تحقیق حدیثِ سفینۃ رضی اللہ عنہ
بقلم: ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
اہلسنت والجماعت کا متفقہ نظریہ ہے کہ خلافت علی منہاج النبوہ (خلافتِ راشدہ) کی مدت تیس سال ہے، اور یہ خلفاء اربعہ (ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اجمعین) کا دورِخلافت ہے، یعنی انھیں چار حضرات کو خلفاء راشدین اور انھیں کے دورِخلافت کو خلافتِ راشدہ کہا جاسکتا ہے، شرعی واصطلاحی اعتبار سے ان کے علاوہ بقیہ کسی بھی حکمراں کو خلیفہ راشد اور کسی کے بھی دور کو خلافتِ راشدہ نہیں کہا جاسکتا۔
اہلسنت والجماعت کے اسی متفقہ نظریے وعقیدے کا بیان نہایت صراحت و وضاحت کے ساتھ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث مرفوع میں موجود ہے۔
اہلسنت کے یہاں تو بحمداللہ یہ روایت بالکل صحیح اور لائق اعتماد ہے؛ لیکن روافض اور نواصب ہر حال میں اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، روافض تو اس لئے کہ وہ خلفاء ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین (ابوبکر، عمر، عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو غاصب اور ناحق سمجھتے ہیں اور ان کی خلافت کو خلافت جائرہ کہتے ہیں، جبکہ یہ روایت خلفاء ثلاثہ کو برحق، سراپا عدل اور ان کے دورخلافت کو خلافت علی منہاج النبوہ اور خلافتِ راشدہ ثابت کرتی ہے، اس کے برخلاف نواصب؛ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور فتنوں اور انتشار و افتراق کا دور ہے. اس لئے اس دور پر خلافتِ راشدہ کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا، یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد نہیں مانتے، بعض تو صراحت کے ساتھ آپ کے خلیفہ راشد ہونے کا انکار کرتے ہیں، اور بعض بظاہر تو خلیفہ راشد کہہ دیتے ہیں لیکن پھر آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سڑے گلے اعتراضات کرکے اپنے خبثِ باطنی کو چھپا بھی نہیں پاتے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافتِ راشدہ پر طعن کرنے والے یہی نواصب؛ حضرت معاویہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو خلفاء راشدین ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں؛ بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ کر یزید اور مروان جیسے شریر حکمرانوں کو بھی خلفاء راشدین میں شمار کرتے ہیں، چونکہ یہ روایت ناصبیت کی جڑ یں کاٹ رہی ہے اس لئے نواصب کسی بھی صورت اس روایت کو ہضم نہیں کرپاتے اور ضعیف ثابت کرنے کے لئے تنکوں سے بھی کمزور دلائل لیکر میدان میں آدھمکتے ہیں۔
ہم نے اپنی درج ذیل تحریر میں حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت پر تفصیلی کلام کیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ اہلسنت کے یہاں یہ روایت سند و متن ہر اعتبار سے صحیح و قابل اعتماد ہے اور روافض و نواصب کے ڈھکوسلے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے ۔
حدیث سفینة:
قال الامام ابوداؤدؒ: حدثنا سوار بن عبدالله بن سوار، ناعبدالوارث بن سعید، عن سعید بن جمھان، عن سفینة قال: قال رسول اللہ صلي الله عليه وسلم: خلافة النبوۃ ثلاثون سنة، ثم یؤتی الله الملک ۔او ملکه۔ من یشاء۔ قال سعید: قال لی سفینة: امسک علیک ابابکر سنتین، و عمر عشراً، وعثمان اثنی عشر، وعلی کذا، (سنن ابی داؤد رقم ۴۶۴۶)
ترجمہ۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافتِ نبوت (خلافتِ راشدہ) تیس سال ہوگی، پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہیں گے حکومت دیدیں گے۔ سعید بن جمہان کہتے ہیں: حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حساب لگالو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت دو سال، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دس سال، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بارہ سال، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھ سال۔ (سب کا مجموعہ تیس سال ہوتا ہے)
تخریج الحدیث:
والحدیث اخرجه الترمذی ۔ واحمد فی المسند ۱۶/۱۳۶۔ وفی فضائل الصحابۃ ص ۴۸۷رقم۷۸۹۔والنسائی فی الکبریٰ ۷/۳۱۳۔ والطحاوی فی المشکل ۸/۴۱۵۔ وابن حبان فی صحیحه ۱۵/۳۵۔ وابن ابی عاصم فی السنة ۲/۵۶۲رقم۱۱۸۱۔ وعبداللہ بن احمد فی السنة ص۲۳۵۔ والحاکم فی المستدرک ۳/۷۱۔ والطبرانی فی الکبیر ۷/۹۷۔ والبیھقی فی دلائل النبوۃ ۶/۳۴۲۔ والطيالسي ۲/۴۳۰رقم ۱۲۰۳۔ والبزار ۹/۲۸۰رقم۳۸۲۷۔ والروياني ۱/۴۳۸۔
توثیق روات:
(۱) سوار بن عبداللہ بن سوار
متفق علیہ ثقہ ہیں، کسی کی جرح ان پر منقول نہیں؛ جبکہ امام احمد بن حنبل، امام نسائی اور ابن حبان رحمہم اللہ وغیرہ متعدد ائمہ نے توثیق کی ہے، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی کے شیخ ہیں۔
(۲) عبدالوارث بن سعید بن ذکوان التمیمی۔
یہ بھی متفق علیہ ثقہ ہیں، امام شعبہ، امام احمد بن حنبل، یحیی بن معین، ابوزرعہ، ابوحاتم، ابن سعد، نسائی وغیرہ متعدد ائمہ حدیث نے ان کو ثقہ، ثبت اور حجت قرار دیا ہے۔ تمام اصحاب صحاح نے آپ سے روایت لی ہے۔
(۳) سعید بن جمہان الاسلمی
امام احمد بن حنبل، امام یحیی بن معین ،امام ابوداؤد، یعقوب بن سفیان، ابن حبان اور ابن خلفون رحمہم اللہ نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے، امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا: لیس بہ بأس۔ اس میں کوئی خرابی نہیں، امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: لابأس بہ. اس میں کوئی خرابی نہیں، خلاصہ یہ کہ جمہور محدثین کے نزدیک سعید بن جمہان ثقہ ہیں، اس لئے بعض حضرات کی مبہم جرح کا کوئی اعتبار نہیں۔ سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ (تہذیب الکمال۔ تہذیب التہذیب وغیرہ)
(۴) سفینہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں
غرضیکہ روایت کے تمام روات ثقہ و معتمد ہیں، اسی لئے متعدد اکابر محدثین نے صراحت کے ساتھ اس روایت کی تصحیح کی ہے۔
روایت کی تصحیح کرنے والے محدثین کرام:
(۱) امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث سفینة فی الخلافة صحیح والیه اذھب فی الخلفاء۔ خلافت کے بارے میں وارد حضرت سفینہؓ کی حدیث صحیح ہے اور خلفاء کی تحدید کے بارے میں میرا مستدل بھی یہی روایت ہے۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۶۹)
(۲) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ھذا حدیث حسن۔ یہ روایت حسن ہے۔ (ترمذی)
(۳) امام ابوبکر بن ابی عاصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث سفینة ثابت من جھة النقل۔ حدیث سفینہ ثابت ہے۔ (السنة لابن ابی عاصم ۲/۵۶۲)
(۴) امام ابن حبانؒ نے اپنی صحیح میں اس روایت کی تخریج کی ہے جو ان کے نزدیک صحت کی دلیل ہے۔
(۵) امام ابوعمر بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس روایت کی تصحیح نقل کی ہے اور پھر خود بھی اس تصحیح کی تائید فرمائی ہے۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۶۹)
(۶) امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وقد اسندت ھذہ الروایات باسناد صحیح۔ یہ روایات صحیح سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں۔ (المستدرک ۳/۷۱)
(۷) امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واما اولی الاقوال بالصواب عندنا فیمااختلفوا من اولی الاصحاب بالامامة فیقول من قال بما حدثنی ۔۔۔۔۔عن سفینة مولی رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الخلافة فی امتی ثلاثون سنة۔ الخ۔
ترجمہ: خلفاء کے مسئلے میں جو لوگوں نے اختلاف کیا ہے اس بابت ہمارے نزدیک سب سے بہتر اور درست قول وہ ہے جو حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں خلافت تیس سال رہے گی. (الاعتقاد للطبری ۱۵)
(۸) امام ابوجعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے مشکل الاثار میں مدتِ خلافت کے حصر کے لئے اس روایت کو بڑی قوت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔
(۹) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: وھو حدیث مشھور من روایة حماد بن سلمة وعبدالوارث بن سعید والعوام بن حوشب وغیرہ عن سعید بن جمھان عن سفینة مولی رسول اللہ ﷺ ، ورواہ اھل السنة کأبی داؤد وغیرہ، واعتمدعلیه الامام احمد وغیرہ فی تقدیر خلافة الخلفاء الراشدین الاربعة، وثبته احمد واستدل به علی من توقف فی خلافة علی من اجل افتراق الناس علیه ۔الخ۔ ترجمہ۔اور یہ حدیث مشہور ہے، اسے حماد بن سلمہ، عبدالواراث بن سعید، اور عوام بن حوشب وغیرہ نے سعید بن جمہان عن سفینۃ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے نقل کیا ہے، اور اس روایت کو ابوداؤد وغیرہ اہل سنت علماء نے روایت کیا ہے، اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ علماء نے خلافتِ راشدہ کی تحدید کے مسئلے میں اسی روایت پر اعتماد کیا ہے، امام احمدؒ نے اس روایت کو نہ صرف ثابت مانا بلکہ حضرت علیؓ کے دور میں لوگوں کے انتشار وافتراق کا بہانہ بناکر آپؓ کو خلیفہ راشد ماننے میں توقف کرنے والے حضرات کے خلاف اس روایت سے استدلال بھی کیا ہے(فتاوی ابن تیمیہ ۳۵/۱۸)
(۱۰)امام ابوبکر بوصیریؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ھذا اسناد صحیح ۔یہ سند صحیح ہے (اتحاف الخیرۃ المھرۃ ۵/۱۱)
(۱۱) حافظ ابن حجرعسقلانیؒ اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں: ھذا حدیث حسن ۔یہ حدیث حسن ہے(موافقة الخبرالخبر۱/۱۴۱)
(۱۲) امام ذہبیؒ نے اس سند کو صحیح قرار دینے میں حاکم کی موافقت کی ہے۔ دیکھئے۔(المستدرک۳/۶۰۶)
(۱۳) حافظ جمال الدین ابوالحجاج مزیؒ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذیؒ کے حوالے سے اس تحسین نقل کی ہے جس سے پتہ چلا کہ آپؒ بھی امام ترمذی کی تحسین سے متفق ہیں۔ دیکھئے۔(تحفة الاشراف للمزی ۴/۲۲)
(۱۴) علامہ ناصرالدین البانیؒ نے اس روایت کے تمام طرق شواہد اور متابعات ذکر کرنے کے بعد فرمایا: وجملة القول ان الحدیث حسن من طریق سعید بن جمھان صحیح بھٰذین الشاھدین لاسیما وقدقواہ من سبق ذکرھم ۔الخ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث سعید بن جمہان کے طریق سے حسن ہے اور دو متابعات وشواہد سے مل کر صحیح ہے بالخصوص اس وقت جبکہ جن علماء کا ماقبل میں تذکرہ ہوا انھوں نے اس کی تصحیح ہے. (سلسلۃ الصحیحۃ ۱/۸۲۳ رقم ۴۵۹)
(۱۵) مسنداحمد کے محقق علامہ احمدشاکر مصریؒ اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں: اسنادہ صحیح رجاله ثقات۔اس کی سند صحیح ہے تمام روات ثقہ ہیں۔ (مسنداحمد ۱۶/۱۳۶)
ان کے علاوہ اور بھی متعدد متقدمین و متأخرین ائمہ حدیث نے صراحتاً یا اشارۃً اس روایت کی تصحیح و تحسیین کی ہے ۔
روایت کے شواہد:
اس روایت کے دو شواہد بھی ہیں جو اس کی صحت پر مہر ثبت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔
قال الامام البیھقیؒ: واخبرنا ابوالحسین بن الفضل، اخبرنا عبداللہ بن جعفر، حدثنا یعقوب بن سفیان، حدثنا محمدبن فضیل، حدثنا مؤمل، حدثنا حماد بن سلمة، عن علی بن زید عن عبدالرحمن بن ابی بکرۃ، عن ابیه قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: خلافة نبوۃ ثلاثین عاماً ثم یؤتی الله الملک من یشاء۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۶/۳۴۲)
اس روایت کی سند کے تمام روات ثقہ ہیں صرف علی بن زید بن جدعان میں محدثین نے کلام کیا ہے لیکن پھر بھی یہ اتنے غیرمعتبر نہیں کہ متابعات و شواہد میں بھی نہ چل سکیں؛ کیونکہ سنن اربعہ کے مصنفین کے علاوہ امام مسلمؒ نے بھی ان کی روایت لی ہے، یعقوب بن شیبہ نے ثقہ کہا ہے، امام ترمذیؒ نے صدوق قرار دیاہے، امام عجلی لابأس بہ کہتے ہیں، امام سفیان بن عیینہؒ نے بھی ان کی تعریف کی ہے، وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ یہ سند بھی حسن درجے کی ہے۔
اس کے علاوہ حضرت جابر بن عبداللہؓ کے طریق سے ایک شاہد اور بھی ہے جو علامہ البانیؒ نے واحدی کی ”وسیط“ کے حوالے سے ذکر کیا ہے. (الصحیحۃ ۱/۸۲۳)
خلاصہ یہ کہ حضرت سفینہؓ کی یہ روایت سند و متن ہر اعتبار سے صحیح ہے اور چونکہ متعدد ائمہ عقائد نے اس روایت سے عقیدۂ خلافت کی تحدید کے عقیدے کو ثابت کیا ہے اس لئے اس روایت کا درجہ صحیح سے بھی بڑھ جاتا ہے جیساکہ علامہ ابن تیمیہؒ نے اس روایت کو ”حدیث مشہور“ قرار دیا ہے۔
فقط والله أعلم
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_68.html
No comments:
Post a Comment