Saturday, 17 September 2022

اظہارتشکر کے اسلامی ونبوی طریقے

اظہارتشکر کے اسلامی ونبوی طریقے
عجمی تعبیرات اس کی  متبادل ہونگی یا نہیں؟ اصلاح جماعت تحریک گروپ میں ہوئی ایک علمی بحث شکر وکفر شکریہ ادا کرنے کا طریقہ؟
-------------------------------
--------------------------------
الشُّكْرُ: تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل: وهو مقلوب عن الکشر، أي: الکشف، ويضادّه الکفر، وه: نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور: مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل: أصله من عين شكرى، أي:
ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه 
والشُّكْرُ ثلاثة أضرب:
شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة.
وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم.
وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه.
وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [سبأ/ 13]،
(ش ک ر) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں۔ شکر کی ضد کفر ہے۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا۔ 
شکر تین قسم پر ہے 
شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا.
شکرلسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا.
 شکربالجوارح. یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا۔ اور آیت کریمہ: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [سبأ/ 13] اے داود کی آل میرا شکر کرو۔ 
كفر (ناشکري)
الكُفْرُ في اللّغة: ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا: سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [الأنبیاء/ 94]. وأعظم الكُفْرِ: جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال: فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [الإسراء/ 99]، فَأَبى أَكْثَرُالنَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [الفرقان/ 50] ويقال منهما: كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران: لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [النمل/ 40]، وقال: وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [البقرة/ 152]
(ک ف ر) الکفر 
اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپالیتی ہے۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے۔ کفر یا کفر ان نعمت کے معنی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے: ۔ 
فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94]
تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کفر کا لفظ انکار دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے: ۔ 
فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [الإسراء/ 99] 
تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا، 
فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [الفرقان/ 50] 
مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کَفَر فھو کافرٌ ہر دو معانی کے لئے آتا ہے۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا: ۔
لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [النمل/ 40] 
تاکہ مجھے آز مائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کرنیوالا ہے۔ 
وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [البقرة/ 152] 
اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔ (مفردات القرآن /امام راغب اصفہانی۔ آیت نمبر 027:040 ) 
 شکر گزاری، اورنعمت شناسی کی اس قرآنی حقیقت بیانی اور بلیغ ہدایات کے بعد ارشاد نبوی ملاحظہ فرمائیں: 
1955 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ح وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْاللَّهَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ (سنن الترمذي. كتاب البر والصلة 1955)
(جو شخص انسان کا شکریہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرسکتا)
اس حدیث کی وضاحت میں امام خطابی کا خیال یہ ہے کہ جس شخص کی طبعیت اور مزاج میں انسانوں کی احسان شناسی نہ ہو وہ  لازماً اللہ کی نعمتوں کی ناقدری بھی کرے گا۔ یا مطلب یہ ہے کہ  اللہ اسی شخص کے شکریہ کو قبول فرماتے ہیں جو انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کا عادی ہو۔
قال الخطابي: هذا يتأول على وجهين: أحدهما أن من كان من طبعه وعادته كفران نعمة الناس وترك الشكر لمعروفهم كان من عادته كفران نعمة الله تعالى وترك الشكر له، والوجه الآخر أن الله سبحانه لا يقبل شكر العبد على إحسانه إليه إذا كان العبد لا يشكر إحسان الناس ويكفر معروفهم لاتصال أحد الأمرين بالآخر انتهى.
شکریہ ادا کرنے کا طریقہ؟ 
اصل تو یہ ہے کہ انسان کے ساتھ جب کوئی فضل وکرم اور احسان کا معاملہ کرے تو حتی الوسع اس کے اس احسان کی مکافات وجزاء محسوس طور پر ادا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ تھی کہ جب کوئی کچھ ھدیہ پیش فرماتا تو آپ اس کا برتن خالی واپس نہ فرماتے! یہی محسوس مکافات منعم کی اصل تعریف وثناخوانی ہے۔ شکر فعلی آپ کی سنت مبارکہ تھی۔ تاہم اگر دست بدست حسی طور پہ بدلہ نہ دیا جاسکتا ہو تو کم از کم  زبان سے ہی "جزاک اللہ خیرا" کہدینے سے اس کی نعمت کی مکمل مکافات ہوجائے گی۔ اور اسں منعم کی حقیقی تعریف بھی ہوجائے گی۔
بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّنَاءِ بِالْمَعْرُوفِ 
2035 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ 
(سنن الترمذي. كتاب البر والصلة)
یعنی جب کسی کے ساتھ احسان کا برتائو کیا جائےاور وہ جواب میں شکر لسانی کرتے ہوئے 'جزاک اللہ خیرا' کہدے تو گویا اس نے محسن کی مکمل شکرگزاری کردی۔) شکریہ کی اصلیت احسان شناسی اور اس کا اعتراف واظہار ہے۔اسلام نے صرف اعتراف واظہار تشکر تک معاملہ محدود نہیں رکھا بلکہ محسن کے ساتھ فعلی احسان و سلوک  اور آخر میں زبانی مکافات کی تعلیم دی ہے۔ جو دراصل محسن کے لئے خدا تعالی سے خیر کی دعا کی طلب ہے۔
صنع أبوالهيثم بن التيهان للنبي صلى الله عليه وسلم طعاما فدعا النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه فلما فرغوا قال أثيبوا أخاكم قالوا يا رسول اللهِ وما إثابته قال إن الرجل إذا دخل بيته فأكل طعامه وشرب شرابه فدعوا له فذلك إثابته.
(عن جابر بن عبدالله، سنن أبي داود: 3853)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بصیغہ امر امت کو ہدایت کی ہے کہ کرم فرما کو بدلہ اور دعا دی جائے! شکریہ ادا کرنے کا یہی نبوی اور افضل طریقہ ہے۔اس میں اس بات کا  اعتراف بھی ہے کہ میں تو آپ کے احسان کا بدلہ دینے سے عاجز ہوں۔ اللہ تعالی ہی آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ جو حقیقت میں دعا ہے جس سے احسان کرنے والے کو دنیا وآخرت میں بھلائی ملیگی۔ شکریہ، شکریہ، آداب وغیرہ جیسے کلمات سے اظہارتشکر ناقص اور ادھورا طریقہ ہے۔ یہ  دعائیہ کلمہ بھی نہیں  ہے کہ جس سے محسن کو دنیا وآخرت میں کچھ بھلا ہوسکے۔ سوبار بھی کوئی اس کا ورد کرنے لگے تو بھلا محسن کو اس سے کیا بھلا ہوگا ؟جبکہ ابھی حدیث گزرچکی ہے کہ اسے بدلہ سے نوازو ۔خواہ دعا کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو!
 لہذا اس سے بچتے ہوئے نبوی طریقہ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رسم ورواج کے آج کے سونامی لہر کے سامنے "مرغ حرم" کو متاثر نہیں' "موثر" بننے کی ضرورت ہے۔ اسلام ایک مکمل دین وتہذیب ہے کسی دوسرے مذہب وتمدن سے کچھ در آمد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اظہار تشکر کرنے والے کے لئے مستحب اور افضل یہ ہے کہ اس عمل کے لئے وہی الفاظ منتخب کرے جو زبان رسالت مآب سے ماثور ومنققول ہیں۔ اس کی نورانیت وروحانیت ہی کچھ اور ہوگی۔ تاہم اگر حالات و تقاضے کی وجہ سے حلقہ اغیار میں اس طرح کا معاملہ درپیش ہوجائے تو ایسی  صورت میں اظہار تشکر کے لئے ایسی تعبیر اختیار کی جاسکتی ہے جو دوسری قوموں کا شعار نہ ہو اور جس سے جاہلیت کے عقائد ورواج کی عکاسی نہ ہوتی ہو۔کیونکہ ایک عاشق اور محب کو "مزاج یار" کا آشنا اور "رمزشناس" ہونا چاہئے۔ تاکہ آداب زندگی میں اسلامی  اصولوں کا محافظ وپاسدار بن سکے۔  موقع محل کی مجبوری کے تحت کوئی مناسب حکمت عملی اور پہلو اختیار کرلے۔ لیکن کوئی بھی طریقہ "جزاک اللہ خیرا" کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ فرمان نبوی "اثيبوا أخاكم"  کی کامل تفسیر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
....................
مذکورہ مراسلے میں درج آیات و احادیث میں شکر ادا کرنے کا حکم یا ہدایت دی گئی ہے، البتہ شکریے کے الفاظ صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تشکر آپ کی اپنی زبان میں ہوا کرتے تھے، ظاہر ہے آپ اردو یا فرنگی میں تو ادا نہیں کرتے اس لحاظ سے یہ عمل تعبدی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم اردو میں "شکریہ" یا انگریزوں سے "تھینکس" کہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل ہو گیا کیونکہ آپ نے الفاظ کا تعین کیا اور نہ اس کا مطالبہ کہ فلاں الفاظ میں اظہار تشکر کیا جائے۔
............. شعیب ندوی 
 یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو متعین الفاظ میں شکریہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں دی ہے کہ عربی ہی میں شکریہ ادا کیا جائے۔ اس کی بجائے آپ نے طریقہ بتایا کہ اس طرح اظہار تشکر ہو۔
شعیب ندوی 
---------
شکر ایک عبادت ہے، اور بڑی عظیم و اہم عبادت ہے.
♻ جیسا کہ مذکور ہے اس کے لئے الفاظ ہونا ضروری نہیں، سنت نبویہ کا ممتاز پہلو ہے مکافات عمل .... جو آج کل تقریبا مفقود ہے، آنحضرت صلی اللہ علیه وسلم کی عادت مستمرہ تھی احسان کا عملی بدل ادا فرماتے.
♻ شکر کا دوسرا طریقہ ہے زبان سے شکر کرنے کا .....جس میں کوئی تقیید نہیں، کہ کن الفاظ میں ہو اورکن میں نہ ہو.
♻ زبانی شکر کا سب سے بہترین طریقہ ہے وہ ہے جو حدیث پاک میں وارد ہوا ہے، جزاک الله خیرا کہنا.
♻ اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعا دینا شکر کا ایک طریقہ ہے، گرچہ اعلی و افضل وہی دعا ہے جو وارد ہوئی ہے، تاہم نفس دعا کا ثبوت بھی اسی حدیث سے ملتا ہے.
♻ شکر لسانی چونکہ مطلق ثناء باللسان کے ہیں....نیز حدیث  مذکور کے الفاظ "ابلغ فی الثناء" خود مشیر ہیں کہ انتہائی درجہ کا شکر ہے... یعنی اس کم درجہ بھی موجود ہیں .... مطلب یہ کہ منعم و محسن کی تعریف کرنا یا اس کے احسان کو احسان ماننا خواہ کسی الفاظ میں لسانی شکر میں داخل ہیں.... جس طرح عرب کہتے ہیں: "شکرا" جس کی اصل ہے اشکرک شکرا .... اسی طرح اردو میں شکریہ کہا جاتا ہے....
♻ دوسری زبان کے الفاظ جب تک ایک زبان اور لینگویج تک ہیں تو اس کا استعمال  میں قباحت کی کوئی عام دلیل نہیں ... کوئی دلیل خاص سے ہو یا کوئی خاص لفظ ہو جو خصوصا کسی سبب ممنوع ہو تو اور بات ہے.
♻ البتہ اگر وہ کسی قوم کا شعار ہے تو اس کا کہنا اگر نقل کے قصد سے ہے تو تشبہ ہے اور ناجائز ہے، اور بلا قصد ہے تو مشابہت ہے جو ناجائز نہیں، اختیار کے لائق نہیں.
♻ 'تھینک یو' کہنا بندے کو نہیں لگتا کہ تشبہ یا مشابہت ہی ہے... کیونکہ یہ زبان کا لفظ ہے ... اسے اردو کے شکریہ اور عربی شکرا سا سمجھنا چاہئے.
اور جیسا کہ اوپر آیا کہ اعلی و افضل دعائے مسنونہ سے بڑھ کر اور ہو بھی کیا سکتا ہے.
محمد توصیف قاسمی 
-----------------
یہاں گفتگو میں شاید سائل کی مراد سے تجاوز کیا گیا......اور جو بات مفتی شکیل صاحب نے فرمائی بالکل مسلم ہے کہ دعائے مسنونہ کی اگر "تعجیم" کردی جائے تو عمل کو بچے گا ہی کیا.....لیکن اس قاعدہ کا اطلاق تھنیکس پر اس لئے بعید از قیاس ہے کہ وہ کسی نہ تو ترجمہ ہے اور نہ ہی متبادل....وہ اپنی ایک زبان کا ایک تشکر کا صیغہ ہے.....
هذا ما عندى والله اعلم بالصواب
محمد توصیف قاسمی
.............
لکھنؤ میں ایک مدرسہ میں جانا ہوا مفتی .............. صاحب کے (استاذ ندوة العلماء).... حفظ ناظرہ کی تعلیم ہے ... فقط
ایک چھوٹا سا پروگرام تھا.... بچے دعائیں اس طرح سنارہے تھے
مثلا کھانا کھانے کی دعا..... اللھم کذا و کذا
اردو میں کھانے کی دعا:
یا الله....الخ
انگریزی میں کھانے کی دعا:
O Allah....x...y...z
سن کر سخت افسوس ہوا....موقع ایسا نہیں تھا کچھ کہا جائے.....ندوہ کے کئی بڑے اساتذہ مع نائب مہتمم و مفتی ..... صاحب اور دیگر اساتذہ ندوہ موجود تھے
نیز میں مفتی ...... صاحب (جو مندوب تھے) کے ساتھ بس لد لیا تھا کہ پروگرام دیکھوں کہ کیا ہورہا ہے
مفتی شکیل صاحب کا استدراک فقط خیالی نہیں ...... عملا موجود ہیں
محمد توصیف قاسمی
.............
بحث چونکہ ختم کرچکا ہوں. اس لئے تفصیل دوبارہ چھیڑے بغیر صرف آپ کے تبصرہ پہ تعلیق کے طور پہ مختصرا عرض ہے کہ شکریہ کے تینوں طریقے تفصیل سے عرض کردیئے گئے جس سے واضح ہے کہ جون سا طریقہ چاہیں اختیار کیا جاسکتا یے۔یہ اسلامی موقف ہے. تاہم شکریہ کی ادائی کا سب سے افضل وکامل  طریقہ یہ ہے کہ الفاظ نبوی جزاک اللہ خیرا اختیار کئے جائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو ابلغ فی الثناء قرار دیں۔ لامحالہ آپ کا عمل بھی اسی پہ ہوگا۔ پہر کہنا کہ حضور نے طریقہ کی تعیین نہیں کی۔ کتنا تعجب خیز ہے! اس کے علاوہ دوسرا طریقہ ناجائز نہیں ہے بلکہ ناقص ہے. ابلغ فی الثناء سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے. شکریہ یا اس کے ہم معنی الفاظ سے بھی منعم کے احسان کا اعتراف واظہار کیا جاسکتا جاسکتا ہے۔۔۔۔لیکن یہ افضل طریقہ کے خلاف ہوگا. اسلام تو اپنے دامن میں لامتناہی وسعت رکھتا ہے. اسی لئے تو چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی جواں ہے اور تاقیامت جواں رہے گا اس پہ  کہولت یا شیخوخت طاری نہیں ہوسکتی۔ بدلتے ہوئے حالات و تقاضے وچیلنجس کے سامنے علماء دین کتاب وسنت سے ہم آہنگ جدید احکام کا استنباط فرمالیتے ہیں۔ احکام اسلام کسی بھی موڑ پہ زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے سے انکاری نہیں. تھینکس وغیرہ کہنے کے احکام بھی مخصوص حالات، زمانے اور پس منظر میں ممنوع شرعی نہیں۔ بلکہ مباح ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی کوئی توسع ہوا کہ 'تھنکس' جیسے مجہول النسب معاشرہ کی مجہول النسب اصطلاح کو طریقہ نبوی کے ہم معنی قرار دیدیا جائے!!!! اگر یہ کہنے سے بھی نبوی ہدایت پہ عمل ہوجائے گا. تو عوام  اور سہولت پسند طبائع کو اصل عربی دعا پڑھنے کی کیا ضرورت پڑے گی ؟؟ اور کیا معاملہ پہر یہیں تک محدود رہ جائے گا؟؟؟ دیگر دعائوں السلام علیکم۔ بسم اللہ اموت واحی ۔بسم اللہ وبرکة اللہ جیسے ادعیہ ماثورہ کے ساتھ بھی یہی ظالمانہ حشر روا رکھا جائے گا. یوروپ اور امریکہ میں آکےدیکھیں! دنیادار طبقہ سورہ فاتحہ سمیت ہر آیت، سورہ اور دعا کو رومن کے ذریعہ یاد کرتے ہیں. عربی وہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں. ایسے میں اباحت پسندی کے توپ کا دہانہ تھوڑا سوچ سمجھ کے اور نتائج وعواقب پہ نظر رکھ کے کھولنا چاہئے۔ فقط 
یہ کلمات بحث کا حصہ نہیں. صرف آپ کے تبصرہ پہ ضروری تحشیہ ہیں۔
--------------
ُجزاکمُ الله خيراً، نامعلوم اصل سنت الفاظ کہنے میں کیا گھبراھٹ ہے۔ انگریز مسلمان ہو گا تو نماز انگلش میں پڑھے گا؟ یا جرمن جرمن میں؟ ۔۔۔؟؟؟؟ سلام انگلش میں کرے گا، قرآن انگلش میں پڑھے گا ۔ ۔۔۔؟؟؟؟۔ ھمبستری کی دعا انگلش میں پڑھے گا؟؟؟۔ افسوس اسلام کی عظمت نا ہونے کی وجہ سے ایسی بحث ہوتی ہے۔ مجھے تو کھجوروں پر چاکلیٹ لگا نے سے کھجور کی تو ہین لگتی ہے، مسواک کے ٹوتھ پیسٹ کو مسواک کا بدل بنانے سے بھی دکھ ہو تا ہے، ُجزاکمُ الله خيراً مفتی صاحب، آپکے قریب ہوتا تو آپکے سر کی مالش کرتا۔ کیونکہ آپ نے کافی سر کھپایا۔
شمس الحق صدیقی (صاحب مقیم جرمن)
...........
کل شکر اور شکریے سے متعلق جانبین کے خیالات سے استفادے کا موقع ملا، میں ان دنوں شدتِ مصروفیات کے باعث مباحثات میں حصہ نہیں لے پارہا، تاہم اس حلقے میں آئی ہوئی باتوں پر ایک اچٹتی نگاہ ضرور ڈال لیتا ہوں، مجھے اس سلسلے میں برادرم مفتی شکیل صاحب کا موقف درست لگا، حقیقت یہی ہے کہ شکریہ کے لیے مسنون عمل جزاک اللہ کہنا ہی ہے، اگرچہ دوسرے کلمات سے بھی اظہارِ تشکر جائز ہے، مگر سنت کا ثواب جزاک اللہ کہنے پر ہی ملے گا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی اعمال و اشغال اثباتاً منقول ہیں، ان پر اسی انداز پر عمل کرنا سنت ہوگا، ترجمہ کی گنجائش ضرور ہے، مگر سنت کا ثواب اس پر نہیں ملے گا، امام اعظم کسی دور میں دورانِ نماز فارسی میں تلاوت قرآن کے قائل تھے، لیکن انہیں رجوع کرنا پڑا، اللہ اجل یا اللہ اعظم سے نماز درست ہے، مگر تکبیر کے لیے مسنون عمل اللہ اکبر ہی ہے، ہمارے علما نے اسی بنا پر خطبہ جمعہ غیرعربی کی اجازت نہیں دی، آپ ترجمہ قرآن ایک کروڑ بار پڑھ جائیے اور متن نہ پڑھیے، قرآن خوانی کے ثواب سے آپ محروم ہی رہیں گے۔۔۔ اصل اصل ہوتا ہے اور تابع تابع، لہذا جزاک اللہ کی جگہ تھینک یو کہنے کی گنجائش ہے، شکریہ بھی کہہ سکتے ہیں، مگر جواز ہی کی حد تک، اس پر سنت کا اطلاق ہرگز نہیں ہوگا۔۔۔ ان شاءاللہ اس موضوع پر قدرے مشرح مضمون خدمت میں عرض کروں گا ۔۔۔ جو لوگ تھینک جیسے الفاظ پر بھی سنیت کے قائل ہیں، ان کا موقف نادرست ہے، بلکہ تہذیبِ حاضر سے مرعوبیت کا غماز بھی ہے۔۔۔
 فضیل احمد ناصری
.................
اسلام ایک مکمل نظام اور سسٹم کا نام ہے۔ عام معاشرتی پہلو میں کسی ایک زباں کے ساتھ گرچہ مختص نہیں ہے لیکن وہ تمام مواضع جہاں معاشرت اپنے ساتھ عبادت کا عنصر لئے ہوئے ہے وہاں تو زبان کی پابندی بہر حال لازم ہوگی۔ اگر اسے بھی مختلف زبانوں کے رحم  و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو تہذیب و کلچر کی دنیا میں اسلام کا اپنا تشخص ناپید ہوجائے مثلا۔ اسلامی تعلیمات میں سے ہے کہ عندالملاقات السلام علیکم  کہا جائے۔ اب مسلمان کسی بھی زبان اور علاقہ و خطہ سے تعلق رکھتا ہو اس ابتدائی جملہ ہی سے تاڑ جاتا ہے کہ سامنے والا میرا دینی بھائی ہے اور اگر اس کو وہ اپنی اپنی زبان میں ترجمہ کرکے کہنے لگے تو یہ شناخت مشکل ہوجائے گی۔
(مفتی) شمشیر حیدر قاسمی.
---------------
جواب تو کسی علمی اعتراض کا دیا جاتا ہے. یہاں تو ساری بنیاد ہی مفروضات وقیاسات پہ رکھ دی گئی۔ کل واضح انداز میں کئی بار اپنا موقف بیان کردیا۔ جزاک اللہ خیرا کہنا کامل وافضل طریقہ شکر ہے. اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ہم معنی کلمات کے ذریعہ بھی شکریہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ حتی کہ قلبی طور پہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے جہاں الفاظ کا نام نشان تک نہیں۔ مخصوص حالات وپس منظر میں کسی بھی زبان میں شکریہ ادا کیا جاسکتا ہے. لیکن thanks  کو جزاک اللہ خیرا کا متبادل قرار دینا حد درجہ کی جدت اور اباحیت پسندی ہے. پھر مزید  اس جرات کا اظہار کہ "نبی سے سے سلسلہ میں کوئی تعیین منقول نہیں." خاصی تشویش ناک بات ہے. ماثور دعائوں کا رسم الخط تک بدلنے کی اجازت علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک نہیں ہے. تو بھلا ماثور دعا: "جزاک اللہ خیرا" کوشکلا صورتا  اور معنی thanks میں ڈھال کر اس پہ بھی سنت کا اطلاق کیسے درست ہوسکتا ہے؟؟؟ یہی میرا موقف ہے. اس پہ دلائل کے ساتھ انشراح قلب کے ساتھ قائم ہوں اور رہوں گا۔ اس موقف پہ کسی کو علمی اعتراض ہو تو دلائل کے ساتھ نجی نمبر پہ تبادلہ خیال کرسکتا ہے. نامعلوم صحافی کی لمبی چوڑی بکواس نما تحریر میں کوئی علمیت اور قوت دلیل رہے. جب تو جواب لکھوں؟ لے دے کے تکبیرتحریمہ والی بات لے آئے۔ جس کی تشفی بخش وضاحت مکرمی ناصری صاحب نے کردی ہے۔ اب مزید کی چنداں ضرورت نہیں.
مركز البحوث الإسلامية (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_17.html


No comments:

Post a Comment