Tuesday 24 August 2021

سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ ‏کون ‏تھے؟

سلطان 

اورنگ زیب عالمگیر 

رحمۃ اللہ علیہ کون تھے؟


بقلم: محمد سلمان بیگ نقشبندی مجددی 

مشاہدی امام نقشبندی جامع مسجد سہاڑہ کھنڈوہ اہم پی انڈیا

وصال: بروز جمعۃ المبارک، 28 ذیقعدہ

1118ھ، بمطابق 20 فروری 1707ء، بوقتِ صبح، (90 سال کی عمر میں)

نام ونسب: 

اسمِ گرامی: اورنگ زیب عالمگیر۔

کنیت: ابوالمظفر۔

لقب: محی الدین، سلطان المعظم، سلطان الہند۔ 

پورا نام: سلطان المعظم ابوالمظفر محی الملۃ والدین محمد اورنگ زیب عالمگیر (رحمۃ اللہ علیہ) 

سلسلہ نسب اس طرح ہے: سلطان اورنگ زیب عالمگیر، بن سلطان شاہ جہاں، بن نورالدین جہانگیر

تاریخِ ولادت: بروز ہفتہ، 15 ذیقعدہ 1027ھ، بمطابق 24 اکتوبر 1618ء کو "مالوہ" اور گجرات کی آخری سرحد پر "دوحد" کے مقام پر پیدا ہوئے۔

تحصیلِ علم: آپ علیہ الرحمہ سلاطینِ مغلیہ میں سے واحد شخصیت ہیں، جو حافظِ قرآن تھے۔ آپ کی خوش قسمتی ہےکہ آپ کو اپنے وقت کے جید مشائخ اور اساتذہ کی صحبت کا موقع ملا جن میں شیخ ِجلیل شیخ محمد معصوم سرہندی بن مجد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی، اورشیخ احمد معروف بہ ملاجیون (صاحبِ تفسیراتِ احمدیہ)۔ ان کے علاوہ میر محمد ہاشم گیلانی، ملا موہن بہاری، علامۂ زمان سعد اللہ وزیرِاعظم شاہجہاں بادشاہ، مولانا سید محمد قنوجی، دانشمند خان (علیہم الرحمہ)۔ 3 ذوالحج 1045ھ کو 18 سال؛ 10 دن کی عمر میں تمام علومِ مکتسبہ وفنونِ متعارفہ، عربی، فارسی، ترکی اور ہندی زبانوں میں پوری مہارت حاصل کی۔ عربی اور فارسی خط (نسخ ونستعلیق) میں کمال حاصل کیا۔ علومِ دینیہ تفسیر، حدیث، فقہِ حنفیہ، عقائدِ اصلیہ ومسائلِ فرعیہ، کتبِ طریقت مثلاً: احیاء العلوم، کیمیاء سعادت، کشف المحجوب اور کثیر کتب کا مطالعہ بچپن میں کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ فنونِ حربیہ، ملکی آئین، طریقِ جہانبانی ودستورِفرمانروائی کا وہ بہترین سلیقہ اس قلیل عمر میں مکمل کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمگیر کے زمانے میں درس وتدریس کو جو ترقی ملی ایسا کسی عہد میں نہیں ہوا۔ حفظِ قرآنِ مجید کی سعادت 43 سال کی عمر میں ہوئی۔ اس موقع پر ایک شاعر نے کہا تھا:

؎ تو حامیِ شرع وحامیِ تو شارع تو حافظِ قرآن وخداحافظِ تو

بیعت وخلافت: شیخ سیف الدین نبیرہ حضرت مجدد الفِ ثانی، اور خواجہ محمد سعید خلف الرشید حضرت مجدد الفِ ثانی نے روحانی تربیت فرمائی، اور حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی بن مجد الفِ ثانی کے ذریعے تکمیل ہوئی۔ (علیہم الرحمۃ رحمۃ ًواسعۃً)۔ حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی نے آپ کے بارے میں فرمایا: میں نے بادشاہ (عالمگیر) کے معاملات میں نظر کی ہے۔ ان کا ظاہر تو امورِسلطنت میں مصروف ہے، مگران کا باطن اللہ جل جلالہ کے ذکر میں مصروف ہے۔ (مکتوب: 220) ؎ دست بکار کن، ودل بیارکن۔

سیرت وخصائص: سلطان المعظم، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، دین پرور، محی الملۃ والدین، حامیِ شرع متین، صاحبِ اوصافِ کثیرہ محی الدین ابوالمظفر سلطان محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کی دین پروری، دینداری، تقویٰ وپرہیزگاری، علم وفضل، عدل ومساوات، علم دوستی، "خدمتِ دین" اور عظیم کارناموں کی وجہ سے "بارہویں صدی کا مجدد کہا جاتا ہے"۔ اتنی وسیع سلطنت کے سلطان ہونے کے باوجود آپ نے کبھی بھی عبادت وریاضت میں کمی نہیں آنے دی۔ آپ ہر وقت باوضو رہتے تھے۔ کلمہ طیبہ اور ادعیہ ماثورہ درودشریف اور ذکراللہ سے زبان تر رہتی تھی۔ نماز صفِ اول میں باجماعت ادا کرتے تھے۔ تمام سنن ونوافل اور مستحبات خشوع وخضوع کیساتھ ادا کرتے تھے۔ شب زندہ دار تھے۔ سال کے اکثر حصے میں روزے سے رہتےتھے۔ ڈاکٹربر نیز نے 1665 میں آپ کو دیکھا تھا۔ وہ لکھتا ہے: "اس کی زندگی بالکل سادی اور زاہدانہ تھی۔ اس کا جسم نحیف ہوگیا تھا، اور اس لاغری وکمزوری میں اس کی روزہ داری نے اور اضافہ کردیا تھا"۔ نمازِجمعہ وعیدین عام مسلمانوں کیساتھ بغیر کسی شاہی پروٹوکول کے ادا کرتے تھے۔ اہل اللہ کی صحبت کو پسند کرتے تھے۔ رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ میں معتکف رہتے تھے۔

آپ نے امورِسلطنت سنبھالتے ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں، اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف کردئیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی، اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹادیئے۔ آپ کے دورِحکومت میں حکمرانوں اور عمالوں کی نگہبانی کا بہترین نظام تھا۔ قومی خزانے سے ذاتی خرچ کے لئے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتے تھے۔ نظامِ سلطنت چلانے کیلئے ایک مجموعہ فتاوٰی تصنیف کیا گیا جسے "فتاوی عالمگیری" کہا جاتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ آپ کے زمانے میں علم بیچا نہیں جاتا تھا، تعلیم جیسے مقدس شعبے کی تجارت نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ ہر شہر اور ہر قصبے میں سرکاری مدارس کی بنیاد رکھی جہاں ہر قسم کی تعلیم فری ہوتی اور اس کے ساتھ علماء وطلباء کو وظائف اور روزینے مقرر تھے۔ جس کی وجہ سے مطمئن ہوکر تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے۔

آپ نے تجہیز وتکفین سے متعلق یہ وصیت فرمائی تھی: "چار روپیہ، دو آنے جو ٹوپیوں کی سلائی سے حاصل ہوئے، ان سے میری تجہیزوتکفین ہو۔ تین سو پانچ روپے قرآن نویسی کی اجرت کے محفوظ ہیں، وفات کے دن مساکین میں تقسیم کردئیے جائیں"۔ (آپ کے تحریر کردہ قرآن ِمجید کے چھ نسخے اور ایک پنج سورہ مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ آپ جس کلامِ مجید میں تلاوت کرتے تھے، وہ اس وقت کولمبیا یونیورسٹی (امریکہ) کے قبضے میں ہے)۔ (علماء ہند کا شاندارماضی: 557)

وصال: بروز جمعۃ المبارک، 28 ذیقعدہ 1118ھ، بمطابق 20 فروری 1707ء، بوقتِ صبح، 90 سال کی عمر میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔ خلدآباد، ضلع اورنگ آباد، صوبہ مہاراشٹر (انڈیا) احاطہ درگاہ حضرت زین الدین علیہ الرحمہ میں مدفون ہیں۔ 

ماخذ و مراجع: علماء ہند کا شاندارماضی۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ۔

محمد سلمان بیگ نقشبندی مجددی مشاہدی امام نقشبندی جامع مسجد سہاڑہ کھنڈوہ اہم پی انڈیا (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)



No comments:

Post a Comment