Monday, 20 July 2015

کھوکھلے دعوے

کیا فرقہ اہلحدیث نے ائمہ اربعہؒ کو چھوڑ  کر اللہ  رسول کی طرف رجوع کیا ہے؟

فرقہ اہلحدیث ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن و  حدیث کی طرف لوٹا کر ختم کرنے کے دعوے میں بری طرح نا کام

اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:

ٰٓیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ؀

اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا، اور حکم مانو رسول اللہ ﷺ کا، اور اولی الامر (مجتہد حاکم )کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول ﷺکے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام۔(سورۃ النساء ۵۹)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، رسول اللہﷺ کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے اور اولی الامر کی اطاعت کرنا بھی اللہ کا حکم ہے، اور   اگر دو بندوں میں اختلاف  ہو  جائے ایک کہے کہ یہ مسئلہ یوں ہے  دوسرا کہے کہ یوں نہیں یوں ہے تو پھر حاکم ا للہ اور اس کے رسول  کی طرف رجوع کرکے اس کا فیصلہ کرے۔ اور جو وہ فیصلہ کرے تو مومنین کو چاہے کہ وہ اسے تسلیم کریں۔

حضرت جابر بن عبداللہ اس آیت  (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں  ہیں کہ اولی الامر سے مراد  أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْر فقہ والے ہیں یعنی کہ فقہاء کرام ۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ (مستدرک علي الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)

اور صحابی کی تفسیر موفوع کہلاتی ہے  جو کہ ہر حال میں حجت ہوتی ہے۔
جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان میں بیان کیا ہے :
”حدیث کے بعد تفسیر میں قولِ صحابی کا درجہ ہے کیونکہ صحابی کی تفسیر ان کے نزدیک بمنزلہ مرفوع کے ہے جیسا کہ امام حاکمؒ نے مستدرک میں کہا ہے ۔ اور ابوالخطاب حنبلی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تفسیر صحابی کی طرف رجوع نہ کیا جائے جب ہم یہ کہیں کہ قول صحابی حجت نہیں مگر صحیح بات اس کا حجت ہونا ہے کیونکہ تفسیر صحابی روایت کی قسم سے ہے نہ کہ رائے کی قسم سے ۔ میں (صاحب اتقان) وہی کہتا ہوں جو امام حاکم ؒنے کہا ہے کہ تفسیر صحابی مرفوع ہے“ ۔( الإتقان ج2 ص 505 ،506)

کیا  لڑائی جھگڑے ، تنازعے ،یا  کسی مسئلہ کی تحقیق کی صورت میں  اولی الامر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے؟

وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ

اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اسکو مشہور کر دیتے ہیں  اور اگر اسکو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں۔

ویسے اولی الی الامر کا  لفظی ترجمہ حاکم ہوتا ہے اللہ تعالٰی  مجتہد کو (اہل استنباط) کو حاکم قرار دے رہے ہیں۔ ائمہ مجتہدین ہمارے حاکم ہیں، جنہوں نے اجتہادات  (استنباط )کیئے ہیں  اور اہل علم فقہاء کرامؒ نے انہی کو اپنا امام تسلیم کرکے انکے اجتہادات کو اپنایا ہے اور مدون و مرتب کیا ہے اور  اسی کو اگے چلایا ہے جو کہ سمٹ کر چار میں رہ گئے ہیں۔ ہمارے مجتہد حاکم امام اعظم ابو حنیفہؒ ہیں  جن کا مذہب ہم تک متواتر پہنچا ہے، اور جن جن علاقوں میں دوسرےاہل سنت  ائمہ کے مذاہب پہنچے تو  وہاں کے اہلسنت انہی کے پابند ہیں  بفضلہ تعالٰی۔

اب غیرمقلدین حضرات یہ کہتے ہیں کہ  اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہے کہ جب غیر اولی الامر کا اولی الامر کے ساتھ اختلاف ہو تو  غیراولی الامر  ،   اولی  الامر کو چھوڑ  دے حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی   غیر اولی الامر غیرمجتہد کو اس بات کی اجازت دیں  کہ وہ اولی الامر سے اختلاف رکھے۔

آپﷺ نے بھی اولی الامر(  جو کہ اجتہاد کا اہل ہے) کے ساتھ جھگڑا کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ(مسلم ج3 حدیث :274)

اور  جھگڑا پیدا ہو بھی کیوں کر جبکہ نبیﷺ کی واضح حدیث موجود ہے کہ اگر :”جب حاکم کسی بات کا فیصلہ کرے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور صحیح ہو تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر حکم دے اور اس میں اجتہاد سے کام لے اور غلط ہو تو اس کو ایک اجر ملے گا“۔(صحیح بخاری ج۳ح؛ ۲۲۵۲)

ہاں پہلے حاکم مجتہد سے اختلاف رکھنے والا اگر اس جیسا مجتہد ہو تو اس کو تو اس  سے اجتہادی اختلاف رکھنے  سے کسی نے نہیں روکا اور اس صورت میں پہلے مجتہد کی بھی پیروی کی جاسکتی ہے جبکہ دوسرے مجتہد نے صرف اس جیسا اجتہاد  سے ہی کام لیا ہے اور پہلے والے کو باطل نہیں قرار دیا۔

فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث حضرات مذہب اربعہ میں موجود اجتہادی اختلافات کو چھوڑ کر اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹانے کا دعوی کرتے ہیں اور ان کا  یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس طرح چاروں مذہب کے اختلافات ختم ہو جائیں گے اور ایک ہی مذہب رہ جائے گا۔   جبکہ یہ بات غلط ہے پہلے اگر چار مذہب تھے تو ائمہ اربعہ کے مذاہب کو چھوڑنے کے بعد چار سے بھی زیادہ  مذہب بن جائیں گے اور  مزید اختلافات  آجائیں گے جن میں اصولی بھی ہوں گے۔

اب ذرہ  ہم چند مثالیں غیرمقلدین کے گھر سے دیں گے کہ انہیں نے کیا لوٹایا ہے اللہ  اور رسول کی طرف

۱۔منی پاک یا نا پاک

  مولوی ابو الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں”منی پاک ہے۔۔۔۔۔ اور کھانے کے متعلق دو قول ہیں“۔ (فقہ محمدیہ صفحہ 41)

حافظ زبیر علی زئی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں ”ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ منی ناپاک ، پلید اور نجس ہے“۔(فتاویٰ علمیہ صفحہ 210)

غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب اپنے امام شوکانی صاحب غیرمقلد کے حوالے سے  لکھتے ہیں ”یعنی صواب یہ ہے کہ منی نجس ہے“۔ اور اگے حاشیہ میں لکھتے ہیں”صحیح یہ ہے کہ منی نا پاک ہے“۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد1 ص335)

۲۔ رکوع میں ملنے سے رکعات ہو گی یا نہیں
حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں ”جو شخص رکوع میں مل جائے اور وہ فاتحہ نہ پڑھ سکےتو اس کی وہ رکعات نہیں ہو گی“۔ (فتاویٰ علمیہ صفحہ 373)

جبکہ مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں ۔ (فتاویٰ ستاریہ ج1 ص52)

۳۔ ننگے سر نماز کا حکم

آج کل ہر ایک  جاہل غیرمقلد  نہ صرف ننگے سر نماز کا قائل ہے بلکہ اس طرح نماز پڑھنے کو سنت بھی سمجھتا ہے۔

جبکہ ان کے بڑے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” ننگے  سر نماز کو سنت کہنا بلکل غلط ہے یہ فعل سنت سے ثابت نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 523) 

۴۔ عصر کے بعد نفل پڑھنے کا مسئلہ

غیرمقلدین کے پروفیسر عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں ”حضور ﷺ سے جو عصر کے بعد نفل پڑھنا ثابت ہے وہ آپ کا خاصہ ہے ‘ وہ ہمارے لیے نہیں“۔(رسائل بہاولپوری ص134)

جبکہ غیرمقلدین کے حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب عصر کے بعد نفل پڑھنے  پر پورا زور دے رہے ہیں۔ (مقالات نور پوری صفحہ 311)

۵۔ آذان عثمانی

غیرمقلدین کے خطیب الہند مولوی جونا گھڑی صاحب لکھتے ہیں ”(یہ آذان) صریح بدعت ہے کسی طرح جائز نہیں“(العیاذ باللہ)۔(فتاویٰ علمائے حدیث ج2 ص 106)

غیرمقلدین کے شیخ السلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں ” یہ آذان سنت خلفاء ہے اس کو گمراہی اور ضلالت کہنا بالکل غلو ہے۔ جمہور صحابہ پر حملے کرنا اورر بڑی جرأت ہے“۔ (فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص435)

فرقہ اہلحدیث کے محدث العصر محب اللہ شاہ صاحب راشدی صاحب  لکھتے ہیں:

ہمارے نزدیک آذان عثمانی پر صحابہ کا اجماع ہو چکا ہے اور اجماع حجت ہے۔ (مقالات راشدیہ ج1 ص 271)

محب اللہ شاہ راشدی صاحب غیرمقلد نے نہ صرف آذان عثمانی کو حجت ثابت کیا ہے بلکہ اس پر کیئے جانے والے آج کل کے وکٹورینوں کے اعتراضات کے  بھی جوابات دیئے ہیں۔ ملاحظہ ہو (مقالات راشدیہ ج 1 ص  248 تا 272)


۶۔ جرابوں پر مسح

غیرمقلدین کے ایک شیخ ابو محمد حافظ عبدالستار الحماد صاحب لکھتے ہیں ”جرابوں پر مسح جائز ہے“۔ (فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1 ص 66)

غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب لکھتے ہیں”جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے“۔(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص 327)

۷۔ مال تجارت میں زکوۃ

فرقہ  اہل حدیث کےشیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب جو کہ مرزئیوں کے پیچھے بھی نماز پڑھا کرتے تھے خود فرقہ اہل حدیث نے اس کا اقرار کیا ہے دیکھئے (فیصلہ مکہ)  یہ ان کے شیخ صاحب 

مال تجارت میں زکوۃ کو  واجب کہتے ہیں۔ (فتاویٰ علمائے اہل حدیث ج7 ص84)

زبیر علی زئی صاحب مال تجارت پر زکوۃ فرض ہے   کو اجماعی مسئلہ کہتے ہیں۔ (تحقیقی مقالات ج5 ص114)

اور اجماع سے نکلنے والے کو اللہ نے جہنمی قرار دیا ہے ۔(النسا ء  115)

دوسری طرف فرقہ اہل حدیث  کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:

مال تجارت میں زکوۃ نہیں ۔(بدور الاہلہ ص 102)

گویا کہ نواب صدیق حسن خان اس فرقے کے مجدد  جو کافی عرصے تک  غیرمقلدیت کی وکالت کرتے رہے اور جو ان پر اعتماد کرتے رہے سب اجماع کے منکر  بدعتی اور جہنمی تھے۔

۸۔ قربانی تین دن یا  چار دن

غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے“ (نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 149)

غیرمقلدین کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی صاحب  لکھتے ہیں ”قول راجح یہ ہے کہ قربانی کے صرف 3 دن ہیں“۔ (علمی مقالات صفحہ 219)

(تبصرہ : اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں ائمہ اربعہؒ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے)

۹۔  رکوع کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑنے ہیں یا باندھنے ہیں

عبد المنان نورپوری صاحب  ایک سوال 

” کیا رکوع کے بعد ہاتھ دوبارہ باندھنے چاہیں“؟ کے جواب میں فرماتے ہیں ” نبیﷺ سے ثابت نہیں“۔  (قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل ج 2 ص 238)

مگر اسی فرقے کے شیخ العرب والعجم  بدیع الدین راشدی صاحب نے  ”رکوع  کے بعد ہاتھ باندھنا“ نام کے رسالے کے علاوہ دس اور رسالے لکھے ہیں کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا سنت ہے۔

ان میں سے کسی بات   صحیح ہے اور کسی غلط ؟کس  کی تحقیق معتبر ہے اور کس کی غیر معتبر؟ بندہ ان میں کس پر اعتماد کرے؟  کیا قرآن حدیث اتنی مشکل ہے انکا یہ مسئلہ بھی حل نہ ہو سکا ؟  صاف ظاہر ہے کہ عوام کو یہ لوگ  فقہاء سے ہٹا کر قرآن  و سنت کی طرف رجوع کرنے کے بہانے صرف اپنے پیچھے لگاتے ہیں خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

۱۰۔ گھوڑے کی قربانی

”ہمارا دعویٰ ہے کہ کسی اہل حدیث نے  گھوڑے کی  قربانی کا فتویٰ نہیں دیا“ ۔ (تحفہ حنفیہ ص 303)

”گھوڑے کی قربانی بھی  سنت ہے“۔ (فتاویٰ ستاریہ ج1 ص 146)

گائے اونٹ ،بھیڑ ،بکری ، اور گھوڑے کے علاوہ  قربانی سنت اور ثابت نہیں ۔ (فتاویٰ علمائے حدیث ج 3 ص56)

۱۱۔ بھینس کی قربانی

بھینس کی قربانی جائز ہے۔ 

ثناء اللہ امرتسری(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 807 )

حافظ محمد گوندلوی(ہفت روزہ الاعتصام ج20 شمارہ 9،10 ، ص29)

عبد القادر حصاروی (اخبار الاعتصام ج26 شمارہ 150 بحوالہ فتویٰ علمائے حدیث ج13 ص71)

ابو عمر عبد العزیز نور ستانی (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ  از حافظ نعیم الحق ملتانی ص 154)

حافظ عبد القہار  (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص 156)

حافظ احمد اللہ فیصل آبادی (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص 159)

پروفیسر سعد مجتبیٰ السعدی (بھینس کی قربانی  کا تحقیقی جائزہ ص 18)

مولوی محمد رفیق  الاثری  فرماتے ہیں: یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ سلف صالحین میں متانازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوتا چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے۔ (بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص 19)

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ بھینس کی قربانی جائز نہیں۔
زبیر علی زئی 

) (فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد دوم ص181

عبد المنان نور پوری صاحب بھی بھینس کی قربانی نہ کرنے  کی تلقین کر رہے ہیں۔ دیکھئے( احکام و مسائل ج1 ص 434)

۱۲۔ مسجد کے اوپر   ناجائز کاروبار کے پیسے لگانا

”ناجائز کاروبار کے پیسے مسجد کی تعمیر پر نہیں لگانے چاہیں۔ ایسے فعل کا ارتکاب کرنا شریعت کی نگاہ میں درست نہیں“۔(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ  ج1 ص 551)

”مسجد کے اوپر کنجری  کا مال لگانا جائز ہے شرعاً کوئی قباحت نہیں “ ( کتاب الامارۃ  ج1 ص 85)

قارئین کرام ! لیجئے شریعت کو معاذ اللہ انہوں نے اپنی خالہ جی کا گھر بنا رکھا ہے ۔ خود سے مسئلہ لکھ کر نام شریعت کا لکھ دیتے ہیں۔

۱۳۔ مرغ کی قربانی

”شرعا ً مرغ کی قربانی جائز ہے “ (فتاویٰ ستاریہ ج 2 ص 72)

دوسری طرح ان کے   دوسرے مولوی صاحب مرغ کی قربانی کو جائز نہیں سمجھتے۔ (فتاویٰ علمائے حدیث ج 13 ص 76 )


۱۴۔ایک مٹھی داڑھی

فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:

ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر  کر زائد کٹوا دینا جائز ہے۔

(فتاویٰ ثنائیہ ج 3 ص 123)

فرقہ اہلحدیث کے محدث ناصر الدین البانی صاحب لکھتے ہیں:

”مٹھی سے نیچے کے بالوں کو کاٹنا جائز ہے“۔(فتاویٰ البانیہ ص 236)

دوسری طرف

عبد المنان نور پوری صاحب داڑھی کے بڑھانے کو فرض لکھتے ہیں:

عبد المننان نور پوری صاحب غیرمقلد کو ایک سوال آیا جس میں تھا کہ ”البانی صاحب نے قبضہ کا مسئلہ بیان کیا  کہ ایک مٹھی سے زیادہ داڑھی نہیں رکھنا چاہئے“ کے جواب میں لکھتے ہیں:

”آپ نے لکھا ہے کہ ’’الشیخ البانی  رحمہ اللہ نے قبضہ کا مسئلہ بیان کیا کہ ایک مٹھی سے زیادہ نہیں رکھنا چاہیے بلکہ زیادہ سنت نہیں‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا لکھا ؟ کیا فرمایا ؟ تو ان کے الفاظ سامنے آنے سے ہی پتہ چل سکتا ہے برائے مہربانی ان کے وہ الفاظ لکھ بھیجیں جن سے آپ نے مندرجہ بالا باتیں اخذ کی ہیں البتہ اتنی بات معلوم ہونی چاہیے کہ داڑھی بڑھانا فرض ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے {أَعْفُوْا اللُّحٰی} بعض احادیث وروایات میں {وَفِّرُوْا} اور {أَرْخُوْا} کے لفظ بھی وارد ہوئے ہیں اور کوئی قرینہ کتاب وسنت میں موجود نہیں جو رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے اس امر کو اس کی حقیقت وجوب سے مجاز ندب واستحباب کی طرف پھیر لے  اور ظاہر ہے رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کے مندرجہ بالا الفاظ کٹانے اور منڈانے کے منافی ہیں رہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی قبضہ والی روایت تو وہ موقوف ہے اور معلوم ہے موقوف سے شریعت ثابت نہیں ہوتی تاوقتیکہ وہ حُکماً مرفوع نہ ہو اور یہ قبضہ والی حدیث موقوف حکما مرفوع نہیں۔                            

(احکام و مسائل ج 1 ص 517)

معلوم ہوا کہ فرقہ اہلحدیث کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب اور ناصر الدین البانی صاحب دونوں فرض کے منکر تھے۔


۱۵۔  امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ہو گی یا نہیں۔

فرقہ اہلحدیث کے  ایک بڑے محدث حافظ محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں:

” اہل حدیث امام کے پیچھے  سورت فاتحہ نہ پڑھنے والے کو  بے نماز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دعویٰ بلا دلیل ہے امام بخاری سے لے کر محققین علماء اہل حدیث تک کسی تصنیف میں یہ دعوی نہیں کیا گیا“۔

(خیر الکلام ص 14)

لعنت اللہ علی الکاذبین

مفتی عبد الستار صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں

”فاتحہ ہر ایک مقتدی و منفرد و امام پر واجب ہے اور اس کے ترک سے بالکل نماز نہیں“۔

(فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 54)

فرقہ اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب لکھتے ہیں:

”فاتحہ خلف الامام پڑھنا فرض ہے بغیر فاتحہ پڑھے ہوئے نماز نہیں ہوتی“۔

(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 398)

محب اللہ شاہ راشدی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں

”سورۃ فاتحہ کے سوائے کوئی بھی نماز ہرگز نہیں ہو گی۔ صرف ایک رعکت میں بھی نہیں پڑھی تو اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی  وہ نماز خواہ اکیلے پڑھے یا پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی“۔

(مقالات راشدیہ ص 67)
یہاں غیرمقلدین بڑے بڑے نا اہل مولویوں نے جمہور امت کی نماز کو کیسے باطل قرار دے دیا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ان کے اس مسئلہ کی ایک بھی صحیح صریح مرفوع حدیث دنیا میں موجود نہیں۔

ے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ہو گی یا نہیں۔


۱۶۔ مسئلہ تراویح

فرقہ اہلحدیث کے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں

”بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت رسول نہیں بلکہ بدعت ہے“۔

(مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف ص 69)

دوسری طرح فرقہ اہلحدیث کے ایک اور  مولوی صاحب  (مولانا غلام رسول صاحب) نے  بیس رکعت تراویح  کے اثبات پر ایک رسالہ لکھ مارا ہے جس کا اردو ترجمہ ینابیع  مولانا سرفراز خان صفدرؒ نے کیا ہے۔





غیرمقلدین کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیرمقلد پر پوری فٹ آتی ہے  ” ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث  میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال منصل جو کچھ کہو زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہری معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس   میں  وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ (تاریخ اہل حدیث ص164)

بے شک یہ  لوگ ائمہ  سے ہٹا کر لوگوں میں صرف فتنہ ڈال رہے ہیں کوئی اللہ رسو ل کی طرف رجوع نہیں ان کا  صرف بہانہ ہے  اختلاف ختم کرنے کا کہ  ائمہ اربعہ کو چھوڑو ہم جاہلوں کے پیچھے لگ جاؤ  تو یوں اختلاف ختم ہو جائے  گا نہیں بلکہ انہوں نے مزید اختلافات پیدا کئے ہیں جس میں ہر دوسرے فریق کو گمراہی پر  ،  اسے بدعتی قرار دینا یا  اس کے مسئلہ کو کالعدم قرار دینا لازم آتا ہے جس سے سوائے فتنے کے اور کیا  توقع رکھی جا سکتی ہے۔

اور فتنے کے متعلق اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتے ہیں :
الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ(البقرۃ 191)

”فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے“۔

ان کے عقائد میں بھی آپس میں اختلافات ہیں

یہ وہ اختلافات ہیں جن میں ایک فریق کا گمراہی پر ہونا لازم آتا ہے۔

جیسے  شیعہ اور مرزئی اپنے عقائد کی بنا پر  صریح گمراہ بلکہ کافر ہیں عقائد کا اختلاف    جو گمراہی سے شروع  ہوتا اور حد کفر تک پہنچتا ہے۔ 

۱۔ اللہ کہاں ہے۔

آج کل غیرمقلدین کہتے ہیں کہ  اللہ تعالٰی صرف عرش پر ہے اور کہیں بھی نہیں۔

جبکہ ان کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں  ” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز پر  ہر کام پر حاضر ہے“(تفسیر ثنائیہ ص347)

غیرمقلدین کے مجدد العصر نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں ”ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ استواء علی العرش اور اللہ کا آسمان پر ہونا اور مخلوق سے بائن ہونا اور اس کا قر اور معیت اور جو بھی صفات آئی ہیں کیفیت بتانے اور علم و قدرت کے ساتھ تاویل کرنے کے بغیر ظاہر پر جاری ہیں“۔(کتاب الجوائز والصلات ص262)

جبکہ آج کل ہر  جاہل غیرمقلد اس کی  علم کے ساتھ تاویل صرف حقیقت کا انکار کرنے کیلئے کرتا ہے۔ وہ اللہ کو ذات کے ساتھ قریب نہیں مانتا لیکن اللہ  قریب ہے کو علم کے ساتھ تاویل کرکے  جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔

غیرمقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب ایک سوال ” قریب و معین و احاطہ جو صفات باری تعالٰی ہیں آیا یہ بالذات ہیں یا با العلم ہیں“ کے جواب میں لکھتے ہیں ”قریب و معین و غیرہ صفات میں بہت اختلاف ہے بعض با الذات مراد سے تاویلات کرتے ہیں اور بعض بالعلم لیتے ہیں لیکن تحقیق مذہب جمہور کا یہ ہے کہ جملہ صفات باری کا ایمان بغیر سوال کیف اور بلا تشبیہ لانا چاہئے یہ تحقیق مطابق مذہب اہل سنت ہے“۔(فتاویٰ نذیریہ  ج1 صفحہ 4)

اگے لکھتے ہیں ” ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لا شریک لہ باری تعالیٰ کے واسطہ ہے۔ کسی دوسرے کے واسطے اس صفت کو لگانا یا سمجھنا کھلا ہوا شرک ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ  ج1 ص7)

تبصرہ : جب بریلوی حضرات  نبیﷺ کو بذات خود ہر جگہ حاضر مانتے ہیں تو غیرمقلدین انہیں مشرک کیوں کہتے ہیں؟ جبکہ  غیرمقلدین کے نزدیک اللہ تعالٰی ہر جگہ حاضر ناظر نہیں تو پھر رسول اللہﷺ کو یا کسی اور کو ہر جگہ حاضر ناظر ماننے سے  اللہ کے ساتھ شرک کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ رب العزت ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور بے شک ہیں تو پھر اس کے بعد اگر کوئی بندہ کسی اور کو  ہر جگہ حاضر ناظر سمجھے گا تو اس طرح سے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہو گا جبکہ آج کل کے غیرمقلدین اللہ تعالیٰ کو  ہر جگہ حاضر ناظر ماننے کا  ہی انکار کرتے ہیں معاذ اللہ۔

۲۔ عقیدہ حیات النبیﷺ

آج کل بعض غیرمقلدین حیات النبیﷺ کا انکار کرتے ہیں اللہ کے نبیﷺ  اور بقیہ تمام لوگوں کے صرف روح کے عذاب و ثواب کے قائل ہیں اور جسم کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جسم کو نہ عذاب ہو تا ہے نہ ثواب ہوتا ہے عذاب و ثواب صرف روح کو ہوتا ہے۔ جبکہ

غیرمقلدین کے ایک بزرگ اور فتاویٰ ستاریہ کے مصنف لکھتے ہیں ”جو شخص آپﷺ کی قبر پر جا کر سلا م کہتا ہے اس کا سلام آپ خود سنتے ہیں یہاں سے نہیں سنتے کیونکہ فرشتے پہنچانے کیلئے اللہ نے  مقرر  فرمائے ہیں“۔ (فتاویٰ ستاریہ ج4 ص91)

قبر کے قریب آپﷺ خود درود سنتے  ہیں اور قبر سے دور اگر کوئی درود پڑے تو اسے فرشتے پہنچا دیتے ہیں اس مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہی اس دنیا والی قبر میں موجود برزخی زندگی کا حامل جسم میں حیات بے شک موجود ہے جس کا شعور ہم نہیں رکھ سکتے۔

غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی صاحب بھی حیات النبیﷺ کے قائل تھے اور یہی بات وہ بھی تحریر فرماتے ہیں(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص7)

یاد رہے یہ عقائد کا مسئلہ ہے اس میں اجتہادات کرکے اختلاف رکھنے کی گنجائش نہیں  ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے پر  عقائد تبدیل ہو جائے۔ بعد والا اگر کہے کہ میں نے تحقیق کرکے ان کے عقائد کی دلیل کو کمزور ثابت کرکے عقیدہ بدل  لیا ہے تو یہ اس کی اپنی گمراہی ہے ۔عقائد شروع اسلام سے ایک ہی چلے آرہے ہیں۔ اس لئے غیرمقلدین انکی پیش کردہ اس روایت پر جرح کے کے جان نہیں چھڑا سکتے انہیں ماننا پڑے گا کہ یا تو وہ خود گمراہ ہیں یا پھر ان کے یہ بڑے گمراہ تھے۔ 

۳۔ سماع موتی

یہ مسئلہ اتنا اہم اور بحث طلب کبھی نہیں رہا آج کل غیرمقلدین نے اسے کفر اسلام کاپیمانہ بنا رکھا ہے،  صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا  کہ ”دفنانے کے بعد مت جوتیوں کی آواز سن رہی ہوتی ہے“۔(صحیح بخاری ج ۱ص۱۷۸) بے شک آپﷺ نے سچ فرمایا  اس سے   مردوں کا سننا ثابت ہو گیا۔ لیکن مردہ سن کر ہماری بات کا جواب نہیں دے سکتا   نہ اس کو کچھ سنانے کا  اسے کچھ فائدہ ہے نہ ہمیں کوئی فائدہ ہے اسلئے  اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مردہ  سنتا نہیں سن کر جواب نہ دینے سے مردوں کا نہ سننا ثابت نہیں ہوتاکرامن کاتبین بھی ہمارے کندھوں پر بیٹھے ہیں ہم انہیں نہیں سن سکتے وہ ہمیں سن سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں اب کوئی کہے انہیں کچھ سنانا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ سنتے نہیں۔

سماع موتی کے قائل کے بارے میں آج کل  کچھ  جاہل غیرمقلدین شرک و کفر کا فتویٰ لگتے ہیں

جبکہ ان کے ایک بزرگ  مولانا عبدالرحمٰن کیلانی صاحب لکھتے ہیں ” حافظ ابن تیمیہؒ اور  حافظ ابن قیمؒ دونوں بزرگ نہ صرف سماع موتی کے قائل تھے بلکہ اسی طبقات صوفیہ سے تعلق  رکھتے تھے“۔(روح عذاب قبر اور سماع موتیٰ ص 55)

گویا اگر سماع موتیٰ کا قائل مشرک ہے تو  ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ دونوں مشرک ہوئے۔ العیاذ باللہ۔ جاہل غیرمقلدین کو بے تکے فتوے دینے سے پہلے تھوڑا سوچ لینا چاہئے۔

غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں ” ہر مردہ سنتا ہے سماع ہر مردے کیلئے ہے“۔ (نیل الاوطار ج5 ص264)

لطیفہ

سماع موتی کے متعلق غیرمقلدین کے کچھ پڑھے لکھے جاہلوں کے نزدیک ایک عجیب و غریب فلسفہ پایا جاتا ہے۔  غیرمقلدین کے ایک پروفیسر طالب الرحمٰن صاحب نے تو ایک ہی صفحے پر بڑی ہی عجیب بات لکھ دی چنانچہ فرماتے ہیں

”مردے نہیں سنتے وہ مردہ  ہی کیا جو سنے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفحہ 177)

”مردہ جوتیوں کی آواز سنتا ہے“۔ (آیئے عقیدہ سیکھئے صفغہ 177)

تبصرہ : پروفیسر صاحب کیا یہ اب مردہ نہیں رہا جو سن رہا ہے؟

۴۔ صرف روح  کو عذاب و ثواب ہوتا ہے یا  روح اور جسم دونوں کو

آج کل کئی غیرمقلدین حضرات خاص کر حیات النبیﷺ کے منکر صرف روح کیلئے عذاب  و ثواب کے قائل ہیں جسم کو عذاب و ثواب ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ یہ ان کا ایک غلط عقیدہ ہے۔ اگر جسم کے ساتھ بھی عذاب و ثواب کا معاملہ مان لیا  جائے تو حیات النبیﷺ کا عقیدہ  ثابت ہو جائے گا کیونکہ اگر عام مردے کا جسم عذاب و ثواب کا ذائقہ چکھ سکتا ہے تو انبیاءؑ کو کیا اتنا بھی حق نہیں کہ ان کا جسم عذاب تو نہیں لیکن ثواب کا مزہ چکھ سکے اور اس قدر چکھ رہا ہے کہ قرآن نے ان کو مردہ گمان کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

غیرمقلد زبیر علی زئی کے استاد حافظ عبدلمنان نورپوری صاحب لکھتے ہیں

عذاب و ثواب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔(قرآن و سنت کی روشنی میں احکام  و مسائل  جلد ۱صفحہ ۶۵)

مولوی صاحب عام مردے کیلئے جسم اور روح دونوں کیلئے عذاب و ثواب مان رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ عام مردے کو تو روح اور جسم دونوں کے ساتھ عذاب و ثواب مانا جارہا ہے اور شہداء اور انبیاء کومعاذ اللہ اتنی بھی سہولت حاصل نہیں کہ بغیر جسم کے ثواب مانا جارہا ہے۔ اگر جسم کو عذاب و ثواب ہو سکتا ہے تو انبیاء اور شہداء کے جسموں کو یقیناً عذاب نہیں ثواب ہی ہے جو کہ ان کے جسم محسوس کر سکتے ہیں اور یہی حیات الانبیاء اور حیات الشہداء ہے ، اب اللہ  تعالٰی روح کے ساتھ یا جسم کے ساتھ جیسا بھی معاملہ کریں اس سے نہ جسم کی حیات کا انکار لازم آئے گا نہ ہی روح کی حیات  کا انکار لازم آسکتا ہے ، اللہ جو چاہے ان کے ساتھ معاملہ کریں ہم اسے اللہ ہی کی قدرت سمجھنا ہو گا۔

اور  اگر ہمارا کوئی غیرمقلد دوست اس کے بعد بھی بھول کر یہ کہہ دے کہ میں  جسم کیلئے عذاب و ثواب نہیں مانتا تو اس کیلئے امام ابن تیمیہؒ کا قول نقل کر دیتے ہیں  چناچہ فرماتے ہیں
”جو شخص یہ کہے کہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے جسم کو نہیں تو ایسا شخص بالاجماع کافر ہے“۔
(فتاوی ابن تیمیہ جلد 4 صفحہ 282)

۵۔  اللہ کی صفت ”ید“

فرقہ اہل حدیث کے ایک  بزرگ بدیع الدین راشدی صاحب جنہیں یہ فرقہ شیخ العرب والعجم کہتا ہے فرماتے ہیں:۔

”صفات باری تعالٰی پر مشتمل تمام آیات قرآنی متشابہات کے دائرہ میں آتی ہیں“۔ (امامت کا اہل کون ص10)

دوسری طرف زبیر علی زئی صاحب جو کہ اس فرقے کے محدث العصر کہلائے جاتے ہیں فرماتے ہیں:

”اللہ کی صفت ”ید“ کو متشابہات میں سے کہنا اہل بدعت کا مسلک ہے“۔(اصول المصابیح  ص38)

ان میں سے کون سا اہل حدیث سچا ہے اور کون سا اہل حدیث جھوٹا ؟ ان میں سے کون بدعتی ہے اور کون نہیں؟ ان میں کس کی بات صحیح ہے اور کس  کی صحیح نہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ زبیر علی زئی کے مطابق اس کا استاد  شیخ العرب والجعم بدیع الدین راشدی بدعتی تھا۔

۶۔ اعادہ روح
اعادہ روح یعنی کہ مرنے کے بعد  قبر میں روح کا لوٹنا

آج کل بعض لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلانے والے  مماتیوں اور  مسعودیوں  (یعنی جماعت المسلمین )   کی طرح اعادہ روح کا بھی انکار کرتے ہیں۔
جبکہ

فتاویٰ علمائے اہل حدیث میں  ان کے ایک مولوی صاحب عقائد علماء اہل حدیث کا عنوان قائم کرکے کچھ عقائد لکھتے ہیں   ” قبر میں روح کا اعادہ برحق ہے“۔ (فتاویٰ علمائے اہل حدیث ج10 ص 254)

ثنا ء اللہ امرتسری صاحب امام ابو حنیفہؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ”قبر میں روح کا  واپس آنا حق ہے“ ۔(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 315)

عبد المنان نور پوری صاحب نے تو ایک ایسی بات لکھی ہے جس سے ساری غیرمقلدیت پر چھری پھر جاتی ہے۔  چنانچہ فرماتے ہیں:

”روح رسول اللہﷺ میں ایک مرتبہ لوٹا دینے کے بعد نکالنے کا کوئی ثبوت نہیں “۔ (قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل ج 2 ص 122)

دوسری  جگہ فرماتے ہیں :
” مومن کی روح  بدن میں بھی ہوتی ہے اور جنت  میں بھی “ (قرآن و سنت کی روشنی میں احکام و مسائل  ج2 ص 395)

۷۔   روح کا بدن کے ساتھ تعلق

فرقہ اہل حدیث میں آج کل     مرنے کے بعد روح کا بدن کے ساتھ تعلق کے منکر بھی ہیں جبکہ

فرقہ اہل حدیث کے  شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب ایک سوال

”موت کے بعد غسل ، جنازے اور دفن ہونے تک انسانی روح پر کیا بیتتی ہے“

کے جواب میں فرماتے ہیں
” اس دوران  میں بھی من وجہ روح کا تعلق بلا اعادہ بدن سے قائم رہتا ہے جس کا احساس اسے مختلف امور میں کرادیا جاتا ہے“۔ (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ج 1 ص 244)
یعنی جس وقت میت کو ابھی دفنایا نہیں گیا ہوتا اور ابھی  اس میں روح نہیں لوٹی ہوتی تب بھی روح کا تعلق بدن سے قائم رہتا ہے۔


۸۔ تعویذ کا مسئلہ


آج کل کی جاہل غیرمقلد عوام اور ان کے جاہل علماء کو تعویذ اور تمیمہ میں کوئی بھی فرق معلوم نہیں اسلئے ان کے نزدیک تعویذ مطلقاً شرک  اور حرام ہے۔ اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔

شمیم احمد سلفی غیرمقلد لکھتا ہے کہ :

تعویذ گنڈے کوڑی وغیرہ لٹکانا حرام ہے۔۔۔۔ تعویذ چاہے قرآن آیات اور اذکار مسنونہ پر مشتمل ہو حرام ہے“۔العیاذ باللہ

(تعویذ گنڈہ کی شرعی حیثیت ص 10)

جبکہ ان کے بڑے بڑے علماء  اسے ثابت اور جائز مانتے ہیں اور اس غیرمقلد کے فتوے کے مطابق حرامی ہوئے۔

چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب لکھتے ہیں:

”تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے کوئی حرج نہیں“۔

( فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 298)

فرقہ اہلحدیث  کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب نے کتاب  الداء والدواء کتاب التعویذات نام کی پوری کتاب لکھی ہے۔

فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے محدث عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں:

قرآن اور سنت کے علاوہ بھی تعویذ جائز ہے۔

(تحفۃ الاحوذی ص 169)


۹۔توسل

فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

توسل بعد الموت جائز ہے۔

(ہدیۃ المدی ص 48)

فرقہ اہلحدیث  کے امام شوکانی صاحب توسل کے قائل ہیں اوراس بات کو انہوں نے اپنی کئی تصنیفات میں بیان بھی کیاہے۔

وَفِي الحَدِيث دَلِيل على جَوَاز التوسل برَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِلَى الله عز وَجل مَعَ اعْتِقَاد أَن الْفَاعِل هُوَ الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَأَنه الْمُعْطِي الْمَانِع مَا شَاءَ كَانَ وَمَا يَشَأْ لم يكن //

(تحفۃ الذاکرین211)

فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:

”کسی نبی یا ولی یا عالم کے ساتھ توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے“۔

(مجموعہ رسائل عقیدہ ص 402)

دوسری طرف اسی فرقے کے کئی جاہل جن میں ان کے  علماء بھی شامل ہیں مختلف حیلے بہانے کرکے توسل کا انکار کرتے ہیں۔

(عقیدہ مسلم ص 126وغیرہ)


۱۰۔ حجت اجماع

اس میں تو شک نہیں کہ عملاً غیرمقلدین اجماع کے منکر ہیں مگر تقیہ کرکے ان کے بعض علماء اجماع کو تسلیم بھی کرتے ہیں:

جیسے ایک مولوی صاحب ایک حنفی عالم  کے خلاف بکتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اہل حدیث کا مذہب ہے کہ دین کے اصول چار ہیں:

1 قرآن 2 حدیث 3 اجماع امت 4 قیاس مجتہد

اہلحدیث کا مذہب ص 58

اگر یہ بیان پڑھا ہے تو تمہارا اعتراض باطل ہوا اور اگر نہیں پڑھا تو اپنی انکھوں کا علاج کروا لو“۔

(الحدیث 105 ص 46)

لعنت اللہ علی الکاذبین

مگر دوسری طرف ان کے  عالم عبد المننان نور پوری صاحب لکھتے ہیں:

” اجماع صحابہ اور اجماع ائمہ مجتہدین کا دین میں  حجت ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں“۔

(مکالمات نورپوری ص 85)

نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:

اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں۔

(عرف الجادی ص 3)


۱۱۔ حجت رائے و قیاس

فرقہ اہلحدیث کے محدث عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں:

”اس حدیث سے قیاس کی مشروعیت ثابت ہے “۔
(تحفۃ الاحوذی ج 2 ص 43)

زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کتاب اللہ پھر سنت رسول ﷺ اور پھر آثار ابی بکر و عمرؓ سے فیصلہ کرتے تھے اور اگر کوئی مسئلہ ان سے نہ ملتا تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرتے تھے۔

(فتاویٰ علمیہ ص 22)

فرقہ اہلحدیث کے امام  شوکانی صاحب شرعی دلائل کی ترتیب میں لکھتے ہیں:

” سب سے پہلے قرآن اس کے بعد سنت اس کے بعد اجماع  اور  آخر میں قیاس“۔

(فقہ الحدیث ج1 ص 105)

دوسری طرف فرقہ اہلحدیث کے مولوی نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:

اجماع اور قیاس کی کوئی حیثیت نہیں۔

(عرف الجادی ص 3)

عبد المنان نوری پوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:

اجماع و قیاس کا قانون سازی کی بنیاد ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔

(مکالمات نور پوری ص 85)

فرقہ اہلحدیث کے امام العصر محمد جونا گڑھی صاحب  اپنی جہلات بکھیرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تعجب ہے جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل اور حجت سمجنے لگے“۔

(طریق محمدی ص 40-41)



غیرمقلدین کے ایک مولوی ڈاکٹر بہاوالدین صاحب نے ایک بات لکھی ہے آج غیرمقلد پر پوری فٹ آتی ہے  ” ہاں بعض عوام کالانعام گروہ اہل حدیث  میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب بد مذہب ضال منصل جو کچھ کہو زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتے ہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہری معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس   میں  وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ (تاریخ اہل حدیث ص164)


یہ تمام باتیں کافی ہیں غیرمقلدین کا عمل بالحدیث اور صرف قرآن حدیث کے  جھوٹے نعرے اور دعوے  کی  پول کھولنے کیلئے۔ اور یہ لوگ  ائمہ اربعہؒ کی تقلید سے نکال کر  صرف اپنے جاہل مولویوں کی تحقیق کے پیچھے لگاتے ہیں اور خود بھی اسی پر چلتے ہیں۔ اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں ائمہ اربعہؒ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کا پابند رہا جائے۔

غیرمقلد عوام کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ انکے علماء ائمہ اربعہؒ کی تقلید سے ہٹا کر کوئی اللہ رسول کی طرف نہیں   لے جاتے بلکہ اپنی اپنی  تحقیقی کے پیچھے آپ لوگوں کو چلا رہے ہیں۔

مورخ اسلام علامہ ابن خلدون ؒ(المتوفی 808 ھ)لکھتے ہیں:
جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین  پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا  کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں  یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں۔

(مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 448 مصر)


سوالات:۔

1:۔  ان دونوں  فریقوں میں سے حق پر کون ہے؟

2:۔  کیا  جماعت اہل حدیث اس دعویٰ میں جھوٹی ثابت ہو گئی جو وہ کیا کرتی تھی کہ ہم  نے ائمہ ابعہؒ کے اجتہادی اختلاف کو اللہ  رسول کی طرف لوٹا کر  اختلافات  ختم کر  رہے ہیں؟

3:۔ان میں سے آپ جس فریق   کے مسئلہ کو ٹھیک نہیں سمجھتے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے؟  کہ وہ گمراہ  ہے بدعتی ہے  فاسق  ہے   اور ایسا عقیدہ یا مسئلہ اپنانے والا کیا ہے؟

4:۔  ان میں سے جس فریق کے مسئلہ کو صحیح نہیں سمجھتے تو اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ وہ اہلسنت میں شامل ہے کہ اس سے خارج  ہے   اور اس مسئلہ پر وہ گنہگار ہو گا ؟

5:۔ آپ کس طرح سے پتا لگائیں   گے کہ  کس کا مسئلہ  100 فیصد صحیح  ہے اور کون صریح غلطی پر ہے؟  اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی اس پر کی جانے والی تحقیق 100 فیصد درست ہی ہوگی۔

6:۔ اجتہادی اختلاف کیا ہوتا ہے؟ کون کرتا ہے اجتہاد ؟ جو نہیں جانتا اجتہاد وہ کیا کرے؟ اور کس کو اجتہاد کی اجازت نہیں؟

7:۔ اصولی اختلاف کیا ہوتا ہے؟ عقائد میں اختلاف کسے کہتے ہیں؟

8:۔ اگر آپ کے یہ  بڑے بڑے محقق اور اپنے وقت کے محدث شیخ الکل  فلاں کہلانے والے اگر گمراہی پر تھے تو آپ کے بارے میں بندہ کیسے کہے کہ آپ حق پر ہیں ؟

9:۔ جب آپ کے یہ بڑ ے بڑے علماء  قرآن حدیث کا دعوی ٰ کرنے والے  قرآن حدیث کے خلاف عمل کرتے رہے تو آپ کے بارے میں بندہ کیسے کہے کہ آپ قرآن حدیث زیادہ سمجھ لیتے ہیں؟

10:۔ جو لوگ اتنا علم نہیں رکھتے کہ خود  قرآن و حدیث کی تحقیق کر سکیں اور وہ آپ کے علماء پر بھروسہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا حکم  ہے  ؟ اس اختلاف کے بعد تو وہ آپ کے علماء کی طرح ہی گمراہ قرار نہیں دیئے جائیں گے؟

11:۔ آپ  کا یہ کہنا کہ مذہب اربعہ حنفی شافعی مالکی حنبلی میں سے حق پر کون ہے آج  آپ بتائے کہ آپ میں سے کون حق پر ہے  اور کون گمراہی پر  جو حق پر ہےاسے حق پر کہنے سے اور دوسرے کو باطل قرار دینے سے کیوں گھبراتے ہیں؟  جیسے مذہب اربعہ کے متعلق آپ کا ہر ایک  عالم و جاہل  بے سوچے سمجھے کہا  کرتا ہے۔

12:۔ کیا آپ   کہ ان  علماء کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ  ہم صرف قرآن حدیث مانتے ؟ کیا آپ کا  بھی یہ دعویٰ نہیں ؟ اگر آپ کے علماء واقعی میں اس دعویٰ میں سچے تھے تو پھر یہ  ایسے اختلافات کہاں سے آ گئے ؟

13:۔  اگر ان میں سے کوئی ایک ہی  حق پر ہے اور دوسرا باطل ہے تو کیا آپ لوگ  اپنی جماعت کی بدنامی کے ڈر سے حق کو چھپا کر رکھیں گے اور باطل کو پنا دے کر رکھیں گے؟

14:۔ جب کبھی بھی آپ کے سامنے آپ کے علماء کے حوالہ پیش کیئے جاتے ہیں تو آپ کا جاہل سے لے کر عالم تک ہر ایک  یہی کہتا ہے کہ ہم ان کی مقلد نہیں ہم قرآن حدیث مانتے ہیں سوال یہ ہے  کیا آپ لوگوں نے قرآن  حدیث کو صرف جان چھڑانے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور کیا جن کے حوالے آپ کو پیش کیئے جاتے ہیں وہ  قرآن حدیث کے منکر تھے؟ اور  وہ کس کے مقلد تھے ؟ وہ بھی تو یہی کہتے تھے کہ ہم قرآن حدیث مانتے ہیں ؟ پھر بھی گمراہ ہو گے؟

TAHAFFUZ-E-SUNNAT MZN.UP

No comments:

Post a Comment