کیا دارالعلوم دیوبند موروثی ادارہ بن چکا ہے؟
مولانا محمود مدنی دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رُکن منتخب
دیوبند سے مورخہ 13 ستمبر 2022 کو موصولہ اطلاعات کے مطابق اسلامی تعلیم کے مرکزی ادارہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی کو شوریٰ کا رکن نامزد کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اس کی تصدیق کی ہے۔
پیر کے روز سے ادارے کے گیسٹ ہاؤس میں جاری شوریٰ کے تین روزہ اجلاس میں منگل کی شام بعد نمازمغرب منعقد چوتھی نشست میں شوریٰ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی کو دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کا رکن منتخب کیا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ’’دیوبند ٹائمز‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ شوریٰ کے ایک رکن کی جگہ خالی تھی جس پر مولانا محمود مدنی کو متفقہ طور پر شوریٰ کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔ (رضوان سلمانی/سمیر چودھری) (بشکریہ: دیوبند ٹائمز)
کیا دارالعلوم دیوبند موروثی ادارہ بن چکا ہے؟
آج بعد نمازمغرب مولانا سید محمود مدنی رکن شوریٰ دارالعلوم منتخب ہوگئے. خیر اس پر حیرت کی کوئی بات نہیں. ابھی پچھلے ہی سال مولانا سید ارشد مدنی کو صدرالمدرسین بناکر شوریٰ میں داخل کروایا گیا ہے اور اب مولانا محمود کو رکن شوریٰ بنایا گیا ہے. سوال یہ ہے کہ کیا سن 1982 میں مولانا اسعد مدنی کا سارا اختلاف اسی پر نہیں ہوا تھا کہ دارالعلوم موروثی ادارہ نہیں؟؟؟
مولانا سالم صاحب قاسمی رحمہ اللہ کو اہم ذمہ داریاں دیے جانے پر وبال ہوگیا تھا لیکن آج خاندان در خاندان نسل بعد نسل مولانا اسعد مدنی کے اعزاء دارالعلوم کے اہم ترین عہدوں پر براجمان کیے جارہے ہیں لیکن ہر طرف خاموشی ہے.
کیا دارالعلوم بھی جمعیت کی طرح مدنی خاندان کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے؟؟ کیا کوئی ایسا جرت مند قاسمی زندہ ہے جو اس استحصال اور مؤثر آواز اٹھا سکے ؟؟؟
آپ شوریٰ کو دیکھیں تو اکثر ممبران شوریٰ مدنی خاندان کے رشتہ دار ہی ملینگے.
مولانا عبدالعلیم فاروقی کئی طرف سے مولانا ارشد مدنی کے رشتہ دار ہیں.
مولانا غلام وستانوی مولانا ارشد مدنی کے سمدھی ہیں. مولانا انوارالر حمٰن مولانا محمود مدنی کے بہنوئی. اور بقیہ چند ایسے لوگ ہیں جو انہی حضرات کے رحم و کرم پر چلتے ہیں اپنا کچھ نہیں ہے انکا.
نہ اپنی رائے ہے نہ اپنا نظریہ نہ اپنا کوئی نصب العین نہ کوئی ہدف.
اب آپ دیکھیں مولانا غلام رسول خاموش کے انتقال کے بعد مولانا کے بیٹے کو رکن منتخب کرلیا گیا.
مزید ملاحظہ فرمائیں. مولانا انوارالر حمٰن انکے والد مولانا مرغوب الرحمٰن مہتمم کے علاؤہ رکن شوریٰ بھی تھے. اور اس سے قبل انکے دادا مشیت اللہ قاسمی بھی رکن شوریٰ تھے. اب اسی لئے انوارالرحمٰن صاحب رکن شوریٰ ہیں کیونکہ انکے ابا اور دادا رکن شوریٰ تھے اور اب آگے انکی اولاد محمد بجنوری تیار ہیں رکن شوریٰ منتخب ہونے کے لئے.
اسی طرح شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ صدر المدرسین ہونے کی حیثیت سے شوریٰ میں جلوہ افروز ہوتے تھے اسکے بعد مولانا سید اسعد مدنی نے جب قبضہ کیا تو وہ رکن شوریٰ منتخب ہوئے اس کے بعد اب مولانا محمود مدنی رکن شوریٰ منتخب ہوگئے ۔ مطلب اراکین شوریٰ کی فہرست دیکھیں تو ایک ہی خاندان کے ارد گرد گھومتی نظر آئیگی جبکہ دیوبند میں بانی دارالعلوم حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی کا خاندان بھی سکونت رکھتا ہے اور اچھا علمی مقام ہے لیکن وہ لوگ شوریٰ کے رکن منتخب نہیں ہوسکتے اسی طرح حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کا خانوادہ بھی اس قابل نہیں اور اسی طرح مزید سیکڑوں صلاحیت مند خانوادے اور انکے علمی وارثین موجود ہیں لیکن وہ سب خاک چھان رہے ہیں جبکہ مدنی خاندان کے لوگ چاہے صلاحیت ہو یا نہ ہو دارالعلوم میں انکا طالب علمی کا ریکارڈ چاہے جیسا رہا ہو لیکن رکن شوریٰ وغیرہ انہی کو منتخب ہونا ہے. یہ کیسا دہرا معیار ہے اگر یہی سب کرنا تھا تو حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر انکی آخری عمر میں ظلم کے پھاڑ کیوں توڑے گئے؟؟؟ آج انکی خدمات کو کھرچ کھرچ کر مٹایا جارہا ہے۔ دیوبندیت کو اس قدر سمیٹ کیوں دیا گیا ہے؟؟؟ آخر کب تک یہ استحصالی نظام چلیگا؟؟؟.
بندہ عبدالرحیم دیوبندی:
(+974 7715 8695)
(صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_13.html?m=1
No comments:
Post a Comment