Monday 20 July 2015

برما قتل عام پر سنسنی خیز انکشافات

برما میں مسلمانوں کا قتل عام کیسے شروع ہوا؟ انکشافاتی رپورٹ
برما میں ہم پر کیا گزری؟ برما سے ایک مسلمان کی دردناک رپورٹ

اراکان وہ سرزمین ہے جہاں خلیفہ ہارون رشید کے عہدِ خلافت میںمسلم تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا ، اس ملک میں مسلمان بغرض تجارت آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی،اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثرہوکر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کرلیا اورایسی قوت کے مالک بن بیٹھے کہ 1430ءمیں سلیمان شاہ کے ہاتھو ں اسلامی حکومت کی تشکیل کرلی، اس ملک پر ساڑھے تین صدیوںتک مسلمانوں کی حکومت رہی ، مسجدیں بنائی گئیں ، قرآنی حلقے قائم کئے گئے ، مدارس وجامعات کھولے گئے ، ان کی کرنسی پر’ لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘کندہ ہوتا تھا اور اس کے نیچے ابوبکر عمرعثمان اور علی نام درج ہوتا تھا ۔ اس ملک کے پڑوس میں برما تھا جہاں بدھسٹوں کی حکومت تھی ، مسلم حکمرانی بودھسٹوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے 1784ءمیں اراکان پر حملہ کردیا، بالآخر اراکان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، اسے برما میں ضم کرلیااوراس کا نام بدل کر میانمار رکھ دیا۔
1824ءمیں برما برطانیہ کی غلامی میںچلاگیا، سوسال سے زائدعرصہ غلامی کی زندگی گذارنے کے بعد1938ءمیں انگریزوں سے خودمختاری حاصل کرلی،آزادی کے بعدانہوں نے پہلی فرصت میں مسلم مٹاؤپالیسی کے تحت اسلامی شناخت کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی، دعاة پر حملے کئے ، مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا ،چنانچہ پانچ لاکھ مسلمان برما چھوڑنے پر مجبورہوئے،کتنے لوگ پڑوسی ملک بنگلادیش ہجرت کرگئے، مسلمانوں کی حالت زاردیکھ کر ملک فہد نے ان کے لیے ہجرت کا دروازہ کھول دیا، اس طرح ان کی اچھی خاصی تعداد نے مکہ میں بودوباش اختیارکرلی ،آج مکہ کے باشندگان میں 25فیصد اراکان کے مسلمان ہیں ۔ اس طرح مختلف اوقات میں مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا گیا، جولوگ ہجرت نہ کرسکے ان کی ناکہ بندی شروع کردی گئی،دعوت پر پابندی ڈال دی گئی ، دعاة کی سرگرمیوں پرروک لگادی گئی، مسلمانوں کے اوقاف چراگاہوں میں بدل دئیے گئے ، برما کی فوج نے بڑی ڈھٹائی سے ان کی مسجدوں کی بے حرمتی کی،مساجدومدارس کی تعمیر پر قدغن لگا دیا ،لاؤڈسپیکر سے اذان ممنوع قرار دی گئی ،مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کیے گیے، ان پرملازمت کے دروازے بندکردئیے گئے ،1982میں اراکان کے مسلمانوں کو حق شہریت سے بھی محروم کردیا گیا، اس طرح ان کی نسبت کسی ملک سے نہ رہی ، ان کی لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے30 سال عمر کی تحدید کی گئی ، شادی کی کاروائی کے لیے بھی سرحدی سیکوریٹی فورسیز سے اجازت نامہ کا حصول ناگزیر قراردیا گیا ، خانگی زندگی سے متعلقہ سخت سے سخت قانون بنائے گئے۔ ساٹھ سالوں سے اراکان کے مسلمان ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں،ان کے بچے ننگے بدن ،ننگے پیر، بوسیدہ کپڑے زیب تن کئے قابل رحم حالت میں دکھائی دیتے ہیں، ان کی عورتیں مردوںکے ہمراہ کھیتوں میں رزاعت کا کام کرکے گذربسر کرتی ہیں ۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے سنگین اورروح فرسا حالات میں بھی مسلمان اپنے دینی شعائر سے جڑے ہیں اور کسی ایک کے متعلق بھی یہ رپورٹ نہ ملی کہ دنیاکی لالچ میں اپنے ایمان کا سودا کیاہو۔
جون 2012کے اوائل میں10دعاة مسلم بستیوںمیں دعوت کے لیے گھوم رہے تھے اور مسلمانوں میں تبلیغ کررہے تھے کہ بودھسٹوں کا ایک دہشت گردگروپ ان کے پاس آیا اور ان کے ساتھ زیادتی شروع کردی ،انہیں مارا پیٹا ، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جسموں پر چھری مارنے لگے ،ان کی زبانیں رسیوں سے باندھ کر کھینچ لیں یہاں تک کہ دسیوں تڑپ تڑپ کر مرگئے ، مسلمانوں نے اپنے دعاة کی ایسی بے حرمتی دیکھی تواحتجاج کیا، پھر کیا تھا، انسانیت سوز درندگی کا مظاہرہ شروع ہوگیا،انسان نما درندوں نے مسلمانوں کی ایک مکمل بستی کو جلادیا ،جس میں آٹھ سو گھر تھے ، پھر دوسری بستی کا رخ کیا جس میں700 گھر تھے اسے بھی جلاکر خاکستر کردیا،پھر تیسری بستی کا رخ کیا جہاں 1600گھروں کو نذرآتش کردیا۔ جان کے خوف سے 9ہزار لوگوںنے جب بری اور بحری راستوں سے بنگلادیش کا رخ کیا تو بنگلادیشی حکومت نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیااور اس کے بعد سے بدھ مت کے دہشت گرد برمی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ ہیںوہ حالات جن سے اراکان کے مسلمان حالیہ دنوں گذر رہے ہیں،مظلوموںکی آہیں، یتیموں اور بیواؤں کی چینخ وپکار،اورخانہ بدوش مسلمانوں کی سسکیاں آنکھوں کو اشکبار کردیتی ہیں اورضمیر کو کچوکے لگاتی ہیں کہ کہاں ہے غیرت مسلم ….؟ کہاں ہے ہمارے مسلم حکمراں کا سیاسی رول…. ؟ کہاں ہے رفاہی اداروں اورعالمی تنظیموں کی دادرسی ….؟

اراکانی بدھسٹوں نے روہنگیا کی مسلمان اقلیت پر ایک من گھڑت بہتان لگایا کہ تین مسلمان نوجوانوں نے24 سالہ ایک (بدھ مت) عورت کی عصمت دری کی اور پھر اسے قتل کردیا۔ یہ الزام سراسر جھوٹ پر مبنی تھا اور اقلیت میں بسنے والے مسلمانوں نے اراکانی بدھسٹوں کے خلاف ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ اس عورت کی تو بدمعاش اراکانی بدھ مت کے پیروکاروں نے عصمت دری کی تھی اور پھر اسے قتل کر دیا تھا۔ قاتلوں میں اس عورت کا ایک نا محرم مرد دوست بھی شامل تھا، جس سے اس عورت کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور اس کے بعد اس عورت نے اسے چھوڑدیا تھا۔ اس نامحرم دوست نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس عورت سے اپنی دوستی دوبارہ قائم کرلے مگر اس عورت نے انکار کر دیا اور نیا نامحرم دوست بنا لیا۔ اس پر اس کے پرانے نامحرم دوست نے اپنے دو قریبی دوستوں کے ساتھ مل کر، اس عورت کی عصمت دری کی اور اس کا قتل کر کے بدلہ لیا۔
اراکانی بدھسٹ قاتلوں نے اس عورت کی لاش کو ایک مسلمانوں کے گاؤں میں پھینک دیا اور کسی کو اس کے قاتل کے بارے میں کچھ نہیں پتا چلا۔ اراکانی بدھسٹوں اور برما کی کفار حکومتی انتظامیہ نے اس عورت کے قتل کا الزام مسلمانوں پر لگاتے ہوئے تین بیگناہ برمی مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔ ایک مسلمان پر سخت تشدد کرتے ہوئے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ باقی دو مسلمانوں کو عدلیہ نے موت کی سزا سنا دی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ حکومت نے فرضی کہانی اس لیے گھڑی تاکہ مسلمانوں کیخلاف اشتعال دلاکر ان کی نسل کشی کی حقیقی مہم شروع کی جاسکے۔
اس نسل کشی کی سازش سے پہلے روہنگیا کے مسلمانوں کی صورت حال:
گزشتہ چند مہینوں میں، اراکانی شدت پسندوں اور بدمعاشوں نے اندورنی و بیرونی برما میں اسی پرانے نعرے کو ہوا دے کر روہنگیا کے خلاف تحریک شروع کی کہ؛ ’’روہنگیا برما کے شہری نہیں ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن ہیں‘‘، تاکہ وہاں سے مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس منظم مہم کا آغاز حکومت کے کچھ ذمہ دار وزراء اور حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مسلمانوں کیخلاف دیئے جانے والے بیانات کے فورا بعد ہی شروع ہوا۔
یہ نسل کشی کی مہم کیسے شروع ہوئی اور پھر کیا ہوا؟

۳ جون ۲۰۱۲، کو آٹھ مسلم حاجیوں سمیت ایک گائیڈ، ایک بس کنڈیکٹر اور ایک عورت کو اراکانی غنڈوں نے اراکان کے جنوب میں واقع شہر تانجب میں قتل کردیا۔ پانچ دیگر افراد اس مذبح خانے سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ نشانہ بننے والے تمام افراد مسلمان تھے جو حج سے واپس آتے ہوئے جنوبی ارکان کے علاقہ ثاندوی میں واقع مسجد ’’ثیتسا‘‘ میں نماز پڑھنے کے بعد بس میں سوار ہوکر’’رانگون‘‘شہر جارہے تھے۔
اراکانی دہشت گرد غنڈوں نے بس کو، جس کی لائسنس پلیٹ 7 (Ga)۔7868 تھی، امیگریشن کے دروازے پر روکا اور آواز لگائی کہ اگر کوئی غیر ملکی ہیں تو نیچے اترآئیں۔ ان غنڈوں نے تباہ کن ہتھیار اٹھائے ہوئے تھے۔ گائیڈ اور کنڈیکٹر نے اراکانی دہشت گردوں سے التجا بھی کی کہ مسافروں کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں، مگر ظالم شدت پسندوں نے بس پر دھاوا بول کر چلا چلا کر ان سب کو ’غیر ملکی‘ کہنا شروع کر دیا۔ پھر انہوں نے مسلمان حاجیوں کو مارتے ہوئے بس سے گھسیٹ کر روڈ پر لے آئے، جہاں پہلے سے کھڑے ۳۰۰ سے زائد منظم اراکانی بدمعاش غنڈوں نے مسلمانوں کو مار مار کر موت کی نیند سلادیا۔ یہ بدمعاش غنڈے امیگریشن گیٹ پر کھڑے ہوئے تھے، مگر حکومتی انتظامیہ کے اہلکار دور کھڑے ہوکر قتل عام کا نظارہ کرتے رہے اور اسے رکوانے کے لیے نہیں آئے۔(قتل ہونے والے تمام مسلمان حج کرکے واپس آرہے تھے)جب حاجیوں نے ’’بائی طاشان‘‘ مسجد سے ’’ثاندوی‘‘ کی جانب سفر باندھا، تو وہاں فراہم کی جانے والی ناموں کی لسٹ کے مطابق قتل ہونے والے آٹھوں مسلمان وسطی برما سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی شناخت یہ ہے:

۱: محمد شریف
۲: محمد حنیف
۳: شفیلد بائی
۴: اسلام بائی
۵: بلائی بائی
۶: شعیب
۷: سالم بائی
۸: لقمان بائی

(فراہم کی جانے والی لسٹ کے مطابق ہر حاجی کا بائیو ڈیٹا)
1) Muhammed Sharief @ U Ne Pwe s/o U Ahmed Suban, 58 8/Ta Ka Ta (N)095548, from Taung Twin Gyi

2) Muhammed Hanif @ U Maung Ni s/o U kay Pe Sufi, 65 8/Ta Ka Ta (N)095530, from Taung Twin Gyi

3) Shafield Bai @ U Aye Lwin s/o U A Hpoe Gyi, 52 8/Ta ka Ta (N)093573, from Taung Twin Gyi

4) Aslam Bai @ U Aung Myint s/o U Hla Maung, 508/Ta ka Ta (N)094557, from Taung Twin Gyi

5) Balai Bai @ Tayzar Myint s/o U Yakub, 288/Ta ka Ta (N)189815, from Taung Twin Gyi

6) Shuaib @ Tin Maung Htwe s/o U Tin Oo, 218/Ta ka Ta (N)231084, from Taung Twin Gyi

7) Salim Bai @ Aung Bo Bo Kyaw s/o U Tun Tun Zaw, 2614/Ma La Na (N)231084, from Myaung Mya

8) Lukman Bai @ Zaw Nyi Nyi Htut s/o U Ibrahim, 3314/Ma La Na (N)148133, from Myaung Mya

باقی دیگر دو مقتول ثاندوی سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی تھے جن کی بس تھی۔

بس کی نمبر پلیٹ 7 (Ga)۔7868 تھی اور اس بس کو نذر آتش کر کے تباہ کر دیا گیا۔
جبکہ پانچ مسلمان اس وحشیانہ قتل سے بچ کر زندہ بھاگ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ مجرموں نے اپنی کامیابی کا جشن سڑک پر پڑی (حاجیوں) کی مردہ لاشوں پر تھوکتے اور شراب انڈیلتے ہوئے منایا۔ ان مجرموں میں سے کسی ایک کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان قاتلوں کیخلاف اب تک کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ لاشوں کو ۳ جون ۲۰۱۲ ء کو ’’ثاندوی‘‘ میں ہی دفنا دیا گیا۔
دفعہ ۱۴۴ کے تحت، اراکانی سیکیورٹی فورسز روہنگیوں کی جائیداد کو لوٹ اور جلا رہے ہیں:
برمی حکومتی آئین کی دفعہ ۱۴۴ کے تحت، موانغداو کی روہنگی آبادی کو اپنے علاقے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے، جبکہ اراکانی آبادی آزادی سے جہاں چاہے گھوم پھر سکتے ہیں۔
اراکانی بدھسٹ اور برمی سیکورٹی اہلکار رات کے وقت مسلمانوں کے ایک گاؤں کو آگ لگا رہے ہیں
بدھمت کی پیروی کرنے والے اراکانی اور برمی سیکورٹی اہلکار رات میں ایک مسلمانوں کے گاؤں کوآگ لگا کر جلارہے ہیں۔
اراکانی بدھسٹ جب روہنگیوں کے گھروں کو جلارہے تھے تو برمی سیکورٹی اہلکار اراکانی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔
اراکانی کے بدھ مت اور برما کے سیکورٹی اہلکار صبح کے وقت مسلمانوں کے گاؤں کو نذر آتش کر رہے ہیں۔
موانغداو کے ایک بزرگ شہری نے بتایا کہ بدھسٹوں کی لگائی جانے والی آگ سے اپنے گھروں کو بچانے کی کوشش کرنے والے روہنگیوں پر سیکورٹی اہلکاروں نے اندھا دہند فائرنگ کرکے انہیں نشانہ بنایا۔
فوجی اہلکاروں اور اراکانیوں نے رزق، لالو اور سید احمد کے گھروں کو آگ لگا کر جلا ڈالا جبکہ کپڑوں کی پانچ سے زیادہ دکانیں لوٹ لیں جن کی لاگت پندرہ کروڑ کیات ہے۔ نیز ’’سوماوانا‘‘ گاؤں کی ایک مسجد بھی منہدم کردی۔ ۸ جون ۲۰۱۲ء کی شام کو مختلف دیہاتوں میں روہنگیا کے دو سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔

۹ جون ۲۰۱۲ء کو انتہاپسند ارکانیوں اور فوجی اہلکاروں نے ۱۰۰ روہنگیوں کو شہید اور ۵۰۰ کے لگ بھگ کو زخمی کردیا۔
اراکان میں فوج کے تسلط کے بعد بھی مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔
روہنگیا کے مسلمان ’’اکیاب‘‘ سے بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کر رہے ہیں کیونکہ اراکان میں تشدد بہت بڑھ گیا ہے، جہاں روہنگیا کے دیہاتوں کو جلا دیا گیا ہے۔ بے شمار معصوم روہنگیا کے بیگناہ لوگوں کو پولیس، فوجی اہلکاروں اور اراکانیوں نے قتل کرڈالا ہے۔
روہنگی مسلمان تو سمجھ رہے تھے کہ بنگلہ دیش ایک مسلمان ملک ہے اور وہ ان حالات میں ان کی مدد کرے گا۔
روہنگی مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ مانگنے کی التجائیں کر رہے ہیں۔
روہنگی مسلمان جنہوں نے کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کو واپس سمندر میں دکھیل دیا گیا۔
بدقسمتی سے، بنگلہ دیش کی طاغوتی حکومت اور مرتد فوج روہنگی مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔ اگر کوئی مقامی مسلمان کسی روہنگی مسلمان کو پناہ دے دیتا ہے تو طاغوتی بنگلہ دیشی فوج دونوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور روہنگی مسلمان کو قتل کر دیتی ہے۔
بنگلہ دیش کی طاغوتی فوج روہنگی مسلمانوں کی کشتیوں کو تلاش کررہے ہیں
بنگلہ دیش کی طاغوتی فوج روہنگی مسلمانوں کو واپس سمندر میں جانے پر مجبور کر رہے ہیں
برما کی حکومت نے گزشتہ دنوں موانغداو کے ایک پولیس تھانے میں خصوصی کمرہ عدالت قائم کیا ہے۔ ایک عمر رسیدہ بزرگ نے بتایا: ’’اس خصوصی عدالت کو ان روہنگی مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جن کو ۸ جون سے پولیس، وناساکا (سرحد کی دفاعی فورس) یا فوج نے موانغداو میں حالات خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کرتی چلی جا رہی ہیں۔ خصوصی عدالت میں کوئی بحث مباحثے نہیں ہوتے اور جج کا کردار صرف بیان پڑھ کر سنانا اور اس کے بعد ان بیگناہوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے‘‘۔
موانغداو کے ایک سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ کسی رشتے دار کو اپنے ان عزیز و اقارب سے ملنے کی اجازت حاصل نہیں ہے جن کو حکومت نے گرفتار کر رکھا ہے۔ گرفتار شدگان کے لواحقین کو خصوصی عدالتوں کے بارے میں کچھ نہیں پتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ برما کی بدھ سٹ حکومت روہنگیا کے لوگوں کی عصمت دری کے نئے طریقے اپنا رہی ہیں جن کے باعث موانغداو میں روہنگیا کی مسلمان خواتین کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ باقی نہیں رہی ہے۔ صرف ۸ جون سے ۱۹ جون تک، موانغداو میں ۶۰ سے زائد خواتین کی فوجی اہلکاروں، پولیس، ھلنتین سیکورٹی فورسز، ناساکا اور فوج سمیت اراکانیوں اور ناتالا (نئے آباد کاروں) کے ہاتھوں عصمت دری کی جا چکی ہے‘‘۔
جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بونج زار کی ایک رہائشی خاتون نے بتایا: ’’زیادہ تر روہنگی عورتوں کی فوجی اہلکاروں، اراکانی اور ناتالا (نئے بسنے والے لوگوں) نے عصمت دری اس وقت کی جب تمام روہنگی مردوں کو فوجی اہلکاروں نے ایک جگہ بلا کر جمع کررکھا تھا۔ اسی دوران فوج کے ایک دستے نے گاؤں میں داخل ہوکر گھروں پر دھاوابولا، تمام گھریلو اشیا تباہ و برباد کر دیں اور تمام قیمتی چیزیں (سونا اور پیسہ) لوٹ کر لے گئے۔ یہ سب کچھ ہونے کے وقت تمام روہنگی مسلمان خواتین اپنے گھروں میں موجود تھیں، جنہیں فوجی اہلکاروں، ناتالا اور اراکانیوں نے عصمت دری کا نشانہ بنایا‘‘۔
سیکورٹی فورسزــ فوج اور ناساکاــ رات کے وقت گاؤں میں داخل ہوئی تاکہ ان خاندانوں کی فہرست مرتب کی جاسکے جن کی گھروں میں موجود روہنگی عورتوں کی عزتوں کو لوٹا گیا تھا اور ان کے مرد گرفتاری کے خوف سے وہاں نہیں رہ رہے تھے۔مسلمانوں کو اراکان ــ موانغداو اور اکیاب ــ میں کہیں بھی فوجی اہلکاروں، ناساکا، ھلنتن اور پولیس کے ہاتھوں تحفظ فراہم نہیں ہے بلکہ یہ فورسز توان کو قتل کرنے والی قاتل قوتیں بن گئی ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ مجبور و لاچار لوگوں کی مدد کریں، صورت حال پر قابو پائیں اور قانون نافذ کرکے حکومت کی رٹ قائم کریں۔ الٹا انہوں نے مسلمانوں کے دیہاتوں کو مسمارکرنا شروع کردیا، انہیں نذر آتش کیا اور جلے ہوئے گھروں سے بھاگنے والے مسلمانوں پر گولیاں برسائیں۔ نیز اکیاب شہر اور موانغداو قصبے میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کرنے کے لیے ان فورسز نے کرفیو نافذ کیا۔ کرفیو نافذ ہونے کے بعد، اراکان کے بدمعاش اراکانی انتہاپسندوں نے فوجی اہلکاروں اور پولیس کے ہمراہ سڑکوں پر نکل آئے اور مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ کرکے انہیں قتل کرنا، ان کے گھروں کو جلانا اور لوٹنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

No comments:

Post a Comment