Friday, 4 March 2022

دعا کی قبولیت

دعا کی قبولیت
قدرت اللہ شہاب "شہاب نامہ" میں بتاتے ہیں کہ "ایک بار میں کسی دوردراز علاقے میں گیا ہوا تھا. وہاں پر ایک چھوٹے سےگاؤں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا وہاں ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے۔ ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹاٹ بھرا ہوا تھا۔ کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا، کسی پر حیرت ہوتی تھی، لیکن ایک داستان کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سے رقت طاری کرکے وہ سیدھی میرے دل میں اترگئی۔ یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت واحترام کا تھا۔ باپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تھیں۔ مولوی صاحب بتارہے تھے کہ حضور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کوئی درخواست یا فرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاظر ہوکر ان کی منّت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جائیں اور اسے منظور کروا لائیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دِل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب بی بی فاطمہ س ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوش دلی سے منظور فرما لیتے تھے۔ اس کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہوگیا۔
‎جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔ کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ س   کی روح مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیّت سے پڑھے۔ پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی، ”یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ تیرے آخری رسول کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کاجذبہ موجزن ہو گا۔ اس لیے میں اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہ س کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پیش کرکے منظور کروالیں۔
‎درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں، مجھے روحانیت کے راستے پہ چلنے کی توفیق عطا کر۔۔۔۔
‎اس بات کا میں نے اپنے گھر میں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چھ سات ہفتے گزرگئے اور میں اس واقعہ کو بھول بھال گیا، پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا۔ جو  مشرف بہ اسلام ہوچکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابندِ صوم و صلوٰة خاتون تھیں۔ انہوں نے لکھا تھا:
‎رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اور فرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتادو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی تھی۔ انہوں نے ازراہ نوازش منظور فرمالیا ہے“۔
‎یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش وحواس پر خوشی اورحیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی، مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میر ا ذکر ہوا۔ میرے روئیں روئیں پر ایک تیز وتند نشے کی طرح چھا جاتا تھا، کیسا عظیم باپ صلی اللہ علیہ وسلم! اور کیسی عظیم بیٹی! دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہوکر دیوانوں کی طرح اس مصرع کی مجسّم صورت بنا بیٹھا رہا۔
‎ع۔ مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے!
‎اس کے بعد کچھ عرصہ تک مجھے خواب میں طرح طرح کی بزرگ صورت ہستیاں نظر آتی رہیں جن کو نہ تو میں جانتا تھا نہ ان کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور نہ ان کے ساتھ میرا دل بھیگتا تھا پھر ایک خواب میں مجھے ایک نہایت دلنواز اور صاحب جمال بزرگ نظر آئے جو احرام پہنے ایک عجیب سرور اور مستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں بچھ گیا، وہ بھی مسکراتے ہوئے میری جانب آئے اور مطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھالیا اور بولے: ”میرا نام قطب الدّین بختیار کاکی ہے تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار سے تمہیں منظوری حاصل ہوئی ہے اس کے سامنے ہم سب کا سر تسلیم خم ہے۔“
(یہ میرا بھی آزمودہ نسخہ ہے کہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کی وساطت سے مانگی گئی دعائیں رد نہیں ہوتیں، خدا ہم سب کو خاتون جنت سیدہ کونین کے صدقے ہر قسم کی پریشانیوں، بلاوں سے محفوظ رکھیں آمین) (منقول: شہاب نامہ) (صححہ: #S_A_Sagar) https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_4.html


No comments:

Post a Comment