Thursday, 19 August 2021

قرآن وحدیث سے فرائض غسل کی دلیل

قرآن وحدیث سے فرائض غسل کی دلیل

---------------------------------

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

----------------------------------  

سوال: غسل میں کتنے فرائض ہیں مع دلیل ارسال فرمائیں اور دلیل کی تھوڑی وضاحت فرمائیں؟ کیوں کہ قرآن سے ظاہر ہوتا ہے فقط ایک فرض. 

محمد مدثر مونگیری 

الجواب وباللہ التوفیق: 

و فرض الغسل، المضمضة، والاستنشاق، وغسل سائرالبدن) وعندالشافعی ھماسنتان فیہ، لقولہ علیہ السلام: عشر من الفطرة، ای من السنة و ذکر منھا المضمضة، و الاستنشاق، و لھذا کانا سنتین فی الوضوئ۔ (الھدایہ مع الدرایہ صفحہ 30۔) ) 

حدیث میں ہے:

"عن علی قال ان رسول اللہ ۖ قال من ترک موضع شعرہ من جنابة لم یغسلھافعل بھا کذا کذا من النار" (ابوداؤد شریف، باب فی الغسل من الجنابة ص ٣٨ نمبر ٢٤٩) 

معلوم ہوا کہ ایک بال برابر بھی غسل میں خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا. اسی لئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ 

"عن ابی ھریرة ان النبی صلي الله عليه وسلم جعل المضمضة والاستنشاق للجنب ثلاثا فریضة" (سنن دار قطنی، باب ما روی فی مضمضة والاستنشاق فی غسل الجنابة ج اول ص ١٢١ نمبر ٤٠٣) 

اس حدیث میں ہے کہ جنبی پر کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض ہے۔ 

٢. ولنا قولہ تعالیٰ و ان کنتم جنباً فاطھروا امر بالاطھار وھو تطھیرجمیع البدن الا ان ما تعذر ایصال الماء الیہ خارج 

٣. بخلاف الوضوء لان الواجب فیہ غسل الوجہ، و المواجھة فیھما منعدمة 

٤. والمراد بما روی حالة الحدث بدلیل قولہ علیہ السلام انھما فرضان فی الجنابة سنتان فی الوضوئ۔ 

ترجمہ: ٢ اور ہماری دلیل اللہ تعالی کا قول ہے.

"وان کنتم جنباً فاطّھروا۔" (آیت ٦ سورة المائدة ٥)

میں خوب خوب پاک کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ تمام بدن کو پاک کرے مگر جہاں پانی پہنچانا مشکل ہو وہ جگہ اس سے خارج ہے۔ 

تشریح: آیت میں، "فاطھّروا"، تشدید کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے کہ خوب خوب پاک کرو یعنی جہاں جہاں انگلی پہنچ سکتی ہو وہاں تک دھوؤ اور ناک اور منہ میں آسانی سے پانی جاسکتا ہے. اس لئے ان دونوں کو بھی آیت کی بناء پر دھونا فرض ہوگا. البتہ جہاں پانی پہنچانا مشکل ہے. جیسے ناک کے نرمے سے بھی اوپر، یا کان کے سوراخ کے اندرونی حصے میں تو وہاں پانی پہنچانا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تکلیف مالا یطاق ہے۔ اور آیت میں ہے:

"لا یکلف اللہ نفسا ً الا وسعھا." (آیت ٢٨٦ سورة البقرة ٢) 

کہ وسعت سے زیادہ اللہ تکلیف نہیں دیتے۔ احناف کے نزدیک نام اور منہ ظاہر بدن میں شامل ہے لہذا "فاطھروا" کے عموم میں وہ بھی داخل ہونگے اور ان کا دھونا بھی غسل جنابت میں فرض ہوگا۔ اس کی تائید مختلف حدیثوں سے بھی ہوتی ہے۔ یہی مذہب مالکیہ اور حنابلہ کا بھی ہے۔ صرف سیدنا الامام الشافعی کا اس میں اختلاف یے۔ 

واللہ اعلم بالصواب 

شکیل منصور القاسمی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_19.html



No comments:

Post a Comment