدکے ساتھ خدمتِ علم و دین میں اپنے آپ کو مصروف رکھا، و ہ اس مکروہ و قبیح سیاست سے ہمیشہ کنارہ کش رہے،جوبدقسمتی سے ایک عرصے سے علماکے حلقے میں سرایت کیے ہوئے ہے،وہ ایک پاک طینت،صاف باطن و صاف ظاہر شخص تھے،شرافت و سادگی ان کی زندگی کا نمایاں وصف تھا اور اسی شرافت کی وجہ سے دارالعلوم میں قیام کے دوران انھیں کئی مشقتوں،پریشانیوں،دشواریوں،حاسدوں کے حسد،بغض وعنادرکھنے والوں کے عنادکا سامنا کرنا پڑا۔انھیں ان کی صلاحیت کے موافق تدریسی کتابیں نہیں دی گئیں،انھیں نیچادکھانے اور انھیں دبانے کے لیے طرح طرح کے حربے اختیار کیے گئے۔
جب انھیں دارالعلوم دیوبند کے اولیںمفتی مفتی عزیز الرحمن عثمانی کے فتاویٰ کی ترتیب کی ذمے داری دی گئی اور انھوں نے انتہائی محنت،دقتِ نظر،جزرسی اور جاں کاہی کے بعد اُنھیں فقہی ابواب پر مرتب کردیااوران فتاویٰ کو کتابی شکل میں لانے کی نوبت آئی اور’فتاویٰ دارالعلوم‘کے نام سے کتاب چھپی،توکتاب کے ٹائٹل پیج سے مرتب کانام ہی غائب تھا،ظاہر ہے کہ یہ ایک بدترین علمی خیانت؛بلکہ یہ کسی کی محنت وجدوجہدپرجھاڑوپھیرنے جیسا تھا،جسے کوئی بھی محنت کش انسان برداشت نہیں کر سکتا تھا؛چنانچہ مفتی صاحب نے اس’کارنامہ‘کی شکایت اس وقت کے مہتمم قاری طیب صاحب سے کی،وہ چوںکہ انسان کے علم اور اس کی محنت کی قدرکرتے تھے؛اس لیے انھوں نے فوراً کتاب کے سارے نسخے جمع کروائے اور ان کے پہلے صفحے پر مرتب کانام ڈلوایا۔
مہتمم صاحب!میرے خیال سے ان تفصیلات سے آپ بھی یقیناً واقف ہوںگے؛کیوںکہ آپ کا مطالعہ و مشاہدہ وسیع ہے۔مگرمیرامقصداس تفصیل سے ایک تازہ واقعے کی جانب آپ کی توجہ دلانا ہے،جس سے یقیناًآپ واقف ہوںگے،’فتاویٰ دارالعلوم‘کا جونیاایڈیشن آیاہے،اس پرصاحبِ افادات کے ساتھ ’ملاحظہ‘،’ترتیبِ جدید و تعلیق‘اور’حسبِ ہدایت‘کے عنوانوںسے تین تین لوگوں کے نام ہیں،مگر اصل مرتب کانام غائب ہے،کیایہ مفتی ظفیرالدین صاحب کے ساتھ ان کی موت کے بعد بھی وہی ناانصافی نہیں ہے،جوان کی زندگی میں کی گئی تھی۔آپ خود بہت بڑے عالمِ دین ہیں،ایشیاکی عظیم تر اسلامی دانش گاہ کے مہتمم ہیں اور وہاں حدیث کے استاذبھی ہیں،اسلام میںامانت و دیانت کی اہمیت کے تعلق سے آپ کی خدمت میں کچھ عرض کرنا گستاخی ہوگی،مگربہر حال آپ کو اس پر غور کرنا چاہییکہ وہ شخص،جومحض پہلے سے تیار شدہ؛بلکہ علمی دنیا میں رائج و تحسین یافتہ کتاب پر ایک نظرڈالتاہے،تواس کا نام دوسطروںمیں،جوشخص عربی عبارتوں پراعراب لگادیتا ہے اور بعض عبارتوں کا ترجمہ کردیتا ہے،اس کا نام دوسطروں میں، جوشخص اس کتاب پر کچھ بھی کام نہیں کرتا،مگرچوںکہ وہ دارالعلوم دیوبند کا مہتمم ہے،تواس کا نام بھی کتاب کے ٹائٹل پیج پر،مگروہ شخص،جس نے پہلی دفعہ بندالماریوں میں بکھرے ہوئے فتووں کوجمع کیا،ان کی گردیں جھاڑیں،ان میں درج عربی عبارتوں کو پڑھا،سمجھا،ان کے ترجمے کیے،ان کے حوالے تلاش کیے،پھراُنھیں انتہائی عرق ریزی کے ساتھ مرتب کیا،اُس بندے کے نام کے لیے ٹائٹل پیج پر کہیں کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔مہتمم صاحب!یہ اہلِ علم اور محدثینِ عصرکی کیسی منطق ہے؟
کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی!
ہم آپ سے براہِ راست بھی بات کرنے کی کوشش کرسکتے تھے،مگر ہم نے سناکہ آپ جیسی شخصیت کواِس راہ سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھایاجاسکتاہے،سوہم نے یہ طریقہ اختیارکیا،اس امیدکے ساتھ کہ آپ ضرورمفتی ظفیرالدین صاحب کی محنت کی کچھ پاسداری کریںگے اوراس اعتذارکے ساتھ کہ:
رکھیوغالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف!
(یو این این)

No comments:

Post a Comment