Sunday 28 December 2014

مولوی صاحب Molvi Sahib

مولوی بہت دلچسپ اور کارآمد مخلوق ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو۔۔تو صرف نکاح کے عمل کو دیکھ لو۔۔نکاح پڑھا کے یہ حرام کو حلال کردیتا ہے ۔۔۔اور اگر غصہ میں منہ سے کچھ نکل جائے۔۔تو دوبارہ مولوی کا دروازہ کهٹکهٹانا ہوتا ہے۔۔مولوی صاحب غضب ہوگیا۔میرے منہ سے ایسے ویسے الفاظ نکل گئے۔۔میری بیوی مجھ پہ حرام تو نہیں ہوئی۔۔ مولوی تصدیق کرلے۔۔کہ نہیں ،تو ٹھیک ۔اور اگر کہیں ،کہ ہاں حرام ہوگئی ہے۔۔تو منت سماجت دیکھنے والی ہوتی ہے۔۔مولوی صاحب کچھ کرو۔۔میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔اب مولوی کیا کرے۔۔سچ بولے۔۔تو سول سوسائٹی احتجاج کرنے لگتی ہے۔۔جھوٹ بولے۔۔تو گناہ بے لذت کا ارتکاب ہوتا ہے۔۔اس لئے کہ نہ مولوی کے کہنے پہ طلاق ہوتی ہے۔اور نہ صلح ہوسکتی ہے۔۔وہ تو اپنے علم کے مطابق حق اور سچ بات کرسکتاہے۔۔لیکن کیا کریں۔ غلطی کوئی کرے۔۔بگھتنے کیلئے مولوی موجود ہے۔۔بچہ پیدا ہو جائے۔۔جی مولوی صاحب بچے کے کان میں اذان دینی ہے۔۔اب کوئی کیا کہے۔۔اتنا کچھ خود کرلیا۔اذان بھی خود دیدو۔۔لیکن اذان مولوی  ہی کو دینی ہے۔۔فوتگی ہوئی ہے۔۔جی مولوی صاحب کو دیکھو۔۔کفن دفن غسل کی کیا ترتیب ہے۔۔اب یہ تو خود کرلو۔۔جی، یہ تو مولوی صاحب ہی بہتر جانتا ہے۔۔چہرے پہ ایسی عاجزی، کہ میت چھوڑ کے اس کو رویا جائے۔۔کفن دفن سے فارغ ہوتے ہی قرآن خوانی کیلئے ایڈوانس بکنگ۔۔۔پلیز مولوی صاحب کہیں جانا نہیں،اور وہی عاجزی، کہ مولوی نہ رہے۔تو کہیں موت کا فرشتہ واپس نہ اجائے۔۔لیکن جب غم کا موقع نہ ہو۔۔تو موضوع بحث بیچارہ مولوی۔۔ھمارے ملک کو مولویوں نے تباہ کیا ہے۔جب تک یہ مخلوق اباد ہے۔۔ملک خوشحال ہو ہی نہیں سکتا۔۔اب کیا کریں۔۔مولویوں سے جان چھڑائیں۔۔تو مشکل، اور مولوی آباد رہیں۔تو مشکل۔ خود ہم سب کو کچھ کرنا نہیں۔نہ دین سیکھنا ہے۔۔نہ سکھانا ہے۔۔اتنا علم تو سب مسلمانوں پہ فرض ہے۔۔کہ زندگی اسلام کے مطابق گذار سکیں۔۔لیکن پھر مولوی کی ضرورت پڑیگی۔۔کہ سیکھائیگا۔۔کون۔٠مولوی سے نفرت کرنے والوں .ذرا عقل و دانش کو کام لاو .....مولوی وہ ملامتی فرقہ بن چکا ہے.جو کچه اچها بهی کرے تو اس اچهائی کی جڑوں میں بهی کوئی برائی تلاش کی جاتی ہے.دنیا کا سب سے بڑا مظلوم طبقہ ہے. 
بیوی کی طرف بقدر ضرورت التفات کرے تو ضرور کوئی دوسرا چکر ہے، اگر گھریلو کام میں کچھ ہاتھ بٹا لے تو جورو کا غلام،
اگرکرتا پائجامہ پہنے تو لو لو ،اگر پینٹ شرٹ پہن لے تو تھو تھو،
اگر ڈھیلے کپڑے زیب تن کرے تو اجڑا ہوامولوی، اگر چست جینس چڑھا لے تو بگڑاہوا مولوی ۔
اگر بیوی سے نفرت کرے تو خشک مزاج اور محبت کی لذتوں سے بے خبر ،اگر بیوی سے محبت کرے تو لبر لبر،
اگر پنج وقتہ نماز باجماعت کا اہتمام کرے تو ملا کی دوڑ مسجد تک ، اگر گھر ہی پر فرض ادا کرلے تو نماز کیا پڑھتا ہے ٹکریں مارتا ہے، اس سے اچھا تو نہ پڑھے۔
اگر تھوڑی آمدنی پر قناعت کرلے تو کاہل ۔ اور اگر ایکسٹرا ورک کرے تو دنیادار،
اگر تنخواہ کو پورے ماہ تک چلائے تو کنجوس اور اللہ کی رزاقیت پرشک کرنے کا الزام، اور اگر دل کھول کر خرچ کرے تو خرچیلہ اور لوگو ں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا بہتان ۔
اگر مولوی کے بچے ہونے میں کچھ تاخیر ہوجائے تو فیملی پلاننگ اور مولوی ! اور اگر 9ماہ بعد ہی اللہ اس کو صاحب اولاد بنا دے تو مولوی نے تو عورت کو بچے پیدا کرنے کی مشین بنا لیا ہے۔
اگر مولوی کے دوبچے ہوں تو مولانا ہو کے صرف دو بچے!! ،اور اگر 9 بچے ہو ں تو مولانا ہو کے نو نو بچے!!،
مولوی شادی کرے تو بیوی کے زیر عقاب، نہ کرے تو معاشرے کے زیر عتاب...
چندے سے چولہا جلائے تو قلاش، تجارت سے پیٹ کی آگ بجھائے تو عیاش...
دنیا جہاں کی سب پابندیاں مولوی کے لیے بنائی گئ ہیں :
ارے ! تم نے آج شام مولوی کو چوڑیوں کی دکان کے سامنے سے گزرتے نہیں دیکها ؟! لگتا ہے بیگم کے واسطے چوڑیاں خریدنے آیا ہو ! بہت رنگین مزاج ہے .اپنے محلے کا مولوی بهی .!
-مولوی نے آج اپنے پوتے کے لیے کھلونا خریدا ، مولوی ہوکر کهلونے خریدتا ہے ؟!
مولوی نے اچها موبائل یا لیپ ٹاپ لیا, لگتا مولوی کا چندہ اچها ہو رہا ہے!
-مولوی آج صبح مسجد سے متصل پارک میں چہل قدمی کر رہا تها." ورزش کر رہا ہوں گا بهائی " مولوی اور ورزش ؟! نہیں نہیں کچھ اور چکر ہے .!
وہ کچهه گنگنا بهی رہا تها ."تو قرآن پڑهه رہا تها" پتہ نہیں مجهے تو لگتا ہےکوئی گیت ...! دیکهو تو مولوی کو. اللہ معاف کرے .
اور تو اور ایک گلاب کے پهول کو بهی چهیڑ رہا تها.نہیں معلوم کس نیت سے ؟! مولوی اور گلاب !
--مولوی کل بنک میں دکها تها.لگتا ہے بنک اکاؤنٹ بهی ہے مولوی کا ؟! مولوی اور بنک اکاؤنٹ؟ !
مولوی کا بچہ مدرسہ میں پڑے تو طنز، "مولوی کا بیٹا مولوی ہی ہوگا".کسی انگلش سکول میں پڑھائے تو اعتراض ."مولوی اپنے بچے کو انگریز بنا رہا ہے".!
-یہ مولوی صاحب ولیمہ کی اس تقریب میں کیا کررہا ہے ؟ بهئ نکاح پڑهانے آیا ہوگا."ارے ! نکاح تو اس جوڑے کا پہلے ہی ہوا ہے". تو پهرضرور حلوے اور بریانی کی خوشبو انہیں یہاں کهینچ لائی ہوگی.مگر وہ تو اس جوڑے کا رشتہ دار بهی تو ہے."رشتہ دار ہے ؟ اف خدایا، آپ نے سب کے سامنے جوڑے کی بے عزتی کردی کہ وہ ایک مولوی کے رشتہ دار ہیں.
--حکومت کے حق میں بولے تو درباری مولوی ، خلاف بولے تو فسادی مولوی .
--مولوی سیاست میں آئے تو اعتراض کہ ان کا کام مسجد و مکتب میں ہے .اسمبلی و پارلیمنٹ میں نہیں.سیاست میں حصہ نہیں لے تو اعتراض مولوی نے اسلام کو مسجد میں قید کرلیا ہے.ملا کی دوڑ مسجد تک.
--بهارت کی تاریخ میں آج تک کوئی مولوی ملک کا صدر یا وزیراعظم نہیں بنا بلکہ کسی بہت بڑے ادارے کا سربراہ بهی نہیں بنا .ملک کے سب فیصلے عوام نے کئے ، ملک کو دو لخت بهی ٹائی کوٹ والوں نے ہی کیا مگر الزام پگڑی پہ کہ مولوی نےملک کو تباہ کردیا.

سنگلاخ پہاڑیوں اور خاردار جنگل میں گھرا ھوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے.. ان کی معاشرت ھندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ھوئی تھی کہ رومیش علی' صفدر پانڈے' محمود مہنتی. کلثوم دیوی اور پربھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا.. گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رھتا تھا.. جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا.. کچھ لوگ نہا دھوکر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے "دینی فرائض" سے سبکدوش ھوجاتے تھے..
ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے.. اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ھوتا تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے تھے.. نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے.. کوئی شادی طے ہوگئی ھوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے.. بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے.. اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رھتا تھا..
برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ھوا..
ایک زمانے میں "ملّا" اور "مولوی" کے القاب علم و فضل کی علامت ھوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا' اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا.. رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے..
داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا.. کالجوں' یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا.. مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی' شبراتی' عیدی' بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذئے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں..
لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ھوتی رھتی ھے..؟
کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ھوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ھے..؟
دن ھو یا رات' آندھی ھو یا طوفان' امن ھو یا فساد' دور ھو یا نزدیک' ہر زمانے میں شہر شہر' گلی گلی' قریہ قریہ' چھوٹی بڑی' کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑھا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سرچھپا کر بیٹھ رھا تھا..
اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی' نہ کوئی فنڈ تھا' نہ کوئی تحریک تھی.. اپنوں کی بے اعتنائی' بیگانوں کی مخاصمت' ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا.. اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع' کہیں دین کا شعلہ' کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی.. برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح________ جہاں دین کی چنگاری بھی گل ھوچکی تھی' ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا..
یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان' کہیں نام کے مسلمان' کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رھے اور جب سیاسی میدان میں ھندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ھوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا..
برصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ھوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ھر دور اور ھر زمانے میں قائم رکھا..!!
افسوس صدا فسوس          
آج کل بعض نام نہاد مولویوں کی غلط حرکتوں کی وجہ سے بعض لوگ یہ سمجھنے لگے ہیںکہ : مولویت ایک پیشے کا نام ہے، مولویت لوگوں کے ٹکڑوں پر پلنے کا نام ہے، مولویت تیجے، دسویں، چالیسویں کھانے کا نام ہے، مولویت ساتے او جمعراتے لینے کا نام ہے، مولویت قبروں کی مجاوری اور نذرانوں کے کاربار کا نام ہے، مولویت مالداروں کی چاکری کا نام ہے... مگر! میں علماء حق کے تاریخی کردار کی بناء پر ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ: مولویت نبی ﷺ کی وراثت کا نام ہے، مولویت صحابہ کی خلافت کا نام ہے، مولویت پیام نبوت کی دعوت کا نام ہے، مولویت خدا کے دین کی خدمت کا نام ہے، مولویت صداقت و حقانیت کا نام ہے، مولویت ناموس رسالت ﷺ اور ناموس صحابہ کی حفاظت کا نام ہے، مولویت سعید بن جبیررض کی عزیمت کا نام ہے، مولویت ابوحنیفہ رح کی فقاہت کا نام ہے، مولویت امام مالک رح کی حق گوئ کا نام ہے، مولویت امام احمد بن حنبل رح کی استقامت کا نام ہے، مولویت امام ابن تیمیہ رح کی جرات کا نام ہے، مولویت مجددالف ثانی رح کی جہد مسلسل کا نام ہے، مولویت شاہ ولی اللہ رح کی بصیرت کا نام ہے....
منقول

No comments:

Post a Comment