جنت کی ضمانت کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اعضاء عطاء فرمائے
ہیں ان کو کہاں، کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟؟؟
اس کا طریقہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلایا ہے. اگر تعلیماتِ نبوی کے عین مطابق ان اعضاء کو استعمال کیا جائے تو اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ضمانت دی ہے. ہر مسلمان خواہ وہ عملی طور پر کتنا ہی کمزورہواور گناہگار ہو اس کی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے بچاکر جنت عطا فرمائیں. کس قدر خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہماری یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے اور اس کے پورا ہونے کی ضمانت بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود دیتے ہیں. آئیے اس بارے ایک حدیث مبارک کو عمل کے جذبے سے پڑھتے ہیں:
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اِضْمَنُوْا لِيْ سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمُ الْجَنَّةَ: اُصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ وَأَوْفُوْا إِذَا وَعَدْتُّمْ وَأَدُّوْا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ وَاحْفَظُوْا فُرُوْجَكُمْ وَغُضُّوْا أَبْصَارَكُمْ وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ۔ (السنن الکبری للبیہقی، رقم الحدیث: 12691)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو اس کے بدلے میں آپ لوگوں کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں.
1: جب بات کرو تو سچی بات کرو.
2: جب وعدہ کرو تو اسے پورا کرو۔
3: جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو صحیح طور پر واپس کرو۔
4: اپنی شرم گاہوں کی (گناہوں سے) حفاظت کرو۔
5: اپنی نگاہوں کو (ناجائز اور حرام چیزیں دیکھنے سے بچاؤ).
6: اپنے ہاتھوں کو (یعنی خود کو کسی پر ظلم وغیرہ کرنے سے) روکو.
سچ بولو:
پہلی چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی بولیں، سچ بولیں۔ کبھی جھوٹ نہ بولیں۔ اسلامی تعلیمات میں سچ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سچ بولنا ایسی اچھی صفت ہے کہ مذہب سے ہٹ کر دیگر امور میں بھی اس صفت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کاروبار میں جو تاجر اور دکاندار سچا اور زبان کا پکا ہوتا ہے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے کاروبار سے خوب نفع حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر جس قدر باہمی معاملات ہیں ان میں سچائی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ صفت اپنانے کی نہ صرف ترغیب دیتا ہے بلکہ اس کو لازمی قرار دیتا ہے کہ ہر حال میں اس کو اپنایا جائے خواہ وہ دینی معاملات ہوں یا دنیاوی سب میں سچ بولنے کو ضروری قرار دیتا ہے. اس لئے جنت کی خواہش رکھنے والے ہر مسلمان کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ تعلیم دیتے ہیں کہ:
عَنْ عَبْدِاللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِى إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِى إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا. (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6803)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ بولنا ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور یقینی بات ہے کہ آدمی سچ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ”صدیق“ بن جاتا ہے. اور جھوٹ بولنا ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے اور یقیناً جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ”کذّاب“ لکھ دیا جاتا ہے۔
نوٹ: صدق وسچائی کے بارے تفصیل سے وعظ و نصیحت جلد اول ص 51 تا 60 ملاحظہ فرمائیں۔
وعدہ پورا کرو:
دوسری چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی وعدہ کرو تو اسے ضرور پورا کرو. آج کے دور میں بھی ایفائے عہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وعدہ خلافی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس عمل کو علامت تقویٰ قرار دیا ہے اور ایسے شخص کو اللہ کا محبوب قرار دیا ہے.
فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ سورۃ التوبۃ، رقم الآیۃ: 4
ترجمہ: اپنے وعدوں کی مدت کو پورا کرو. یقیناً اللہ تعالیٰ متقین سے محبت فرماتے ہیں. اس عمل کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے قرآن کریم کہتا ہے کہ:
وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل، رقم الآیۃ: 34)
ترجمہ: وعدہ پورا کرو، یقیناً وعدہ کی پاسداری کے بارے تم سے سوال کیا جائے گا۔
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعٌ مَّنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 34)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار (عادات و صفات) جس شخص میں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان صفات میں سے ایک صفت ہوتو اس میں نفاق اسی کے بقدر ہے یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑا وغیرہ ہوجائے تو گالم گلوچ پر اتر آئے.
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَمَعَ اللّهُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ فَقِيلَ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 4627)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی قیامت کے دن اولین و آخرین کو جمع کریں گے پھر ہر اس شخص کے لیے ایک جھنڈا گاڑیں گے جو بدعہدی کرنے والے ہیں اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی (کا نشان) ہے۔
امانت ادا کرو:
تیسری چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی شخص امانت رکھوائے تو اس کو وہ چیز صحیح صحیح طریقے سے واپس کرو. اس میں کوئی خیانت وغیرہ نہ کرو۔ آج کے دور میں بھی امانت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور خیانت کو برا سمجھا جاتا ہے.
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ إِذَاكُنَّ فِيْكَ فَلَا عَلَيْكَ مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْيَا: حِفْظُ أَمَانَةٍ وَصِدْقُ حَدِيثٍ وَحُسْنُ خَلِيقَةٍ وَعِفَّةٌ فِي طُعْمَةٍ۔ (مسند احمد، رقم الحدیث : 6652)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب چار عادتیں تم میں پیدا ہوجائیں تو دنیا کی پریشانیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ چار عادات یہ ہیں: امانت داری، صدق، حسن خلق اور حلال رزق۔ معراج کی رات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت و جہنم کا مشاہدہ فرمایا اس موقع پر آپ کو بطور مثال وہاں کے لوگ بھی دکھائے گئے. چنانچہ اسی سفر معراج کے مشاہدات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے شخص پر ہوا جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھا جمع کر رکھا اور اس میں اُٹھانے کی ہمت نہیں پھر بھی لکڑیاں جمع کر کرکے گٹھے کو بڑھا رہا ہے. پوچھنے پر جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا نہیں کرتا۔
شرمگاہوں کی حفاظت کرو:
چوتھی چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو یعنی شرعا حرام اور ناجائز موقعوں پر استعمال نہ کرو ۔ ناجائز جنسی ملاپ سے اپنی حفاظت کرو. جو چیزیں شرمگاہوں کے ناجائز استعمال کا سبب ہیں ان کا اجمالی تذکرہ اس طرح ملتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِكُلِّ بَنِي آدَمَ حَظٌّ مِنَ الزِّنَا فَالْعَيْنَانِ تَزْنِيَانِ وَزِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْيَدَانِ تَزْنِيَانِ وَزِنَاهُمَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِيَانِ وَزِنَاهُمَا الْمَشْيُ وَالْفَمُ يَزْنِي وَزِنَاهُ الْقُبَلُ وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ۔
مسند احمد، رقم الحدیث: 8526
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص کا زنا سے کچھ نہ کچھ واسطہ پڑتا رہتا ہے آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا بدنظری کرنا ہے، ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (شہوت کے ساتھ شرمگاہ کو اور غیرمحرم کو) پکڑنا ہے، پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (شہوت کی جگہوں کی طرف) چلنا ہے، منہ بھی زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (غیرمحرم یا شرعاً ناجائز مقامات کا) بوسہ لینا ہے۔ دل خواہش اور آرزو کرتا ہے اور شرمگاہ اس کے ارادے کو کبھی پورا کرتی ہے اور کبھی نہیں کرتی۔
نگاہوں کو حفاظت کرو:
پانچویں چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو. غیرمحرم اور اجنبی خواتین اور تمام ناجائز مناظر نہ دیکھیں. اس سے فحاشی، عریانی اور بے حیائی پھیلتی ہے. قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ تم زنا نہ کرو بلکہ اسے بے حیائی اور بہت برا راستہ قرار دے کر اس کے قریب جانے سے بھی روک دیا ہے۔ یعنی تمام ایسی باتوں سے خود کو بچانے کا حکم دیا جن کی وجہ سے انسان زنا جیسی لعنت میں گرفتار ہو سکتا ہے یعنی نامحرم کے ساتھ بے حجابانہ گفتگو، تنہائی، بوس و کنار وغیرہ۔ عموماً بدنظری سے شروع ہونے والا سفر بدکاری تک جاکر ہی تمام ہوتا ہے۔ معراج کی رات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت و جہنم کا مشاہدہ فرمایا اس موقع پر آپ کو بطور مثال وہاں کے لوگ بھی دکھائے گئے. چنانچہ اسی سفر معراج کے مشاہدات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں۔ دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ رات گزارتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔
خود کو ظلم سے روکو:
چھٹی چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کریں۔ عام طور پر چونکہ ظلم ہاتھوں سے سرزد ہوتا ہے. اس لئے حدیث مبارک میں ہاتھوں کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے.
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمًا أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَلمُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ القِيَامَةِ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 2442)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان؛ مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم و زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے۔ جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے. اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اُس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ ہم سے جن چیزوں کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لی ہے اگر ہم واقعتاً ان کی ضمانت دے دیں یعنی ان کی پابندی کریں تو یقین مانیے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کی ضمانت دی ہے وہ ضرور مل کر رہے گی ۔ اور وہ چیز جنت ہے ۔ اور یہی ہر مسلمان کی خواہش اور تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ سب اعمال کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں جن کی ہم سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضمانت لینا چاہتے ہیں اور اپنے کرم سے ہمیں وہ عطا فرمائیں جس کی اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضمانت دی ہے.
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن. جمعرات، 9 جنوری، 2020ء (صححہ: #S_A_Sagar )
No comments:
Post a Comment