Friday 4 March 2022

سرکاری کاغذات کے مطابق بچوں کے نام رکھنے كے متعلق ضروری ہدایات

سرکاری کاغذات کے مطابق بچوں کے نام رکھنے كے متعلق ضروری ہدایات
محمد ظفر ندوی
Muslims names mistakes 
ہندوستان میں کسی بھی آفیشیل ویب سائٹ پر یا آفیشیل فارم کو پُر کرنے کے لیے نام درج کرنے کے آپشن میں 'پہلا نام'، 'دوسرا نام' اور 'تیسرا نام' کا آپشن ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی شخص کے نام کے تین جزئوں کو تین الگ الگ خانے میں لکھنا پڑتا ہے۔ پہلے جزء کو پہلے نام اور دوسرے کو دوسرے نام اور تیسرے جزء کو تیسرے نام کے خانے میں لکھنا پڑتا ہے۔ لیکن ان تینوں خانوں میں سے ہر شخص کے لیے یہ لازم ہوتاہے کہ کم از کم دو خانوں کو ضرور پُر کرے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص کا نام دو جزئوں پر مشتمل ہونا ضروری ہے۔ مثلاً 'اقبال اختر' یہ نام دو جزئوں پر مشتمل ہے، لہذا اس نام کو دو الگ الگ خانوں میں لکھا جائے گا، 'اقبال' کو پہلے خانے میں اور 'اختر' کو دوسرے خانے میں۔ اور اگر کسی شخص کے نام کے تین حصے ہوں مثلاً 'محمد اقبال اختر' تو ایسے میں آپشن میں موجود تینوں خانوں کو پر کیا جاتا ہے۔ اور یہ نام رکھنے کا صحیح طریقہ ہے کہ دو یا تین جزئوں پر مشتمل ہو۔ جس کسی نے ازبخود کوئی بھی فارم مثلاً پین کارڈ، آدھارکارڈ، راشن کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ پُر کیا ہوگا تو اسے بخوبی ان باتوں کا اندازہ ہوگا۔ بہرحال جو بات بتانے کے لیے میں نے اوپر کی تفصیل لکھی وہ یہ کہ ہمارے ہندوستانی معاشرے میں ایک بڑی دشواری یہ ہے کہ عموماً لوگ جب بچوں کا نام رکھتے ہیں یا رکھواتے ہیں تو اس وقت لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے، اور عموماً ایک نام ہی رکھا جاتا ہے مثلاً حامد، طارق، اصغر، اور عموماً اس نام کے پیچھے 'محمد' لگادیتے ہیں مثلاً (محمد حامد، محمد طارق، محمد اصغر وغيره۔ مگردشواری اس وقت ہوتی ہے جب اسکول وغیرہ میں ایڈمیشن کروانا ہوتا ہے، لہذا جب نام پوچھا جاتا ہے تو حامد، طارق بتا دیا جاتا ہے اور چونکہ نام لکھنے والے کو دو خانے پُر کرنا لازمی ہوتا ہے لہذا وہ ازبخود عالم، انصاری یا شیخ وغیرہ لکھ دیتا ہے۔ اور اگر کسی نام کے دو حصے ہوتے بھی ہیں تو وہ لفظ “محمد” ہوتا ہے مثلاً محمد حامد، محمد طارق اور محمد اصغر۔ تو نام لکھنے والا کبھی صرف ایم ڈی حامد یا ایم او ایچ ڈی حامد اور کہیں پورا محمد لکھ دیتا ہے۔ اور اگر ایک جگہ مثلاً اسکول یا مدرسے میں MD ہے تو پین کارڈ میں MOHD اور آدھار کارڈ میں پورا MUHAMMAD لکھا ہوتا ہے، اس طریقے سے ایک ہی شخص کے نام تین جگہوں پر تین طریقوں سے لکھا چلا جاتا ہے۔ اور یہی مسئلہ لڑکیوں کے نام کے ساتھ بھی ہے کہ ان کا بھی ایک ہی نام رکھا جاتا ہے جیسے فاطمہ، عائشہ وغیرہ اور ان کے نام کے آگے یا پیچھے بی بی یا بیگم لگایا جاتا ہے اور کہیں BIBI ہوجاتا ہے، کہیں BEBE کسی دستاویز میں BEGUM اور کسی میں BEGAM اور کسی میں BEGEM۔ اور آگے چل کر یہ ایک بہت بڑی دشواری کا سبب بن جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپلائی کرنا چاہتا ہے یا بنک اکاؤنٹ کھلوانا چاہتا ہے یا چاہتی ہے اور بنک اکاؤنٹ میں اسے بالکل صحیح نام اندراج کرانا ہے تو اسے یہ دشواری پیش آتی ہے کہ بنک اکاؤنٹ اوپن کرانے کے لیے اسے پہلے آدھار کارڈ صحیح کروانا ہوگا اور آدھار کارڈ پہلی بار آپ جیسے فارم پُر کریں گے ویسے بن جاتا ہے، لیکن تصحیح کرانے کے لیے آپ کو دسویں کی سرٹیفیکیٹ چاہیے اور دشواری یہ ہے کہ اسکول میں بھی نام درست نہیں لکھوایا گیا تھا لہذا خود دسویں کی سرٹیفیکیٹ محتاج تصحیح ہے۔ اور یہی نہیں جہاں جائیں جس محکمے میں جائیں آپ پریشان رہیں گے۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی زد میں بھی آجائیں گے کیوں کہ آسام میں جو این آرسی ہوئی ہے میں بذات خود ایک آسامی عالم دين سے ملا ہوں انھوں نے بتایا کہ 95 فیصد وہ مسلمان جن کا این آرسی میں نام نہیں آیا وہ ایسے ہیں جن کے نام کی اسپیلنگ ہر دستاویز میں الگ الگ تھی، مثلاً کسی کا نام جنید ہے تو ایک ڈاکیومنٹ میں محمد جنید دوسرے میں جنید عالم اور کسی میں ایم ڈی جنید تو کسی میں ایم او ایچ ڈی جنید پھر جنید کی بھی انگلش اسپیلنگ کہیں juned, کہیں junaid اور کہیں juneid ہے اور صرف اسی اسپیلنگ کی غلطیوں کی وجہ سے 95 فیصد لوگ این آرسی کی لسٹ سے باہر ہوگئے۔ اور یہ غلطی خود ان کی نہیں ہوتی ہے بلکہ والدین جب بچپن میں نام رکھتے ہیں تو اس وقت توجہ نہیں دیتے اور اسکول وغیرہ میں نام اور تاریخ پیدائش لکھواتے وقت احتیاط سے کام نہیں لیتے۔ تاریخ پیدائش اور والدین کے نام کا بھی یہی حال ہے کہ ہر ڈاکیومنٹ میں الگ الگ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس شخص کو بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا انہیں دشواریوں سے محفوظ رکھنے اور آگاہ کرنے کے لیے میں نے ضروری سمجھا کہ اس طرف ذمہ داران اورخصوصاً والدین حضرات کی توجہ مبذول کروائی جائے۔ اس ضمن میں چند ہدایات حسب ذیل ہیں:
(1) نام‌ کے شروع میں محمد نا لگائیں
میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ بچوں کے نام رکھتے وقت محمد شروع میں نا لگائیں کیوں کہ محمد لگانا کوئی ضروری اورواجب نہیں ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں لاکھوں کروڑوں نام ایسے ہیں جن کے شروع میں محمد ہے۔ اس كى وجہ سے بہت سی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مثلاً جب انگلش میں محمد لکھتے ہیں تو اسپیلنگ طویل ہونے کی وجہ سے اسے MD یا MOHD لکھ کر مختصر کردیتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ مدارس کے علاوہ کہیں بھی اردو میں نام لکھنے کا آپشن نہیں ہوتا ہے اور ہر جگہ آپ کو انگلش ہی میں نام لکھنا ہوتا ہے اسی ضرر سے بچنے کے لیے میں یہ کہ رہا ہوں کہ نام کے شروع میں محمد نا لگائیں۔ مگر کوئی لگانا چاہتا ہو تو اس سے یہ گزارش ہے کہ وہ ایم ڈی یا ایم او ایچ ڈی کے بجائے ہرجگہ ہر دستاویز میں مکمل MUHAMMAD لکھیں کیوں کہ نئے ضابطے کے اعتبار سے اگر ایم ڈی یا ایم او ایچ ڈی لکھا ہے تو پاسپورٹ بنانے میں اور دیگر دستاویزات میں بھی کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا یا تو نام سے پہلے محمد نا لگائیں اور اگر لگانا ہی ہے تو ہمیشہ ہر جگہ ہر ڈاکیومنٹ میں مکمل محمد لکھیں۔
(2) نام دو جزئوں پر مشتمل ہو
نام دو جزئوں پر مشتمل ہو مثلاً حامد اختر، طارق انور اور اصغر امام وغيره۔ اور اسی طرح لڑکیوں کے نام بھی دو جزئوں پر مشتمل ہونا چاہیے مثلاً فلک ناز، فاطمہ زہرہ، طیبہ آفرین وغیرہ۔
(3) نام، تاریخ پیدائش اور والدین کے نام
نام کے ساتھ والدین کے نام اور تاریخ پیدائش ہمیشہ ہر ڈاکیومنٹ میں یکساں لکھیں اس میں ایک حرف کا بھی فرق نا ہو۔
(4) تصحیح کی فکر
جو بچے اور بچیاں ابھی اسکول یا مدرسے میں زیرِ تعلیم ہیں ان کے والدین اور وہ بچے اگر تصحیح کی ضرورت ہے اپنے، اپنے والدین اور تاریخ پیدائش کى تصحیح کرانے کی فکر شروع کردیں، کیوں کہ آنے والے ایام میں ان چیزوں کو لیکر لوگ کافی پریشان ہوسکتے ہیں اور اس وقت مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ (اسکول میں دسویں کے امتحان سے پہلے پہلے اور مدارس یا دیگر اداروں میں فراغت سے پہلے پہلے نام، تاریخ پیدائش اور والدین کے نام میں تصحیح کی گنجائش ہوتی ہے۔ (اس کے بعد بھی گنجائش باقی رہتی ہے لیکن دشواری ہوتی ہے)
(5) مدارس کے ذمہ داران سے ايک گزارش
مدارس کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ وہ ان طلباء کی ایسی درخواستوں کو نظرانداز نا کریں جو نام یا تاریخ پیدائش کی تصحیح کے لیے دے رہے ہوں بشرطیکہ آدھار کارڈ پین کارڈ ڈرائیونگ لائسنس جیسے آفیشیل ڈاکیومنٹ کی بنیاد پر وہ نام، تاریخ پیدائش یا والد کے نام کو تصحیح کرانا چاہتے ہوں۔ کیوں کہ عموماً مدارس میں جدید داخلے کے وقت نام کسی آفیشیل ڈاکیومنٹ کی بنیاد پر نہیں لکھا جاتا ہے، اور اس وقت طلباء میں بھی اتنی سنجیدگی نہیں ہوتی ہے کہ وہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ناموں کا اندراج کروائىں۔
(6) قوم کو بیدار رکھیں
مدارس کے اساتذہ و ذمہ داران اپنے طلباء، مکاتب کے معلمین اپنے بچوں اور علماء و دانشور طبقہ اپنی قوم کی توجہ اس طرف مبذول کرواتے رہیں تاکہ ہماری قوم ایک بڑی دشواری سے حتی المقدور محفوظ رہ سکے۔ کیوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دائرۂ حیات کو تنگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اور خدانخواستہ بعید نہیں کہ CAA اور NRC جیسے قوانین آج ہمیں یا نہیں تو ہماری اگلی نسل کو متاثر کرسکتی ہے۔ لہذا ہمیں اپنے، اپنے بچوں اور جہاں تک ہماری رسائی ہو اپنی قوم کو اس سلسلے میں بیدار کرنے اور عملی طور پر متحرک ہونے اور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی تمام دستاویزات میں نام تاریخ پیدائش وغیرہ کا صحیح ہونا ہر لمحے باعث اطمینان ہوتا ہے۔ نوٹ: اس پیغام کو اپنا فرض سمجھ کر جہاں تک ممکن ہو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ اللہ آپ کو اسکا بہترین بدلہ عطا کریگا. ان شآءاللہ (Sa_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_40.html



No comments:

Post a Comment