Sunday, 4 September 2022

نماز سے پہلے معروف نیت کی حقیقت

نماز سے پہلے معروف نیت کی حقیقت
-------------------------------
--------------------------------
باسمہ تعالیٰ
 السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید کہ آپ تمام حضرات بخیر و عافیت ہونگے
کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام نماز کی نیت کے سلسلے میں یہ لفظ جو زبان زد ہےنويت ان اصلي للہ تعالی الخ
کیا اس اس طرح کے الفاظ کسی حدیث میں وارد ہے؟
یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ سے اس طرح کے الفاظ ثابت ہیں؟
 نیز فعل نبی ﷺ قول نبی ﷺ اور تقریر نبی ﷺ سے یہ بات ثابت نہیں ہے تو تعامل ناس کے سلسلے میں ائمہ اربع کی کیا رائے ہے؟
براہ کرم  مدلل جواب مرحمت فرماءین
المستفتی محمد افضل حسین بیگوسرائے
بتاریخ ۲۵محرم الحرام سن ۱۴۴۴ھجری
الجواب وباللہ التوفیق:
"عادات" سے امتیاز پیدا کرنے کے لئے "عبادات" میں نیت کرنا لازم وضروری قرار دیا گیا ہے، کوئی بھی عمل ِ شرعی بغیر نیت کے عنداللہ مقبول نہیں: 
عن عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُول: ِانَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (بخاری حدیث نمبر ا)۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ کسی کام کو کرنے کا پختہ عزم وارادہ کرنے کو “نیت “ کہتے ہیں۔ نیت کا محل دل ہے، زبان  نہیں! زبان سے نماز و روزہ وغیرہ کی نیت کے الفاظ کہنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ صحابہ وائمہ متقدمین سے؛ اس لئے اصل نیت دِل ہی کی ہے، نیت کرنا اصلاً زبان کا کام نہیں؛ مگر لوگوں پر وساوس و خیالات اور مختلف افکار کا غلبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے نیت کے وقت دِل متوجہ نہیں ہوتا، دِل کو متوجہ کرنے کے لئے علماء متأخرین نے فتویٰ دیا ہے کہ نیت کے الفاظ زبان سے بھی ادا کرلینا بہتر ہے، تاکہ زبان سے ادائی کے ساتھ دِل بھی عبادت کی طرف اچھی طرح متوجہ ہوجائے۔
نماز کی نیت کے بارے میں فقہاء نے بالتفصیل تحریر فرمایا ہے کہ: 
"النیة إرادۃ الدخول فی الصلوٰۃ والشرط أن یعلم قبله أی صلوٰۃ یصلی، وأدناها ما لو سئل لأمکنه أن یجیب علی البداهة وإن لم یقدرعليه، إلا بتأمل لم تجز صلوٰته، ولا عبرۃ للذكر باللسان فإن فعله لتجتمع عزیمة قلبه فهو حسن، کذا فی الکافی ، ومن عجز عن إحضار القلب یکفیه اللسان" کذا فی الزاهدی ۔ (الھندیة ١٤٥/١)
و فی ’’الدر المختار‘‘: هی الإرادۃ لا مطلق العلم والمعتبر فيها عمل القلب اللازم للإرادۃ فلا عبرۃ باللسان إن خالف القلب لأنه کلام لانية، وهو أی عمل القلب أن یعلم عند الإرادۃ بداهةً بلا تأمل أی صلوٰۃ یصلی۔ (۲/۸۳، کتاب الصلوٰۃ ، بحث النیۃ)
یعنی نیت تو دراصل دل کے ارادہ ہی کو کہا جاتا ہے خواہ جس زبان میں چاہے ارادہ کرلے نیت کا تحقق ہوجائے گا۔ نماز کی نیت کے الفاظ کسی حدیث سے ثابت تو  نہیں ہیں لیکن حج وعمرہ میں نیت کے الفاظ: 
(لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا، صحيح مسلم: 1251)
وارد ہوئے ہیں، اسی پر  نیت نماز کے تلفظ کی گنجائش اور بعض صورت میں استحسان متفرع ہے۔ [الدر المختار اور حاشية ابن عابدين 1/ 127]  میں ہے:
"والجمع بين نية القلب وفعل اللسان هذه رتبة وسطى بين من سنّ التلفظ بالنية ومن كرهه لعدم نقله عن السلف والتسمية كما مرّ عند غسل كل عضو، وكذا الممسوح والدعاء بالوارد عنده أي عند كل عضو".
واللہ اعلم بالصواب 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_98.html


No comments:

Post a Comment