Saturday 14 August 2021

بناتِ اربعہ کا ثبوت

بناتِ اربعہ کا ثبوت
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں چار تھیں
(کتبِ شیعہ سے دلائل)

رات گئے ایک دوست کی طرف سے یہ میسج موصول ہوا کہ ایک صاحب اس بات پر مصر ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ایک ہی تھیں سیدہ فاطمۃ الزھراء عنہا، باقی تین صاحبزادیاں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں، موصوف کا دعویٰ و دلائل انہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ 
"اولاد کا انکار نہیں ہے بھیا جی.. اللہ جب قرآن میں صرف ایک بیٹی کی بات کرتا ہے تو ہم کیا کریں. . ایک.بیٹی جنت کی عورتوں کی سرادار ہیں .. آیت تطہیر میں ایک ہے مباہلہ میں ایک ہے.. جب نبی پاک پر مشکل وقت آتا ہے تو ایک بیٹی کا ذکر ہے کتابوں میں .. باقی کا کوئی حوالہ میں ہے .. اس وجہ سے کوئی سمجھ نہیں آتی ..کہ اللہ نے بس ایک بیٹی کو ہی کیوں یاد رکھا باقی بھی تو نبی پاک کی اولاد ہیں.. اور جن دو کئی آپ بات کررہے وہ پہلے شعیبہ اور عطبہ کے نکاح میں تھی جو مشرک تھے ..ان سے طلاق ہوے تو تب نبی پاک نے حضرت عثمان سے شادی کی ان کی .. ایک بیٹی کے بعد دوسری کی شادی کی .. مگر تاریخ خاموش ہے کہ جب حضرت عثمان غنی کی بیوی فوت ہوئی جن کو آپ نبی پاک کی بیٹی کہتے ہیں .. تو جو دوسری بیٹی تھیں جو بعد میں نکاح میں آئیں وہ اتنا عرصہ کہاں رہی .. کہ ایک بہن کے بعد ان کی بھی شادی عثمان غنی سے کردی گی .. تاریخ خاموش ہے."
دعویٰ مع دلائل ختم ہوا۔
جواباً بندہ نے جو گذارشات کیں وہ درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک بیٹی کا ذکر کس جگہ کیا ہے؟
آیت تطہیر میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا ذکر ہے کسی بیٹی کا ذکر نہیں ہے، آگے پیچھے ساری آیات اس بات کی دلیل ہیں،
مباہلہ کے وقت باقی تینوں بیٹیاں انتقال فرماچکی تھیں. ان کا تذکرہ کیونکر ہونا تھا؟
ایک بیٹی کو جنتی خواتین کا سردار کہا گیا ہے تو یہ حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا کی خصوصیت اور فضیلت ہے. اس سے یہ قطعاً لازم نہیں آتا کہ بیٹی تھی ہی ایک، نہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ اولاد میں سے کسی ایک کو وہ فضیلت حاصل ہوتی وہ دوسرے کو حاصل نہیں ہوتی اس سے یہ کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ دوسری اولاد ان کی ہے ہی نہیں، جو فضائل و مناقب جناب سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ کے ہیں وہ ان کے دوسرے بھائیوں کے نہیں ہیں تو کیا دوسرے بھائی جناب ابوطالب کی اولاد نہیں تھے؟
جو فضائل جناب حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دوسرے بیٹوں کے نہیں ہیں تو کیا اس سے یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ باقی بیٹے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے تھے ہی نہیں، کسی اور کے تھے؟؟
افسوس تو یہ ہے کہ جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اطہار بنات طاہرات کے نسب پر بات کررہا ہے اس کی معلومات اتنی ہیں اسے عتبہ اور شیبہ نام تک درست لکھنے نہیں آتے، عتبہ اور شیبہ سے نسبت تھی تو اس سے کیا لازم آتا ہے اس وقت تک نکاح سے متعلقہ احکام نازل نہیں ہوئے تھے، 
جزوی واقعات سے اگر تاریخ خاموش ہو تو اس سے کیا یہ لازم آتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں یا یہ ہے کہ نعوذباللہ آپ ان مقدس ہستیوں کی ناموس پر حملہ کررہے ہیں؟؟

خود قرآن کریم سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ایک نہیں تھی سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يا ايها النبي قل لأزواجك و بناتك و نساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن،
اے نبی کہہ دو اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہ اپنے چہرے پر نقاب ڈالا کریں۔
اس آیت میں بنات کا لفظ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے اور عربی سے تھوڑی سی بھی مناسبت رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ بنات جمع ہے بنت واحد ہے. بنتان تثنیہ ہے، عربی لغت میں جمع کا لفظ کم از کم تین کے لیے بولا جاتا ہے لہٰذا اس آیت سے واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ایک نہیں تھی، نیز بنات سے مراد یہاں عام مسلمان عورتیں بھی نہیں ہوسکتیں کیونکہ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے "ونساء المؤمنین" فرماکر الگ کیا ہے۔
پھر احادیث سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ایک نہیں تھی۔
تاریخ سے بھی ثابت ہے بلکہ خود شیعہ کی مستند کتب میں یہ بات موجود کہ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہن سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں تھیں۔
لہٰذا اس کا انکار کرنا قرآن کریم، احادیث طیبہ، تاریخی حقیقت اور خود شیعہ مذھب سے انحراف ہے۔
اب ھم شیعہ مذھب کی معتبر کتب سے چند روایات نقل کرتے ہیں۔
جس طرح اہل السنّۃ کی چھ بڑی اور اہم مستند کتابیں ہیں اسی طرح شیعہ کی چار بڑی معتبر اور مستند کتابیں ہیں جن کو اصول اربعہ کہا جاتا ہے، ان میں سے ایک کتاب "تھذیب الاحکام" ہے اس کتاب میں یہ روایت موجود ہے:
أحمد بن محمد عن ابن أبي عمير عن حماد عن الحلبي عن أبي عبد الله عليه السلام ان أباه حدثه ان امامة بنت أبي العاص بن الربيع وأمها زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وآله فتزوجها بعد علي عليه السلام
ترجمہ: احمد بن محمد، جنہوں نے روایت کی ابن ابی عامر سے اور انہوں نے حماد سے جنہوں نے حلبی سے اور انہوں نے امام جعفر صادق  سے جنہوں نے فرمایا کہ ان کے والد (امام باقر) نے ان سے بیان کیا تھا امامہ بنت ابی عاص بن ربیع جن کی والدہ زینب بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تھیں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے بعد شادی کی۔۔۔ الخ
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زینب بھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں۔
(تهذيب الأحكام، ج 8، ص 258)
اس کے علاوہ تہذیب الاحکام میں ہی یہ روایت ہے:
وَ إِنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ النَّبِيِّ ص تُوُفِّيَتْ وَ إِنَّ فَاطِمَةَ ع خَرَجَتْ فِي نِسَائِهَا فَصَلَّتْ عَلَى أُخْتِهَا
ترجمہ: زینب بنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی  عورتوں کے ساتھ نکلیں اور اپنی بہن پر نماز پڑھی۔
اس کی بھی سند معتبر ہے۔
(تهذيب الأحكام، ج 3، ص 333)
ایک اور حدیث:
قال: وحدثني مسعدة بن صدقة قال: حدثني جعفر بن محمد، عن أبيه قال: ” ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله من خديجة: القاسم، والطاهر، وأم كلثوم، ورقية، وفاطمة، وزينب. فتزوج علي عليه السلام فاطمة عليها السلام، وتزوج أبو العاص بن ربيعة – وهو من بني أمية – زينب، وتزوج عثمان بن عفان أم كلثوم ولم يدخل بها حتى هلكت، وزوجه رسول الله صلى الله عليه وآله مكانها رقية. ثم ولد لرسول الله صلى الله عليه وآله – من أم إبراهيم – إبراهيم، وهي مارية القبطية۔۔۔
ترجمہ: اور اس نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا مسعدہ بن صدقہ نے، اس نے کہا مجھ سے جعفر بن محمد نے بیان کیا اپنے والد (امام باقر) سے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اولاد تھی قاسم، طاہر، ام کلثوم، رقیہ، فاطمہ، اور زینب۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی، اور زینب کی شادی  ابوالعاص بن ریبعہ سے ہوئی اور وہ بنی امیہ سے تھا۔ اور عثمان بن عفان کی شادی ہوئی ام کلثوم سے اور وہ انہوں نے ان سے مباشرت نہیں کی حتی کہ وہ وفات پا گئیں۔ پھر اس کی جگہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شادی رقیہ سے کردی، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اولاد ملی ام ابراہم ماریہ سے، یعنی جناب ابراہیم
اس کی سند موثق کے درجے سے نہیں گرتی اکثر علماء کے نزدیک۔
(قرب الإسناد، رقم الحديث: 29)
نہج البلاغہ میں ہے:
وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلاَ ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ (صلى الله عليه وآله) وَشِيجَةَ رَحِم مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مَنْ صَهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالاَ.
ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے حضرت عثمان کو مخاطب کرکے کہا: ابوقحافہ کا بیٹا اور خطاب کا بیٹا زیادہ افضل نہیں تھے نیک عمل کے لحاظ سے تم سے، اور تم ان دونوں سے زیادہ قریب تھے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور نسبت، اور تم شادی کی وجہ سے بھی ان سے تعلق رکھتے ہو جو کہ وہ دونوں نہیں رکھتے تھے۔
(نهج البلاغة، رقم الخطبة: 164)
ہمیں بعض روایات میں ملتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وصیت کی تھی کہ میرے بعد میری بہن زینب کی بیٹی امامہ سے شادی کرنا، اور پھر سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ان سے شادی کی۔ اس کے متعلق اصول کافی کی ایک روایت ملاحظہ ہو:
مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُکَیْرٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ  قَالَ: أَوْصَتْ فَاطِمَةُ  إِلَی عَلِیٍّ  أَنْ یَتَزَوَّجَ ابْنَةَ أُخْتِهَا مِنْ بَعْدِهَا فَفَعَلَ
ترجمہ: زرارہ سے روایت ہے کہ امام جعفر الصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی کہ وہ ان کی بہن کی بیٹی سے شادی کرلیں ان کے بعد، تو حضرت علی نے ایسا ہی کیا۔
سند معتبر ہے اور تمام راوی ثقہ ہیں۔
(الكافي، ج 5، ص 555)
اس کے علاوہ کلینی سے لے کر خمینی تک کثیر تعداد میں علماء تشیع کا یہی موقف رہا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں، رقیہ، زینب، ام کلثوم اور فاطمہ سلام الله علیهن۔
امام مہدی کے نائب کا بیان:
كم بنات رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ فقال: أربع، قال : فأيهن أفضل؟ فقال: فاطمة
حسین بن روح (نائبِ امام مہدی) سے پوچھا گیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی بیٹیاں تھیں؟ انہوں نے کہا چار۔ پوچھا گیا کہ سب سے افضل کون سی تھیں؟ انہوں نے کہا: فاطمہ
(الغيبة للطوسي، ج 1، ص 409)
ایسے ہی شیخ كليني الكافي میں لکھتے ہیں:
وَ تَزَوَّجَ خَدِیجَةَ وَ هُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَ عِشْرِینَ سَنَةً فَوُلِدَ لَهُ مِنْهَا قَبْلَ مَبْعَثِهِ ع الْقَاسِمُ وَ رُقَیَّةُ وَ زَیْنَبُ وَ أُمُّ کُلْثُومٍ وَ وُلِدَ لَهُ بَعْدَ الْمَبْعَثِ الطَّیِّبُ وَ الطَّاهِرُ وَ فَاطِمَةُ ع وَ رُوِیَ أَیْضاً أَنَّهُ لَمْ یُولَدْ بَعْدَ الْمَبْعَثِ إِلَّا فَاطِمَةُ ع
ترجمہ: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بیس اور کچھ سال تھی، تو بعثت سے قبل ان کو ان سے اولاد میں قاسم اور رقیہ اور زینب اور ام کلثوم ملے اور بعثت کے بعد طیب اور طاہر اور فاطمہ رضی اللہ عنہا، اور روایت کی گئی ہے کہ ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی بعثت کے بعد سوائے فاطمہ کے۔
(الكافي، ج 1، ص 439)
ایسے ہی شیخ مفید نے لکھا ہے:
أن زينب ورقية كانتا ابنتى رسول الله صلى الله عليه وآله والمخالف لذلك شاذ بخلافه
زینب اور رقیہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سے دو ہیں اور اس بات کا مخالف شاذ ہے اپنی مخالفت میں۔
(المسائل العكبرية، ص 120)
ایسے ہی شیخ طوسی نے مبسوط میں اور ابن شہر آشوب نے مناقب آل أبي طالب میں، شیخ عباس قمی نے منتهي الآمال میں، علامہ مجلسی نے حیات القلوب میں اور بحار الأنوار میں بہت سی مختلف روایات اس ضمن میں جمع کی ہیں، اور ایسے ہی دیگر علماء نے یہی ذکر کیا ہے۔
ایک بیٹی کی بات جو آج ہند-پاک میں رائج بھی ہے یہ سب سے پہلے علی بن احمد کوفی نے ایجاد کی کہ یہ خدیجہ س کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں، اس کو ابن شہر آشوب نے بدعت کہا ہے:
والبدع أن رقية وزينب كانتا ابنتي هالة أخت خديجة
ترجمہ: یہ بات بدعت ہے کہ رقیہ اور زینب دونوں ہالہ کی بیٹیاں تھیں جو کہ خدیجہ کی بہن تھیں۔
(مناقب آل أبي طالب، ج 1، ص 138)
ایسے ہی شیخ تستری نے نقل کیا ہے:
لا ريب أن زينب ورقية كانتا ابنتي النبي (صلى الله عليه وآله). والبدع الذي قال هو كتاب أبي القاسم المذكور
ترجمہ: اس بات میں شک نہیں کہ زینب اور رقیہ دونوں نبی پاک کی بیٹیاں تھیں۔ اور یہ بات بدعت ہے جو کہ ابوالقاسم (الكوفي) کی کتاب میں مذکور ہے۔
(قاموس الرجال، ج 9، ص 450)
ابوالقاسم الکوفی علی بن محمد کے متعلق رجال کی کتب میں ملتا ہے کہ وہ ایک غالی تھا اور کذاب تھا، وہ چوتھی صدی ہجری میں وفات پاگیا تھا۔ دیکھیے الفهرست للطوسي، رجال النجاشي، معجم رجال الحديث وغیرہ۔
شیعہ کتاب "الخصال" میں مذکور ہے۔
ولد لرسول الله (صلى الله عليه وآله ) من خديجة القاسم والطاهر وهو عبد الله وأم كلثوم ورقية وزينب وفاطمة
(الخصال لابن بابویہ القمّي، ص: 404)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے اولاد یہ تھی: قاسم، عبداللہ طاہر، ام کلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ۔
شیعہ عالم عبداﷲ مامقانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کا اس طرح ذکر کرتا ہے:
"وولدت له اربع بنات كلهن ادرکن الاسلام وهاجرين وهن زینب وفاطمة ورقية وام کلثوم" (تنقیح المقال: 3/73)
ترجمہ: اور ان (خدیجہ رضی اﷲ عنہا) سے آنجناب کی چار صاحبزادیاں پیداہوئیں تمام نے دور اسلام پائیں اور مدینہ کی طرف ہجرت بھی کیں۔ وہ زینب، فاطمہ، رقیہ اور ام کلثوم ہیں۔
ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ قرآن نے بھی بنات یعنی جمع کا لفظ استعمال کیا ہے جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا ذکر کیا ہے، اور ایسے ہی ہمیں کثرت سے احادیث ملتی ہیں دیگر بیٹیوں کے متعلق جس میں سے ہم نے چند نقل کردیں باقی بھی کتب احادیث میں موجود ہیں اور علامہ مجلسی نے بحار کی جلد 2، صفحہ 151 پر باب باندھا ہے "عدد أولاد النبي (صلى الله عليه وآله) وأحوالهم" یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی تعداد اور ان کے احوال۔ ام کلثوم اور رقیہ بنا کسی اولاد کے فوت ہوگئی تھیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور ایسے ہی زینب بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وفات رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کا سلسلہ صرف سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہی چلا۔ اب اگر کوئی اس بات سے اعتراض کرتا ہے تو وہ احادیث پیش کر سکتا ہے جس میں ذکر ہو کہ فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہا اکیلی بیٹی تھیں۔
علاوہ ازیں شیعہ کی معتبر کتب مثلاً منتھی الآمال، مرآۃ العقول، ملاذالاخیار للباقر مجلسی، عمدۃ الطالب لابن عنبہ وغیرہ میں بھی دلائل موجود ہیں طوالت کے خوف سے وہ عبارات چھوڑی جارہی ہیں۔
ان دلائل کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی صرف ایک حضرت فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا تھیں تو ہمارے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب و علمہ اتم و احکم
خیراندیش
عبدالصمد ساجد
معین دارالافتاء جامعہ حقانیہ ساہیوال ضلع سرگودھا (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_14.html

No comments:

Post a Comment