کون
کونسے گناہ
لعنت کا سبب ہیں؟
قرآن وسنت میں بعض ایسے اعمال کا ذکر ہے جن کے کرنے والے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ قرآن وحدیث میں جس لعنت کا ذکر ہے وہ مسلمان اور کافر کے حق میں یکساں نہیں، بلکہ دونوں میں فرق ہے۔ مسلمان کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اُس رحمت سے محروم ہوگا جو رحمت اللہ تعالیٰ کے نیک اور فرماںبردار بندوں کے ساتھ خاص ہے، اور عدالت وشرافت کا مرتبہ اس سے ختم ہوجائے گا، اور مؤمنین کی زبان سے اس کے حق میں اچھی بات نہیں نکلے گی، نیز جنت میں دخولِ اوّلی سے محروم ہوگا، اگرچہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ایمان کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت جنت میں داخل ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں آجائے گا۔ جب کہ کافر کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور اور محروم ہوجائے گا (۱):
ذیل میں ایسے چند گناہ لکھے جاتے ہیں، تاکہ ان سے بچنے کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے۔
۱:- سود کھانا اور کھلانا:
’’عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہٗ وکاتبہٗ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء۔‘‘ (صحیح مسلم: ۳/۱۲۱۹)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود دینے والے اور سودی تحریر یا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ: وہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘
حا(۱) قولہ: لعنۃ اللّٰہ: المراد باللعنۃ ہنا البعد عن الجنۃ أول الأمر، بخلاف لعنۃ الکفار، فإنہا البعد عنہا کل الإبعاد أولا وآخرا۔ (عمدۃ القاری: ۲۵/۳۹) قال فی القاموس: لعنہ کمنعہ طردہ وأبعدہ، وقال فی المجمع: اللعنۃ ہی الطرد والإبعاد، ولعن الکافر إبعادہ عن الرحمۃ کل الإبعاد، ولعن الفاسق إبعادہ عن رحمۃ تخص المطیعین، انتہٰی۔ (تحفۃ الأحوذی: ۶/۱۳۷)
۲:- شراب پینا، پلانا اور خریدوفروخت کرنا:
’’عن أبی علقمۃ مولاہم وعبدالرحمن بن عبداللّٰہ الغافقي أنہما سمعا ابن عمر رضي الله عنه یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’لعن اللّٰہ الخمر وشاربہا وساقیہا وبائعہا ومبتاعہا وعاصرہا ومعتصرہا وحاملہا والمحمولۃ إلیہ۔‘‘
(سنن ابی داؤد، ۳/۳۶۶، والحدیث سکت عنہ ابوداؤد)
’’حضرت ابوعلقمہ اور حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ الغافقی رحمہم اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اور شراب بنانے والے اور بنوانے والے پر اور جو شراب کو کسی کے پاس لے جائے اس پر اور جس کے پاس لے جائے ان سب پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی دکانوں میں شراب بیچتے ہیں، یا اپنے ہوٹلوں میں شراب پلاتے ہیں، وہ اپنے بارے میں غور کرلیں کہ روزانہ کتنی لعنتوں کے مستحق ہوتے ہیں۔ شراب کا بنانے والا تو مستحق لعنت ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ شراب کا بیچنے والا، پینے والا، پلانے والا، اُٹھاکر لے جانے والا سب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔
۳:- مرد وعورت کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا:
’’عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المتشبّہین من الرجال بالنساء، والمتشبّہات من النساء بالرجال۔‘‘ (صحیح البخاری، ۷/۱۵۹)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں۔‘‘
۴:- تصویر کشی کرنا:
’’حدثنا عون بن أبی جحیفۃ عن أبیہ، قال: ’’لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الواشمۃ والمستوشمۃ، وآکل الربا وموکلہٗ، ونہی عن ثمن الکلب، وکسب البغي، ولعن المصورین۔‘‘ (صحیح البخاری، ۷/۶۱)
’’حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم گودنے اور گدوانے والیوں پر، اور سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے، اور کتے کی قیمت اور زنا کی کمائی سے منع فرمایاہے اور تصویر بنانے والے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۵:- غیراللہ کے نام پر ذبح کرنا:
۶:- بدعت ایجاد کرنے والے کی پشت پناہی کرنا:
۷:- والدین کو بُرابھلا کہنا:
۸:- زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانا:
’’عن أبی الطفیل قال: قلنا لعلي بن أبی طالب أخبرنا بشیء أسرہ إلیک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فقال: ما أسر إلي شیئًا کتمہ الناس ولکنی سمعتہٗ یقول: لعن اللّٰہ من ذبح لغیر اللّٰہ ولعن اللّٰہ من آوٰی محدثا ولعن اللّٰہ من لعن والدیہ ولعن اللّٰہ من غیرالمنار۔‘‘ (صحیح مسلم، ۳/۱۵۴۷)
’’حضرت ابوالطفیل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آپ کو راز کی باتیں بتائی ہیں وہ تو ہمیں بتایئے! تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے چھپاکر مجھے کوئی راز کی بات نہیں ارشاد فرمائی، لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو غیراللہ کے نام پر ذبح کرے اور اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے اس شخص پر جو کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے کو سہارا دے (یعنی پشت پناہی کرے) اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے والدین کو برا بھلا کہے اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو زمین کی حدبندی کے نشانات کو مٹائے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام پر جانور ذبح کیا جائے، جیسے: کسی بت کے نام پر، یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر، یا کعبۃ اللہ کے نام پر وغیرہ۔ یہ حرام ہے اور اس طرح جو جانور ذبح کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتا، چاہے ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی۔
بدعت کرنے والے کو سہارا دینا، یعنی اس کی حمایت اور پشت پناہی کرنا بھی ایسے ہی گناہ اور لعنت کا سبب ہے، جیسے کہ خود بدعت کا ارتکاب کرنا گناہ ہے۔
والدین کو برا بھلا کہنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ صراحۃً واضح طور پر براہِ راست والدین کو برا بھلا کہے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کے والدین کو برا بھلا کہے جس کے جواب میں بدلہ لیتے ہوئے وہ اس کے والدین کو لعن طعن کرے۔
زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ملکیتی حدود میں تبدیلی کرکے دوسرے کی زمین کو اپنی ملکیت میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے، گویا یہ دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے کی صورت ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو دوسرے کی زمین کا ایک بالشت بھی ناحق لے گا قیامت کے دن اس کو سات زمینوں سے نکال کر اس کی گردن میں طوق بناکر ڈالا جائے گا۔
۹:- لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنا:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط، لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط، لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط۔‘‘ (السنن الکبری للنسائی، ۶/۴۸۵، قال المنذری فی الترغیب، ۳/۱۹۶: رواہ ابن حبان فی صحیحہ والبیہقی)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قومِ لوط والا عمل کرے۔‘‘
۱۰:- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا:
’’عن ابن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا رأیتم الذین یسبون أصحابی، فقولوا: لعنۃ اللّٰہ علی شرکم۔‘‘ (سنن الترمذی، ۵/۶۹۷)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو تم کہو کہ تمہارے شر اور برائی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘
’’عن عائشۃ رضي الله عنها، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’لاتسبوا أصحابی، لعن اللّٰہ من سب أصحابی۔‘‘
(المعجم الأوسط، ۵/۹۴، قال الہیثمی فی المجمع، ۹/۷۴۶، فیہ عبداللہ بن سیف الخوارزمی وہو ضعیف) (۱) حاشیہ: (۱) وما روي فی ہذا الباب یتقوی بعضہا ببعض
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو برا بھلا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو میرے صحابہؓ کو برا بھلا کہے۔‘‘
۱۱:- رشوت لینا، دینا اور رشوت کے لین دین کا واسطہ بننا:
’’عن ثوبان رضي الله عنه قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش‘‘ یعنی: الذی یمشی بینہما۔‘‘ (مسند احمد، ۳۷/۸۵، قال الہیثمی فی المجمع، ۴/۳۵۸: فیہ ابوالخطاب وہو مجہول)
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر، اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۱۲:- مومن کو تکلیف پہنچانا یا دھوکہ دینا:
’’عن أبی بکر الصدیق (رضي الله عنه) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من ضار مؤمنًا أو مکر بہٖ۔‘‘ (سنن الترمذی، ۴/۳۳۲، ہذا حدیث غریب)
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس آدمی پر لعنت ہے جو کسی مؤمن کو تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے۔‘‘
۱۳:- عورتوں کا قبرستان جانا:
۱۴:- قبروں کو سجدہ گاہ بنانا اور وہاں چراغ رکھنا:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیہا المساجد والسرج۔‘‘ (سنن ابی داؤد، ۳/۲۱۸، اخرجہ الترمذی، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال حدیث حسن)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہل علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے، کیونکہ عورتیں ایک تو شرعی مسائل سے کم واقف ہوتی ہیں، دوسرے ان میں صبر، حوصلہ اور برداشت کم ہوتا ہے، ان کے حق میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ وہ قبرستان جاکر جزع وفزع کریں گی یا کوئی بدعت کریں گی، اسی لئے انہیں قبرستان جانے سے منع کردیا گیا۔
۱۵:- پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا:
’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوْا فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔‘‘ (النور: ۲۳)
’’یادرکھو! جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑچکی ہے، اور ان کو اس دن زبردست عذاب ہوگا۔‘‘
۱۶:- قطع رحمی کرنا:
’’ہَلْ عَسَیْتُمْ إنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمٰی أَبْصَارَہُمْ۔‘‘ (محمد: ۲۲،۲۳)
’’پھر اگر تم نے (جہاد سے) منہ موڑا تو تم سے کیا توقع رکھی جائے؟ یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ اور خونی رشتے کاٹ ڈالو، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے دور کردیاہے، چنانچہ انہیں بہرا بنادیا ہے اور ان کی آنکھیں اندھی کردی ہیں۔‘‘
۱۷:- چوری کرنا:
’’عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:’’لعن اللّٰہ السارق یسرق البیضۃ فتقطع یدہٗ، ویسرق الحبل فتقطع یدہٗ۔‘‘ (صحیح البخاری، ۸/۱۵۹)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت فرمائی ہے جو ایک انڈہ چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیاجاتاہے اور رسی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘
۱۸:- نابینا کو راستہ سے بھٹکانا:
۱۹:-جانور کے ساتھ بدفعلی کرنا:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من سَبَّ أباہ، ملعون من سَبَّ أمَّہٗ، ملعون من ذَبَحَ لغیر اللّٰہ، ملعون من غَیَّرَ تُخُومَ الأرض، ملعون من کَمَّہَ أعمٰی عن الطریق، ملعون من وَقَعَ عَلٰی بہیمۃٍ ، ملعون من عَمِلَ عَمَلَ قوم لوط۔‘‘ قالہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرارًا ثلاثًا فی اللوطیۃ۔‘‘ (مسند احمد، ۵/۸۳-۸۴، اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۴/۳۹۶ (۸۰۵۲) وقال صحیح الاسناد ولم یخرجاہ واقرہ الذہبی)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: وہ شخص ملعون ہے جو اپنے باپ کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو اپنی ماں کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو غیراللہ کے لئے ذبح کرے، وہ شخص ملعون ہے جو زمین کی حدود بدل دے، وہ شخص ملعون ہے جو اندھے کو راستے سے بھٹکادے، وہ شخص ملعون ہے جو جانور کے ساتھ جماع کرے، وہ شخص ملعون ہے جو قومِ لوط والا عمل کرے، قوم لوط والی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔‘‘
۲۰:- بیوی سے پیچھے کے مقام میں ہمبستری کرنا:
’’عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من أتٰی امرأتہٗ فی دبرہا۔‘‘ (سنن ابی داؤد، ۲/۲۴۹، سکت عنہ ابوداؤد)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص پر لعنت ہے جو بیوی سے پائخانہ کے مقام میں ہمبستری کرے۔‘‘
۲۱:- بلاعذر شوہر کو صحبت سے انکار کرنا:
’’عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا دعا الرجل امرأتہ إلٰی فراشہٖ فأبت فبات غضبانَ علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح۔‘‘ (صحیح البخاری، ۴/۱۱۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو ہم بستری کی طرف بلائے اور بیوی (بلا کسی عذر کے) انکار کرے، جس کی وجہ سے شوہر غصہ ہوکر سو جائے تو ایسی عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے ہیں۔‘‘
۲۲:- حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا:
’’عن أنس بن مالک رضي الله عنه، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقول:’’من ادعی إلی غیر أبیہ، أو انتمٰی إلٰی غیر موالیہ، فعلیہ لعنۃ اللّٰہ المتتابعۃ إلٰی یوم القیامۃ۔‘‘ (سنن ابی داؤد،۴/۳۳۰، سکت عنہ ابوداؤد واصلہ فی البخاری، ۵/۱۵۶ (۴۳۲۶)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے اپنے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا یا جس غلام اور باندی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کی، اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘
۲۳:- لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود امام بننا:
۲۴:- بیوی کا خاوند کو ناراض کرکے سونا:
۲۵:- اذان کی آواز سن کر جواب نہ دینا:
’’عن الحسن قال سمعت أنس بن مالک رضي الله عنه، قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃً: رجل أم قومًا وہم لہ کارہون، وامرأتہٗ باتت وزوجہا علیہا ساخط، ورجل سمع حي علی الفلاح ، ثم لم یجب۔‘‘ (سنن الترمذی،۲/۱۹۱، قال الترمذی: وحدیث انس لایصح) ای لم یذہب الی المسجد للصلاۃ مع الجماعۃ من غیر عذر (تحفۃ الاحوذی، ۲/۲۸۸)
’’حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے:
۱:- ایک وہ شخص جس کو لوگ (کسی معتبر وجہ سے) ناپسند کرتے ہوں اور وہ ان کی امامت کروائے۔
۲:- وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔
۳:- تیسرے وہ آدمی جو ’’حي علی الفلاح‘‘ کی آواز سنے اور جواب نہ دے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ امام سے متعلق مذکورہ حدیث کا حکم اس وقت ہے جب لوگ کسی دینی وجہ سے مثلاً: اس کی بدعت، جہل یا فسق کی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں، لیکن اگر ان کی ناپسندیدگی کسی دنیوی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے ہو تو یہ حکم نہیں۔
اذان کا جواب دو طرح کا ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف چل دیا جائے، اسے اجابت بالقدم کہتے ہیں اور یہ واجب ہے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے مؤذن کی طرح الفاظ کہے جائیں، اسے اجابت باللسان کہتے ہیں اور راجح قول کے مطابق یہ مستحب ہے۔ مذکورہ حدیث کاتعلق اجابت بالقدم سے ہے، یعنی جو آدمی اذان سننے کے بعد کسی معتبر عذر کے بغیر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے حاضر نہ ہو، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
۲۶:- بدنظری کرنا:
’’عن عمرو مولی المطلب أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن الناظر والمنظور الیہ (یعنی إلی عورۃ)۔‘‘ (المرسیل لابی داؤد، ص:۳۳۰، رواہ البیہقی فی السنن الکبری، ۷/۱۵۹ عن الحسن، وقال ہذا مرسل)
’’حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غیرمحرم کی طرف) دیکھنے والے اور جس کی طرف دیکھا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے (یعنی وہ عورت جو بے پردہ ہو اور بدنظری کا سبب بنے)۔‘‘
۲۷:- نوحہ کرنا اور سننا:
۲۸:- گریبان چاک کرنا اور واویلا کرتے ہوئے موت مانگنا:
’’عن أبی سعید الخدري رضي الله عنه، قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم النائحۃ والمستمعۃ۔‘‘ (سنن ابی داؤد، ۳/۱۹۴، سکت عنہ ابو داؤد، وقال المنذری فی مختصرہ ۳/۱۵۲: فی إسنادہ محمد بن الحسن بن عطیۃ العوفی عن أبیہ عن جدہ وثلاثتہم ضعفاء)
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
’’عن أبی أمامۃ رضي الله عنه أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن الخامشۃ وجہہا، والشاقۃ جیبہا، والداعیۃ بالویل والثبور۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، ۱/۵۰۵، قال البوصیری فی المصباح، ۲/۴۶، ہذا اسناد صحیح)
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ نوچنے والی، اپنا گریبان چاک کرنے والی، اور واویلا اور موت مانگنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۲۹:- راستہ یا سایہ دار جگہ میں پیشاب وپائے خانہ پھیلانا:
’’من سل سخیمتہ علی طریق عامر من طرق المسلمین فعلیہ لعنۃ اللّٰہ وملائکتہ والناس أجمعین۔ طس ک عن أبی ہریرہ رضي الله عنه۔ (کنزالعمال، ۹/۳۶۶، قال الہیثمی فی المجمع، ۱/۴۸۳: وفیہ محمد بن عمرو الأنصاری ضعفہ یحیی بن معین ووثقہ ابن حبان وبقیۃ رجالہ ثقات)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے مسلمانوں کے راستوں میں سے کسی راستے پر پاخانہ پھیلایا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘
’’اتقوا اللاعنَین الذی یتخلی فی طریق الناس أو فی ظلہم ۔ حم م د عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه۔‘‘ (کنزالعمال، ۹/۳۶۵، صحیح مسلم، ۱/۲۲۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایسی دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا باعث ہیں:
۱:- لوگوں کے راستہ میں پیشاب کرنا،
۲:- لوگوں کے سایہ کی جگہ میں پیشاب کرنا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو لعنت والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_27.html
No comments:
Post a Comment