کیا تعلیم قرآن پہ اجرت منافی ثواب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
قرآن وحدیث یا دینی علوم کی تعلیم پہ اجرت حاصل کرنا شرعا کیسا ہے؟
کچھ لوگ اس روایت کو پیش کرکے مدارس کے علماء و مدرسین کی تنخواہ کو زانیہ کی کمائی سے بدتر کہ رھے ھیں ... اور مولوی سعد کے اس ضمن میں بیان کی تائید اس روایت سے کرکے امت کو گمراہ کررھے ھیں
👇👇👇روایت
حیات الصحابہ جلد دوم۔
از حضرت مولانا محمد یوسف (رح) کاندہلوی متوفی (۱۹۶۴)
اردو ترجمعہ از مولانا محمد احسان الحق مقیم رائونڈ پاکستان
صفحہ نمبر 247
حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی نے فرمایا اے علم اور قرآن والو ، علم اور قرآن پر قیمت مت لو ورنہ زنا کار لوگ تم سے پہلے جنت میں چلے جائیں گے۔
(اخرجہ الخطیب فی الجامع کذافی الکنز ج 1 ص 229 )
احادیث مبارکہ کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں
عزیر احمد ممبرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
قرآن کریم کی تعلیم کی اجرت لینے اور نہ لینے سے متعلق روایات حدیث بظاہر مختلف ہیں۔اسی لئے شراح حدیث اور ائمہ مجتہدین متبوعین کے نقطہائے نظر بھی اس بابت شروع سے مختلف رہے ہیں۔
متقدمین احناف اور حنابلہ کے صحیح قول کے مطابق تعلیم قرآن پہ اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ جبکہ متاخرین حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور دیگر جمہورعلماء کے یہاں قرآن پڑھانے پہ اجرت لینا جائز ہے۔ (ابن عابدين، محمد أمين، رد المحتار على الدر المختار شرح تنوير الأبصار، تحقيق: عادل وعلي، دار عالم الكتب، الرياض، 1423ه/2003م، ج 9، ص75-76.
المرغيناني، علي بن أبي بكر (ت 593ه)، الهداية في شرح بداية المبتدي، تصحيح: الشيخ طلال، دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، ط1، 1245ه/2004م، ج3، ص238. العيني، محمود بن أحمد بن موس۔ البهوتي، منصور بن يونس، شرح منتهى الإرادات، دارالفكر، ج2، ص366. الرحيباني، مطالب أولى النهى، ج 3، ص 637.
البهوتي، منصور بن يونس، الروض المربع بشرح زاد المستقنع، دارالجيل، بيروت، ج 2، ص 331.
ابن قدامه، المغني، ج 5، ص 331۔ المرتضى، أحمد بن يحيى، (ت 840ه)، البحر الزخار الجامع لمذاهب علماء الأمصار، صنعاء: دارالحكمة اليمانية، 1409ه/1988م، ج 4، ص48. (تصوير عن طبعة 1366ه/1947م). اطفيش، محمد بن يوسف، شرح كتاب النيل وشفاء العليل، جدة: مكتبة الإرشاد، ط3، 1405ه/1985م، ج 10.ص 47. )
اجرت کو ناجائز تصور کرنے والے حضرات مختلف احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ جن میں اہم اور قابل ذکر یہ حدیث ہے:
3416 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌوَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا فَقُلْتُ لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَسْأَلَنَّهُ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ [ص:265] وَالْقُرْآنَ وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ عَمْرٌو و حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ فَقُلْتُ مَا تَرَى فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا أَوْ تَعَلَّقْتَهَا- (سنن أبي داؤد. كتاب الإجارة)
1 ۔۔۔۔ علَّمتُ ناسًا من أهلِ الصُّفَّةِ الكتابَ والقرآنَ فأهدَى إليَّ رجلٌ منهم قوسًا فقلتُ ليست لي بمالٍ فأرميَ عليها في سبيلِ اللهِ فأتيتُه فقلتُ يا رسولَ اللهِ رجلٌ أهدَى إليَّ قوسًا ممَّن كنتُ أُعلِّمُه الكتابَ والقرآنَ وليست لي بمالٍ فأرميَ عليها في سبيلِ اللهِ فقال إن كنتَ تحبُّ أن تُطوَّقَ طوقًا من نارٍ فاقبَلْها
الراوي: عبادة بن الصامت | المحدث : الصنعاني | المصدر: سبل السلام
الصفحة أو الرقم: 3/127 | خلاصة حكم المحدث: [فيه] مغيرة بن زياد مختلف فيه واستنكر أحمد حديثه وفيه الأسود بن ثعلبة وفيه مقال
(حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ایک شخص نے مجھے بطور تحفہ ایک کمان بھیجی ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہیں میں کتاب و قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا اور میں سمجھتا ہوں (اس کمان کو قبول کر لینے میں اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے) کہ کمان کوئی مال نہیں ہے۔ چنانچہ اس کمان کے ذریعے اللہ کے راستہ (یعنی جہاد) میں تیر اندازی کروں گا آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہارے گلے کو آگ کا طوق پہنایا جائے تو اسے قبول کرلو (ابوداؤد ابن ماجہ)
اس حدیث میں تعلیم قرآن کے عوض کمان کے حصول پہ جہنم کی وعید آئی ہے۔ جس سے اجرت کا ناجائز ہونا معلوم ہوتا یے۔
قائلین جواز کے دلائل بھی بے شمار ہیں۔ لیکن ان میں چند اہم یہ ہیں:
1۔۔۔۔ [ص: 1968]
4829 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ امْرَأَةً عَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ زَوِّجْنِيهَا فَقَالَ مَا عِنْدَكَ قَالَ مَا عِنْدِي شَيْءٌ قَالَ اذْهَبْ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي وَلَهَا نِصْفُهُ قَالَ سَهْلٌ وَمَا لَهُ رِدَاءٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى إِذَا طَالَ مَجْلِسُهُ قَامَ فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَاهُ أَوْ دُعِيَ لَهُ فَقَالَ لَهُ مَاذَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ فَقَالَ مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ يُعَدِّدُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْلَكْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ (صحيح البخاري)
2111 حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلًا فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ زَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تُصْدِقُهَا إِيَّاهُ فَقَالَ مَا عِنْدِي إِلَّا إِزَارِي هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ إِنْ أَعْطَيْتَهَا إِزَارَكَ جَلَسْتَ وَلَا إِزَارَ لَكَ فَالْتَمِسْ شَيْئًا قَالَ لَا أَجِدُ شَيْئًا قَالَ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ شَيْءٌ قَالَ نَعَمْ سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاهَا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي أَبِي حَفْصُ بْنُ [ص: 237] عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ الْحَجَّاجِ الْبَاهِلِيِّ عَنْ عِسْلٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَ هَذِهِ الْقِصَّةِ لَمْ يَذْكُرْ الْإِزَارَ وَالْخَاتَمَ فَقَالَ مَا تَحْفَظُ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ أَوْ الَّتِي تَلِيهَا قَالَ فَقُمْ فَعَلِّمْهَا عِشْرِينَ آيَةً وَهِيَ امْرَأَتُكَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ عَنْ مَكْحُولٍ نَحْوَ خَبَرِ سَهْلٍ قَالَ وَكَانَ مَكْحُولٌ يَقُولُ لَيْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن أبي داؤد)
(عبداللہ بن یوسف، مالک، ابی حازم، سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک عورت نے آپ ﷺ سے آکر کہا کہ میں اپنا نفس آپ کو دے دیا وہ دیر تک کھڑی رہی، ایک صحابی نے عرض یا رسول اللہ! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کی شادی مجھ سے کرادیجئے، آپ ﷺ نے پوچھا کہ تیرے پاس مہر دینے کو کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے پاس تہہ بند کے علاوہ کچھ نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ چادر اسے دے دے گا تو تو بے تہہ بند کے رہ جائے گا، کچھ اور تلاش کر، اس نے کہا مجھے کچھ نہیں ملا، آپ ﷺ نے فرمایا کچھ ڈھونڈو تو سہی خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو، وہ بھی اس کو نہیں ملی، تو آپ ﷺ نے فرمایا کچھ قرآن پڑھا ہے، اس نے چند سورتوں کا نام لے کر بتایا کہ میں نے یہ یہ سورتیں پڑھی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کے حفظ کرنے کے سبب سے میں نے تجھے اس کا شوہر کردیا۔)
حدیث مذکور سے صاف حکم ظاہر ہوتا ہے کہ جب تنگدست شوہر کے لئے قرآن کی کچھ سورتوں کی تعلیم اس کی بیوی کا مہر بننا جائز ہوگیا تو بچوں کی تعلیم کے مسئلے میں بھی اس تعلیم پہ اجرت لینا جائز ہوگا۔۔
(2۔۔) 5405 حَدَّثَنِي سِيدَانُ بْنُ مُضَارِبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الْبَاهِلِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ صَدُوقٌ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ الْبَرَّاءُ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ أَبُو مَالِكٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ فَقَالَ هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ إِنَّ فِي الْمَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ عَلَى شَاءٍ فَبَرَأَ فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ فَكَرِهُوا ذَلِكَ وَقَالُوا أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ (صحيح البخاري)
ترجمہ: اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت ایک ایسے گاؤں سے گزری جس میں کسی شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس رکھا تھا چنانچہ اس بستی کا ایک شخص ان صحابہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں کوئی شخص جھاڑ پھونک کرنیوالا بھی ہے کیونکہ ہماری بستی میں ایک شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا ہے ؟ (اگر ایسا کوئی شخص ہے تو وہ میرے ساتھ چل کر اس شخص پر دم کر دے) چنانچہ ان میں سے ایک صحابی تشریف لے گئے اور انہوں نے بکریوں کے عوض سورت فاتحہ پڑھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ میں اس شخص پر اس شرط کے ساتھ جھاڑ پھونک کروں گا کہ میں اس کے عوض اتنی بکریاں لوں گا اسے بستی والوں نے منظور کر لیا لہذا ان صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کیونکہ منقول ہے کہ (فاتحۃ الکتاب شفاء من السم) یعنی سورت فاتحہ زہر کے لئے شفاء ہے لہذا وہ شخص اچھا ہو گیا پھر جب وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو ان ساتھیوں نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے یہاں تک وہ سب صحابہ مدینہ پہنچے اور آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! فلاں صحابی نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے ( بخاری)
ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔
اس حدیث میں "جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے" محل استشہاد ہے۔
حدیث اگرچہ جھاڑ پہونک سے متعلق ہے ۔لیکن الفاظ حدیث کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے کسی مخصوص پس منظر کا نہیں۔ "العبرة لعموم اللفظ لابخصوص السبب" الفاظ حدیث کا عموم بتارہا ہے کہ "علاج معالجہ کے لئےقرآن پڑھنے" پہ اجرت لینا درست ہے۔ اس سے کوئی بحث نہیں کہ تعلیم کے لئے پڑھا جائے یا تطبب یعنی علاج معالجہ کے لئے۔
البتہ اگر تعلیم یا تطبب مقصود نہ ہو تو پھر محض تلاوت قرآن پہ اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
اور پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب جسمانی انفرادی ضرورت یعنی رقیہ کے لئے قرات قرآن پہ اجرت جائز ہوسکتی ہے تو اجتماعی اور قومی و مذہبی ضرورت کے لئے قرات قرآن (تعلیم دین) پہ اجرت کیوں جائز نہ ہو؟؟
امام بخاری کی مذکورہ بالا روایت کے الفاظ انتہائی قابل غور ہیں۔اس روایت میں جھاڑ پہونک کرنے والے صحابی رسول کی طرف سے جھاڑ پہونک کا لفظ "رقیہ" نہیں محض "سورہ فاتحہ پڑھنے" کی بات ہے۔ اور اس پہ لطف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حصہ رکھنے کی بات ارشاد فرماکر اس کے جواز کی دوٹوک انداز میں تائید وتوثیق فرمادی۔۔امام بخاری کا انداز بتارہا ہے کہ وہ اس حدیث سے مطلق قرات قرآن پہ جواز اجرت کی تائید فرمارہے ہیں ۔جس کے ذیل میں تطبب بھی ہوسکتا ہے اور تعلیم قرآن بھی ۔۔۔۔ لہذا اس روایت کو صرف رقیہ کی اجرت کے جواز پہ دلیل بنانا اور اجرت تعلیم کے جواز کو اس سے خارج کرنا درست نہیں۔
مانعین اور مجوزین کے بنیادی مستدلات کی ایک جھلک اوپر آچکی ہے۔اس میں تعلیم قرآن کی اجرت کے عدم جواز پہ عبادہ بن صامت کی کمان لینے والی جو روایت پیش کی گئی ہے۔وہ روایت اسنادی حیثیت سے کمزور ہے۔ اس کی سند میں مغیرہ بن زیاد موصلی ہیں جو متکلم فیہ راوی ہیں ۔امام احمد بن حنبل ان کی مرویات کو پسند نہیں فرماتے۔نیز اس میں دوسرا راوی "اسود بن ثعلبہ" بھی متکلم فیہ ہے۔جبکہ ابن عباس کی صحیحین کی وہ حدیث جس میں سورہ فاتحہ پڑھنے پہ بکریاں بطور اجرت لینے کی بات بیان ہوئی تھی
بالکل صحیح اور صریح ہے۔ تو پھر عبادہ بن صامت کی غیر ثابت حدیث، ابن عباس والی صحیح اور ثابت حدیث کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے ؟اگر تھوڑی دیر کے لئے ان کی حدیث کو صحیح اور ثابت مان بھی لیں جیساکہ البانی وغیرہ نے صحیح کہا ہے تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت نے خالصة لوجہ اللہ اصحاب صفہ کو قرآن پڑھایا تھا۔سورتیں سکھادینے کے بعد اب کمان کی پیش کش ہوئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مخصوص صحابی کے للہ فی اللہ کیے ہوئے کام وطاعت کو معمولی اجرت لے کر ضائع ہونے سے بچایا اور ان کے خلوص کی حفاظت فرماکر کمان لینے سے منع فرمادیا۔۔ہاں اگر تعلیم قرآن سے پہلے بطور اجرت وبدلہ کمان لینے کی بات آتی تو شاید حضور اسے جائز فرماکر ان کے طیب خاطر کے لئے بطور تلطف اس میں بھی اپنا حصہ رکھنے کو فرماتے! جیسے بکری کے معاملہ میں دوسرے صحابی کو فرمایا تھا۔
پھر یہ حضرت عبادہ بن صامت اصحاف صفہ میں سے تھے۔ اور ان کا گزربسر عام مسلمانوں کے صدقات وخیرات پہ ہوتا تھا۔لہذا ان کے لئے اجرت لینے کو حضور نے بہتر نہ سمجھا۔
علاوہ ازیں شریعت میں ہمیں ایسے ان گنت احکام ملتے ہیں جو حضور کے اہل بیت اور مخصوصین کے لئے خاص ہوتے تھے۔دوسروں کے لئے گنجائش اور رخصت کے پہلو ہوتے تھے جبکہ خاصان رسول کے لئے عزیمت کا پہلو اختیار کیا جاتا تھا۔ عبادہ بن صامت کو کمان کی ممانعت اسی قبیل سے تھی ۔۔۔ لايقاس الملوك بالحدادين.
الغرض صحیحین کی ابن عباس والی روایت سب سے صحیح اور صریح ہے۔ عبادہ بن صامت کی روایت صحت وقوت کے اس درجہ پہ نہیں ہے اس لئے وہ ابن عباس کی روایت کے معارض نہیں ہوسکتی۔
اسی سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس اثر کا حال بھی معلوم ہوجاتا ہے جو حضرت مجاہد ان سے نقل فرماتے ہیں۔ جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
يا اهل العلم والقرآن! لاتاخذوا للعلم والقرآن ثمنا فتسبقكم الزناة إلى الجنة. كنزالعمال. حدیث نمبر 4179۔ حياة الصحابة عربي 309 /4
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اثر درج ذیل وجوہ سے ناقابل اعتبار واستدلال ہے:
1 ۔۔۔۔ یہ اثر صحابی ہے۔ جو ابن عباس کی صحیح اور صریح روایت کے خلاف ہے۔
2 ۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر کا یہ قول خود ان کے عمل کے خلاف ہے۔ راوی کا عمل اس کے قول کے خلاف ہوتو باتفاق محدثین عمل کو ترجیح دیجاتی ہے قول کو نہیں۔
3. روي عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه أنه أعطى قوما قرؤوا القرآن.
4. روي عن عمار بن ياسر رضي الله عنه أنه أعطى قوماً قرؤوا القرآن في رمضان۔
5. روي عن الوضين بن عطاء أنه قال: (كان بالمدينة ثلاثة معلمين يعلمون الصبيان، فكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه يرزق كل واحد منهم خمسة عشر كل شهر)
6. روي عن الحكم بن عتيبة قوله: (ما علمت أحداً كره أجر المعلم)
7۔ روي عن عبد الجبار بن عمر أنه قال: "كل من سألت من أهل المدينة لا يرى بتعليم الغلمان بالأجر بأساً"
8. روي عن عطاء وأبي قلابة إباحة أجر المعلم على تعليم القرآن۔
9. روي عن الإمام مالك أنه قال: (لم يبلغني أن أحداً كره تعليم القرآن بأجرة)
(حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قرآن کی تلاوت کرنے والے افراد کو محنتانہ دیتے تھے. (انظر: ابن حزم، المحلى، ج 9، ص 14)
حضرت عمار بن یاسر رمضان المبارک میں قرآن پڑھنے والے کو اکرامیہ دیتے تھے. (انظر: المصدر السابق، ج 9، ص 14.)
حضرت وضین بن عطا فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں تین اساتذہ بچوں کو قرآن پڑھاتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر ایک کو پندرہ درہم ماہانہ تنخواہ دیتے تھے
(انظر: المصدرالسابق، ج 9، ص15. ابن أبي شيبة، المصنف، ج 4، ص346، ك: البيوع والأقضية، ب: في أجر المعلم برقم 20828)
حضرت حکیم بن عتیبہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک بھی ایسا شخص معلوم نہیں جو تعلیم قرآن کی اجرت کو ناجائز سمجھتا ہو۔
(انظر: ابن حزم، المحلى، ج 9، ص15.)
عبدالجبار بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے تعلیم قرآن کی اجرت سے متعلق اہل مدینہ سے مسئلہ معلوم کیا تو مجھے ایک بھی ایسا شخص نہ ملا جو اجرت کے ساتھ تعلیم قرآن میں کچھ حرج سمجھتا ہو۔ (رواه مالك، بن أنس الأصبحي، المدونة الكبرى، تحقيق: حمدي الدمرداش، مكتبة نزار الباز، الرياض، ط1، 1419ه/1999م، ج5، ص1691، ك: الجعل والإجارة، ب: في إجارة المعلم)
حضرت عطا اور ابو قلابہ سے اجرت کے ساتھ تعلیم قرآن کا جواز مروی ہے. (انظر: المصدرالسابق، ج 9، ص15. ابن شيبة، المصنف، ج 4، ص 345، ك: البيوع والأقضية، ب: في أجر المعلم برقم 20824 ورقم 20827)
حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے (مدینہ کے) کسی بھی اہل علم کے بارے میں یہ نہیں معلوم ہوا کہ وہ اجرت لے کے تعلیم قرآن کو ناجائز سمجھتے ہوں۔ (انظر: الكشناوي، أسهل المدارك، ج 2، ص 133)
حضرات صحابہ وتابعین کرام کے یہ آثار دوٹوک انداز میں بتارہے ہیں کہ وہ حضرات تعلیم قرآن بالاجرت کو نہ صرف جائز سمجھتے بلکہ بعض صحابہ عملا اس پہ معلمین کو اجرت بھی دیتے تھے۔ انہی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کا یہ موقف اور عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھنے یا سننے کے بعد ہی انجام پذیر ہوا ہوگا۔ان کی عقل وقیاس کا اس میں کچھ بھی دخل نہ ہوگا۔ (إدريس، الإجارة على تعليم القرآن الكريم، ص 4)
جب حضرت عمر کا خود عمل یہ تھا کہ وہ قرآن کی اجرت کو نہ صرف جائز سمجھتے بلکہ اس پہ معلمین کو تنخواہ بھرتے۔تو پہر کنز العمال کے حوالے سے حیات الصحابہ میں حضرت مجاہد سے اجرت قرآن کو زانیہ کی اجرت سے بدتر قرار دیا جانے والا اثر ساقط الاعتبار اور ناقابل احتجاج و استدلال ہوگا۔
تعلیم قرآن کی اجرت کا جواز کسی ایک امام کا موقف نہیں بلکہ ائمہ ثلاثہ (حنابلہ کا بھی ایک قول جواز کا ہے) اور جمہور علماء وشراح حدیث کا راجح اور محقق قول ہے ۔۔۔۔ متاخرین حنفیہ میں اب فتوی بھی جواز ہی پر ہے۔ سلطنت اسلامیہ کے زوال کے بعد جبکہ علماء دین کے گزر بسر اور وظائف کا حکومت کی جانب سے کوئی نظم نہیں بچا۔ ایسے میں تعاون علی الطاعت کی حیثیت سے قرآن وحدیث کی تعلیم پہ محنتانہ وصولنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر ہے۔
وبعض مشائخنا رحمہم اللہ تعالیٰ استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظھور التوا نی فی الا مورالدینیۃ ففی الامتناع تضییع حفظ القرآن و علیہ الفتوٰی اھ کذافی الھدایہ۔ (ردا لمحتار، کتاب الاجارۃ مطلب تحریر مھم فی عدم جواز الا ستئجار علی التلاوۃ ،۶/ ۵۵ ط۔ سعید)
ومشائخ بلخ جوزوا الا ستئجار علی تعلیم القرآن اذا ضرب لذلک مدۃ وأفتوا بوجوب المسمّی کذا فی المحیط… وکذا جوا ز الا ستئجار علی تعلیم الفقہ و نحوہ المختار للفتویٰ فی زماننا قول ھو لاء کذا فی الفتاوی العتابیۃ (فتاویٰ عالمگیری باختصار)
فتاویٰ عالمگیریۃ کتاب الا جارۃ الباب الخامس عشر، الفصل الرابع ۴/ ۴۴۸ ط ۔ ماجدیۃ)
اور ہمارے بعض مشائخ رحمہم اللہ نے آج کل تعلیم قرآن پر اجرت لینے دینے کا جواز بہتر سمجھا ۔ کیونکہ امور دین میں لوگوں کے اندر سستی پیدا ہوگئی ہے تو ممانعت کے حکم میں اندیشہ ہے کہ حفظ قرآن ضائع ہوجائے گا اور اسی جواز اجرت پر فتویٰ ہے۔ اور مشائخ بلخ نے تعلیم قرآن کے اجرت لینے کو جائز فرمایا ہے جبکہ اس کی مدت معین کی جائے ۔ اور معین شدہ اجرت کے واجب التسلیم ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ اسی طرح تعلیم فقہ اور اس کے امثال (اذان و امامت) پر اجرت لینے کا جواز بھی ہے۔ اور ہمارے زمانے میں فتویٰ کے لئے انہیں لوگوں کا قول مختار ہے۔
مولانا سعد صاحب کا بیان میرے سامنے ہے اور نہ میں نے سنا ہے۔ تعلیم قرآن کی اجرت کا جواز صرف کسی خاص علاقے کے علماء کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور کا راجح اور مفتی بہ قول ہے۔ اس پہ جملے کسنا یا اسے گمراہی کہنا بہت ہی خطرناک اور گمراہ کن بات ہے ۔۔۔
تلاوت قرآن یا دیگر عبادات پہ اجرت لینے سے ان کی جہت عبادت ختم ہوتی ہے اور نہ ہی اخلاص اور اس عمل کے اخروی ثواب میں کوئی کمی آتی ہے۔ جیساکہ بےشمار لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا ہے۔کیونکہ اگر مادیات کی شکل میں بدلہ مل جانے سے اجر وثواب ختم ہوجائے تو پہر مال غنیمت کے حصص مل جانے سے جہاد کا ثواب ، خلفاء ، امراء ، قضاة ۔عمال اور مفتیوں کی تنخواہیں مل جانے سے سب کا اجر وثواب ختم ہوجانا چاہئے!!
لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔بلکہ صلاح نیت کے ساتھ جو بھی عبادت، طاعت، مفاد عامہ کا کام اور تعلیمی، اصلاحی، تبلیغی، دعوتی خدمات انجام دیئے جائیں تو حسب نیت وخلوص اس پہ ثواب ضرور ملے گا۔
لقول الله تعالى: (فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ) [الزلزلة: 7].
معلمین کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ اکرامیہ، تحفہ، محنتانہ اور عطا وبخشش کے قبیل سے ہوتا ہے ۔بھلے ظاہر میں اجرت سے تعبیر کیا جاتا ہو۔ لیکن حقیقت میں یہ اجرت وعوض نہیں۔ کیونکہ قرآن کی آیات کی تعلیم کی اجرت اور عوض حقیقی ساری کا ئنات بھی نہیں ہوسکتی۔!۔۔ ان کا اصل اجر تو اللہ بروز قیامت دیں گے۔ یہاں تشجیعا تعاون علی الطاعہ کے طور پہ اجرت کے ظاہری نام سے جو کچھ دیا جاتا ہے وہ امراء اور قضاة وولاة کو بیت المال سے "رزق" کے عنوان سے دیئے جانے والے اکرامیے کی مانند ہے۔ جب ان کا اجر ضائع نہیں ہوا تو معلمین کا اجر کیوں ضائع ہو؟؟
اوپر کی سطور میں اجرت کے جواز سے متعلق ائمہ وفقہاء کے جو مذاہب وآراء بیان کیئے گئے ہیں ان کی حیثیت "فتوی" کی ہے ۔۔۔۔۔ اگر کوئی معلم قرآن "تقوی" پہ عمل کرکے اپنی تعلیمی خدمات پہ کچھ بھی وصول نہ کرے تو ذالك من عزم الأمور.
ہذا ما عندی والصواب عنداللہ
شکیل منصور القاسمی / بیگوسرائے
9/12/2017 م
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_83.html
No comments:
Post a Comment