عنوان:
یا رب لک الحمد
کما ینبغی لجلال وجھک الخ حدیث
سوال: یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک ولعظیم سلطانک مفتی صاحب! سنا ہے کہ اس کا ثواب فرشتے نہیں لکھ سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ خود اس کا ثواب مرحمت فرمائینگے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي، حدثنا صدقة بن بشيرمولى العمريين، قال: سمعت قدامة بن إبراهيم الجمحي يحدث، انه كان يختلف إلى عبدالله بن عمر بن الخطاب، وهو غلام وعليه ثوبان معصفران، قال: فحدثنا عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، حدثهم: "ان عبدا من عباد الله، قال: يا رب، لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك، ولعظيم سلطانك، فعضلت بالملكين، فلم يدريا كيف يكتبانها، فصعدا إلى السماء، وقالا: يا ربنا، إن عبدك قد قال مقالة، لا ندري كيف نكتبها، قال الله عز وجل: وهو اعلم بما قال عبده، ماذا قال: عبدي؟ قالا: يا رب، إنه قال: يا رب، لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك، وعظيم سلطانك، فقال الله عز وجل لهما: اكتباها كما قال عبدي، حتى يلقاني، فاجزيه بها".
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا: «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» ”اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے“، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ دو جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا۔ (سنن ابن ماجہ: 405، ط، رحمانیہ کراچی)
مذکورہ بالا حدیث سنن ابن ماجہ میں ذکرکی گئی ہے۔ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اس کی سند پر کلام فرمایا ہے۔
هذا إسناد فيه مقال، قدامة بن إبراهيم ذكره ابن حبان في الثقات وصدقه بن بشير لم أر من جرحه ولا من وثقه وباقي رجال الإسناد ثقات. (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: 489، ط دارالکتب العلمیہ بیروت)
اس کی سند میں کلام ہے، قدامہ بن ابراہیم کو علامہ ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ قراد دیا ہے اور دوسرا روای صدقہ بن بشیر ہے جو کہ مجہول ہے۔
امام طبرانی نے المعجم الاوسط (101/9، رقم الحدیث: 9249, ط دارالحرمین) میں اس روایت کو ایک اور سند سے نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ "لا يروى هذا الحديث عن عبدالله بن عمر إلا بهذا الإسناد، تفرد به صدقة بن بشير. یہ روایت عبداللہ بن عمر سے صرف اسی سند کے ساتھ مروی ہے اور صدقة بن بشير اس کے نقل کرنے میں متفرد ہیں۔
خلاصہ کلام:
یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، لیکن دعا کے الفاظ درست ہیں، اور اس قسم کی ضعیف روایات فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہیں، اس لئے اس روایت کو ثواب کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں، اور اس کو بیان بھی کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب. دارالافتاء الاخلاص، کراچی (100728-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/09/blog-post.html
No comments:
Post a Comment